Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 44
لَا یَسْتَاْذِنُكَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ اَنْ یُّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالْمُتَّقِیْنَ
لَا يَسْتَاْذِنُكَ : نہیں مانگتے آپ سے رخصت الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يُؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : اور یوم آخرت اَنْ : کہ يُّجَاهِدُوْا : وہ جہاد کریں بِاَمْوَالِهِمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِهِمْ : اور اپنین جان (جمع) وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : خوب جانتا ہے بِالْمُتَّقِيْنَ : متقیوں کو
جو لوگ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ (کبھی) آپ سے اجازت نہ مانگیں گے کہ اپنے مال وجان سے جہاد نہ کریں اور اللہ پرہیزگاروں سے خوف واقف ہے،85 ۔
85 ۔ (اور انہیں اجر بھی خوب اور پورا پورا دے گا) (آیت) ” لا یستاذنک “۔ الخ بلکہ یہ صاحب ایمان لوگ جہاد سے چرانا کیا، الٹاتعمیل الہی کے لئے اور دوڑیں گے، یہ مومنین سے جو نفی استیذان کی ہورہی ہے اس سے مراد استیذ ان بلاعذر ہے، ورنہ عذر واقعی کی بناء پر استیذان تو بڑے سے بڑے کمال ایمان وتقوی کے منافی نہیں مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ مومن جب خیر کو سنتا ہے تو بلا تامل اس کی طرف دوڑتا ہے اور یہ حالت شوق سے پیدا ہوتی ہے تو اس میں شوق کا اثبات ہوا،
Top