Mualim-ul-Irfan - An-Naml : 83
وَ یَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ فَوْجًا مِّمَّنْ یُّكَذِّبُ بِاٰیٰتِنَا فَهُمْ یُوْزَعُوْنَ
وَيَوْمَ : اور جس دن نَحْشُرُ : ہم جمع کریں گے مِنْ : سے كُلِّ اُمَّةٍ : ایک گروہ فَوْجًا : ایک گروہ مِّمَّنْ : سے۔ جو يُّكَذِّبُ : جھٹلاتے تھے بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں کو فَهُمْ : پھر وہ يُوْزَعُوْنَ : انکی جماعت بندی کی جائے گی
اور جس دن ہم اکٹھاکریں گے ہر امت میں سے ایک فوج ان لوگوں میں سے جو جھٹلاتے ہیں ہماری آیتوں کو ، پس وہ جدا جدا کیے جائیں گے
ربطہ آیات گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ کی صفات ، مسئلہ توحید اور جزائے عمل کا ذکر کیا گیا ہے اللہ نے اپنے نبی کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ عنادی اور ضدی لوگوں کے ایمان قبول کرنے کی توقع نہ رکھیں ۔ یہ تو ان چیزوں پر اس وقت ایمان لائیں گے ۔ جب قرب قیامت میں دابۃ الارض کا ظہور ہوگا ۔ اس وقت منکرین مجبوراً ایمان لائیں گے مگر ایسا ایمان کچھ مفید نہیں ہوگا اب اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے جزائے عمل کا ذکر کیا ہے اور ساتھ ساتھ کفر و شرک کرنے والوں کا شکوہ کیا ہے کہ وہ آیات الٰہی میں غور و فکر کر کے ایمان کو قبول نہیں کرتے۔ دلائل توحید اور قیامت کی کیفیت کا بھی اجمالا ًذکر کردیا گیا ہے۔ میدان حشر میں گروہ بندی ارشاد ہوتا ہے ویوم نحشر من کل امۃ فوجا ً ممن یکذب بایتنا اور جس دن ہم اکٹھا کریں گے ہر امت میں سے ایک فوج یعنی گروہ ان اور اگلے دن کی مصروفیات کے لیے تازہ دم ہوجاتے ہیں ۔ اللہ نے رات کی وضع ہی ایسی بنائی ہے کہ تمام انسان اور تمام دوسرے جاندار رات کے وقت سکو ن پکڑتے ہیں ۔ فرمایا والنھا مبصرا ً اور ہم نے دن کو دیکھنے والا بنایا۔ رات کی تاریکی کو ختم کر کے دن کی روشنی کا انتظام کیا تا کہ لوگ اس روشنی میں دیکھ کر اپنا کاروبارجاری رکھ سکیں ۔ جب وہ دن بھر کام کاج کر کے تھک جاتے ہیں تو پھر رات آجاتی ہے اور یہ نظام اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ شب و روز کا یہ تغیر و تبدل اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دلیل ہے۔ اگر انسان صرف ایک اسی نشانی میں غور و فکر کرے تو وہ سمجھ سکتا ہے کہ اتنے بڑے نظام کو چلانے والا فقط خدا تعالیٰ ہے۔ وہ نبیوں کی رسالت کو سمجھ سکتا ہے اور یہ بھی جان سکتا ہے کہ نیند موت کی ساتھی ہے ۔ جس طرح انسان ہر روز نیند سے بیدار ہوتا ہے ، اسی طرح مرنے کے بعد قیامت والے دن پھر اٹھ کھڑا ہوگا ۔ اور اسی طرح وہ بعث بعد الموت پر بھی ایمان لاسکتا ہے۔ فرمایا ان فی ذلک لایت لقوم یومنون بیشک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں ۔ اہل ایمان تو شب و روز کی اولاً بدلی سے ہی خدا تعالیٰ کی توحید کو سمجھ جاتے ہیں ۔ اس کی عبادت کرتے ہیں اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں اور کفر و شرک سے باز رہتے ہیں ۔ نیند سے پھر بیدار ہوجانا بعث بعد الموت کا ایک نمونہ ہے ، اسی لیے حضور ﷺ نے بعض دعائیں بھی سکھائی ہیں ۔ انسان جب شب باشنی کے لیے بستر پر جائے تو اسے یوں کہنا چاہئے 1 ؎ اللھم باسمک اموت واحی اے اللہ ! میں تیرے ہی نام پر مرتا ہوں اور تیرے ہی نام پر زندہ ہوتا ہوں ۔ پھر جب کوئی شخص سو کر اٹھتا ہے تو کہتا ہے 2 ؎۔ الحمد لہ الذی احیان بعد ما اماتنا والیہ النشور ( خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے موت طاری کرنے کے بعد دوبارہ زندگی بخشی ، اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر 1 ؎۔ بخاری ص 439 ج 2 ۔ 2 ؎۔ مسند احمد ص 451 ج 5 و بخاری ص 011 ج 3 ( فیاض) مکذبین سے خطاب جب یہ گروہ بندی مکمل ہو جائیگی تو ہر جماعت کو اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش کیا جائیگا حتی اذا جاء و یہاں تک کہ جب جھٹلانے والوں کی جماعت اللہ کی بارگاہ میں آئیگی قال اکذبتم بایتی تو اللہ تعالیٰ ان سے سوال کریگا ، کیا تم نے میری آیتوں کو جھٹلایا تھا ؟ وثم تحیطوا بھا علما ً اور تم نے اس آیات کے علم کا حاطہ نہیں کیا تھا۔ تم نے میری آیتوں کو دیکھے ، سمجھے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کے بغیر ان کو جھٹلانا شروع کردیا ۔ تم نے نہ تو میرے بھیجے ہوئے انبیاء کی بات سنی نہ ان کی لائی ہوئی شرائع میں غور و فکر کیا اور نہ آسمانی کتابوں کی طرف توجہ کی ۔ بھلا بتلائو تو اماذاکنتم تعملون تم دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے۔ اس وقت ان سے کچھ جواب نہیں بن آئیگا ووقع القول علیھم بما ظلموا ( اور ان پر بات واقع ہو جائیگی یعنی ان کا جرم ثابت ہوجائے گا اور ان کے ظلم کی وجہ سے ان کی گرفت ہوجائے گی ۔ انہوں نے زندگی بھر توحید کا انکار کیا ۔ اللہ کے نبیوں اور کتب سماویہ کی تکذیب کی ، کفر ، شرک اور معاصی میں مبتلا رہے ۔ قیامت اور محاسبہ اعمال کا مذاق اڑایا ۔ یہ سب ظلم تھا جس کی وجہ سے وہ پکڑے گئے فھم لا ینصفون لہٰذا آج وہ بول بھی نہیں سکیں گے یعنی عاید شدہ فرد جرم پر کوئی عذر پیش نہیں کرسکیں گے ۔ بعض مواقع پر تو واقعی لب کشائی بھی ممکن نہ ہوگی اور بعض مواقع ایسے بھی آئیں گے کہ اللہ تعالیٰ انہیں بلوائے گا ۔ وہ زبان سے بات کریں گے اور کبھی اللہ تعالیٰ ان کی زبان کو بند کر کے ان کے عضاء وجوارح سے گواہی لیں گے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے جھٹلانے والوں کا شکوہ کیا کہ دیکھو ! یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی واضح نشانیاں دیکھ کر ان میں ذرا بھر بھی غور و فکر نہیں کرتے تا کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو سمجھ سکیں۔ شب و روز بطور دلیل ارشاد ہوتا ہے الم یروا انا جعلنا الیل لیسکنوا فیہ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے رات کو اس لیے بنایا ہے کہ یہ اس میں آرام کرسکیں ۔ دن بھر کام کاج کر کے جب لوگ تھک جاتے ہیں اور ان کی قومیں تحلیل ہوجاتی ہیں تو رات آجاتی ہے جس کے دوران وہ آرام کر کے اپنی قوتیں بحال کرتے ہیں۔ جانا ہے۔ ایک حدیث میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا شکر ہے جس نے ایک قسم کی موت طاری کرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا واذن لذکرہ اور اپنا ذکر کرنے کا موقع فراہم کیا ۔ بعض آدمی نیند کی حالت میں ہی موت سے ہمکنار ہوجاتے ہیں ۔ جن کو دوبارہ اٹھنے اور ذکر الٰہی کرنے کی مہلت ہی نہیں ملتی۔ نفخ صور ویوم نفخ فی الصور اور جس دن پھونکا جائے گا صور میں ۔ حضرت شاہ عبد القادر دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ قیامت کے سلسلے میں نفخ صور کئی مرتبہ ہوگا ۔ پہلی دفعہ صور پھونکاجائیگا تو ساری مخلوق مر جائے گی ۔ پھر دوسری مرتبہ پھونکا جائے گا تو جی اٹھے گی ۔ پھر تیسری دفعہ صور پھونکنے پر لوگ گھبرا جائیں گے ، چوتھی دفعہ پھر بےہوش ہوجائیں گے اور پانچویں دفعہ صور پھونکنے پر پھر ہوش میں آجائیں گے۔ اس طرح گویا بار بار صور پھونکا جائیگا ، تا ہم جمہور مفسرین فرماتے ہیں کہ صور صرف دو دفعہ پھونکا جائیگا ۔ پہلا صور تمام چیزوں کو فنا کر دے گا ۔ اسی صور میں ہر چیز پر گھبراہٹ اور بےہوشی طاری ہو جائیگی حتیٰ کہ روحیں بھی بےہوش جائیں گی۔ اس کے بعد جب دوبارہ صور پھونکا جائیگا ، تو لوگ محاسبہ اعمال کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے ، ان دو صوروں کے درمیان کچھ وقفہ ہوگا ۔ بعض کہتے ہیں کہ جب اسرافیل (علیہ السلام) صور پھونکے گا تو ملائکہ مقربین کے علاوہ ہر چیز فنا ہوجائیں گی ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ جبرائیل ، میکائیل ، اسرافیل اور عزرائیل (علیہم السلام) پر خود موت طاری کرے گا ، اور پھر صرف خدا تعالیٰ کی ذات باقی رہ جائے گی ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کا اعلان ہوگا لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ ِ اللہ ِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ ( المؤمن : 61) آج بادشاہی کس کی ہے ، پھر خود ہی اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ آج حکومت صرف ایک اللہ کی ہے جو قہار بھی ہے۔ گھبراہٹ کا عالم فرمایا جس دن صور پھونکا جائے گا ففزع من فی السموات ومن فی الارض تو گھبرا اٹھیں گے وہ جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں ۔ الا من شاء اللہ سوائے اس کے جسے اللہ چاہے ، یعنی اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق جسے چاہے گا ۔ اس گھبراہٹ سے مستثنیٰ کر دے گا اور اس پر گھبراہٹ طاری نہیں ہوگی ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ، مذکورہ گھبراہٹ کے عالم میں دیکھوں گا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے عرش کا پایا پکڑ کر کھڑے ہیں ۔ میں نہیں جانتا کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آ چکے ہیں یا ان پر بیہوشی طاری ہی نہیں ہوئی کیونکہ یہ بیہوشی ان پر دنیا میں طاری ہوچکی ہے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے اپنے دیدار کی درخواست کی تو اللہ نے فرمایا ، تو نہیں دیکھ سکتا ۔ پھر جب اللہ نے اپنی تجلی طور پر ڈالی فخر موسیٰ صعقا ً (الاعراف : 341) تو موسیٰ (علیہ السلام) بیہوش ہو کر گر پڑے ، لہٰذا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کو بیہوشی سے مامون رکھے گا ۔ بہر حال فرمایا کہ زمین و آسمان کی ہر چیز پر گھبراہٹ طاری ہوگی۔ سوائے اس کے جسے اللہ چاہے وکل اتوہ داخرین اور سب کے سب اللہ تعالیٰ کے سامنے ذلیل ہو کر آئیں گے۔ مفسرین کرام اس مقام پر یہ اشکال پیدا کرتے ہیں کہ یہاں پر سب کا ذلت کے ساتھ آنے کا ذکر ہے جب کہ اللہ کے مقربین کا با عزت طور پر اللہ کے حضور پیش ہونے کا ذکر بھی آتا ہے۔ یَوْمَ نَحْشُرُالْمُتَّقِیْنَ اِلَی الرَّحْمٰنِ وَفْدًا (مریم : 58) اس دن ہم خاص متقین بندوں کو وفد کی صورت میں عزت و احترام کے ساتھ لائینگے اس کے جواب میں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ذلت دو قسم کی ہوتی ہے ایک ذلت تو معصیت کی وجہ سے ہوتی ہے جس میں عام لوگ مبتلا ہوں گے اور ذلیل ہو کر خدا کے سامنے پیش ہوں گے۔ اور دوسری ذلت عبودیت کی ہوتی ہے جو کہ انبیاء (علیہم السلام) اور دیگر مقربین کا خاصہ ہے ، تو اللہ کے نیک بندے عبودیت کی ذلت کے ساتھ پیش ہوں گے۔ نظام کائنات کی تبدیلی فرمایا جس دن صور پھونکا جائے گا وتری الجبال تحسبھا جامدہ وھی تمر مر السحاب تو پہاڑوں پر نگاہ ڈالے گا تو انہیں جامد گمان کرے گا حالانکہ وہ بادلوں کی چال چلتے ہوں گے ۔ جس طرح بادل فضا میں تیر رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح پہاڑ میں تیرے ہوں گے۔ ان کی پختگی اور بوجھل پن ختم ہوجائے گا ۔ اور دو تنکوں کی طرح اڑتے ہوں گے ۔ سورة طہٰ میں آتا ہے وَ یَسْئَلُوْنَـکَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَـنْسِفُھَا رَبِّی نَسْفًا (آیت : 501) یہ لوگ آپ سے پہاڑوں کے متعلق سوال کرتے ہیں تو آپ ان سے کہہ دیں کہ ہزاروں میل میں پھسے ہوئے ان پہاڑوں کو میرا پروردگار ذرہ ذرہ اور گرد و غبار بنا کر اڑا دیگا ۔ سورة القارعۃ میں فرمایا وتکون الجبال کالعھن المنقوش (آیت : 5) اس دن پہاڑ دھنی ہوئی اون کی طرح اڑتے پھیریں گے۔ سورة الواقعہ میں بھی آتا ہے کہ جب قیامت واقع ہوگی وَّ بُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا فَکَانَتْ ہَبَآئً مُّنْبَثًّا تو پہاڑوں کو بکھیر دیا جائے گا اور وہ باریک ذرات کی طرح منتشر ہوجائیں گے۔ صنع اللہ الذی اتفن کل شی یہ اللہ تعالیٰ کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز کو اپنی اپنی جگہ پر مضبوط اور مستحکم بنایا ہے ۔ جب تک کائنات کا موجودہ نظام قائم ہے ، یہ چیزیں اسی طرح قائم رہیں گی ۔ پھر جب قیامت کا بگل بجے گا تو کوئی چیز اپنے ٹھکانے پر قائم نہیں رہے گی ۔ بلکہ سارا نظام ہی تبدیل کردیا جائے گا ، زمین ، آسمان چاند ، سورج ، ستارے ، سیارے سب ختم ہوجائیں گے اور ایک نیا نظام قائم ہوگا اور نئے احکام نافذ ہوں گے ۔ لوگوں کو چاہئے کہ وہ اس دن کی تیاری کریں ۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو تسلیم کریں ، کفر و شرک اور معصیت سے کنارہ کش ہوجائیں ۔ فرمایا یاد رکھو ! انہ خبیر بما تفعلون اللہ تعالیٰ با خبر ہے ان کاموں سے جو تم کرتے ہو۔ وہ تمہاری نیکی اور بدی ، طہارت اور نجاست ، عقیدے کی پختگی اور بد اعتقادی ، خوش عملی اور بد عملی ہر چیز سے واقف ہے اور پھر اسی کے مطابق جزا یا سزا کا فیصلہ کرے گا ۔ یہ اس دن واقع ہوگا ۔ جب صور پھونکا جائے گا ، اور سب لوگوں کو میدان حشر میں اکٹھا کیا جائے گا ۔
Top