Mualim-ul-Irfan - Ar-Rahmaan : 62
وَ مِنْ دُوْنِهِمَا جَنَّتٰنِۚ
وَمِنْ دُوْنِهِمَا : اور ان دونوں کے علاوہ جَنَّتٰنِ : دو باغ ہیں
اور ان دو باغوں کے علاوہ دو باغ اور ہیں
ربطہ آیات سورة کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے مادی اور روحانی نعمتوں کا ذکر کیا ، پھر تکذیب کرنے والوں کی مذمت بیان فرمائی اور توحید کے دلائل بیان کیے۔ پھر قیامت کے محاسبے اور جزائے عمل کا ذکر فرمایا اور اسی سلسلے میں مجرموں اور نافرمانوں کا انجام بھی بیان کیا۔ اس کے بعد اللہ نے انسانوں اور جنوں دونوں گروہوں کے اہل ایمان کا دو حصوں میں ذکر فرمایا۔ پہلے حصے میں فرمایا ولمن خاف… الآیۃ جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے سے دنیا میں ڈر گیا اور ایمان اور تقویٰ کے راستہ پر چل نکلا ، فرمایا اس کے لیے دو بہشت ہیں۔ میں نے کل عرض کیا تھا کہ ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ ایک بہشت انسان کے لیے ہے اور دوسرا جنوں کے لیے۔ تاہم مشہور تفسیر یہ ہے جو کہ سورة الواقعہ میں مذکور ہے ، ایک بہشت سابقین کے لیے ہے اور دوسرا اصحاب یمین کے لیے۔ اس سورة میں ایک تیسرے گروہ اصحابِ شمال کا ذکر بھی ہے۔ ان تینوں گروہوں کے درجات میں بھی مذکورہ ترتیب کے ساتھ تفاوت ہوگا۔ جس طر ح دنیا میں مختلف لوگوں میں عقل ، فہم ، اخلاق اور نیکی بدی کا تفاوت ہوتا ہے اسی طرح ان کے درجات میں بھی تفاوت ہوگا۔ خود اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے انظر کیف فضلنا بعضھم علی بعض ط وللاخرۃ اکبر درجٰتٍ واکبر تفضیلا (بنی اسرائیل۔ 21) دیکھو ! ہم نے کس طرح بعض کو بعض پر فضیلت بخشی ہے اور آخرت تو درجات اور فضیلت کے لحاظ سے بہت بڑھ کر رہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ جنت کے سو درجے ہیں ، اور ہر درجہ نچلے درجے سے زمین و آسمان کی بلندی جتنا بلند ہے۔ سب سے بلنددرجہ جنت الفردوس کہلاتا ہے ۔ جس کے اوپر عرش الٰہی کا سایہ پڑتا ہے۔ حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ جب خدا تعالیٰ سے مانگو تو جنت الفردوس ہی کا سوال کرو۔ کیونکہ یہ بلند ترین درجہ ہے۔ دو مزید باغات پہلے دو باغوں کا ذکر گذشتہ درس میں ہوچکا ہے جو اللہ تعالیٰ نے سابقین کے لیے تیار کر رکھے ہیں۔ اب مزید دو باغوں کا تذکرہ ہے۔ جو اللہ نے اصحاب یمین کے لیے مخصوص کیے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے ومن دونھما جنتٰن اُن دو کے علاوہ دو مزید باغ ہوں گے جو پہلے مذکورہ باغوں سے کم تر درجہ کے ہوں گے ۔ فبایّ الاء ربکما تکذبٰن پس تم دونوں اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے۔ پھر ان باغوں کی تعریف میں فرمایا مدھا متٰن یہ دونوں گہرے سبز رنگ کے ہوں گے۔ اور جب سبز رنگ گہرا ہوجائے تو قدرے سیاہی مائل ہوجاتا ہے۔ یہ نہایت ہی سرسبز اور خوشنما باغ ہوں گے جن میں ہر چیز قرینے کے ساتھ رکھی ہوگی جو انسانی طبائع کے عین مطابق ہوگی۔ جنتی ان باغات کو پاکر بڑے مسرور ہوں گے۔ فرمایا فبایّ الاء ربکما تکذبٰن تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے۔ آگے ان باغات کے لوازمات کے متعلق فرمایا فیھما عینٰن نضاختن ان باغات میں دو ابلتے ہوئے چشمے ہوں گے۔ وہاں پانی کی کوئی کمی نہیں ہوگی۔ بلکہ پانی ہر وقت جاری وساری ہوگا۔ فبایّ الاء ربکما تکذبٰن تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کی تکذیب کروگے۔ اس کے علاوہ فیھما فاکھۃ و نخل و رمان ان باغوں میں پھل ، کھجوریں اور انار ہوں گے جنت کے پھلوں کو دنیا کے پھلوں کے ساتھ محض تشبیہ دی گئی ہے وگرنہ جنت کے میوہ جات بےمثال ہیں اور ہم ان کا تصور اس دنیا میں نہیں کرسکتے۔ ان کی رنگت ، خوشبو اور ذائقہ بہترین قسم کا ہوگا۔ کھجور اور انار کی خصوصیت اگرچہ کھجور اور انار بھی پھلوں میں شمار ہوتے ہیں مگر ان کو پھلوں کے ذکر کے بعد بطور خاص ذکر کیا گیا ہے۔ تاہم اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ دونوں پھل خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ کھجور کا درخت بڑی لمبی عمر پاتا ہے اور ہر سال پھل دیتا ہے۔ بعض ممالک میں یہ غذا کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے درخت سے برداشت کرنے کے بعد کھجور کا پھل تین تین سال تک خراب نہیں ہوتا۔ بلکہ قابل استعمال رہتا ہے۔ اس پھل میں شکر ، حرارت اور توانائی بیک وقت پائے جاتے ہیں اس لیے یہ پھل نہ صرف تفریح کے کام آتا ہے بلکہ اسانی جسم کی نشونما کے لیے بہترین غذا بھی ہے۔ اسی طرح انار بھی عجیب و غریب پھل ہے۔ اللہ نے اس کے دانوں کو مضبوط خول میں بند کرکے محفوظ بنا دیا ہے۔ عام طور پر ذائقے کے لحاظ سے انار کی تین قسمیں ہیں یعنی ترش ، میخوش اور شیریں۔ ترش انار سے چٹنی اور اچار تیار کیا جاتا ہے۔ میخوش انار سفراوی مریضوں کے لیے نہایت مفید ہے جب کہ شیریں انار تفریح طبع کے لیے عام استعمال ہوتا ہے۔ اس کے استعمال سے جسم میں صالح خون کا فی مقدار میں پیدا ہوتا ہے جو کہ جسمانی ساخت میں بڑا مفید ثابت ہوتا ہے۔ ان دونوں پھلوں کی ان خصوصیات کی بناء پر کھجور اور انار کو عرف عام اور محاورے میں پھل شمار نہیں کیا جاتا۔ چناچہ پھلوں کا اطلاق ان دو کے علاوہ باقی پھلوں پر ہوتا ہے۔ اسی بناء پر امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص قسم اٹھالے کہ وہ پھل نہیں کھائے گا اور پھر کھجور یا انار کھالے تو وہ شخص حانث نہیں ہوگا۔ اس کی مزید مثال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص سر نہ کھانے کی قسم اٹھاتا ہے اور پھر وہ چڑیا کا سر کھا لیتا ہے تو بھی اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی۔ کیونکہ عرفِ عام میں سر کا اطلاق بھیڑ ، بکری یا گائے بھینس کے سر پر ہوتا ہے۔ چڑیا کے سر پر نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص فرش پر نہ سونے کی قسم اٹھاتا ہے اور پھر وہ زمین پر سو جاتا ہے تو بھی قسم نہیں ٹوٹے گی۔ کیونکہ عرفِ عام میں فرش سے مراد بستر ہوتا ہے۔ حالانکہ اللہ نے زمین کو بھی فرش کہا ہے۔ بعض مفسرین کھجور اور انار کے پھلوں کے بطور خصوصی تذکرہ کی ایک اور توجیہہ بھی بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ ذکر تخصیص بعدالتعمیم ہے۔ یعنی عام پھلوں کا ذکر کرنے کے بعد ان کو ان کی خاص کیفیت اور فوائد کی وجہ سے علیحدہ بھی ذکر کردیا ہے اس کی مثال ترمذی شریف کی روایت میں ملتی ہے۔ صحابہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم (علیہ السلام) یحب الحلواء والعسل یعنی حضور ﷺ حلوہ اور شہد پسند فرماتے تھے۔ حلوہ تو ہر میٹھی چیز کو کہا جاتا ہے اور عربی زبان میں تمام مٹھائیاں حلوہ ہی کہلاتی ہیں۔ تو شہد بھی اگرچہ حلوہ میں داخل ہے مگر تخصیص کے لیے اس کا علیحدہ ذکر بھی کردیا گیا ہے۔ وجہ یہی ہے کہ اللہ نے شہد میں دوسری میٹھی چیزوں کی نسبت خصوصیت رکھی ہے۔ جیسے فرمایا فیہ شفاء للناس ( النحل۔ 69) اس میں لوگوں کے لیے اللہ نے شفا بھی رکھی ہے۔ اسی طرح پھلوں کے ذکر کے ساتھ کھجور اور انار کا ذکر اس کی خصوصیت کے وجہ سے کیا گیا ہے۔ ان تمام مادی چیزوں کا ذکر کرنے کے بعد اللہ نے پھر وہی بات دہرائی ہے۔ فبایّ الاء ربکما تکذبٰن اے جنوں اور انسانوں ! تم دونوں اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے ؟ عورتوں اور مردوں کی رفاقت اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لیے آخرت میں باغات جیسی بہترین رہائش اور وہاں پر حاصل ہونے والی خوردونوش کی بہترین اور با افراط چیزوں کا ذکر کرنے کے بعد ایک اور نعمت کا ذکر فرمایا ہے۔ انسان بالطبع مدنی ہے یعنی وہ مل جل کر رہنے کو پسند کرتا ہے اور اس اجتماعیت کی سب سے اہم صورت میاں بیوی کا اجتماع ہے۔ فطری طور پر مرد عورت کی اور عورت مرد کی ضرورت محسوس کرتی ہے کہ زندگی میں خوشگواری کی یہ بہترین صورت ہے۔ مستدرک حاکم کی روایت میں حضور ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ دنیاوی لحاظ سے انسان کی سعادت یہ ہے کہ اسے اچھا مکان ، اچھی سواری اور اچھی بیوی میسر آجائے۔ ان اشیاء کی خواہش انسان کے لیے اگلے جہان میں بھی بدستور قائم رہیگی۔ اسی خواہش کی تکمیل کیلئے اللہ نے فرمایا ہے۔ فیھن خیرٰت حسان جن باغات کا ذکر کیا جارہا ہے ان میں اچھی اور خوبصورت عورتیں بھی ہوں گی۔ اس نعمت پر بھی اللہ نے یاد دلایا ہے فبایّ الاء ربکما تکذبٰن تم دونوں اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے پھر آگے ان عورتوں کی تعریف بیان کی ہے حور مقصورٰت فی الخیام وہ ایسی گوری چٹی خوبصورت عورتیں ہوں گی جو خیموں میں روکی ہوئیں ہوں گی۔ ان کی خوبصورتی کے علاوہ ان میں یہ خصوصیت بھی ہے کہ اپنے اپنے خیموں کے اندر رہائش پذیر ہیں۔ نہ وہ باہر آتی ہیں اور نہ کسی غیر مرد پر ان کی نظر پڑتی ہے فبایّ الاء ربکما تکذبٰن تم دونوں اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے۔ آگے مزید وضاحت فرما دی کہ وہ ایسی باعصمت اور با حیا عورتیں ہیں کہ لم یطمثھن انس قبلھم ولاجان اس سے پہلے ان کو کسی انسان یا جن نے ہاتھ نہیں لگایا۔ اتنی پاکیزہ بیویاں اہل جنت کو ملیں گی۔ فبایّ الاء ربکما تکذبٰن پس اے جنو اور انسانو ! تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کی تکذیب کرو گے ؟ عصمت اور حیا ہی عورت کے حق میں کمال ہے۔ اور یہی چیزیں مرد کے لیے بھی ضروری ہیں۔ سورة نُور میں اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت دونوں کو حیا داری کی تلقین کی اور فرمایا ہے کہ دونوں اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ جنت میں دو قسم کی عورتیں ہوں گی ایک تو یہ حوریں جن کا ذکر ان آیات میں ہوا ہے۔ یہ نہایت ہی پاکیزہ اور باعصمت ہوں گی۔ اور اللہ تعالیٰ ان کو جنتی مردوں کے لیے جنت ہی میں پیدا فرمائے گا۔ ان کے علاوہ اس دنیا کی اہل ایمان اور نیکو کا رہ عورتیں بھی جنت میں ہوں گی جو حوروں سے بھی زیادہ حسین و جمیل ہوں گی۔ طبرانی شریف کی روایت میں حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حور عین کو زعفران جیسے پاکیزہ اور خوشبودار مادے سے پیدا کیا ہے۔ اور مفسر قرآن حضرت زید بن اسلم (رح) تابعی فرماتے ہیں کہ خلقھن من مسک وکافورٍ وزعفران اللہ نے جنتی حوروں کو کستوری ، کافور اور زعفران کے مادے سے پیدا کیا ہے حضرت عبداللہ بن مبارک (رح) کی روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان حوروں کو جنت ہی میں پیدا کریگا۔ یعنی یہ وہیں کی مخلوق ہوگی اور نہایت پاکیزہ ، خوبصورت اور با اخلاق مخلوق ہوگی۔ راحت کے دیگر سامان اس کے بعد اللہ نے جنت والوں کے آرام و آسائش کا ذکر فرمایا ہے۔ متکین علی رفرفٍ خضرٍ وہ سبز رنگ کے مسندوں پر تکیہ لگا کر بیٹھنے والے ہوں گے۔ رفرف کا معنی فرش بھی ہوتا ہے اور تکیہ بھی۔ اور ساتھ فرمایا وعبقریٍ حسانٍ اور نہایت نفسی قالینوں پر۔ عبقر کمال درجے کی چیز کو کہتے ہیں جس کی مثال موجود نہ ہو۔ تاہم عبقر کا اطلاق خود انسان پر بھی ہوتا ہے۔ عربی میں ہر اچھی اور نفیس چیز کو عبقر کہا جاتا ہے۔ کوئی خوبصورت ، نقش و نگار والا قالین یا فرش ہو تو اس کو عبقر ہی کہتے ہیں۔ دراصل عربوں میں مشہور تھا کہ عبقر جنات کا بنایا ہوا نہایت خوبصورت شہر ہے اس لیے وہ ہر اچھی چیز کو عبقر کہہ دیتے تھے۔ بہر حال فرمایا کہ اہل جنت نہایت عمدہ قسم کے قالینوں پر گائو تکئے لگا کر آرام کریں گے۔ پھر آگے وہی جملہ اکتیسویں بار دہرایا ہے۔ فبایّ الاء ربکما تکذبٰن پس اے جنو اور انسانو ! اللہ نے تمہیں اتنی بےمثال نعمتیں عطا فرمائی ہیں تو بتلائو اب تم اس کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے ؟ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں تو شمار سے باہر ہیں ، تم ان میں سے کس کس کا انکار کروگے ؟ مطلب یہ ہے کہ تم خواہش کے باوجود انکار کر ہی نہیں سکتے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ مذکورہ نعمتوں میں سے کچھ تو فی الواقعہ نعمتیں ہیں اور بعض سزا کی چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے اور ان چیزوں کا تذکرہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے تاکہ لوگ خرافات سے بچ جائیں اور آخرت کے عذاب سے خلاصی کرلیں۔ عظمت و جلال کبریائی سورة کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت و جلال کا ذکر کیا ہے جس نے انسانوں کو ان بیش قیمت نعمتوں سے نوازا ہے ارشاد ہوتا ہے تبرک اسم ربک بڑا ہی بابرکت ہے تیرے پروردگار کا نام۔ بعض فرماتے ہیں کہ یہاں پر اسم سے مراد صفت ہے ، یعنی تیرے رب کی صفات بڑی بابرکت ہیں۔ اور بعض فرماتے ہیں کہ یہاں پر لفظ اسم زائد ہے اور مطلب یہ ہے کہ تیرا پروردگار بڑا ہی بابرکت ہے جس نے انسانوں کے لیے مذکورہ نعمتیں پیدا کی ہیں۔ تاہم اس بھی درست ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسمائے پاک ہیں اور ان میں سے جس اسم کے ساتھ بھی اسے یاد کیا جاوے وہ راضی ہوتا ہے۔ فرمایا بڑی برکت والا ہے تیرے رب کا نام ذی الجلل والا کرام جو بڑی بزرگی اور عظمت والا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے الفاظ ہیں۔ لہٰذا اس کو ان الفاظ کے ساتھ یاد کرنا چاہئے اسی لیے حضور ﷺ نے نماز کے بعد یہ دعا پڑھنے کی ترغیب دلائی ہے اللھم انت السلم ومنک السلام تبرکت یا ذا الجلل والا کرام اے اللہ ! تو سلام ہے یعنی تیرا اسم پاک اور تیری صفت سلام ہے ، اور تجھ ہی سے سلامتی ہے۔ تو بڑی ہی برکت والا ہے اے بزرگی اور عظمت والے پروردگار۔ حضور ﷺ نماز سے فارغ ہو کر قعدے کی حالت میں بیٹھے بیٹھے یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ اللہ اکبر اور تین دفعہ استغفر اللہ بھی کہتے تھے۔ اور باقی دعائیں رخ پھیر کر پڑھتے تھے۔ واللہ اعلم
Top