Ahkam-ul-Quran - Al-Kahf : 64
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍۭ بَیْنَنَا وَ بَیْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَ لَا نُشْرِكَ بِهٖ شَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب تَعَالَوْا : آؤ اِلٰى : طرف (پر) كَلِمَةٍ : ایک بات سَوَآءٍ : برابر بَيْنَنَا : ہمارے درمیان وَبَيْنَكُمْ : اور تمہارے درمیان اَلَّا نَعْبُدَ : کہ نہ ہم عبادت کریں اِلَّا : سوائے اللّٰهَ : اللہ وَلَا نُشْرِكَ : اور نہ ہم شریک کریں بِهٖ : اس کے ساتھ شَيْئًا : کچھ وَّلَا يَتَّخِذَ : اور نہ بنائے بَعْضُنَا : ہم میں سے کوئی بَعْضًا : کسی کو اَرْبَابًا : رب (جمع) مِّنْ دُوْنِ : سوائے اللّٰهِ : اللہ فَاِنْ : پھر اگر تَوَلَّوْا : وہ پھرجائیں فَقُوْلُوا : تو کہ دو تم اشْهَدُوْا : تم گواہ رہو بِاَنَّا : کہ ہم مُسْلِمُوْنَ : مسلم (فرمانبردار)
اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے ، اے اہل کتاب ! آؤ ایک کلمے کی طرف جو تمہارے اور ہمارے درمیان برابر (مسلم) ہے۔ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ اور کسی چیز کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور نہ بنائیں ہم میں سے بعض بعض کو رب اللہ کے سوا۔ پس اگر یہ لوگ اعراض کریں (قبول نہ کریں) تو (اے مسلمانو ! ) تم ان سے کہہ دو ، تم گواہ رہو ، بیشک ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کی فرمانبرداری کرنے والے ہیں۔
ربط آیات : جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے۔ سورة بقرہ میں روئے سخن زیادہ تر یہودیوں کی طرف تھا۔ اور اس سورة آل عمران میں زیادہ تر عیسائیوں کے عقائد باطلہ کی تردید ہے۔ اس سورة میں تقریباً 83 آیات نجران کے عیسائیوں کے متعلق نازل ہوئی ہیں جو حضور ﷺ سے بحث مباحثہ کرنے کے لیے مدینہ طیبہ آئے تھے۔ مگر جب آپ نے مباہلہ کا چیلنج پیش کیا ، تو انہوں نے قبول نہ کیا۔ بلکہ جزیہ ادا کرنے پر رضا مند ہو کر صلح کرلی۔ اور واپس چلے گئے۔ اہل کتاب کے ان دونوں گروہوں کے عقائد باطلہ کی بیخ کنی کی گئی ہے۔ اور دلائل کے ساتھ ان کا رد کیا گیا ہے آج کی آیت میں یہود و نصاری دونوں کو مخاطب کرکے عقیدہ توحید کی دعوت دی گئی ہے۔ جو کہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔ عقیدہ توحید : ارشاد ہوتا ہے۔ قل یا اھل الکتب ، اے نبی (علیہ السلام) آپ فرما دیجئے اے اہل کتاب ! یعنی اے تورات کے ماننے والے یہودیو ! اور انجیل کے ماننے والے عیسائیو ! یہ دونوں گروہ کفر و شرک میں مبتلا ہوچکے تھے۔ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب کرکے اور انہیں ایذا پہنچا کر کفر کا ارتکاب کیا جب کہ عیسائیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو الوہیت کا درجہ دے کر شرک کو اختیار کیا۔ اس زمانے میں اہل کتاب کے علاوہ ایران کے آتش پرست مجوسی تھے اور وہ بھی مشرک ، عرب کے لوگ جو اپنے آپ کو ابراہیمی کہلاتے تھے ، وہ بھی کفر و شرک میں غرق تھے۔ نزول قرآن کے زمانے میں کوئی اکا دکا آدمی ہی ملت ابراہیمی پر چلنے والا ہوگا۔ ورنہ سب کے سب کفر و شرک کی ظلمان میں ٹھوکریں کھا رہے تھے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر آخر الزمان (علیہ السلام) سے اہل کتاب کو کہلوایا ، تعالوا الی کلمۃ ، ایک ایسے کلمے کی طرف آجاؤ، سواء بیننا و بینکم ، جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے۔ یعنی مسلم ہے۔ اس بارے میں تورات ، انجیل اور قرآن کی بات مساوی ہے۔ یعنی مسلم ہے۔ اس بارے میں تورات ، انجیل اور قرآن کی بات مساوی ہے۔ اور وہ ہے مسئلہ توحید یہ سب کا مشترکہ مسئلہ ہے یعنی الا نعبد ال اللہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ اس مسئلہ پر تورات و انجیل اور قرآن پاک متفق ہیں بلکہ ہر نبی کی یہی تعلیم ہے۔ لہذا ہم سب اس پر کاربند ہوجائیں۔ قرآن پاک نے یہی مسئلہ دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا ، فاعبدو اللہ مخلصین لہ الدین ، پس اللہ کی عبادت کرو اپنے دین کو اسی کے لیے خاص کرکے۔ ہر نبی نے اپنے قوم سے یہی کہا۔ یقوم اعبدوا اللہ ما لکم من الہ غیرہ ، ، اے قوم ! صرف اسی ایک خدا کی عبادت کرو ، اس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں۔ ولا نشرک بہ شیئا اور اس کے ساتھ ہم کسی چیز کو شریک نہ بنائیں ، امام ابن خثیر لفظ شیئا کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ لا وثنا ولا صلیبا ولا صنما ولا طاغوتا ولا نارا ولا شیئا۔ یعنی آؤ ہم اس بات پر متفق ہوجائیں کہ ہم اللہ کے ساتھ نہ بت کو شریک بنائیں گے ، نہ صلیب کو ، نہ طاغوت کو ، نہ آ گ کو اور نہ کسی اور چیز کو۔ طاغوت کے متعلق قرآن پاک کی تعلیم موجودہ واجتنبوا الطاغوت ، طاغوت سے بچو۔ شاہ عبدلقار نے طاغوت کا معنی ہڑدنگا کیا ہے۔ یعنی وہ شخص جو کسی کے بنانے سے نہیں بلکہ خود ہی چودھری بن جائے۔ اور یہ شیطان کی خصلت ہے بلکہ ساری باطل طاقتین اسی قبیل سے ہیں۔ مقصد یہ کہ اہل کتاب کو دعوت دی گئی ہے۔ کہ آؤ ہم سب مل کر اپنی عبادت اللہ ہی کے لیے مخصوص کردیں۔ چناچہ ہر مومن ، ہر نماز کی ہر رکعت میں اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ اے مولا کریم ! ایا کعبد ، ہم تجھے ہی عبادت کے ساتھ مخصوص کرتے ہیں۔ لا نعبد غیرک۔ ہم تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے۔ تیرے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں۔ مگر عیسائیوں نے اقنوم ثلاثہ کا عقیدہ گھڑ لیا یعنی باپ ، بیٹا اور روح القدس تین مل کر ایک خدا بنتے ہیں۔ پھر تینوں الگ الگ بھی خدا ہیں۔ عجیب ملغوبہ ہے۔ بالکل مشرکانہ عقیدہ ۔ نہ تو تین خدا ہیں اور نہ تینوں ایک ہیں۔ یہ سب بناوٹی عقیدے ہیں۔ یہ باتیں پولس نے عیسائیوں کے عقیدے میں داخل کیں۔ انجیل کی تعلیم کے بالکل خلاف ہے۔ نہ کوئی خدا کا اوتار ہے اور نہ کوئی اس کا مظہر ہے۔ یہ تو ہنود کا عقیدہ ہے۔ عیسائیوں کا عقیدہ بھی ان کے ساتھ ملتا جلتا ہے کہ خدا کسی انسان کے روپ میں آ کر ظاہر ہوتا ہے۔ اس طرح وہ شخص اوتار یا مظہر خدا کہلاتا ہے۔ کہیں مریم پرستی ہورہی ہے۔ حضرت مریم (علیہا السلام) کی تصویروں کو گرجوں میں رکھ کر ان کی تعظیم کی جاتی ہے۔ ان کو مادر خدا کہتے ہیں۔ ان کے نام کی نذر و نیاز دیتے ہیں۔ مسیح پرستی کے علاوہ موجودہ عیسائیوں میں پاپائیت بھی پائی جاتی ہے۔ وہ اپنے بڑے راہنماؤں کو الوہیت کے درجے پر پہنچا دیتے ہیں۔ مسلمانوں میں میں اولیاء پرستی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ شہدا پرستی اور پیر پرستی مسلمانوں میں عام پائی جاتی ہے۔ ان کی ایسی تعظیم کرتے ہیں جیسی خدا کی کرنی چاہئے۔ ان کی بات کو خدا اور رسول کی بات سے مقدم سمجھتے ہیں۔ ان کے سامنے سجدے کرتے ہیں۔ اور ان کا تقرب حاصل کرنے کے لیے نذر و نیاز دیتے ہیں۔ قبر پرستی : قبر پرستی کی بیماری یہود و نصاری میں تھی اور اب مسلمانوں بھی عام ہے۔ حکومت خود اس معاملے میں پیش پیش ہے۔ چادریں چڑھائی جا رہی ہیں۔ قبروں کی بےجا تعظیم ہورہی ہے۔ یہ سب شرکیہ رسوم اور اسراف ہے۔ بھائی ! قبروں پر جا کر وہ کام کرو ، جو شریعت سے ثابت ہے اور جس کا حکم دیا گیا ہے۔ وہاں جا کر فاتحہ پڑھو۔ اور فوت شدگان کے لیے دعا کرو۔ حضور ﷺ نے خود اپنے متعلق فرمایا ، اللہم لا تجعل قبری وثنا یعبد ، اے اللہ ! میری قبر کو صنم یا بت نہ بنانا کہ لوگ اس کی پوجا کرنے لگیں۔ اس زمانے میں قبر پرستی کی بہت سی صورتیں رائج ہیں۔ یہ عرس کیا ہے۔ شرک و بدعت کے ارتکاب کا ایک طریقہ ہے۔ قبر کو پختہ بنانا جائز نہیں بلکہ حرام ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا ، لا تجصصوا ، قبروں پر چونا نہ لگاؤ۔ مگر اب چپس ہو رہے ہیں۔ گنبد بنائے جا رہے ہیں۔ نقش و نگار ہوتا ہے۔ اللہ کے بندو ! یہ اینٹ ، مسا کسی غریب کو دے دو ، اس کے سر چھپانے کے لیے جھونپڑی بن جائے اور تمہیں ثواب بھی حاصل ہو ، کسی محتاج کی دعائیں لو ، قبروں پر چراغاں کرنے ، بلب لگانے اور پنکھے نصب کرنے سے کیا حاصل۔ یہ تو صریحاً قبر پرستی ہے۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری (رح) بہت بڑے ولی اللہ ہوئے ہیں۔ آپ کا لقب سلطان الہند ہے۔ تقریباً نوے لاکھ انسانوں کو آپ کی وساطت سے ایمان کی دولت نصیب ہوئی ، اسی طرح سید خواجہ علی ہجویری (رح) نے اپنے پیرو مرشد حضرت فتلی (رح) کے حکم سے لاہور تشریف لائے اور تبلیغ کا کام کیا۔ جب آپ کو لاہور آنے کا حکم ہوا ، تو عرض کیا ، حضرت ! وہاں تو سید میراں حسین زنجانی (رح) تبلیغ دین میں مصروف ہیں میں وہاں جا کر کیا کروں گا۔ فرمایا ، جاؤ میرے حکم کی تعمیل کرو۔ چناچہ آپ لاہور تشریف لے آئے۔ جب آپ شہر میں داخل ہوئے تو ایک جنازہ نظر پڑا۔ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ سید میراں حسین زنجانی کا جنازہ جا رہا ہے۔ غرضیکہ خواجہ اجمیری (رح) نے ہندوستان میں دین کی بہت بڑی خدمت کی۔ ان کے متعلق شاہ ولی (رح) فرماتے ہیں کہ جو کوئی شخص ان کی قبر پر یا سالار مسعود غازی کی قبر پر اس غرض سے جاتا ہے کہ ان سے کوئی حاجت طلب کرے ، وہ قتل اور زنا سے زیادہ سنگین جرم کا مرتکب ہوتا ہے۔ اسی طرح لاہور میں حضرت علی ہجویری (رح) بہت بڑے عالم اور بزرگ تھے۔ ان کی بلندی درجات کے لیے دعا کرنا تو جائز ہے۔ مگر مافوق الاسباب کسی کی مراد پوری کرنا اور حاجت روائی کرنا تو صرف شان خداوندی ہے۔ یہ ان بزرگوں کی شان نہیں ہے۔ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کے طریقے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے واسطے سے ہمارا خاتمہ بالخیر ہو۔ جنت میں ان کی معیت نصیب ہو۔ ایصال ثواب کرنا ہے۔ تو اپنے گھر پر ہی مساکین کو کھانا کھلا دو کپڑے پہنا دو ۔ دیگر ضروریات مہیا کردو اور دعا کردو کہ اللہ تعالیٰ اس کا اجر خواجہ معین الدین چشتی (رح) کو یا خواجہ مسعود سالار غازی (رح) کو یا حضرت علی ہجویری (رح) کی روح مبارک کو پہنچائے۔ ان کے درجات بلند کرے۔ یہ سب کچھ اپنے مقام پر بھی ہوسکتا ہے وہاں چل کرجانے کی کیا ضرورت ہے۔ شرک کی لعنت : حکام پرستی اور ملوک پرستی بھی ، شیئا ، میں شامل ہے اور شرک ہی کی قسم ہے۔ جاپانی شینٹو ازم یعنی ملوک پرستی میں مبتلا تھے۔ وہ لوگ اپنے بادشاہ کو الٰہ کا درجہ دیتے تھے۔ بادشاہ کو کلی اختیار تھے ، جو چاہے کرے ، اس پر کوئی قدغن نہ تھی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ سے فرمایا کہ آپ کہہ دیجئے کہ مسلمہ بات یہ ہے کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ نہ کسی کو حاضر و ناظر فرمائیں ، نہ مختار کل ، نہ علیم کل ، نہ مشکل کشا اور حاجت روا ، کسی کو پیر دستگیر اور غوث اعظم بھی بھی تسلیم نہ کریں۔ یہ سب شرکیہ باتیں ہیں۔ صرف خدا تعالیٰ کے لائق ہیں۔ مافوق الاسباب حاجت روائی اور مشکل کشائی صرف خدا کی ذات ہی کرسکتی ہے۔ جگہ جگہ یا علی اور یا غوث لکھا ہوا ہے یہ سب شرک کی نشانیاں اور غلط عقیدے کا اظہار ہے۔ پیروں کے سامنے رکوع اور سجدہ کیا جاتا ہے۔ بلکہ قبروں پر بھی سجدے ہوتے ہیں۔ یہ تو انجیل نے بھی منع کیا ہے۔ وہاں یہ آیت موجود ہے۔ خداوند کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر مگر عیسائی اس کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ مسیح (علیہ السلام) کو ابن اللہ یا الٰہ مانتے ہیں۔ مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہیں۔ اور ان کے ساتھ وہی معاملہ کرتے ہیں۔ جو خدا تعالیٰ کے ساتھ ہونا چاہئے۔ (بزرگان دین کے کلام میں پیر دستگیر اور غوث اعظم وغیرہ الفاظ بعض مقامات پر استعمال کیے گئے ہیں۔ لیکن انہوں نے اس سے ہرگز وہ معانی مراد نہیں لیے جو اہل شرک مراد لیتے ہیں۔ بلکہ غوث سے مراد ایسی مقبول کار آمد مستجاب الدعویات ہستی جن کی دعاؤں اور برکات سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو فیض پہنچاتا ہے اور یہ لوگوں کا تزکیہ کرتے ہیں اور روحانی فیض پہنچاتے ہیں اور لوگوں کی طرح طرح کی مشکلات اور ضروریات کی گرہ کشائی ان حضرات کی تعلیم و تربیت ، تلقین و تزکیہ تصفیہ ، دعاؤں اور توجہات وغیرہ کی وجہ سے ہوتی رہتی ہے۔ 12۔ عبدالحمید سواتی) آگے فرمایا ، ولا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللہ ، ہم میں سے بعض بعض کو اللہ کے سوا رب نہ بنا لیں۔ کسی کو رب بنانا بھی کفر اور شرک میں داخل ہے۔ لا رب سواہ ، خدا کے سوا کوئی رب نہیں۔ ہم بار بار پڑھتے ہیں ، الحمد للہ رب العالمین ، پھر یہ بھی کہتے ہیں ، قل اعوذ برب الناس ، ملک الناس ، مطلب یہ کہ ربوبیت کا ، مالک ، پرورش کرنے والا کسی چیز کو درجہ کمال تک پہنچانے والا اور تمام اسباب مہیا کرنے والا صرف اور صرف خدا تعالیٰ ہی ہے۔ لہذا اس کے سوا کسی کو رب نہ بنائیں۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں۔ کہ توحید کے دو درجے تو مشرک بھی مانتے ہیں یعنی واجب الوجود اور خالق۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ خدا کی ذات واجب الوجود ہے اور وہی ہر چیز کا خالق ہے۔ مگر خرابی تیسرے اور چوتھے درجے میں جا کر پیدا ہوتی ہے۔ تیسرا درجہ تدبیر کا ہے۔ یعنی خدا تعالیٰ ہی مدبر ہے۔ وہی ہر چیز کی تدبیر کرتا ہے۔ مگر مشرک لوگ یہاں آکر پھسل جاتے ہیں۔ نجومی ستاروں کو بھی تدبیر کنندہ سمجھتے ہیں۔ عیسائی اس کی نسبت مسیح (علیہ السلام) کی طرف کرتے ہیں یہودی عزیر (علیہ السلام) کی طرف اور باقی مشرک کسی اور طرف۔ اور اس طرح شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں۔ توحید کا چوتھا درجہ عبادت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پورے خلوص کے ساتھ انتہائی درجے کی تعظیم صرف خدا کی ہی ہوسکتی ہے کوئی دوسری ہستی مستحق عبادت نہیں ہے۔ مگر حال یہ ہے۔ کہ لوگ مالی اور جانی ہر قسم کی عبادتیں خدا کے علاوہ دوسروں کے سامنے انجام دیتے ہیں۔ اور اس طرح شرک کے مرتکب ہوتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے اپنے پیرو و مرشد امام جعفر صادق (رح) سے عرض کیا۔ اے رسول اللہ کے فرزند ! یہ فرمائیں۔ کیا اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت بھی کسی کے سپرد کی ہوئی ہے انہوں نے کہا ، معاذ اللہ ! اللہ نے اپنی ربوبیت کسی کے سپرد نہیں کی۔ ربوبیت کے کام وہ خود انجام دیتا ہے لوگوں کی حاجات پوری کرنے کا اس نے کسی کو اختیار نہیں دیا۔ ابن جریج فرماتے ہیں کہ گناہ کے کام میں کسی کی اطاعت کرنا اور غیر اللہ کے آگے سجدہ کرنا بھی بعض کو بعض کا رب بنانا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے شاگرد حضرت عکرمہ کا قول ہے کہ بنیادی طور پر ، ارباباً من دون اللہ ، تحلیل و تحریم کے بارے میں ہے۔ اس کا پتہ خود حضور ﷺ کے زمانہ مبارک کے ایک واقعہ سے چلتا ہے۔ حاتم طائی کی سخاوت ضرب بن چکی چکی ہے۔ امام قتیبہ نے اپنی کتاب الشعر و الشعراٗ میں تذکرہ کیا ہے۔ کہ حاتم کی سخاوت کو شہرت ایسے ہی حاصل نہیں ہوگئی۔ اس شخص نے انیس مرتبہ اپنا گھر بار ، مال و متاع لٹا دیا تھا۔ عیسائی مذہب رکھتا تھا اور اسی پر اس کی موت واقع ہوئی۔ اس کا بیٹا عدی بن حاتم بھی عیسائی تھا اور ابتداء میں اسلام کا سخت مخالف تھا۔ مگر کسی نیک آدمی کے مشور سے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہوا ، اس کی بہن کو بھی ایمان کی دولت نصیب ہوئی۔ عدی خود بیان کرتے ہیں کہ جب میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، تو اس وقت ، فی عنقی صلیب من ذھب ، میری گردن میں سونے کی صلیب لٹک رہی تھی۔ آنحضرت (علیہ السلام) نے دیکھتے ہی فرمایا ، الق عنک ھذا الوثن ، اس بت کو اپنی گردن سے اتار پھینک۔ گویا آپ نے صلیب کو وثن کہا۔ صنم اور وثن میں فرق یہ ہے کہ جو بت گھڑا ہوا ہوتا ہے ، وہ صنم کہلاتا ہے۔ اور جو ان گھڑا ہو ، اسے وثن کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے صلیب کو وثن فرمایا۔ نیز حضور ﷺ نے یہ بھی تلاوت فرمایا ، اتخذوا احبارھم و رھبانہم اربابا من دون اللہ ، ان یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنے مولویوں اور درویشوں کو رب بنا لیا ہے۔ حضرت عدی کہتے ہیں۔ میں نے عرض کیا ، حضرت ! ماکنا نعبدھم ، ہم ان کی عبادت تو نہیں کرتے تھے۔ رب تو جب بناتے جب ان کی عبادت کرتے۔ اس پر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ الیس انھم کانو یحلون لھم ما حرم اللہ۔ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ اہل کتاب کے مولوی اللہ کی حرام کردہ اشیاء کو حلال قرار دیتے تھے اور وہ لوگ اسے حلال ہی سمجھتے تھے۔ نیز یہ کہ جس چیز کو اللہ نے حلال فرمایا یہ درویش اس چیز کو حرام قرار دے دیتے تھے ، اور وہ لوگ اسے حرام ہی سمجھتے تھے۔ حضرت عدی ؓ نے عرض کیا ، حضور ! ایسا تو ہے۔ تو آپ نے فرمایا۔ یہی تو رب بنانا ہے۔ کیونکہ حلال و حرام ان کے اختیار میں نہیں تھا۔ شاہ والی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ کسی چیز کو حلال یا حرام ٹھہرانا اللہ تعالیٰ کی صفات مختصہ میں سے ہے۔ البتہ جب اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ کسی چیز کی حلت یا حرمت کی قطعی علامت ہے۔ نبی خود حلال و حرام نہیں کرتا۔ بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیان کرتا ہے ۔ جس چیز کو مجتہد حلال یا حرام ٹھہراتے ہیں ، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ قرآن و سنت کی روشنی میں دیا ہے۔ انہیں خود ایسا کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ جس چیز کا نبی کو اختیار نہیں ، مجتہد کو کیسے ہوسکتا ہے۔ شیعہ حضرات اپنے ائمہ کے متعلق یہ اعتقاد رکھتے ہیں۔ یحلون ما یشاڑون و یحرمون ما یشاءون ، یعنی ان کے امام معصوم ہیں وہ جس چیز کو چاہیں حلال قرار دیں اور جس کو چاہیں حرام کردیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ معصوم صرف نبی ھ کی ذات ہے۔ یہ گارنٹی صرف اسے حاصل ہے کہ اس سے گناہ سرزد نہیں ہونے دیا جائے گا۔ لہذا شیعوں کا عقیدہ اس معاملے میں درست نہیں ہے۔ حضور ﷺ نے مختلف ممالک کے فرمانرواؤں کو بذریعہ خطوط و مکاتیب اسلام کی دعوت دی۔ ان خطوط میں ایک خط قیصر شاہ روم کے نام بھی تھا۔ یہ دعوت نامہ آپ نے 7؁ھ میں دحیہ ابن خلیفہ کلبی ؓ کے ہاتھ گورنر شام کی معرفت بھیجا تھا۔ اس خط کے الفاظ یہ ہیں ہیں : بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ من محمد الرسول اللہ الی ھرقل عظیم الروم سلام علی من اتبع الھدی۔ یہ خط اللہ کے رسول محمد ﷺ کی طرف سے رومیوں کے بادشاہ ہر قل جو عظیم ہے رومیوں کا ، کی طرف ہے۔ سلامتی ہو اس پر جس نے ہدایت کی تابعداری کی۔ اما بعد ، فاسلم تسلم ، اسلام لے آؤ، سلامتی پا جاؤگے۔ واسلم یوتک اللہ اجرک مرتین ، اسلام قبول کرلو ، اللہ دوہرا اجر دیگا۔ عیسائیت کے بعد اگر ایمان لے آؤ گے تو عیسائیت کا اجر بھی ملے گا اور اسلام لانے کا اجر بھی یعنی دوہرا اجر ملے گا۔ فان تولیت ، اور اگر تم روگردانی کروگے ۔ فان علیک اثم الیریسین۔ تو تمام رعیت کا گناہ بھی تم پر ہوگا۔ کیونکہ تمہاری وجہ سے سب لوگ ایمان سے محروم رہ جائیں گے۔ اس کے بعد یہ آیت لکھی جو آج کے درس میں آئی ہے۔ یا اھل الکتب تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا وبینکم الا نعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللہ۔ فان تولوا فقولوا اشھدوا بانا مسلمون۔ حضور نبی کریم رؤوف الرحیم ﷺ صبح کی نماز کی سنتوں میں پہلی رکعت میں پہلے پارے کی یہ آیت تلاوت فرماتے تھے۔ قولوا امنا باللہ وما انزل الینا وما انزل الی ابراھیم واسمعیل واسحق ویعقوب والاسباط وما اوتی موسیٰ و عیسیٰ وما اوتی الننبیون من ربھم۔ لا نفرق بین احدھم منہم ونحن لہ مسلمون۔ اور دوسری رکعت میں آج کی آیت ، یا اھل الکتب ، تلاوت فرماتے ۔ بعض اوقات آپ پہلی رکعت میں سورة کافرون اور دوسری رکعت میں سورة اخلاص بھی تلاوت فرماتے۔ یہ آیات اور سورتیں عقیدہ توحید اور تردید شرک پر مشتمل ہیں۔ اس لیے بڑی اہم ہیں۔ ان میں اسلام کی بنیادی باتیں اور اس کی دعوت ہے۔
Top