Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 19
قُلْ اَیُّ شَیْءٍ اَكْبَرُ شَهَادَةً١ؕ قُلِ اللّٰهُ١ۙ۫ شَهِیْدٌۢ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْ١۫ وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَ مَنْۢ بَلَغَ١ؕ اَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُوْنَ اَنَّ مَعَ اللّٰهِ اٰلِهَةً اُخْرٰى١ؕ قُلْ لَّاۤ اَشْهَدُ١ۚ قُلْ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَّ اِنَّنِیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَۘ
قُلْ : آپ کہ دیں اَيُّ : کونسی شَيْءٍ : چیز اَكْبَرُ : سب سے بڑی شَهَادَةً : گواہی قُلِ : آپ کہ دیں اللّٰهُ : اللہ شَهِيْدٌ : گواہ بَيْنِيْ : میرے درمیان وَبَيْنَكُمْ : اور تمہارے درمیان وَاُوْحِيَ : وحی کیا گیا اِلَيَّ : مجھ پر هٰذَا : یہ الْقُرْاٰنُ : قرآن لِاُنْذِرَكُمْ : تاکہ میں تمہیں ڈراؤں بِهٖ : اس سے وَمَنْ : اور جس بَلَغَ : وہ پہنچے اَئِنَّكُمْ : کیا تم بیشک لَتَشْهَدُوْنَ : تم گواہی دیتے ہو اَنَّ : کہ مَعَ : ساتھ اللّٰهِ : اللہ اٰلِهَةً : کوئی معبود اُخْرٰي : دوسرا قُلْ : آپ کہ دیں لَّآ اَشْهَدُ : میں گواہی نہیں دیتا قُلْ : آپ کہ دیں اِنَّمَا : صرف هُوَ : وہ اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : یکتا وَّاِنَّنِيْ : اور بیشک میں بَرِيْٓءٌ : بیزار مِّمَّا : اس سے جو تُشْرِكُوْنَ : تم شرک کرتے ہو
اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے ‘ کونسی چیز بڑی ہے گواہی کے اعتبار سے پھر آپ کہہ دیں کہ اللہ ہی ہے۔ گواہ ہے میرے اور تمہارے درمیان۔ اور وحی کیا گیا ہے میری طرف یہ قرآن ‘ تا کہ میں ڈرائوں تم کو اس کے ساتھ اور جس تک یہ پہنچے (اس کو بھی ڈرائوں) کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ دوسرے بھی معبود ہیں۔ اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے میں اس بات کی گواہی نہیں دیتا۔ آپ کہہ یجئے بیشک وہ ایک ہی معبود ہے اور میں بیزار ہوں ان چیزوں سے جن کو اس کے ساتھ تم شریک بناتے ہو۔
گواہی بحق رسالت گزشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ مشرکین حضور ﷺ کی نبوت و رسالت میں تردرد تھے اور فرشتہ اترنے اور لکھی لکھائی کتاب نازل ہونے کا مطالبہ کرتے تھے۔ مگر اللہ نے ان کے مطالبہ کو باطل قرار دیا اور فرمایا کہ اگر ان کی فرمائش پوری بھی کہہ دی جائے تب بھی یہ اسی شک میں پڑے رہیں گے اور ایمان نہیں لائیں گے۔ منجملہ دیگر اعتراضات کے مشرکین مکہ یہ بھی سوال کرتے تھے کہ حضور خاتم النبین ﷺ کی نبوت کی گواہی کون دیتا ہے ‘ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے ای ئی اکبر شھادۃ سب سے بڑی گواہی کس کی ہو سکتی ہے ؟ پھر خود ہی اس کا جواب دیا قل اللہ وقف آپ کہہ دیں کہ سب سے بڑی گواہی تو اللہ ہی کی ہے شید بینی و بینک وہی اللہ میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے۔ مطلب یہ کہ جب یہ چیز واضح ہوچکی ہے کہ نفع نقصان کا مالک اور تمام بندوں پر غلبہ رکھنے والا وہی ہے ‘ علم و حکمت والا ‘ خالق ‘ متصرف اور معبود برحق وہی ذات ہے ‘ تو پھر میری نبوت و رسالت کا گواہ بھی وہی ہو سکتا ہے۔ اس سے بڑھ کر کون سی شہادت ہو سکتی ہے یہ گویا مشرکین کے اعتراض کا جواب ہے۔ انداز و تبشیر پھر فرمایا و اوحی الی ھذا القرآن اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کو بذریعہ وحی میری طرف نازل کیا ہے ‘ لہٰذا میری نبوت اور رسالت کا سب سے بڑا گواہ وہی ہے اور اس قرآن پاک کے نزول کی غرض وغایت یہ ہے لا نذرکم بہ تا کہ میں اس کے ذریعے تمہیں ڈرائوں ‘ خبردار کر دوں ‘ قرآن پاک سرزمین عرب میں شہر مکہ میں نازل ہونا شروع ہوا ‘ لہٰذا اس کے اولین مخاطبین بھی مشرکین مکہ ہی ہیں۔ اور ہر نبی کا یہی مشن رہا ہے کہ سب سے پہلے اپنے اردگرد کے لوگوں کو ہی اللہ کا پیغام سناتے ہے ہیں۔ سورة یوسف میں ہے ” انا انزلنہ قرآن عربیا لعلک تعقلون “ ہم نے قرآن پاک کو عربی زبان میں نازل کیا تا کہ تم عرب لوگ اس کو سمجھ سکو۔ پھر حضور ﷺ کو یہ بھی حکم ہوا ‘ ” وانذر عشیرتاک الاتربین “ (الشعدائ) آپ اپنے بھائی بندوں کو خبردار کردیں غرضیکہ حضور ﷺ سے یہ بھی کہلوایا کہ یہ قرآن پاک میری طرف اس لئے وحی کیا گیا ہے تا کہ میں تم کو برے انجام سے خبردار کردوں۔ اگر خدا کی وحی پر ایمان نہیں لائو گے تو پھر اس کی گرفت میں آ جائو گے۔ انداز وتبشیر تمام انبیاء کی بعشت کا مقصد رہا ہے ۔ کہیں ترہیب اور ترغیب کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں یعنی برائیوں سے ڈرانا اور نیکیوں کی ترغیب دینا۔ ادھر تبشیر کا معنی بشارت سنانا ہے۔ جیسے فریاد رسلاً مبشرین و منذرین (النسائ) ہم نے بشارت سنانے والے اور ڈرانے والے رسول مبعوث کئے۔ جو شخص ایمان قبول کرتا ہے اور نیکی کا راستہ پکڑتا ہے اس کو بشارت دیتے ہیں ” بان لھم قدم صدق عند ربھم “ ۔ (یونس) کہ ان کے لئے اپنے رب کے ہاں سچا پایا ہے۔ فلاح اور کامیابی ہے۔ یہی تبسیر ہے اسی طرح انداز کے متعلق سورة مدثر میں فرمایا ” یایھا المدثر قم فانذر “۔ اے چادر اوڑھنے والے ! اٹھ کھڑے ہوں اور ان کو ڈرائیں۔ یہ آپ کے فرائض منصبی میں داخل ہے کہ لوگوں کو ان کے برے انجام سے خبردار کردیں۔ انہیں بتا دیں کہ کفر اور شرک کرنے والوں کا انجام ہم یہ برا ہوتا ہے اسی سورة میں گزرچکا ہے کہ ان کو توجہ دلائیں۔ ” کم اھلکنا من قبلھم من قرن “ کہ ہم نے اس سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کردیا ‘ وہ بھی کفر اور شرک جیسی مہلک بیماریوں میں مبتلا تھے بہرحال یہاں پر فرمایا کہ اے پیغمبر ! آپ ان کو بتا دیں کہ میری طرف یہ قران اس لئے نازل کیا گیا ہے کہ میں تمہیں خبردار کر دوں۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ قرآن پاک کے اولین مخاطبین عرب کے لوگ تھے جن کی زبان میں قرآن نازل ہوا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ ” وما ارسلنامن رسول الا بلسان قومہ “۔ (سورۃ ابراھیم) ہم نے ہر سول کو اس کی قوم کی زبان میں بھیجا۔ تا کہ اپنے اولین مخاطبین کو خبردار کرے۔ ومن بلغ اور ان لوگوں کو بھی خبردار کرے جن تک یہ قرآن پہنچے ‘ گویا حضور کی نبوت کے فراض میں داخل ہے کہ قرآن پاک کا پیغام دنیا میں جہاں کہیں پہنچے ‘ ان سب کو خبردار کردیں۔ اس لحاظ سے حضور خاتم النبین ﷺ کی نبوت و رسالت قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے۔ آپ تمام اقوام عالم کے انسانوں بلکہ جنات کے لئے بھی اللہ کے رسول بن کر آئے ہیں۔ مریضہ تبلیغ تبلیغ دین کا کام حضور نبی کریم (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کیا ‘ پھر آپ کے بعد یہ کام صحابہ ؓ نے کیا ‘ پھر تابعین اور تبع تابعین یہ فریضہ انجام دیتے رہے اور جوں جوں فرزندان توحید کا حلقہ وسیع ہوتا چلا گیا قرآنی تعلیمات کو آگے پہنچانے کا کام طبقہ در طبقہ ہوتا رہا۔ چناچہ اب اس آخری امت کے ہر فرد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دین کے احکام دوسروں تک پہنچائے ‘ چناچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” و کذلک جعلنکم امۃ وسطاً “ ہم نے تمہیں امت وسطیٰ (افضل امت) بنایا لتکونوا شھداء علی الناس “ تا کہ تم لوگوں پر گواہ بن جائو کہ ہم نے اللہ کے احکام ان تک پہنچا دیئے۔ مفسر قرآن محمد بن کعب قرظی (رح) فرماتے ہیں۔ من بلغہ القرآن فقد رامی محمدا۔ یعنی جس کے پاس قرآن پاک پہنچ گیا ‘ اس نے گویا خود حضور ﷺ کو دیکھ لیا کیونکہ آپ کا معجزہ اور آپ کا من اور آپ کی غرض وغایت یہی قرآن حکیم ہے۔ ہشام بن عامر نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے حضور ﷺ کے اخلاق کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا ‘ کیا تو نے قرآن نہیں پڑھا ؟ عرض کیا ‘ قرآن تو میں پڑھتا ہوں ‘ فرمایا ‘ تو پھر یہی قرآن محمد ﷺ کا اخلاق ہے۔ مقصد یہ ہے کہ قرآن پاک کی تعلیمات کا عملی نمونہ حضور ﷺ کی ذات مبارکہ ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا قرآن پاک کا پیغام ج شخص تک پہنچ جائے اس کا فرض ہوجاتا ہے کہ وہ اسے آگے دوسروں تک پہنچائے ‘ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے پہلے خود حضور ﷺ کو تاکید فرمائی۔ ” بلغ ما انزل الیک من ربک “ (المائدہ) جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ‘ اسے آگے پہنچا دیں۔ اور پھر حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا بلغوا عنی ولو کان ایتہ مجھ سے لے کر دوسروں تک پہنچائو ‘ خواہ وہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو ‘ اس سے بھی خاطر خواہ فائدہ ہوگا اور پھر حجتہ الوداع کے موقع پر تقریباً سوا لاکھ صحابہ ؓ کو خطاب کرتے ہوئے آپ (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا تھا الا فلیبغ الشاھد الغائب فرب مبلغ اوعی من سامع سنو ! جو لوگ یہاں موجود ہیں انہیں چاہئے کہ یہ باتیں غیر حاضروں تک پہنچا دیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر موجود شخص تم سے زیادہ سمجھنے اور محفوظ رکھنے والا ہو۔ بہرحال فرمایا کہ یہ امانت تم تک پہنچا دی ہے ‘ اس کو آگے پہنچانا اب تمہاری ذمہ داری ہے۔ 1 ؎ سنن دارمی ص 111 ج 1 و ترمذی ص 283 ۔ 2 ؎ بخاری ص 61 ج 1 (فیاض) تین اہم نصائح حدیث شریف میں آتا ہے ‘ اللہ کے رسول نے فرمایا ‘ تین باتیں ایسی ہیں کہ مومن کا دل کبھی ان سے حسد اور کینہ نہیں کرسکتا۔ فرمایا پہلی بات اخلاص العمل للہ اللہ کی خاطر عمل میں اخلاص ہو۔ اگر اخلاص میں خرابی آگئی تو عمل برباد ہوجائے گا ‘ لہٰذا ایک مومن کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کے عمل کا اخلاص ضائع نہ ہو ‘ مومن اس بارے میں اپنے دل میں کبھی کھوٹ نہیں رکھے گا۔ فرمایا دوسری بات والنصیحتہ للمسلمین ہے ہر مومن کو دوسرے مون کی خیر خواہی مطلوب ہوتی ہے۔ اگر اس ضمن میں بھی اس کے دل میں کوئی میل آگئی تو اس کے ایمان میں خرابی آجائے گی ‘ گویا ہر مسلمان کے حق میں خیرخواہی ضروری ہے۔ اس کے متعلق حضرت جریر بن عبداللہ بجلی ؓ کی روایت بھی صیحین میں موجود ہے ‘ وہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے مجھ سے اس بات کی بھی بیعت لی والنصح لکل مسلم کہ میں ہر مسلمان کی خیر خواہی کروں بہرحال حضور ﷺ نے فرمایا تیسری اہم بات لزوم جماعتہ ہے۔ مسلمانوں کی جماعت کو مضبوط رکھنا یعنی اتفاق و اتحاد کی فضا کو برقرار رکھنا بھی مسلمان کے لئے ضروری ہے کیونکہ من شذ شذ جو جماعت سے الگ ہوگیا ‘ وہ علیحدہ فرقہ بن گیا ‘ پھر گمراہی آئی۔ اور جماعت المسلمین میں کمزوری آئی۔ اس تفریق کے نتائج بھی بہت برے نکلیں گے۔ الغرض ! تبلیغ دین بنی نوع انسان کے ساتھ خیر خواہی کی ایک صورت ہے جس کے متعلق سخت تاکید آئی ہے۔ دو اہم اصلاحات اصل میں دو چیزیں بڑی ضروری ہیں۔ سورة بلد میں ہے ” ودھدینہ النجدین “ ہم نے انسان کی دو اونچی گھاٹیوں کی طرف راہنمائی کردی ہے عام تفسیر میں اسے خیر اور شر کی گھاٹیوں سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی انسان کو اچھائی اور برائی کی تمیز سکھا دی گئی ہے تاہم علمی اصطلاح میں اسے یوں کہا جاسکتا ہے کہ ہر انسان کے لئے دو باتیں بڑی ضروری ہیں ‘ ایک انفرادی روحانی ترقی اور دوسری اصلاح عالم انسان خود اپنی اصلاح کرے تا کہ اسے روحانی ترقی ہو اور اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ درست رہے۔ جب اپنی اصلاح مکمل ہوجائے تو پھر اصلاح عالم کی ذمہ داری بھی اس پر عائد ہوتی ہے کہ پوری نسل انسانی سے خیرخواہی کا سلوک کرتے ہوئے اللہ کا پیغام ان تک پہنچائے اور ان کی اصلاح کی کوشش کرے۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ آج اس کے اپنے افکار بدل چکے ہیں ‘ اس کی حالت بھی یہود ‘ نصاریٰ ‘ ہنود ‘ مجوس اور دہریوں سے مختلف نہیں رہی۔ مسلمان آج اپنی اصلاح سے غافل ہے۔ یہ اقوام عالم کی اصلاح کیسے کرے گا۔ یہ کود گمراہ ہوچکا ہے ‘ دوسروں کو راستہ کیسے دکھائے گا۔ اصلاح عالم کا فریضہ اسلام کے ابتدائی دور میں بطریق احسن انجام دیا جاتا رہا ہے۔ مگر آج پورا عالم اسلام اس سے غافل ہوچکا ہے۔ تبلیغ دین میں مشکلات اس وقت صرف تبلیغی جماعت ہے جو تبلیغ دین کے سلسلہ میں اپنی اصلاح کی کوشش کر رہی ہے۔ چونکہ خود اپنے بگڑ چکے ہیں۔ لہٰذا اولاً اصلاح کی کوشش کر رہی ہے۔ چونکہ خود اپنے بگڑ چکے ہیں۔ لہٰذا اولاً ان کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ مگر اس محاذ پر بھی جماعت کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بڑے بڑے مصائب برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ گزشتہ سال کی بات ہے کہ تبلیغ کے لئے جماعت ادھر پہاڑی علاقے میں گئی کسی بستی میں رات کو قیام کرنا چاہا تو اہل بستی نے ٹھہرانے سے انکار کردیا ‘ بلکہ اسی وقت وہاں سے چلے جانے کے لئے کہا انہوں نے رات کے وقت تین چار میل دور دوسری بستی میں جا کر قیام کیا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ جو جماعت تبلیغ دین کا اہم فریضہ انجام دے رہی ہے اس کے خلاف اہل بدعت ‘ شرک اور رسومی لوگ زہریلا پراپیگنڈاہ کرتے ہیں کہ یہ وہای ہیں بےدین ہیں جو تمہیں بھی بےدین بنادیں گے ۔ ایسے مراحل تو درمیان میں آتے رہتے ہیں ‘ ان سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ اپنا پروگرام جاری رکھنا چاہئے ‘ جو لوگ نیکی کی طرف دعوت دینے والوں کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں ‘ انہیں بھی اس ظلم کا بدلہ چکانا ہوگا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خود کلمہ پڑھنے والوں کا حال یہ ہے کہ جو کام خود ان کے ذمہ تھا ‘ اس کو انجام دینے میں بھی رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ جب یہ اپنی اصلاح کرنے کے لئے تیار نہیں تو دوسروں کی اصلاح کا بیڑا کون اٹھائے گا ؟ ذرائع مواصلات نے اب پوری دنیا کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے ‘ لوگ ایک دوسرے کے ہاں کثرت سے آتے جاتے ہیں ‘ تبادلہ کیا ل ہوتا ہے ‘ تجربات ہوتے ہیں۔ تو ان سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں کتنی قومیں ایسی ہیں جنہیں سچے دین کی تلاش ہے مگر ان تک دین پہنچانے والا کوئی نہیں ‘ ان میں نیکی کرنے کی تڑپ موجود ہے۔ مگر ان کی راہنمائی کرنے والا کوئی نہیں۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ اثر بھی اسی بات کا ہوتا ہے جو کسی با عمل اور دین دار شخص کے منہ سے نکلی ہو۔ خالی خولی لیکچر دینے سے بات نہیں بنتی ‘ اللہ تعالیٰ نے اس ضمن میں خاص تنبیہ فرمائی۔ یایھا الذین امنوا لم تقولون مالا تفعلون (الصف) جو کہتے ہو وہ خود کیوں نہیں کرتے ‘ جو چیز دوسروں تک پہنچانا چاہتے ہو اس پر پہلے خود عمل پیرا ہو جائو ‘ پھر بات بنے گی۔ مشن سے وابستگی آج مسلمان اپنے اسلامی مشن کو فراموش کرچکا ہے اور اغیار کے رسم و رواج میں اپنی عزت سمجھتا ہے ۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اسلام کے زریں اصول دوسروں تک پہنچائے جاتے مگر آج ہم دوسروں کے لادینی نظریات اپنانے پر مجبور ہیں۔ ہمارے صدر صاحب نے ایک غیر ملکی شخصیت کو تحفہ ایک مجسمہ کی شکل میں دیا۔ بت تراشی اور بت فروشی تو اسلام میں ویسے ہی حرام ہے مگر ہمیں اس کے علاوہ اور کوئی تحفہ بھی نہ مل سکا۔ اسی طرح مسلمانوں اور کافروں کی قبروں پر پھول چڑھاتا ایک بین الاقوامی رواج بن چکا ہے ‘ سربراہان ملک ایک دوسرے کے ملک میں جاتے ہیں تو خیر سگالی کے طور پر وہاں کی مشہور ہستی کی قبر پر چادر چڑھاتے ہیں۔ غیر مسلموں کی دیکھا دیکھی مسلمانوں نے یہ بھی کام شروع کردیا ہے ۔ ہمارے ملک میں مسٹر جناح اور علامہ اقبال کی قبریں اس چیز کی آماجگاہ بن چکی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جب ہم اپنے مشن کو بھول گئے ہیں تو دوسروں کے نظریات اپنانے پر مجبور ہیں آج مملکت سعودیہ ایک واحد مثال ہے جو اپنے نظریات پر کسی حد تک قائم ہے۔ پچھلی دفعہ ابن سعود ہندوستان آیا تو حسب دستور گاندھی کی سمادھی پر پھولوں کی چادر چڑھانے کی اسے بھی پیشکش کی گئی مگر اس نے صاف انکار کردیا کہ وہ ایسی چیزوں کو روا نہیں سمجھتا۔ ظاہر ہے کہ اس نے اپنے نظریات پر قائم رہ کر اپنے ملک اور اسلام کی عزت افزائی کی۔ اس طرح مصر کا کرنل ناصر (رح) روس گیا تو خورو شیف کے ساتھ شراب پیش کی گئی مگر اس نے کہا کہ میں مسلمان ہوں شراب نہیں پیتا ‘ آخر انہیں وہ مے و ساغر اٹھانا ہی پڑا۔ ناصر کے ستھ خورو شیف نے بھی شراب نہیں پی۔ مسلمان کا کام تو یہ تھا کہ اپنے سچے اصول دوسروں کے سامنے پیش کرتا نہ کہ خود ان کی بد رو میں بہہ جاتا۔ بہرحال تبلیغ دین کے سلسلے کی پہلی منزل یہ ہے کہ خود مسلمانوں کی اصلاح کی جائے اور پھر نہایت خلوص کے ساتھ اسلام کی دعوت کو دوسروں تک پہنچایا جائے ایک سچے مسلمان کی اپنے مشن سے وابستگی کی یہی دلیل ہے۔ درس توحید تبلیغ دین کی طرف توجہ دلانے کے بعد اسلام کے بنیادی اصول توحید کو ایک نئے انداز میں پیش کیا جا رہا ہے ائنکم لتشھدون ان مع اللہ الھۃ اخری کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود بھی ہے ؟ فرمایا اگر یہ لوگ کسی غیر اللہ کو معبود مانتے ہوں تو قل لا اشھد آپ ان پر واضح کردیں کہ میں ایسی گواہی نہیں دیتا اس کے برخلاف میں تو یہی کہوں گا قل انما ھو اللہ واحد معبود برحق تو ایک ہی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں واننی بری مما تشرکون۔ اور میں بیزار ہوں ان چیزوں سے جن کو تم شریک بناتے ہو۔ میں غیر اللہ کو معبود تسلیم کرنے کے معاملے میں تم سے ہرگز اتفاق نہیں کرسکتا۔ اس معاملہ میں میرا اور تمہارا راستہ بالکل مختلف ہے۔ پیغمبر اور قرآن کی تصدیق آگے اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کا بھی تذکرہ فرمایا جو اسلام کی حقانیت کو پہچاننے کے باوجود خسارے کا سودا کر رہے ہیں۔ ارشاد ہے الذی اتینھم المکتب یہ یہودی و نصاریٰ جن کو آسمانی کتب دی گئیں یعرفونہ کما یعرفون ابناء ھم یہ اس پیغمبرآخر الزمان کو اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ ………امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ یعرفونہ کی ضمیر قرآن پاک کی طرف بھی جاتی ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب جانتے ہیں کہ قرآن پاک وہی کلام ہے جس کے متعلق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی کتاب تورات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تمہارے بھائی بندوں میں سے ایک شخص کو برپا کروں گا اور اس کے منہ میں اپنا کلام ڈالوں گا۔ قرآن پاک وہی کلام ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسرائیلیوں کے بھائی بند بنو اسماعیل میں سے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر نازل کیا اور پیغمبر اسلا کو تو یہ اچھی طرح پہچانتے ہیں کیونکہ پہلی کتابوں میں موجود تمام علامات آپ پر صادق آتی ہیں۔ مگر اب جان بوجھ کر انکار کر رہے ہیں یہ لوگ مشرکین سے بھی بدتر ہیں۔ مشرک تو جہالت کی وجہ سے نبی آخر الزمان کا انکار کر رہے ہیں مگر یہ اپنی ضد ‘ ہٹ دھرمی اور تعصب کی بناء پر آپ پر ایمان لانے کو تیار نہیں ہیں اور ظاہر ہے تعصب جہالت سے زیادہ مہلک بیماری ہے۔ فرمایا الذی خسروا انفسم جن لوگوں نے اپنے آپ کو نقصان میں ڈال رکھا ہے۔ فھم لا یومنون وہ ایمان نہیں لاتے ‘ وہ لوگ محرومی کا شکار ہیں۔ انہوں نے فطرت سلیمہ کو بگاڑ دیا ہے اور تعصب کو اختیار کر رکھا ہے یہ ایمان سے محروم ہی رہیں گے۔ فرمایا دیکھو ! یہ لوگ آپ سے کہتے ہیں کہ آپ کی نبوت کا گواہ کون ہے تو اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ وہی سب سے بڑا گواہ ہے اور اگر پھر بھی تمہیں میری رسالت اور نبوت میں شک ہے تو سن لو ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا اس سے بڑھ کر کون ظالم ہو سکتا ہے جو خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھے دوسری آیت میں فرمایا ‘ کہ اس سے بڑا ظالم کون ہے جو یوں کہے کہ میری طرف وحی نازل ہوتی ہے حالانکہ وحی نازل نہ ہوتی ہو۔ مرزا قادیانی اور دیگر مدعیان نبوت یہی دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ ان پر وحی آتی ہے۔ یہ ب سے بڑا جھوٹ ہے اور ایسا دعویٰ کرنے والے سب سے بڑے ظالم ہیں اور فرمایا وہ شخص بھی بہت بڑا ظالم ہے او کذب بایتہ جو اس کی آیتوں کو جھٹلا دے وہ وحی الٰہی کی تکذیب کرتا ہے۔ ایسا کرنا بھی بہت بڑا ظلم ہے۔ یہ حضور ﷺ نے دوسرے پہلو کی وضاحت بھی فرما دی کہ میں تو اللہ کا سچا نبی ہوں اور نزول وحی کا میرا دعویٰ بھی سچا ہے مگر جو اس صداقت کو جھٹلاتا ہے اس سے بڑھ کر کون ظالم ہو سکتا ہے۔ فرمایا ‘ یادرکھو ! انہ لا یفلح الظلمون ظلم کرنے والے فلاح نہیں پاتے ‘ ظلم کا انجام بہت برا ہوتا ہے۔ اس چند روزہ زندگی میں تو بچ جائیں گے مگر آخرت کی کامیابی کے دروازے ان کے لئے بند ہیں حقیقی کامیابی اسی کو نصیب ہو سکتی ہے جو ظلم کو چھوڑ کر عدل کا راستہ پکڑے شرک کی بجائے توحید کو اختیار کرے اور نفاق کی بجائے اپنے اندر اخلاص پیدا کرے ‘ تب وہ فلاح کا منہ دیکھ سکتا ہے ‘ ورنہ ظالم تو اس سے محروم ہی رہیں گے۔
Top