Mualim-ul-Irfan - An-Najm : 13
وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰىۙ
وَلَقَدْ رَاٰهُ : اور البتہ تحقیق اس نے دیکھا اس کو نَزْلَةً : اترنا اُخْرٰى : ایک مرتبہ پھر
اور البتہ تحقیق پیغمبر نے دیکھا ہے اس ( فرشتے ) کو دوسری مرتبہ نیچے اترتے ہوئے
ربط آیات اس سورة مبارکہ میں زیادہ رسالت کا ذکر ہے۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی تعریف بیان فرمائی ۔ پہلے انبیاء کے ادوار کے بعد جب آخری نبی کا دور آیا تو لوگوں نے ان کو تسلیم نہ کیا ۔ بلکہ طرح طرح کے اعتراضات کیے ۔ کسی نے کاہن کہا ، کسی نے دیوانہ اور کسی نے شاعر ، مگر اللہ نے سب کی تردید کی اور فرمایا تمہارے صاحب نہ تو بہکے ہیں اور نہ بےراہ ہوئے ہیں ۔ ہو اپنی خواہش سے بات نہیں کرتے بلکہ ان کا پیش کردہ کلام اللہ کی وحی ہوتی ہے۔ اس وحی کو لانے والا جبریل (علیہ السلام) بڑ ی قوتوں والا فرشتہ ہے۔ اللہ کے پیغمبر اس کو اچھی طرح پہچانتے ہیں ۔ آغاز نبوت میں جب وہ پہلی دفعہ نموار ہوا تو وہ سیدھا بیٹھ گیا اور وہ افق کے بلند کنارے پر تھا اور زمین اور آسمان کے درمیان کی فضا آپ کے جسم سے پُر تھی۔ اس طرح اللہ نے حضور ﷺ کو جبریل کی اصل شکل میں پہچان کرائی۔ رویت جبریل (علیہ السلام) ثانیہ اب آج کے درس میں جبریل (علیہ السلام) کی دوسری رویت کا ذکر ہے۔ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ حضور ﷺ نے دو دفعہ جبریل (علیہ السلام) کو ان کی اصل شکل میں دیکھا ، پہلی دفعہ آغاز نبوت میں اور دوسری دفعہ معراج کے موقع پر تو اس دوسری رویت کے متعلق فرمایا ولقد راہ نزلۃ اخری البتہ تحقیق آپ نے جبریل کو دوسری دفعہ دیکھا نیچے اترتے ہوئے عند سدرہ المنتہیٰ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس عندھا ما جنت الماویٰ اس کے پاس ہی جنت الماوی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ حضور علیہ السالمنے فرمایا کہ میں نے سدرۃ المنتہیٰ کے مقام پر جبریل کو اصلی شکل میں دیکھا اور اس کے چھ سو پر تھے۔ مجھے اس کو پہچاننے میں کسی قسم کا تردد نہیں ہوا۔ پھر سدرۃ المنتہیٰ کے متعلق فرمایا کہ یہ جنت الماویٰ کے پاس ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جنت ساتوں آسمانوں کے اوپر ہے اس کے تمام طبقات درجہ بدرجہ اوپر کی طرف جاتے ہیں ، اور آخر میں جنت الفردوس ہے جس پر عرش الٰہی کا سایہ پڑتا ہے۔ سدرۃ المنتہیٰ کی کیفیت سدرۃ المنتہیٰ کا محل وقوع بیان کرنے کے بعد فرمایا اذا یغشی السدرۃ ما یغشیٰ جب کہ ڈھانپ لیا سدرہ کو اس چیز نے جس نے اس کو ڈھانپ لیا جب حضور ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تو اس وقت سدرہ پر خاص قسم کے انوار و تجلیات وارد ہو رہے تھے اور اس درخت کے پتوں پر سنہری پروازنے جگمگا رہے تھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ مخلوق میں سے کوئی بھی اس کے حسن و جمال کی تعریف بیان نہیں کرسکتا جو اس وقت سدرۃ پر طاری تھا۔ اللہ نے یہ ساری کیفیت اپنے پیغمبر کو دکھادی اور یہ مشاہدہ ایسا واضح تھا کہ مازاغ البصر و ما طغیٰ نہ تو نگاہ ادھر ادھر ہوئی اور نہ ہی حد سے بڑھی ، بلکہ آپ نے نہایت اطمینان کے ساتھ یہ پوری کیفیت مشاہدہ کی۔ اسی لیے فرمایا لقد راٰی من اٰیت ربہ الکبریٰ البتہ تحقیق آپ نے اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔ سدرہ بیری کے درخت کو کہتے ہیں۔ بعض روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس درخت کی جڑ چھٹے آسمان پر ہے جب کہ اس کی بلندی ساتویں آسمان سے آگے نکلی ہوئی ہے۔ یہ کوئی عجیب قسم کا درخت ہے جسے نوع انسانی کے ساتھ خاص نسبت ہے۔ اس درخت کے ہر پتے پر اللہ کے فرشتے تسبیح کر رہے تھے اور سنہری پروانے جگمگا رہے تھے۔ اس درخت کو سدرۃ المنتہیٰ اس لیے کہتے ہیں کہ اسے اوپر اور نیچے کے درمیان ایک سنگم کی حیثیت حاصل ہے۔ اس سے آگے کی کیفیت کو کوئی نہیں جانتا اوپر سے جو حکم آتا ہے وہ یہیں رہ جاتا ہے اور نیچے کسی دوسری کیفیت کے ساتھ وارد ہوتا ہے اسی طرح نیچے سے جو چیز اوپر کی طرف جاتی ہے وہ بھی اسی درخت پر آکر ختم ہوجاتی ہے۔ گویا یہ درخت عالم خلق اور عالم امر کے درمیان ایک واسطہ ہے یا یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ درخت عالم وجوب اور عالم امکان کا سنگم ہے۔ اس کو انسانی نوع کے ساتھ خاص تعلق ہے۔ اسی واسطے حدیث میں آتا ہے کہ میت کو غسل دینے کے لیے پانی میں بیری کے پتے ڈال لیا کرو۔ اس کا ظاہری سبب تو یہی ہے کہ ان پتوں میں میل کچیل صاف کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ تاہم اس میں کوئی دیگر مصلحت بھی ضرور کارفرما ہے جو اس درخت کی انسان کے ساتھ نسبت کو ظاہر کرتی ہے۔ حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ میں نے اس بیری کا پھل بڑے بڑے مٹکوں جتنا دیکھا جو حجر کے مقام پر ہوتے ہیں جن میں چھ یا بارہ من پانی یا کھجوریں ذخیرہ کی جاسکتی ہیں اور اس بیری کے پتے ہاتھی کے کانوں جتنے بڑے تھے۔ چار نہریں حضور ﷺ نے فرمایا کہ معراج کے موقع پر میں نے اس درخت کی جڑ میں چار نہریں دیکھیں جن میں سے دو نہریں باطنی ہیں اور دو ظاہری۔ فرماتے ہیں کہ میں نے جبریل (علیہ السلام) سے پوچھا کہ یہ کیسی نہریں ہیں تو اس نے بتایا کہ باطنی نہریں کوثر اور سلسبیل ہیں جن کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے۔ قیامت والے دن اسی کوثر کا پانی پرنالوں کے ذریعے حوض کوثر میں ڈالاجائے گا جو حضور ﷺ اپنے امتیوں کو پلائیں گے۔ فرمایا ظاہری نہریں دریائے نیل اور فرات ہیں۔ اگرچہ انسانی فہم میں یہ بات نہیں آسکتی مگر حقیقت یہی ہے کہ نیل بھی بڑی با برکت نہر ہے جو چار ہزار میل لمبی ہے یہ افریقہ کے پہاڑوں سے نکل کر صحرائوں کو عبور کرتی ہوئی اور مصر کو سیراب کرتی ہوئی بحر قلزم میں جاگرتی ہے۔ اس کا تعلق کسی نہ کسی طریقے سے سدرۃ المنتہیٰ کے ساتھ بھی ہے ۔ اس قسم کا مشاہدہ ہم دیگر ذرائع سے بھی کرتے ہیں۔ مثلاً سمندر میں پیدا ہونے والے مددو جزر کا کا تعلق چاند کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہر ماہ جوں جوں چاند بڑھتا ہے سمندر میں مد آتا رہتا ہے پھر جب چاند گھٹنے لگتا ہے تو سمندر میں جزر آجاتا ہے۔ جس طرح ہم سمندر کے ساتھ چاند کے ربط کو صحیح طور پر نہیں جانتے۔ اسی طرح نیل اور فرات کا جو تعلق سدرۃ المنتہیٰ کے ساتھ ہے ، وہ بھی ہمارے فہم سے بالا ہے۔ رویت الٰہی ولقد راٰہ نزلۃً اخریٰ کا تعلق رویت جبریل سے ہے جس کو حضور ﷺ نے دوسری مرتبہ معراج کے موقع پر دیکھا۔ تاہم مفسرین کرام اس آیت سے رویت باری تعالیٰ کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ چناچہ امام حسن بصری (رح) کہتے ہیں لقد رای محمدًا ربہ مرتین یعنی حضرت محمد ﷺ نے اپنے پروردگار کو دو دفعہ دیکھا ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ ایک دفعہ آنکھ سے دیکھا اور ایک دفعہ دل سے طبرانی اور مسلم شریف کی روایت میں بھی ایسے ہی الفاظ آتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اور حضرت ابو ذر غفاری ؓ کی روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے۔ البتہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اس کا سختی سے انکار کرتی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بھی رویت الٰہی کے خلاف ہیں۔ حضرت مسروق ؓ جو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے عزیز اور شاگرد ہیں۔ انہوں نے آپ سے پوچھا کہ آپ رویت کا انکار کس بنا پر کرتی ہیں ، تو انہوں نے فرمایا کہ اللہ کا فرمان ہے لا تدرکم الابصار وھو یدرک الابصار ( الانعام۔ 103) آنکھیں تو اللہ تعالیٰ کو نہیں پا سکتیں ، البتہ وہ آنکھوں کو پاتا ہے۔ غور کیا جائے تو حضرت عائشہ ؓ کی اس دلیل کو دعوے کے ساتھ پوری مطابقت نہیں ہے کیونکہ اس آیت میں ادراک کی نفی ہے نہ کو رویت کی۔ ادراک کا معنی کسی چیز کا مکمل طور پر احاطہ ہوتا ہے اور یہ واقعی خدا تعالیٰ کی ذات یا اس کی کسی صفت کا ممکن نہیں۔ وہ تو غیر محدود ذات ہے۔ لہٰذا اس کا مکمل احاطہ نہ دنیا میں ہوسکتا ہے اور نہ آخرت میں۔ البتہ محض رویت کا مسئلہ دوسرا ہے جس کے لیے شواہد موجود ہیں جہاں تک آخرت کا تعلق ہے تو اس ضمن میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بھی یہی اعتقاد رکھتے ہیں کہ قیامت کو تمام اہل ایمان کو اللہ کا دیدار نصیب ہوگا۔ اس کے برخلاف گمراہ فرقے ، شیعہ ، معتزلہ اور خارجی وغیرہ رویت الٰہی کے کلیتۃً منکر ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ رویت تو کسی جہت میں ہوسکتی ہے ، اور خدا کی جہت کو تسلیم کرنا اس کی تنزیہہ کے خلاف ہے۔ ایسا ماننے سے خدا تعالیٰ محدود ہوجائے گا۔ حالانکہ وہ ذات غیر محدود ہے۔ تاہم تمام اہل سنت والجماعت اس بات کے قائل ہیں کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوگا۔ مگر بغیر کیف یعنی بغیر کیفیت کے۔ مطلب یہ کہ یہ رویت رنگ ، شکل و صورت یا جہت کے بغیر ہوگی۔ گویا یہ رویت ایسی کیفیت میں ہوگی جس کو بیان نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ حضور ﷺ کا یہ فرمان بھی ہے انکم لن ترواربکم حتیٰ تموتوا تم مرنے سے پہلے اپنے پروردگار کو نہیں دیکھ سکتے یعنی یہ دیدار اس وقت ہوگا جب لوگ مرا کر اگلے جہاں میں پہنچ جائیں گے۔ موسیٰ علیہ اسلام نے بھی کوہ طور پر اللہ تعالیٰ سے رویت کی درخواست کی تھی تو جواب آیا تھا۔ لن ترانی ( الاعراف۔ 143) یعنی تم مجھے دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ پھر جب اللہ نے پہاڑی تر تجلی فرمائی تو وہ ریزہ ریزہ ہوگیا۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) بیہوش ہو کر گر پڑے ۔ مطلب یہ ہے کہ اس عالم ناسوتی میں تو رویت الٰہی ممکن نہیں مگر حضور ﷺ کو رویت نصیب ہوئی تھی وہ دوسرے جہاں میں خطیرۃ القدس میں ہوئی تھی۔ لہٰذا اس رویت میں کوئی اشکال وارد نہیں ہوتا۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) بھی فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے سر کی آنکھوں سے اپنے پروردگار کو دیکھا۔ امام احمد (رح) بھی ایسی ہی رویت کے قائل ہیں۔ کسی نے آٓپ کے سامنے ذکر کیا کہ ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓ تو اس رویت کا انکار کرتی ہیں تو آپ نے فرمایا کہ ان کی بات کا جواب میں حضور ﷺ کی بات سے دیتا ہوں کہ آپ سے یہ قول صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے رایت ربی عزوجل کہ میں نے اپنے پروردگار عزوجل کو دیکھا ہے ، اور یہ حدیث حضرت عائشہ ؓ کے قول سے زیادہ قوی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ تم کو اس بات پر تعجب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خلت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے رکھی ہے ، کلام موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے اور رویت محمد ﷺ کے لیے ، حضرت ابو ذر غفاری ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا رایت نوراً یعنی میں نور الٰہی کو دیکھا۔ اور دوسری روایت میں ہے فسجدت لہ پھر میں سجدہ ریز ہوگیا۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ رویت سے مراد مکمل احاطہ نہیں کیونکہ یہ تو ہر دو جہانوں میں کہیں بھی ممکن نہیں ، البتہ آخرت میں یہ رویت اللہ تعالیٰ کی تجلیات کے ظہور سے ہوگی۔ یہ تجلیات بہت سی اقسام سے ہیں جن میں ذاتی بھی ہیں ، اور صفاتی بھی۔ خدا کی ذاتی تجلیات صرف انسانوں کے لیے مخصوص ہیں اور فرشتے ان سے مستفید نہیں ہوسکتے ، چناچہ آخرت میں بعض لوگوں کو سال کے بعد رویت نصیب ہوا کرے گی ، اور مقربین کو یہ رویت صبح و شام نصیب ہوگی جس کا ذکر قرآن حکیم میں موجود ہے گویا اللہ تعالیٰ کے دیگر انعامات کے علاوہ خدا تعالیٰ کی رویت ایک خصوصی انعام ہوگا۔ رویت عینی اور قلبی حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ دو مرتبہ رویت کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ایک دفعہ اللہ تعالیٰ کو آنکھ سے دیکھا اور دوسری مرتبہ دل سے۔ معتزلہ تو دل سے دیکھنے کے قائل نہیں اور وہ اسے محض علم پر محمول کرتے ہیں حالانکہ علم تو حضور ﷺ کو کامل طریقے سے ہر وقت ہی حاصل تھا۔ لہٰذا اس میں تردد کی گنجائش ہی نہیں۔ البتہ دل کا ذکر شق قلب والی حدیث میں ملتا ہے کہ جب جبریل (علیہ السلام) نے آپ کا قلب مبارک شق کیا تو کہا قلب وکیع فیہ اذنان سمیعتان وعینان بصیرتان یہ بڑا مضبوط دل ہے ، اس میں دو سننے والے کان اور دیکھنے والی دو آنکھیں ہیں۔ تو گویا دل کی آنکھیں بھی ہیں جن سے حضور ﷺ کو رویت الٰہی حاصل ہوئی۔ شاہ رفیع الدین (رح) فرماتے ہیں کہ جب تک انسان کی روح کا تعلق جسم کے ساتھ قائم رہتا ہے ، اس وقت تک انسان کو علم تو حاصل ہوتا ہے مگر انکشافِ تام نہیں ہوتا۔ یہ چیز رویت کی شکل میں دوسرے جہان میں چل کر ہوگی۔ بہرحال رویت آنکھ سے ہو یا قلب سے بات ایک ہی ہے۔ دیکھو ! کسی چیز کو دیکھنے کے لیے آنکھ کا صحیح سلامت ہونا ، روشنی کا ہونا اور چیز کا آنکھ کے سامنے ہونا ضروری ہے۔ آنکھ کے سامنے والا سیاہ حصہ قرینہ کہلاتا ہے۔ اللہ نے یہ نہایت ہی شفاف شیشے لگا دئیے ہیں جن کے متعلق حکیم بقراط کی ہزاروں سال پہلے کی تحقیق ہے کہ اس قرینے کے پیچھے نہایت ہی لطیف چالس پردے ہیں۔ ان پردوں کے پیچھے آنکھ میں نہایت ہی شفاف رطوبت بھری ہوئی ہے جسکو رطوبت جلیدیہ کہتے ہیں۔ یہی وہ رطوبت ہے کہ جب گدلی ہوجاتی ہے تو نظر آنا بند ہوجاتا ہے اور عام اصطلاح میں کہتے ہیں کہ موتیا اتر آیا ہے ، اس گدلی رطوبت کو آپریشن کے ذریعے نکال دیا جاتا ہے تو پھر سے نظر آنے لگتا ہے۔ بہر حال جب کسی سامنے والی چیز کا عکس قرینہ پڑتا ہے جو اسے رطوبت جلیدیہ تک پہنچاتا ہے۔ پھر وہ اسے آگے مجمع نور تک بھیج دیتی ہے۔ مجمع نور اس کو اٹھا کر حسّ مشترک کے تختے پر منتقل کردیتی ہے۔ وہاں پر اس عکس کو قوت خیالیہ ، قوت وہمیہ ، قوتِ مفکرہ اور نفس ناطقہ اخذ کرکے فیصلہ کرتے ہیں کہ جس چیز کا عکس ان کے پاس پہنچا ہے وہ کیا ہے وہ کوئی درخت ہے ، پتھر ہے ، عمارت ہے ، حیوان ہے یا کوئی اور چیز ہے۔ اور وہ چیز سیاہ ہے یا سفید ، خوبصورت ہے یا بدصورت ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کا عکس آنکھ کے قرینہ ، رطوبت جلیدیہ ، مجمع نور اور حس مشترک تک نہیں پہنچتا ، رویت مکمل نہیں ہوتی بلکہ محض علم ہوتا ہے تو گویا علم اور رویت میں یہ فرق ہے۔ ہاں انسان جب عالم آخرت میں پہنچے گا تو اس کی تمام قوتوں خاص طور پر باطنی قویٰ میں بہت زیادہ لطافت پیدا ہوجائے گی۔ اس طرح قلب میں بھی بہت زیادہ قوت پیدا ہوجائے گی۔ اس وقت ہر چیز کا عکس سب سے پہلے قلب پر پڑے گا جو اس کو نفس ناطقہ کے پاس بھیج دے گا۔ نفس ناطقہ اسے حس مشترک کی طرف منتقل کردے گا اور وہ چیز پلٹ کر رطوبت جلیدیہ تک آجائیگی اور نظر آنے والی چیز کی اصلیت معلوم ہوجائے گی۔ غرضیکہ کوئی شخص آنکھ کی طرف سے دیکھے یا قلب کی طرف سے نتیجہ یکساں ہوگا۔ اسی لیے فرمایا کہ حضور ﷺ کو رویت الٰہی ایک دفعہ آنکھ سے اور ایک دفعہ قلب سے ہوئی۔ یہ دونوں باتیں درست ہیں اور دونوں کا منشا ایک ہی ہے۔ تدلی کا بیان گذشتہ درس میں دنا فتدلی کا ذکر آیا تھا کہ اللہ کا فرشتہ قریب آیا تدلی کا لغوی معنی لٹکنا ہی ہے مگر شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ تدلی ایک بہت باریک حقیقت بھی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی چار صفات مختصر میں سے ہے۔ اللہ کی پہلی صفت ابداع ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادے اور نمونے کے پیدا کرنا جیسے اس نے آسمان و زمین کو اپنی صفت ابداع کے ذریعے بغیر مادے کے پیدا کیا۔ پھر دوسری صفت خلق آتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مادے سے کوئی دوسری چیز بنادینا ، جیسے اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے تخلیق فرمایا۔ پھر آگے تیسری صفت تدبیر ہے یعنی کسی چیز کو بتدریج حد کمال تک پہنچانا ، کسی چیز میں کمی بیشی یا ترقی و تنزل کرنا۔ اور آخر میں اللہ کی چوتھی صفت تدلی کام کرتی ہے تدلی کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ مادی انسان ، انسان اکبر کے نمونے پر بالکل تیار ہوجاتا ہے تو اس کے قلب پر اللہ تعالیٰ کی تجلیٔ اعظم کا عکس پڑنے لگتا ہے اس کے درمیان بہت سی منازل ہیں۔ تاہم یہ آخری منزل ہے جس کو بزرگوں نے دریافت کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جتنی قوتیں بخشی ہیں ان میں پانچ قویٰ یعنی نفس ، قلب ، عقل ، روح اور مر لطائفِ ظاہرہ کہلاتے ہیں ، جن کو یونانی ، رومی اور دوسرے فلاسفر اور حکماء بھی تسلیم کرتے ہیں اس کے آگے پانچ باطنی قوتیں ہیں یعنی خفیٰ ، اخفیٰ ، انانیت کبریٰ نور القدس اور حجر بحت جب ایک پوشیدہ قوت کا پردہ ہٹتا ہے تو دوسری نظر آجاتی ہے اور پھر آخر میں جو چیز ہوتی ہے اس کو حجر بحت کہتے ہیں اور اس پر تجلی اعظم کا عکس پڑتا ہے اس کو تدلی کہا جاتا ہے۔ تجلیٔ اعظم کا عکس پڑتا ہے اس کو تدلی کہا جاتا ہے۔ تجلیٔ اعظم کی کشش ہمیشہ اوپر کی طرف ہوتی ہے کیونکہ یہ عالم بالا سے آتی ہے۔ جب انسان کا یہ مادی خول اتر جائے گا۔ اور اندر سے اصلی انسان ظاہر ہوگا تو اس کی اوپر کی طرف کشش بہت بڑھ جائے گی۔ اگر انسان نے دنیا میں رہ کر کمائی ٹھیک نہیں کی تو وہ بہت تکلیف اٹھائے گا۔ بہر حال دنا فتدلی کا یہ مطلب بھی لیا گیا ہے۔ سابقہ درس کی بعض تصریحات گذشتہ درس میں فرشتے کی قربت کے ضمن میں قاب قوسین کا ذکر بھی ہوچکا ہے یعنی فرشتے اور حضور ﷺ کے درمیان دو کمان یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا تھا۔ عربوں میں یہ دستور تھا کہ جب کوئی دو آدمی آپس میں غیر معمولی دوستی کرنا چاہتے تھے تو وہ دونوں کمانیں اکٹھی کرکے ایک ہاتھ میں پکڑ لیتے تھے جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ یہ گہرے دوست بن گئے ہیں۔ اب ان میں سے کسی ایک کا تیر دوسرے پر نہیں چلے گا تاہم اس مقام پر اس سے قربت ہی مراد ہے پھر فاوحیٰ الیٰ عبدہٖ ما اوحیٰ کا تذکرہ بھی آچکا ہے کہ پروردگار نے وحی نازل کی ، جو وحی نازل کی ، اس مقام پر کیا کیا چیزیں ظاہر ہوئیں۔ اس کو اللہ نے اجمال میں رکھا ہے۔ البتہ صحیح احادیث میں تین تحائف کا ذکر ملتا ہے۔ جو اللہ نے اپنے پیغمبر (علیہ السلام) کو عطا فرمائے۔ ان میں پہلا انعام پانچ نمازیں جو امت محمدیہ پر فرض ہوئیں۔ دوسرا انعام سورة بقرہ کی آخری دو آیات امن الرسول سے لے کر آخر تک ہے اور تیسرا انعام یہ ہے کہ اللہ نے فرمایا جو شخص دنیا میں رہ کر میرے ساتھ شرک نہیں کرے گا۔ اس کی غلطیوں کو معاف کردیاجائے گا۔ ان کے علاوہ اور بھی نشانیاں ہیں جن کے متعلق یہاں فرمایا کہ آپ نے اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔
Top