Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 138
وَ قَالُوْا هٰذِهٖۤ اَنْعَامٌ وَّ حَرْثٌ حِجْرٌ١ۖۗ لَّا یَطْعَمُهَاۤ اِلَّا مَنْ نَّشَآءُ بِزَعْمِهِمْ وَ اَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُوْرُهَا وَ اَنْعَامٌ لَّا یَذْكُرُوْنَ اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهَا افْتِرَآءً عَلَیْهِ١ؕ سَیَجْزِیْهِمْ بِمَا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ
وَقَالُوْا
: اور انہوں نے کہا
هٰذِهٖٓ
: یہ
اَنْعَامٌ
: مویشی
وَّحَرْثٌ
: اور کھیتی
حِجْرٌ
: ممنوع
لَّا يَطْعَمُهَآ
: اسے نہ کھائے
اِلَّا
: مگر
مَنْ
: جس کو
نَّشَآءُ
: ہم چاہیں
بِزَعْمِهِمْ
: ان کے جھوٹے خیال کے مطابق
وَاَنْعَامٌ
: اور کچھ مویشی
حُرِّمَتْ
: حرام کی گئی
ظُهُوْرُهَا
: ان کی پیٹھ (جمع)
وَاَنْعَامٌ
: اور کچھ مویشی
لَّا يَذْكُرُوْنَ
: وہ نہیں لیتے
اسْمَ اللّٰهِ
: نام اللہ کا
عَلَيْهَا
: اس پر
افْتِرَآءً
: جھوٹ باندھتے ہیں
عَلَيْهِ
: اس پر
سَيَجْزِيْهِمْ
: ہم جلد انہیں سزا دینگے
بِمَا
: اس کی جو
كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ
: جھوٹ باندھتے تھے
اور کہا ( مشرکوں) نے یہ مویشی اور کھتی ممنوع ہیں۔ نہیں کھائے گا اس کو مگر وہ جس کو ہم چاہیں اپنے خیال کے مطابق۔ اور کچھ مویشی ہیں جن کی پشتوں پر سواری کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اور کچھ مویشی ایسے ہیں کہ جن پر وہ اللہ کا نام نہیں کرتے ، اللہ پر افتراء کرتے ہوئے ضرور ان کو بدلہ دیگا اللہ ان باتوں کا جو کچھ جھوٹ باندھتے
گذشتہ آیات کی طرح یہ آیات بھی شرک ہی سے متعلق ہیں ان آیات میں بھی عملی شرک ہی کا بیان ہے۔ مشرکین عرب نے جو رسومات باطلہ ایجاد کر رکھی تھیں اللہ تعالیٰ نے ان کا رد فرمایا ہے ، وہ لوگ دو طرح کے نذر و نیاز دیتے تھے ، ایک اللہ کے نام پر اور دوسری معبودان باطلہ کے نام پر اور پھر اللہ کے حصے کی زیادہ پرواہ نہیں کرتے تھے مگر غیر اللہ کی نذر کے لیے خاص اہتمام کرتے تھے اور اس پر کسی قسم کی کمی نہیں آنے دیتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ قتل اولاد کا ذکر بھی ہوچکا ہے۔ کہ وہ لوگ اولاد کو مختلف حیلوں سے قتل کردیتے تھے۔ کبھی ننگ و ناموس کے نام پر اور کبھی معاشی تنگدستی کے پیش نظر گر سب سے بڑی قباحت یہ تھی کہ وہ بچوں کو معبودان باطلہ کی بھینٹ چڑھا دیتے تھے اور ان کی خوشنودی کیلئے بچوں کو قتل کردیتے تھے اللہ تعالیٰ نے ایسی تمام قبیح رسوم کا رد فرمایا ہے۔ اب آج کی آیات میں بھی عملی شرک کی بعض صورتوں کا تذکرہ ہے۔ وہ اپنی پیداوار کا کچھ حصہ خاص لوگوں کے لیے رکھ لیتے تھے اور اس میں سے ان کی مرضی کے خلاف کسی کو کھانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ بعض جانوروں کی سواری ممنوع قرار دیتے تھے اور بعض جانوروں کا گوشت مردوں کے لیے حلال اور عورتوں کے لیے حرام قرار دے دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس خود ساختہ شریعت کی تردید فرمائی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے وقالوا ھذہ انعام وحرث حجر اور مشرکوں نے کہا کہ یہ کچھ مویشی اور کچھ کھیتی ہے جو کہ ممنوع ہے ، ہم نے اس کو روک رکھا ہے لایطعمُھا الا من نشاء بزعمھم اس کو کوئی نہیں کھا سکتا سوائے اس کے کہ جسے ہم اپنے خیال کے مطابق چاہیں یہ رسم انہوں نے اپنے مذہبی راہنموں کے ایمان پر قائم کر رکھی تھی کیونکہ ایسی چیزیں صرف انہی کے لیے مخصوص ہوتی تھیں۔ عام آدمی ، غریب محتاج یا فقیر اس کو استعمال نہیں کرسکتا تھا۔ یہ صرف گدی نشینوں کا حق تصور کیا جاتا تھا۔ اس قسم کے رسوم مشرکین عرب کے علا وہ بعض دوسری اقوام میں بھی پائی جاتی تھیں۔ یہاں ہندوئوں میں بھی اس قسم کے عقائد پائے جاتے ہیں کہ بعض چیزیں صرف برہمن ہی استعمال کرسکتے ہییں ، کوئی دوسرا ان کو ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ ان کی دیکھا دیکھی یہ چیزیں مسلمانوں میں بھی آگئی ہیں ، چناچہ دہلی والے حضرت بی بی فاطمہ ؓ کی صحنک کے نام سے نیاز دیتے ہیں۔ اس کا ذکر حضرت مولانا شاہ اسماعیل شہید (رح) نے اپنی کتاب تقریۃ الایمان میں بھی کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ بی بی کی صحنک پر یہ پابندی ہے۔ کہ اسے نہ تو مردکھا سکتے ہیں ، نہ لونڈی اور نہ دوخصمی عورت۔ یہ بالکل ویسی ہی پابندی ہے۔ جیسے مشرکین عرب نے از خود قائم کر رکھی تھی۔ اسی طرح 22 رجب کو امام جعفر صادق (رح) کے نام پر پکائے جانے والوں کو نڈوں پر بھی بعض پابندیاں عائد ہیں مثلاً کہ اس کا کھانا سورج نکلنے سے پہلے پہلے ضروری ہے۔ اور یہ چھت کے نیچے ہونا چاہئے۔ کھلی جگہ پر کھانا درست نہیں ہے۔ اور اس کھانے کو گر سے باہر بھی نہیں نکال سکتے۔ بلکہ جس کسی کو کھلان مقصود ہے اسے گھر بلا کر کھلانا ضروری ہے۔ یہ سب خود ساختہ پابندیاں ہیں اور ان مشرکین کا اتباع ہے جن کا ذکر اس آیت کریمہ میں کیا گیا ہے۔ مشرکین نے جس طرح بعض اشیاء کا کھانا اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا اس طرح بعض جانوروں پر سواری بھی نہیں کرتے تھے۔ چناچہ ارشاد ہے اونعام حرمت ظھور ھا اور بعض جانوروں کی پشتوں پر سواری حرم قرار دے رکھی تھی۔ وہ بھی نیاز کے جانور ہوتے تھے جن پر سواری نہیں کرتے تھے سورة مائدہ میں اس کا تفصیل سے ذکر آچکا ہے ” ماجعل اللہ من بحیرۃ ولا سائبۃ ولا و صیلۃ ولا حام یعنی اللہ تعالیٰ نے کوئی بحیرہ سائبہ ، وصیلہ اور حام مقرر نہیں کیے بلکہ یہ مشرکین کی اپنی ذہنی اختراع ہے ۔ بحیرہ اس مادہ جانور کو کہتے تھے جس کا دودھ نذر کے طور پر وقف کردیتے تھے اور اس کو کوئی عام مرد و زن نہیں پی سکتا تھا۔ سائبہ وہ اونٹ یا بیل وغیرہ ہوتا تھا جسے معبودان باطلہ کی نذر کے طور پر آزاد کردیا جاتا تھا۔ اس جانور پر نہ تو سوری کرتے تھے اور نہ کسی دیگر کام میں لاتے تھے۔ یہ اپنی مرضی سے حسب خواہش چلتا پھرتا رہتا تھا اور جہاں سے چاہے کھاتا رہتا تھا ، کوئی اس کو روکتا ٹوکتا نہ تھا کیونکہ وہ نیاز کا سانڈھ کہلا تھا ۔ اس قسم کا وہم ہندوئوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ وہ بھی بھیوانی دیوی کے نام بیل کو کھلا چھوڑ دیتے ہیں اور کوئی شخص اس سے تعرض نہیں کرتا ۔ وصیلہ ایسے مادہ جانور کو کہتے تھے جو ایک مقررہ تعداد میں لگا تار مادہ بچے جنے۔ جب وہ تعداد پوری ہوجاتی تھی تواسے نیاز کے طور پر کھلا چھوڑ دیتے تھے اور اس سے کوئی کام نہیں لیتے تھے۔ حام کا معنی بچانے والا ہوتا ہے اور اس سے مراد یہ ہوئی تھی کہ اس جانور نے اپنی پشت کو سواری سے بچا لیا ہے۔ اب کوئی شخص اس پر سواری نہیں کرسکتا۔ ، مثلاً جس اونٹ کی جفتی سے دس بچے پیدا ہوجائیں ، اس کے بعد اس کو سواری کے لیے استعمال نہیں کرتے تھے۔ اس آیت کریمہ میں بھی یہی ہے کہ وہ کہتے تھے کہ بعض جانوروں پر سواری حرام قرار دے دی گئی ہے۔ فرمایا وانعام لا یذکرون اسم اللہ علیھا بعض جانور ایسے تھے کہ مشرکین ان پر اللہ کا نام نہیں لیتے تھے۔ نہ دودھ دوہتے وقت اللہ کا نام لیتے تھے ، نہ سواری کرتے وقت اور نہ ہی ذبح کرتے وقت البتہ غیر اللہ کا نام ضرور لیتے تھے جیسے لات ، مناۃ ، عزٰی وغیرہ یعنی یہ ان کی نذر و نیاز ہے۔ ہندوستان میں بھی اس قسم کا تخیل پایا جاتا ہے جیسے شیخ سدھو کا بکرا مشہور ہے۔ حضرت سالار مسعود غازی (رح) بڑے بزرگ ہوئے ہیں ، جہاد کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے ، ان کے مزار پر ان کے نام کی گائے نذر کی جاتی ہے اسی طرح پیر ان پیر کی گیارہویں کو بہت زیادہ شہرت حاصل ہوئی ہے ۔ ان کے نام پر دودھ ، کھانا ، جانور وغیرہ ان کے تقرب اور خوشنودی کے لیے دیا جاتا ہے۔ تاکہ کسی ممکنہ نقصان سے بچ جائیں۔ اگر یہ نیاز دی تو کھیتی یا پھلوں یا مویشیوں میں نقصان ہوجانے کا خطرہ محسوس کیا جاتا ہے یہی شر ک ہے کہ نفع نقصان کا مالک اللہ کی بجائے ان بزرگوں کو سمجھ لیا جاتا ہے اور پھر انکی رضا کے لیے ان کے نام پر نیاز دی جاتی ہے۔ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ جن چیزوں کو پیدا کرنے والا اللہ وحدہ لاشریک ہے ان چیزوں پر اسی کا نام لینے سے بچتے تھے اور غیر اللہ کا نام لیتے تھے۔ اور اس سے بڑا ظلم یہ تھا کہ وہ اس چیز میں اللہ کی رضا کے دعویدار تھے۔ گویا اللہ کی بجائے غیر اللہ کا نام لینے کا حکم خود خدا تعالیٰ نے دیا ہے افتراء علیہ یہ تو اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا افتراء ہے۔ اس نے تو ایسا حکم نہیں دیا اور نہ وہ ان باتوں سے راضٰ ہوتا ہے بلکہ یہ تو صریحا شرک ہے۔ جس کی عدم معافی کا اللہ نے واضح اعلان فرما دیا ہے ایسے شرکیہ عقائد کو اللہ کی طرف منسوب کرنے والا مفتری ہے ، اللہ نے فرمایا سیجزھم بما کانو یفترون ایسے لوگوں کو اللہ تعالٰ ضرور سزا دیگا جو اس پر افتراء باندھتے ہیں۔ اس کے نام پر جھوٹی باتیں منسوب کرتے ہیں۔ یہ تو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہے۔ مذہبی راہنمائوں نے سادہ لوح لوگوں کو اس قسم کے توہمات میں جکڑا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ضرور عذاب میں مبتلا کریگا۔ آگے اللہ نے مشرکین کا ایک اور خود ساختہ مسئلہ بھی بیا فرمایا وقالوا وہ کہتے ہیں۔ مافی بطون ہزہ الانعام خالصۃ لذکورنا یعنی ان جانوروں کے پیٹ میں جو کچھ ہے وہ خالص ہمارے مردوں کے لیے ہے۔ و محرم علی ازواجنا اور ہماری عورتوں کے لیے حرام ہے اور وہ خاص جانور وہ ہوتے تھے جنہیں بحریہ ، سائبہ وصیلہ اور حام وغیرہ کی صورت میں آزاد کردیا جاتا تھا۔ ان سے پیدا ہونے والے بچوں کا گوشت صرف مرد کھا سکتے تھے ، عورتوں کے لیے ممنوع تھا۔ ہاں البتہ اتنی رعایت دے رکھی تھی وان یکن میتۃ اگر مردہ بچہ پیدا ہوتا فھم فیہ شرکاء تو اس کی حلت مرد زن سب شریک ہوتے ۔ یہ بھی ایسی ہی پابندی تھی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہرگز نہ تھی اور نہ اس میں اس کی رضا شامل تھی ، بلکہ یہ محض مشرکین کی خود ساختہ شریعت کا حصہ تھا۔ اکثر رسومات باطلہ اور بدعات اسی قبیل سے ہوتی ہیں ۔ اللہ نے فرمایا سیجزیھم وصفھم ہم انہیں اس بیان کا ضرور بدلہ دیں گے۔ انہوں نے از خود نئی شریعت وضع کی ہے۔ غلط رسوم کو رواج دیا ہے اور اللہ پر جھوٹ باندھا انہیں اسکی لازماً سزا ملیگی۔ اللہ نے تو فرمایا ہے کہ اللہ کا نبی مومن ” علی بصیرۃ “ بصیرت پر ہیں۔ مگر انہوں نے اپنی طرف سے بغیر ماخذ اور سند کے اختراعات ایجاد کرلی ہیں ۔ انہیں اس دیدہ دلیری کا مزہ چکھنا پڑے گا۔ اسی سورة میں آگے بھی آرہا ہے ” ھل عند کم من علم فتخرجوہ لنا کیا تمہارے پاس کوئی ایسا علم ہے جسکی بناء پر شریعت نکالتے ہو ۔ علم کا قطعی ذریعہ تو وحی الٰہی ہے جو انبیاء کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ کیا تمہارے پاس کوئی ایسی دلیل ہے یا تم نے کسی صاحب عقل آدمی سے کوئی چیز حاصل کی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی اخترعات کے پیچھے دلیل نہیں ہوتی۔ نہ قرآن و سنت سے ماخوذ ہوتی ہیں اور نہ یہ ائمہ مجتہدین کی کسی دلیل پر مبنی ہوتی ہیں۔ فقہ کے ماخذ تو چار ہی ہیں قرآن ، سنت اور اجماع اور قیاس جب پہل تین ماخذ سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا تو پھر اہل علم قیاس کے ذریعے اس کا حل بتاتے ہیں اور ساتھ وہ آیت یا حدیث رسول بھی بتاتے ہیں جس سے وہ دلیل پکڑتے ہیں۔ مگر تمہارے رسومات اور بدعات تو بلا دلیل اور خود ساختہ ہیں۔ یہ محض آبائو اجداد کی اندھی تقلید کے سواء کچھ نہیں ۔ تم کہتے ہو ” وجد نا علیہ آبائنا “ ہم نے اپنے آبائو اجداد کو ایسا ہی پایا ، مگر اللہ تعالیٰ نے بھی جواب دیدیا ” اولو کان ابائو ھم لایقلون شیئا ولا یھتدون “ (البقرۃ) اگر ان کے ابائو اجداد بےعقل اور راہ ہدایت سے محروم ہوں۔ اس سے زیادہ بےوقوفی کی کیا بات ہو سکتی ہے کہ محض آبائو اجداد کے افعال کو دلیل پکڑا جائے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو اس بیان کی وجہ سے ضرور سزادے گا۔ انہ حکیم علیہم وہ حکیم ہے ۔ حکمت کے ساتھ مہلت دیتا ہے اور جلدی گرفتار نہیں کرتا ۔ وہ علیم بھی ہے ۔ اس کو علم ہے کہ کون شخص کیا کرتا ہے۔ وہ ہر باطل رسوم کے پجاری اور غیر اللہ کی نذر و نیاز کے حامی کو جانتا ہے۔ اس سے کوئی چز پوشیدہ نہیں ہے۔ قتل اولاد کا ذکر گذشتہ درش میں ہوچکا ہے۔ کہ مشرکین کی مذہبی پروہت اسے مزین کر کے دکھاتے تھے جس کی وجہ سے وہ اولاد کو معبودان باطلہ کے نام پر قربان کردیتے تھے۔ اس کے متعلق اللہ کا ارشاد ہے۔ قد خسر الذین قتلو اولادھم سفھام بغیر علم نقصان میں پڑے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو قتل کیا بیو قوفی سے اور بغیر علم کے ۔ ننت و ناموس کی خاطر بچیوں کا زندہ درگور کرنا یا معاشی بنیاد پر بچوں کا مطلقا قتل یا ان کو معبودان باطلہ کے نام پر بھینٹ چڑھا دینا انتہا درجے کی بیوقوفی اور علم سے بےبہرگی کا نتیجہ تھا۔ اس کا نقصان بالکل واضح ہے۔ اولاد سے محرومی ظاہری دنیا میں عظیم نقصان ہے اور دوسرا نقصان یہ ہے کہ ایک غلط کام اچھا اور نیکی سمجھ کر کر رہے ہیں۔ ایسے کاموں سے اللہ تعالیٰ خوش کیو ہوگا ؟ وہ تو سخت ناراض ہوتا ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ ایسے لوگ خسارے میں پڑگئے۔ ایک اور نقصان یہ بھی ہے وحرمواما رزقھم اللہ جو رزق اللہ نے انہیں دیا ہے اسے اپنے آپ پر حرام قرار دے لیا ہے۔ اللہ کی عطاکی ہوئی روزی سے محروم رہنا بھی کتنی بڑی بد نصیبی اور کتنا بڑا نقصان ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ یہ لوگ گھاٹے میں پڑگئے۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ وھر مو اما رزقھم اللہ سے اولاد بھی مرد لی جاسکتی ہے۔ یعنی جو اولاد اللہ تعالیٰ کسی شخص کو دیتا ہے یا دنیا پر چاہتا ہے۔ اس کو اپنے آپ پر حرام قرار دے لیتے ہیں اور اولاد کی پیدائش میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ انفرادی سطح پر بھی ہوتا ہے اور اجتماعی سطح پر بھی برتھ کنٹرول کے لیے بڑے بڑے منصوبے بنائے جاتے ہیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ سے عطا ہونے والی اولاد کو لینے سے انکار کیا جاتا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی کسی سکیم کا مقابلہ کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ اور لاد اعلیٰ کی لعنت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ پیدائش روکنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ کبھی عورت کو مانع حمل گولیاں کھلا کر اور کبھی بچہ دانی کا آپریشن کر کے حمل کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ عمل ایک طرف سے آیت کریمہ کی زد میں آتا ہے اور دوسری طرف بےحیائی کو فروغ دیتا ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے۔ کہ کثیر آبادی کی خوراک کی ضروریات پوری نہیں کی جا سکتیں ، حالانکہ رزق کے تمام ذرائع اللہ تعالیٰ نے اپنے قبضے میں رکھے ہیں۔ ان پر کسی کو تصرف کا اختیار نہیں دیا۔ سرۃ الذٰریٰت میں ارشاد ہے ” ان اللہ ھوالرزق ذوالقوۃ المتین “ مضبوط طاقت کا مالک وہی رزاق ہے۔ تمہارا فرض یہ ہے کہ اس کے دیے ہوئے رزق کو صحیح طریقے سے خرچ کرو۔ ادھر ایک طرف تو برتھ کنٹرول کی ترغیب دی جاتی ہے اور دوسری طرف دن میں چھ چھ مرتبہ جانوروں کی طرح بےتحاشا کھایا جاتا ہے۔ تم الل کی گدی پر بیٹھ کر رزاقیت کے مالک بنتے ہو اور سمجھتے ہو کہ ہماری جاری کردہ سکیموں کے ذریعے رزق حاصل ہوگا۔ یہ تو حماقت ہے تمہارے پاس جو کچھ ہے اسے منصفانہ طریقے سے تقسیم تو کرو اور پھر دیکھو کہ وسائل رزق کس طرح مہیا ہوتے ہیں۔ اچھی تعلیم اور اچھی ملازمتیں بڑے لوگوں کے لیے مخصوص کردی جائیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی سے غریب طلبا کو محروم کردیا جائے۔ با صلاحیت بچوں کے داخلے پر قدغن لگا دی جائے تو روزگار کا بہائو نیچے کی طرف کیسے آسکتا ہے۔ یہ اسی امتیازانہ سلوک کا نتیجہ ہے کہ امیروں کے بد کار بچے ڈگریاں حاصل کر کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں۔ اور غریب آدمی کو مزدوری تک نہیں ملتی۔ یہ سب غیر منصفانہ تقسیم کا نتیجہ ہے۔ اللہ نے تو واضح طور پر فرما دیا ہے ” وکاین من دابۃ لا تحمل رزقھا “ کتنے جانور ہیں جو اپنا رزق اپنی پشت پر اٹھائے نہیں پھرتے ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ یرذقھار “ (عنکبوت) ان کو رزق اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتا ہے۔ دیکھیں یہ چرند ، پرند ، درند ، کیڑے مکوڑے کہاں سے روزی حاصل کرتے ہیں ، اللہ نے سب کے لئے انتظام کر رکھا ہے اور تمہاری روزی کے اسباب بھی وہی پیدا فرماتا ہے۔ جہاں تک قتل اولاد کا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے ” ولاتقتلوا اولادکم من الاق “ (الانعام) اپنی اولاد کو رزق کی کمی کی وجہ سے قتل نہ کرو۔ حقیقت یہ ہے ” نخن نرزقکم وایاھم (الانعام) رزق ان کو بھی لازمی ہم دیتے ہیں اور تمہیں بھی لہٰذا اس بناء پر اولاد کو قتل کرنا یا اولاد کی پیدائو میں رکاوٹ ڈالنا اللہ تعالیٰ کے تصرف میں دخل اندازی کے مترادف ہے۔ اللہ جل جلالہ ، اپنی حکمت کے مطابق ہر ذی جان کو رزق پہنچاتا ہے کسی کو کم دیتا ہے اور کسی کو زیادہ عطا کرتا ہے۔ ” ولوبسط اللہ الرزق لعباد لبغوا فی الارض “ (الشوریٰ ) اگر سب کا رزق اللہ تعالیٰ کشادہ کردیتا تو یہ سب دنیا میں فتنہ و فساد کا بازار گرم کرتے ۔ یہ اللہ تعالٰ کی حکمت ہے کہ کسی کو رزق میں وسعت دیتا ہے اور کسی کا روک لیتا ہے تاکہ دنیا میں امن وامان قائم رہ سکے۔ فرمایا انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ چیز کو اپنے آپ پر حرام قرار دے لیا ” افترء علی اللہ “ اللہ تعالیٰ پر افتراء کرتے ہوئے۔ بچوں کی بھینٹ کو خدا تعالیٰ کی خوشنود پر محمول کرتے تھے جو کہ اللہ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے ، فرمایا قد لو ا یہ گمراہ ہوگئے وما کانو ا مھتدین اور یہ ہرگز ہدایت پر نہیں ہیں بلکہ گمراہی میں پھنسے ہوئے ہیں آگے چل کر ان کو ان کی کارکردگی کا ضرور بدلہ مل جائیگا۔
Top