Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 33
اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ اصْطَفٰٓي : چن لیا اٰدَمَ : آدم وَنُوْحًا : اور نوح وَّاٰلَ اِبْرٰهِيْمَ : اور ابراہیم کا گھرانہ وَاٰلَ عِمْرٰنَ : اور عمران کا گھرانہ عَلَي : پر الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
بیشک اللہ تعالیٰ نے منتخب کیا آدم (علیہ السلام) کو ، اور نوح (علیہ السلام) کو اور آل ابراہیم کو اور آل عمران کو جہان والوں پر۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کا معیار بیان فرمایا پھر حضور ﷺ کی محبت اور اس کے جواب میں آپ کے اتباع کو معیار قرار دیا۔ گویا اللہ تعالیٰ کی محبوبیت حاصل کرنے کے لیے حضور ﷺ کا اتباع اختیار کرنے کی ترغیب دلائی۔ اتباعِ رسول ہی دین اور مذہب کا بنیادی اصلو ہے۔ سورة بقرہ میں روئے سخن یہود کی طرف تھا ، اور سورة آل عمران میں نصاری کی اصلاح کا پہلو غالب ہے۔ گذشتہ سورة میں یہودیوں کی چالیس خرابیوں کا تذکرہ کرکے اللہ تعالیٰ نے انہیں تنبیہ فرمائی اور انہیں اصلاح کی طرف متوجہ کیا۔ اب اس سورة میں نصاری کی اصلاح مطلوب ہے۔ تاہم ابتدائے سورة میں توحید کا مسئلہ سمجھایا گیا ہے۔ بہرحال نصاری کا تذکرہ دور تک آئیگا اور اس ضمن میں بہت سی باتیں آئیں گی جن میں اہل ایمان کے لیے بھی بہت سی نصیحت اور عبرت کی باتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بڑے عظیم اصول بیان فرمائے ہیں۔ آج کا درس آئندہ آنے والے مضامین کی تمہید سمجھ لیجئے۔ ظلم و ستم کا دور : جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے۔ سورة آل عمران کا مرکزی موضوع نصاریٰ کی اصلاح ہے۔ نزول قرآن کے وقت ان میں دو قسم کی خرابیاں پائی جاتی تھیں۔ پہلی خرابی تو ان کے دین میں تھی۔ یعنی عقیدہ مشرکانہ تھا۔ مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا ، خود خدا یا تینوں میں سے تیسرا خدا کہتے تھے۔ اور دوسری خرابی ان کی سیاسی نوعیت کی تھی۔ اس زمانے میں دنیا میں دو بڑی سلطنتیں تھیں۔ ایک ایرانی سلطنت تھی ، جس کے فرمانروا مجوسی تھے۔ یہ آتش پرست تھے اور ہزاروں سال سے حکمران چلے آ رہے تھے۔ ہندوستان ، پاکستان ، افغانستان ، روس ، چین وغیرہ سب ایرانی سلططنت کسریٰ کے تابع اور زیر اثر تھے اور انہیں ٹیکس ادا کرتے تھے۔ دوسری بڑی طاقت روما کی تھی جو سینکڑوں سال سے وہاں پر مسلط تھی۔ باقی نصف دینا ان کے زیر نگیں تھی تمام دنیا ان دو حکومتوں کے رحم و کرم پر تھی۔ یہ جب اور جہاں چاہتے تھے اپنی مرضی کے مطابق انقلاب برپا کردیتے تھے۔ ہر طرف ظلم و ستم کا دور دورہ تھا۔ کمزور ریاستوں کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ بڑی طاقتیں جو چاہتیں کر گزرتی تھیں۔ ان کے عوام ظلم کی چکی میں پسے جا رہے تھے۔ معاشی طور پر نہایت پس ماندہ تھے ظاہر ہے۔ کہ جہاں عدل و انصاف کا فقدان ہوگا۔ وہاں ایسے حالات ہی رونما ہوں گے عوام و خواص کی حالت خراب ہوجائیگی ، رشوت خوری ، چور بازاری عام ہوگی۔ ہر طرف جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہوگا۔ دنیا میں امن وامان اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک عدل و انصاف کی حکمرانی نہ ہو۔ آج ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ کہ کرہ ارض کے کسی خطے میں عدل و انصاف کا پرچم بلند نظر نہیں آتا۔ کہنے کو ہم ایٹمی دور میں داخل ہوچکے ہیں۔ ہر طرف مادی ترقی کا دور دورہ ہے۔ مگر کوئی کونہ ایسا نہیں جہاں ظلم و ستم کا بازار گرم نہ ہو۔ ایک سے ایک بڑھ کر ظالم موجود ہے۔ کمزوروں کو کچلنا طاقتوروں کا مشگلہ بن چکا ہے۔ امریکہ اور روس کی کشمکش میں ویٹ نام کے دس لاکھ آدمی ہلاک ہوئے یہ ظلم و ستم بیس سال تک جاری رہا۔ آخر وہ بھی تو انسان ہی تھے مگر انسانیت کی ٹھیکیدار یہ بری طاقتیں انسانوں کے خون سے ہاتھ رنگتی ہیں۔ مگر ان کے دل کے کسی گوشہ میں جذبہ رحم موجود نہیں۔ انہیں اپنی سیاست اور اپنی بالا دستی سے غرض ہے چاہے انسان گاجر مولی کی طرح کٹتے ہیں۔ گزشتہ چھ سال سے افغانستان میں کیا ہورہا ہے۔ روسی فوجیں مجاہدین پر کس طرح بمباری کر رہی ہیں لاکھوں افغانی موت کے گھاٹ اتار دے جا چکے ہیں۔ تیس پینتیس لاکھ ملک بدر ہوچکے ہیں۔ جن کی غالب اکثریت پاکستان میں پناہ گزین ہے۔ باقی ایران میں ہیں۔ دنیا کی سپر پاور ہونے کی حیثیت سے کیا روس کا یہی فرض بنتا ہے۔ یہ سب ظلم و جور ہے جو بےگناہ لوگوں پر ڈھایا جا رہا ہے۔ ادھر مصر اور فلسطین پر نگاہ ڈالیے۔ اسرائیل امریکہ کا پالتو درندہ ہے۔ جب چاہتا ہے فلسطینی مہاجرین پر چرھ دوڑتا ہے۔ مسلمانوں کی ہزاروں لڑکیاں ان کی جیل میں ہیں جن سے ظالمانہ سلوک ہورہا ہے۔ صدر ایوب کے زمانے میں قبرصی مسلمانوں کا یہ حال ہوا کہ یونان کے عیسائیوں نے بیس ہزار ترکوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ، ان کو وہاں رہنے کی اجازت نہیں دی جا رہی وہاں پر عیسائیوں کی اکثریت ہے۔ جو مسلمانوں کو کسی صورت زندہ دیکھنا نہیں چاہتے ، فلپائن میں تھوڑے سے مسلمان ہیں۔ مگر ان کا عرصہ حیات بھی تنگ کیا جا رہا ہے۔ ان کو مورد و مسلمان یعنی ڈاکو اور قزاق کے نام سے پکارا جاتا ہے ان کا قصور صرف یہ ہے۔ کہ وہ تعداد میں تھوڑے ہیں۔ اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دے سکتے ، ان کا کوئی جائز حق ان کو نہیں مل سکتا۔ غرض ! قوموں کے بگاڑ کی یہ تمہید بیان ہو رہی ہے ۔ کہ قوموں کی خرابی یا تو عقیدے میں ہوتی ہے یا سیاست میں۔ جب تک عدل و انصاف کا دور دورہ نہیں ہوگا۔ مظلوم ظلم کی چکی میں پستے رہیں گے۔ اور جب تک عقیدہ درست نہیں ہوگا۔ لوگوں کی اصلاح ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) سے ابتداء کرکے حضرت نوح (علیہ السلام) ، ابراہیم (علیہ السلام) اور ا ال عمران کا ذکر فرمایا ہے۔ پھر مسیح ابن مریم (علیہا السلام) کا ذکر ہوگا۔ اور پھر تمام اقوام کی اصلاح کے اصول بتائے جائیں گے۔ شرف انسانی اور آدم (علیہ السلام) : ارشاد باری تعالیٰ ہے ، ان اللہ اصطفی ادم ، بیشک اللہ تعالیٰ نے پسند کیا ، منتخب کیا آدم (علیہ السلام) کو۔ اللہ تالیٰ کی مخلوق تو بیشمار تھی ارض و سما ، چاند ، سورج ، ستارے ، شجر ، حجر ، فرشتے ، جن سب اللہ کی مخلوق ہیں۔ مگر اس کے علم محیط ، حکمتِ بالغہ اور قدرت تامہ کے ساتھ جو مقام حضرت آدم (علیہ السلام) اور آپ کے توسط سے نسل انسانی کو حاصل ہونے والا تھا ، وہ کسی اور مخلوق کے حصہ میں نہ تھا۔ انسان کی برتری اور فوقیت کے لیے اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو منتخب کیا۔ اور نظام خلافت آپ کے سپرد فرمایا۔ یہ کام ملائکہ کے سپرد بھی نہیں کیا بلکہ نظر انتخاب اڈم (علیہ السلام) پر پڑی۔ اللہ نے ان کو یہ فضیلت اور شرف عطا فرمایا۔ اور سب سے بڑی فضیلت اصطفیٰ بالنبوت ہے۔ یعنی آپ کو نبوت جیسے اعلیٰ منصب کے لیے منتخب فرمایا۔ انسانیت کے لیے سب سے بلند مقام نبوت ہی ہوسکتا ہے۔ جو کہ اللہ نے آدم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کو عطا فرمایا۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ کہ سب سے پہلے نبی آدم (علیہ السلام) ہیں۔ اور سب سے آخر محمد رسول اللہ ﷺ ہیں ایک روایت کے مطابق کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار میں سے تین سو پندرہ رسول ہیں۔ باقی سب نبی ہیں۔ نوح (علیہ السلام) : اللہ تعالیٰ نے منتخب فرمایا آدم (علیہ السلام) کو۔ و نوحاً ، اور نوح (علیہ السلام) کو ، دنیا میں سب سے پہلے صاحب شریعت رسول نوح (علیہ السلام) ہیں۔ اور ا اپ ہی کی قوم کو سب سے پہلے ہلاک کیا گیا۔ اس سے پہلے کوئی امت عذاب میں مبتلا نہیں ہوئی۔ قیامت کے دن جب لوگ آپ کے پاس سفارش کے لیے جائیں گے تو آپ کو ان الفاظ سے ساتھ پکاریں گے۔ یا نوح انک اول الرسل الی اھل الارض اے نوح (علیہ السلام) ! آپ اللہ کے پہلے رسول ہیں۔ جنہیں شریعت دے کر اہل زمین کی طرف بھیجا گیا۔ آپ ہماری سفارش کریں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ہماری حالت کیا ہے۔ الا تری الی ما نحن فیہ ۔ نوح (علیہ السلام) جواب دیں گے کہ میں یہ کام نہیں کرسکتا۔ آج اللہ تعالیٰ اس قدر ناراض ہے کہ اس سے پہلے کبھی ایسا ناراض نہیں ہوا۔ اور نہ آج کے بعد کبھی ہوگا۔ اس وقت قہری تجلیات اتر رہی ہوں گی ، کوئی شخص دم نہیں مارے گا۔ آپ کہیں گے ابراہیم خلیل اللہ کے پاس جاؤ۔ غرضیکہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے پہلے صاحب شریعت رسول ہیں۔ آپ کی امت کو مکمل طور پر ہلاک کردیا گیا۔ پھر طوفان کے بعد جو آدمی بچ گئے۔ ان کی اولاد سے آگے نسل انسانی چلی۔ اسی لیے حضرت نوح (علیہ السلام) کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو بھی منتخب فرمایا۔ آل ابراہیم : حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد فرمایا۔ وآل ابراہیم۔ یعنی آل ابراہیم کو منتخب فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے آل ابراہیم کو اس قدر شرف بخشا ہے کہ انبیاء کی ایک جماعت ہے۔ جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد سے پیدا فرمائی۔ جب اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بعض امور میں آزمایا اور آپ پورے اترے تو اللہ کریم نے فرمایا اے ابراہیم (علیہ السلام) انی جاعلک للناس اماما۔ میں تمہیں لوگوں کا امام یعنی پیشوا بنانے والا ہوں ، مطلب یہ ہے کہ میں آپ کو منصب نبوت پر فائز کرنے والا ہوں کیونکہ تمام انبیاء اپنی اپنی امت کے امام ہوتے ہیں۔ مگر ابراہیم (علیہ السلام) تو ابو الانبیاء ہیں۔ تاہم آپ نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی۔ ومن ذریتی۔ مولا کریم ! جس طرح تو نے مجھے امامت سے نوازا ہے۔ اسی طرح یہ منصب میری اولاد میں بھی عطا کر۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرا یہ وعدہ ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔ چناچہ اللہ کریم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی آل میں لاتعداد انبیاء مبعوچ فرمائے حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی نسل میں سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) ، حضرت یوسف (علیہ السلام) ، حضرت زکریا (علیہ السلام) ، حضرت یحییٰ ، حضرت داؤد ، حضرت سلیمان ، حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ (علیہم السلام) ایسے جلیل القدر پیغمبر پیدا کیے ، جن میں سے بعض کو دنیاوی سلطنت بھی عطا کی اور وہ وقت کے حکمران بھی ہوئے۔ اور پھر آخر میں اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو مبعوث فرما کر سلسلہ نبوت ہمیشہ کے لیے بند کیا۔ اسی لیے یہاں پر فرمایا کہ ہم نے آل ابراہیم (علیہ السلام) کو منتخب فرمایا۔ آل عمران : فرمایا ، وال عمران ، اور اللہ تعالیٰ نے آل عمران کو منتخب فرمایا۔ مفسرین کرام فرماتے ۔ کہ عمران دو ہیں۔ موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کے والد کا نام بھی عمران ابن یصہر تھا۔ یہ بھی مومن مرد تھے۔ جو فرعون کے زمانے میں ہوئے۔ تاہم یہاں پر جس عمران کا ذکر ہے ، وہ حضرت مریم کے والد ہیں۔ آپ بھی نیک اور صالح آدمی تھے۔ نہایت عبادت گزار اور ہیکل مقدس کے امام تھے۔ بیت المقدس میں نماز پڑھاتے تھے۔ تاہم نبی نہیں تھے قرآن پاک کے اس مقام پر چونکہ حضرت مریم اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کا ذکر ہے۔ اس لیے آل عمران سے مراد حضرت مریم کے والد ہیں۔ ان دونوں عمرانوں کے درمیان ایک روایت کے مطابق اٹھارہ سو سال کا وقفہ ہے۔ تاہم ایک ہزار سال سے بہرحال زیادہ ہے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے آل عمران کو بھی منتخب فرمایا۔ علی العالمین۔ جہاں والوں پر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) حضرت نوح (علیہ السلام) ، آل ابراہیم اور آل عمران کو باقی لوگوں پر فضیلت اور برتری عطا فرمائی۔ نسل انسانی : اب عقیدے کی اصلاح کے لیے بات سے بات نکلے گی۔ فرمایا۔ ذریۃ بعضھا من بعض۔ تمام انسان ایک دوسرے کی اولاد ہیں۔ جیسے نوح (علیہ السلام) حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد سے ہیں۔ نیز حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ ، حضرت نوح کی اولاد میں سے ہیں۔ اور دونوں عمران حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت مریم ، عمران کی بیٹی ہے۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) مریم کے بیٹے ہیں۔ چونکہ وہاں پر باپ نہیں ہے۔ لہذا سلسلہ نسب ماں کی طرف سے چلتا ہے۔ دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ، یعیسی ابن مریم ، کہہ کر پکارا۔ اور امام بخاری فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن بھی آپ کو اسی نام سے مخاطب کیا جائے گا جب کہ باقی مخلوق کی نسبت باپ کی طرف کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے۔ ء انت قلت للناس اتخذونی و امی الھین من دون اللہ ، کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا۔ کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے علاوہ معبود بنا لو ؟ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ سن کر عیسیٰ (علیہ السلام) کپکپا اٹھیں گے اور اللہ جل جلالہ کے سامنے اپنی صفائی پیش کریں گے۔ صاحب روح المعانی اور دیگر مفسرین فرماتے ہیں۔ کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پانچ سو سال تک کپکپی کی حالت میں رہیں گے۔ اس کے بعد ان کے حواس بحال ہوں گے تو وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے عرض کرینگے۔ قال سبحانک ما یکون لی ان اقول ما لیس لی بحق۔ اے اللہ ! تیری ذات پاک ہے۔ میں وہ بات کیسے کہہ سکتا ہوں ، جس کے کہنے کا مجھے کوئی حق نہیں۔ الغرض ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ سب لوگ بعض اولاد ہیں بعض کی۔ بشریت انبیاء : اب یہیں سے تمام انبیاء (علیہم السلام) کی بشریت بھی ثابت ہوتی ہے۔ اور عیسائیت کی جڑ کٹتی ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) حضرت مریم کے فرزند ہیں۔ اور آپ کا سلسلہ نسب حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت آدم (علیہ السلام) تک پہنچتا ہے۔ وہ اللہ کے بیٹے (نعوذ باللہ) کیسے ہوئے۔ سارے نبی انسان اور بشر تھے ، بشر ہونا تو کوئی توہین کی بات نہیں ہے۔ اللہ نے فرمایا ہم نے بشر کو مٹی سے پیدا کیا۔ اور یہ سب ایک دوسرے کی اولاد ہیں۔ بشر سے مراد اللہ کی وہ مخلوق ہے جس کی کھال نظر آتی ہے۔ یہ گندمی رنگ والا انسان مراد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے دست قدرت سے مٹی سے انسان کو بنایا۔ یہ تو عزت کا مقام ہے۔ اہل بدعت مولویوں نے لوگوں کے ذہن خراب کردیے ہیں کہ نبی کو بشر تسلیم کرنے سے ان کی نعوذ باللہ توہین ہوجاتی ہے۔ لہذا انبیاء کو نور تسلیم کرو۔ پھر یہیں تک ختم نہیں کیا۔ بلکہ ، نور من نور اللہ ، کا عقیدہ بنایا۔ نبی کو اللہ کا جزو بنا کر عیسائیوں کے عقیدے کی تصدیق کردی۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ابن اللہ کہا ، انہوں نے نور من نور اللہ کہہ دیا۔ وجعلوا لہ من عبادہ جزءا ، اللہ کے بندوں میں سے ہی اس کا جزو بنا دیا۔ کتنی لغوی اور بیہودہ بات ہے۔ یہ تو معاذ اللہ اللہ کی توہین اور اس کی بغاوت ہے اور اپنی فکر کو فاسد کرنا ہے۔ خود اللہ کے نیک بندوں کی توہین ہے فرمایا واللہ سمیع علیم ، اللہ تعالیٰ ہر چیز کو سنتا ہے اور جانتا ہے۔ آج کے درس کی ابتدائی آیت پاک میں اللہ تعالیٰ نے اصطفی کا ذکر فرما کر اس بات کی تمہید باندھ دی ہے کہ ساری نسل انسانی حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس اشرف المخلوق کو برگزیدگی عطا فرمائی ہے۔ اس کے بعد حضرت مریم کی برگزیدگی کا ذکر آئے گا۔ اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کے اصطفیٰ کا ذکر بھی جزوی طور پر ہوگا۔
Top