Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 160
وَ قَطَّعْنٰهُمُ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ اَسْبَاطًا اُمَمًا١ؕ وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اِذِ اسْتَسْقٰىهُ قَوْمُهٗۤ اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ١ۚ فَانْۢبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا١ؕ قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ١ؕ وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْهِمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْهِمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰى١ؕ كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ١ؕ وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
وَقَطَّعْنٰهُمُ : اور ہم نے جدا کردیا انہیں اثْنَتَيْ : دو عَشْرَةَ : دس (بارہ) اَسْبَاطًا : باپ دادا کی اولاد (قبیلے) اُمَمًا : گروہ در گرو وَاَوْحَيْنَآ : اور وحی بھیجی ہم نے اِلٰي : طرف مُوْسٰٓي : اِذِ : جب اسْتَسْقٰىهُ : اس سے پانی مانگا قَوْمُهٗٓ : اس کی قوم اَنِ : کہ اضْرِبْ : مارو بِّعَصَاكَ : اپنی لاٹھی الْحَجَرَ : پتھر فَانْۢبَجَسَتْ : تو پھوٹ نکلے مِنْهُ : اس سے اثْنَتَا عَشْرَةَ : بارہ عَيْنًا : چشمے قَدْ عَلِمَ : جان لیا (پہچان لیا) كُلُّ : ہر اُنَاسٍ : شخص مَّشْرَبَهُمْ : اپنا گھاٹ وَظَلَّلْنَا : اور ہم نے سایہ کیا عَلَيْهِمُ : ان پر الْغَمَامَ : ابر وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے اتارا عَلَيْهِمُ : ان پر الْمَنَّ : من وَالسَّلْوٰى : اور سلوی كُلُوْا : تم کھاؤ مِنْ : سے طَيِّبٰتِ : پاکیزہ مَا رَزَقْنٰكُمْ : جو ہم نے تمہں دیں وَ : اور مَا ظَلَمُوْنَا : ہمارا کچھ نہ بگاڑا انہوں نے وَلٰكِنْ : اور لیکن كَانُوْٓا : وہ تھے اَنْفُسَهُمْ : اپنی جانوں پر يَظْلِمُوْنَ : ظلم کرتے
اور ہم نے جدا جدا کردیا ان کو بارہ قبیلوں اور جماعتوں میں اور وحی کی ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف جب کہ آپ سے پانی مانگا آپ کی قوم نے ، کہ مارو اپنی لاٹھی کے ساتھ پتھر پر ، پس پھوٹ پڑے اس سے بارہ چشمے تحقیق پہچان لیا ہر ایک قبیلے نے اپنے گھاٹ کو اور ہم نے سایہ کیا ان پر بادلوں کا اور اتارا ہم نے ان پر من اور سلویٰ (اور ہم نے کہا) کھائو پاکیزہ چیزیں جو ہم نے رزق دی ہیں تم کو اور انہوں نے کہا) کھائو پاکیزہ چیزیں جو ہم نے رزق دی ہیں تم کو اور انہوں نے نہیں ظلم کیا ہم پر ، لیکن تھے وہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ۔
ربط آیات گزشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعض منصف مزاج لوگوں کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اگرچہ ایسے لوگوں کی تعداد بالکل قلیل ہے مگر ان کی صفت یہ ہے کہ وہ حق کے مطابق رہنمائی کرتے ہیں اور اسی کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں جب حضور ﷺ کی بعثت ہوئی اور قرآن نازل ہونا شروع ہوا تو یہ لوگ فوراً ایمان لے آئے اس سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کا ذکر ہوچکا ہے اللہ تعالیٰ نے دعا کا ایک حصہ قبول کرکے بنی اسرائیل کو معاف فرما دیا تاہم دوسرے حصے کے متعلق فرمایا کہ میری رحمت خاصہ ان لوگوں کو پہنچے گی جن میں مذکورہ اوصاف پائے جائیں گے پھر حضور ﷺ کی نبوت عامہ کا ذکر ہوا قرآن پاک اور حضور خاتم البیین علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانے کی بات ہئی۔ اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے ایک اور واقعہ کا ذکر کیا ہے جو بنی اسرائیل کو صحرائے سینا میں پیش آیا حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے زمانے میں جب یہ لوگ مصر میں داخل ہوئے تھے تو ان کی کل نفری اسی تھی چار پانچ صدیاں وہاں گزار کر جب یہ لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ مصر سے نکلے تو ان کی تعداد چھ لاکھ ستر ہزار تک پہنچ چکی تھی صدیوں تک فرعونیوں کی غلامی میں رہنے کی وجہ سے ان میں بہت سی کمزوریاں پیدا ہوچکی تھیں اللہ تعالیٰ کی نتشاریہ تھی کہ سرزمین شام و فلسطین کی طرف پیشقدمی کرنے سے پہلے انہیں وہاں کی طاقتور قوم سے مقابلہ کے لیے تیار کیا جائے چناچہ انہیں چالیس سال کا عرصہ صحرا نوردی میں گزارنا پڑا پھر جب اس قوم میں آزادی کی لہر اور جفا کشی پیدا ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں شام کی طرف کوچ کا حکم دیا آج کی آیت میں بیان ہونے والا واقعہ بنی اسرائیل کو صحرائے سینا میں قیام کے دوران پیش آیا۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبائل ارشاد باری تعالیٰ ہے وقطعنھم اثنتی عشرۃ اسباطاً امماً ہم نے ان کو جدا جدا کردیا بارہ قبیلے اور جماعتوں میں سبط دراصل اولاد کو کہتے ہیں اس کا اطلاق قبیلے اور جماعت پر بھی ہوتا ہے ترمذی شریف کی حدیث میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے حسین سبط من من الاسباط یعنی امام حسین ؓ جماعتوں میں سے ایک جماعت ہے آپ کی نسل کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی واقعہ کربلا کے بعد ایک بیٹا زندہ بچا جو اس وقت بیمار تھا مگر آج ان کی اولاد دنیا میں اس قدر پھیل چکی ہے کہ شمار سے باہر ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حالات بھی ایسے ہی تھے مشرکین آپ کے قتل کے درپے تھے اس وقت آپ کی اولاد بھی نہیں ہوئی تھی مگر اللہ نے فرمایا ابراہیم ! میں تیری اولاد کو دنیا میں ریت کے ذروں کی طرح پھیلا دوں گا چناچہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ حرف بحرف پورا ہوا غرضیکہ اسباط کا لفظ گروہ قبیلے اور جماعت کے لیے آتا ہے تاہم یہاں پر بارہ قبیلے مراد ہیں اور امم تو امت کی جمع ہے جس کا معنی بھی جماعت ہی ہے تو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو بارہ قبیلوں یا بارہ جماعتوں میں تقسیم کردیا بائیبل کے بیان کے مطابق پوری قوم بنی اسرائیل حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے دس اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کی اولاد تھی اور اس طرح یہ بارہ قبیلے بن گئے موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے ہر قبیلے کا ایک ایک نقیب یا سردار مقرر کردیا اس کا ذکر سورة مائدہ میں موجود ہے ” وبعتنا منھم اثنی عشرنقیباً “ ہم نے ان میں بارہ سردار مقرر کردیئے یہ قوم کی انتظامی لحاظ سے تقسیم تھی تاکہ اگر کسی فرد کو موسیٰ (علیہ السلام) تک کوئی بات پہنچانا مقصود ہو تو وہ اپنے نقیب کی وساطت سے ایسا کرسکے ظاہر ہے کہ اتنی بڑی قوم کے ہر فرد کی رسائی اپنے نبی اور بادشاہ موسیٰ (علیہ السلام) تک ممکن نہ تھی لہٰذا ان کو بارہ قبائل میں تقسیم کرکے ہر ایک کا ایک ایک سردار مقرر کردیا گیا جو ہر قبیلہ سے متعلقہ امور کو نمٹانے کا ذمہ دار تھا موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی اجتماعیت کے امور کے لیے افراد کی ضرورت پڑتی تھی تو آپ انہی نقیبوں کی معرفت تمام کام انجام دیتے تھے اس طرح یہ تقسیم خالصتاً انتظامی نوعیت کی تقسیم تھی۔ بنی اسرائیل کی پراگندگی قطعنا کے لفظ سے مفسرین کرام یہ مراد بھی لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا یہ لوگ تخریبی کارروائیاں کرتے تھے نافرمان تھے ان میں بہت سی خرابیاں پیدا ہوچکی تھیں جس کی وجہ سے یہ مغضوب علیہ ٹھہری اسی مصلحت کے تحت اللہ تعالیٰ نے ان کی اجتماعیت کو ختم کردیا اور پوری دنیا میں کہیں بھی انہیں چین کی زندگی نصیب نہ ہوسکی گزشتہ دو اڑھائی ہزار سال کی تاریخ شاہد ہے کہ یہودیوں کو کہیں بھی تسلط حاصل نہیں ہوسکا یہ ہمیشہ پراگندہ حال ہی رہے ان کے کچھ افراد کسی ملک میں اور کچھ کسی ملک میں غلامانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور رہے ہیں کبھی کسی طاقت کا تختہ مشق بنے اور کبھی کسی ملک نے ان کی سرکوبی کی جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دور آیا تو انہوں نے اسلام کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع کردیں چناچہ مسلمانوں کی طرف سے بھی شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا حتیٰ کہ ملک بدر کردیئے گئے اور یہ لوگ اپنی فطری شرارت پسندی کی وجہ سے دربدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے اس سورة میں آگے آرہا ہے اور بعض دوسری سورتوں میں بھی اشارات ملتے ہیں کہ یہ لوگ قیامت تک سزا کا مزا چکھتے رہیں گے۔ موجودہ زمانے میں بظاہر یہودیوں کو ایک ٹھکانا میسر آگیا ہے اور یہ اسرائیل نامی سلطنت قائم کرکے اس چھوٹے سے خطے میں مجتمع ہوگء ہیں حقیقت یہ ہے کہ اس خطہ ارضی میں بھی اسرائیل کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ یہ محض ایک دھوکہ ہے بڑی طاقتوں نے اسے اپنا فوجی اڈا بنا رکھا ہے جسے اپنی مصلحت کے تحت استعمال کررہی ہیں برطانیہ برصغیر پر قابض تھا انہیں نہر سویز کے ذریعے آمدورفت کی ضرورت تھی چناچہ انہوں نے اس نہر پر تسلط حاصل کرنے کے لیے اسرائیل کا اڈا مضبوط کیا ان کے ساتھ روس اور فرانس بھی شامل ہوگئے بعد میں جب انگریز کمزور ہوگئے تو امریکہ نے ان تینوں طاقتوں کو بےدخل کرکے اسرائیل پر خود تسلط جما لیا اب اسرائیل کی مکمل پشت پناہی امریکہ کے ذمہ ہے اگر یہ چاروں طاقتیں اسرائیل سے اپنا سایہ اٹھالیں تو یہ دو دن بھی قائم نہیں رہ سکتا حقیقت میں یہ اسرائیل کی اپنی سلطنت نہیں بلکہ بڑی طاقتوں کا اڈا ہے جسے اپنے مخصوص مفادات کے لیے استعمال کیا جارہا ہے لوگ کہتے ہیں کہ قرآن پاک اور مسلمان قوم کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہوگیا ہے کہ دنیا میں یہودی سلطنت کبھی قائم نہیں ہوگی ایسے لوگ دھوکے میں ہیں اسرائیل ہرگز یہودیوں کی سلطنت نہیں بلکہ امریکہ ، روس ، برطانیہ اور فرانس کی حکومت ہے لہٰذا اس سلطنت کے قیام سے قرآن پاک کا یہ دعویٰ غلط ثابت نہیں ہوتا کہ یہودی قیام تک سزا میں مبتلا رہیں گے قرآن پاک کا تو یہ بھی دعویٰ ہے کہ یہودیوں پر ہمیشہ ذلت مسلط رہے گی البتہ اس ذلت سے اگر انہیں کبھی افاقہ ہوگا تو دو وجہ سے ” الال بحبل من اللہ وحبل من الناس (اٰل عمران) یا تو اللہ تعالیٰ کی رسی کو پکڑ لیں یعنی قرآن پاک پر ایمان لے آئیں اور یا پھر لوگوں کی رسی کو پکڑ لیں اور ان کے زیر سایہ اور پشت پناہی میں رہ کر ذلت و رسوائی سے قدرے باہر نکل سکتے ہیں آج کل یہ جل من الناس کے سائے میں ہیں انہوں نے امریکہ کی رسی کو پکڑ رکھا ہے اور ایک چھوٹے سے علاقے میں اپنی اجتماعیت قائم کیے بیٹھے ہیں جونہی امریکہ کی سرپرستی ڈھیلی پڑے گی یہ لوگ پھر اسی ذلت و مسکنت کا شکار ہوجائیں گے۔ بنی اسرائیل کی اجماعیت کی ایک باطنی وجہ ہے اور وہ یہ کہ قرب قیامت تک ان کا اکٹھا ہونا بھی ضروری ہے جب مسیح (علیہ السلام) کا نزول ہوگا تو عیسائی لوگ تو آپ پر ایمان لاکر امت محمدیہ کا حصہ بن جائیں گے مگر یہودی اپنے عناد پر قائم رہتے ہوئے دجال کے پیچھے چلیں گے دجال کے ساتھ مقابلہ کے وقت یہودیوں کو چن چن کر ختم کردیاجائے گا حتیٰ کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ کوئی درخت اور کوئی پتھر بھی کسی یہودی کو پناہ دینے کے لیے تیار نہیں ہوگا پتھر اور درخت بول کر کہیں گے کہ مسلمان ! یہ دیکھو میرے پیچھے یہودی چھپا ہوا ہے اور پھر اسے و تیغ کردیاجائے گا تل ابیب سے 36 میل دور لدکا ہوائی اڈا وہی جگہ ہے جس کے متعلق حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ اس جگہ پر مسیح (علیہ السلام) کے ہاتھوں دجال قتل ہوگا لہٰذا قرب قیامت میں یہودیوں کا ایک جگہ اکٹھا ہونا تکوینی طور پر بھی ضروری ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا حصہ ہے۔ اجتماعیت کی اہمیت دنیا میں اجتماعیت کو بڑی اہمیت حاصل ہے جو قومیں متحد و متفق رہتی ہیں ترقی کی منازل طے کرتی ہیں اور کوئی ان کی طرف نظر بد سے نہیں دیکھ سکتا برخلاف اس کے جو قومیں انتشار و اتفراق کا شکار ہوتی ہیں وہ دوسروں کی مغلوب و مقہور ہو کر رہ جاتی ہیں اس وقت دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمان اقلیت اور پراگندگی کی حالت میں ہیں سخت تکالیف اٹھا رہے ہیں قبرض میں ترک اقلیت میں تھے مختلف علاقوں میں بٹے ہوئے تھے اور اکثریت کے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے تھے پچھلی ربع صدی میں چالیس مزار قبرصی ترک مارے گئے پھر وہ جزیرے کے ایک حصے میں اکٹھے ہوگئے اور اس طرح انہوں نے اس علاقہ میں اپنی اجتماعیت قائم کرلی اب یہ لوگ سکون میں ہیں مگر امریکہ انگریز اور اٹلی کی اب بھی خواہش ہے کہ قبرصی مسلمانوں کو پھر سے منتشر کرکے کمزور کردیا جائے مگر ترک اپنی اجتماعیت پر ڈٹے ہوئے ہیں فلپائن کے مسلمانوں کو بھی ایسا ہی حال ہے قلیل تعداد میں ہونے کی وجہ سے اکثریت کا ظلم و ستم برداشت کر رہے ہیں عیسائی حکمران ان کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈا کرکے انہیں مورد مسلمان یعنی قذاق اور ڈاکو کو نام دیتے ہیں ان کا قصور صرف یہ ہے کہ مسلمان ہیں اور پراگندہ حالت میں ہیں موزے تنگ کے زمانے میں چین کے صوبہ سنکیانگ میں مسلمانوں کی آبادی چھ سات کروڑ افراد پر مشتمل تھی مگر حکومت نے انہیں منتشر کردیا تاکہ یہ اپنی اجتماعی قوت قائم نہ کرسکیں اب وہاں ایک کروڑ مسلمان بھی نہیں ہیں غیر مسلم اقوام مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ تقسیم کرو اور حکومت کرو کا ہتھیار استعمال کرتی رہی ہیں اور اب بھی کررہی ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے بنی اسرائیل کو بارہ قبیلوں میں ٹکڑے ٹکڑے کردیا ابتداء میں تو یہ تنظیمی تقسیم تھی لیکن بعد میں ان کی شرارت پسندی کی وجہ سے ان کو تقسیم کردینا ہی بہتر تھا تاکہ یہ اکٹھے ہو کر کسی بڑی مصیبت کا پیش خیمہ نہ بن جائیں۔ صحرائے سینا میں سرگردانی مصر سے نکل کر بحیرہ قلزم عبور کیا اور بنی اسرائیل صحرائے سینا میں پہنچ گئے فرعون کی غرقابی کے باوجود انہیں واپس مصر جانے کا حکم نہیں تھا کیونکہ وہاں بہرحال اسی کی قوم آباد تھی اور یہ لوگ اپنے اصل وطن شام و فلسطین میں داخل ہونے کے ابھی اہل نہیں تھے صدیوں غلامی میں رہنے کی وجہ سے ان کے قوی امضحمل ہوچکے تھے محنت و مشقت سے عاری ہوچکے تھے اور شام و فلسطین کی فتح کے لیے جس جذبہ جہاد کی ضرورت تھی اس سے یہ عاری تھے چناچہ سورة مائدہ میں گزر چکا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ ارض مقدس میں داخل ہوجائو اللہ نے اسے تمہارے مقدر میں کردیا ہے تم ہمت تو کرو ، تو کہنے لگے وہاں تو بڑی جنگجو قوم آباد ہے ہم ان کی موجودگی میں وہاں نہیں جاسکتے ، اے موسیٰ (علیہ السلام) ! تم اور تمہارا خدا جاکر ان سے مقابلہ کرو ” انا ھھنا قعدون “ ہم تو یہیں بیٹھیں گے اس جواب سے موسیٰ (علیہ السلام) بڑے رنجیدہ خاطر ہوئے اور رب العزت سے عرض کیا رب انی لا املک الانفسی واحی مولا کریم ! میں تو اپنی ذات اور بھائی کا مالک ہوں جو میری بات مانتا ہے اس کے علاوہ قوم کا کوئی فرد ہماری بات سننے کے لیے تیار نہیں ہے بنی اسرائیل کی طرف سے بزدلی کے اس مظاہرے پر اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا کہ عرصہ تک انہیں اسی صحرائے سینا میں سرگرداں رکھا جائے تاکہ یہ یہاں کی تکالیف برداشت کرکے جفا کش بن جائیں اور شام و فلسطین کو فتح کرسکیں چناچہ ایسا ہی ہوا فانھا محرمۃ علیھم اربعین سنۃ یتیھون فی الارض “ ارض مقدس ان پر حرام کردی گئی اور چالیس سال تک یہ اسی صحرائے سینا میں سرگرداں پھرتے رہے پھر اخراج مصر سے ستر پچھتر سال بعد جاکر ان سے غلامی کا اثر ختم ہوا نئی خوراک کھانے سے نیا خون پیدا ہوا آزادی کی لہر پیدا ہوئی اور پھر انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کے جانشین حضرت یوشع اور قالب کی قیادت میں ملک شام و فلسطین کو فتح کیا اور وہاں آباد ہوئے۔ انسان کی بنیادی ضروریات الغرض ! بنی اسرائیل ابتدائی طور پر صحرائے سینا میں مقیم ہوئے یہ ایک لمبا چوڑا تپتا ہوا صحرا ہے جس میں ضروریات زندگی کی کوئی چیز مہیا نہیں اس خطہ کی آبادی کا یہ حال ہے کہ آج بیسیویں صدی میں بھی وہاں چند ہزار نفوس سے زیادہ لوگ آباد نہیں جو کہ مختلف حیشیتوں میں وہاں رہتے ہیں ظاہر ہے کہ آج سے ہزاروں سال پہلے وہاں کتنے لوگ ہوں گے اور ان کی معیشت کا کیا انتظام ہو اس لق دق صحرا میں یکایک چھ سات لاکھ نفوس کے لیے ضروریات زندگی کہاں سے مہیا ہوسکتی تھیں وہاں تو پینے کے لیے پانی جیسی اہم ترین چیز بھی میسر نہیں تھی حالانکہ یہ انسان کی چھ بنیادی ضروریات میں شامل ہے انسان کے بنیادی حقوق کا دعویدار آج اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ یونیسکو بنا ہوا ہے حالانکہ سب سے پہلے اس کی تعلیم حضور ﷺ نے دی تھی انسان کے چھ بنیادی حقوق (BASIC RIGHTS) کا ذکر قرآن و سنت میں موجود ہے ان میں پانی خوراک ، لباس ، مکان ، صحت اور تعلیم شامل ہیں انسانی زندگی کے لیے سب سے پہلی ضرورت آکسیجن یعنی صاف ہوا ہے اس کے بغیر انسان نہ سانس لے سکتا ہے اور نہ اپنی زندگی کو قائم رکھ سکتا ہے اس کے بعد انسانی زندگی کا انحصار خوراک پر ہے جس میں پانی کی اولیت حاصل ہے خوراک بھی جیسی کیسی انسان کو ملنی چاہیے اس زمین پر کوئی بھوکوں نہیں مرنا چاہیے سرچھپانے کے لیے جھونپڑی کی بھی ضرورت ہوتی ہے انسان کو چھوٹا موٹا مکان ضرور حاصل ہونا چاہیے جس کے ذریعے وہ گرمی سردی اور دیگر آفات کے بچائو کرسکے متمدن زندگی کے لیے انسان کے لیے لباس بھی اس کی بنیادی ضرورت ہے کوئی شخص ننگا نہیں رہنا چاہیے یہ بھی ضرورت ہے اس کے بعد تعلیم اور صحت ہے جہالت کی تاریکی کو دور کرنے اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور زندگی کو احسن طریقے سے بسر کرنے کے لیے تعلیم کی ضرورت ہے اور اگر انسان بیمار پڑجائے تو اس کی زندگی دوبھر ہوجاتی ہے لہٰذا یہ بھی اس کا بنیادی حق ہے کہ صحت کو برقرار رکھنے کے لیے اسے تمام ضروری وسائل مہیا ہوں۔ بنی اسرائیل کے لیے بارہ چشمے صحرائے سینا میں بنی اسرائیل کو پہلی بنیادی ضرورت ہوا تو اللہ نے وافر مقدار میں فری مہیا کررکھی تھی تاہم خوراک کے سلسلے میں ان کی اولین ضرورت پانی کی بہم رسانی تھی ہوا کے بعد انسانی جسم کو پانی کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے اس کے بغیر انسان زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا انسانی جسم میں دوڑنے والے خون کا اسی فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے۔ بلکہ سطح ارضی پر موجود ہر چیز کا انحصار پانی پر ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” وجعلنا من الماء کل شی ئٍ “ (انبیائ) اسی لیے پانی پر ٹیکس کو ظالمانہ کہا گیا ہے تو بنی اسرائیل کے لیے بھی صحرائے سینا میں سب سے پہلا مسئلہ پانی کا پیدا ہوا اور قوم نے اس کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف رجوع کیا کہ جس بےآب وگیاہ زمین میں انہیں لے آئے ہیں وہاں پانی کا انتظام بھی کریں یہاں پر اللہ تعالیٰ نے اسی چیز کو بیان کیا ہے واوحینا الی موسیٰ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی کی کیا ان اضرب بعصاک البحر کہ اپنی لاٹھی پتھر پر ماریں ظاہر ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قوم کی درخواست پیش کی تو اللہ نے پانی کی معجزانہ طور پر بہم رسانی کے لیے اپنی معجزے والی لاٹھی کو چٹان پر مارنے کا حکم دیا فانبجست منہ اثنتا عشرہ عیناً پس پھوٹ پڑے اس سے بارہ چشمے ، ابنجاس کا معنی ہوتا ہے تھوڑا تھوڑا پانی رسنا اور انفجار کا معنی پوری طرح پانی بہہ جانا ہوتا ہے قرآن میں یہ دونوں الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس سے مفسرین کرام یہ مطلب اخذ کرتے ہیں کہ ابتداء میں تھوڑا تھوڑا پانی نکلا ہوگا مگر بعد میں اس میں اضافہ ہوگیا اور چشمہ پوری طرح بہنے لگا تو فرمایا اس پتھر سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے قد علم کل اناس مشربھم ، ہر قبیلے نے اپنا اپنا گھاٹ پہچان لیا چناچہ ہر ایک کو حکم ہوا کہ وہ اپنے اپنے مقررہ چشمے سے پانی حاصل کریں اور ایک دوسرے کے گھاٹ میں مداخلت نہ کریں اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے اس نے معجزانہ طریقے سے بنی اسرائیل کے لیے پانی کا انتظام کردیا۔ ہر صاحب عقل سلیم اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اعتراف کرتا ہے تاہم سرسید پرویز اور دیگر نیچری قسم کے لوگ معجزات کا بھی انکار کرتے ہیں حالانکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے معجزات کا صراحت کے ساتھ ذکر کیا ہے معجزہ اللہ تعالیٰ کا فعال ہوتا ہے وہ جب چاہتا ہے نبی کے ہاتھ پر ظاہر کردیتا ہے اور اسی طرح کرامت بھی خدا تعالیٰ اپنے کسی ولی کے ہاتھ اللہ نے بنی اسرائیل کے لیے پانی کے بارہ چشمے جاری فرما کر بنی اسرائیل کے لیے پانی کا بندوبست کردیا۔ گرمی اور سایہ صحرائے سینا میں شدید گرمی پڑتی ہے جس سے بچائو کے لیے نہ کوئی مکان تھا ، نہ خیمہ اور نہ کوئی درخت ، عرب سمیت پورا مشرق وسطیٰ بہت گرم علاقہ ہے عرب میں یہاں پنجاب کی نسبت چارگنا زیادہ گرمی پڑتی ہے جب کہ صحرائے سینا میں چھ گنا زیادہ ہے عرب لوگوں کے سر پر رومال باندھنے میں یہی حکمت ہے کہ وہ لو سے محفوظ رہتے ہیں اگر گردن کو لو لگ جائے تو ضربہ شمسیہ ہوجاتا ہے پٹھے مرجھا جاتے ہیں اور انسان ہلاک ہوجاتا ہے لہٰذا گردن کو تپش سے محفوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے ابوکبیر ہزلی کہتا ہے ؎ ولد صبرت علی السموم یکننی قرد علی اللیقین غیر مرجل میں تو بڑا صابر ہوں جس نے لو کر برداشت کیا ہے جب کہ میرے پراگندہ بالوں کے سوا سر پر سایہ کرنے والی کوئی چیز نہ تھی ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ افضل صدقہ کون سا ہے تو آپ نے فرمایا ظل فسطاطٍ یعنی خیمہ کا سایہ کسی گرم علاقے میں گرمی سے بچائو کے لیے خیمہ مہیا کردینا بہت بڑا صدقہ ہے بہرحال بنی اسرائیل کو اس تپتے ہوئے صحرا میں سایہ کی ضرورت تھی اللہ نے فرمایا وظللنا علیھم الغمام ہم نے ان پر بادلوں کا سایہ کردیا اللہ تعالیٰ نے انہیں عرصہ تک صحرا میں رکھ کر ان کی کمزوریاں دور کرنا چاہتا تھا لہٰذا ان کے لیے بنیادی ضروریات زندگی کا انتظام بھی فرما دیا۔ من اور سلویٰ کی خوراک پانی کے بعد اگلی ضرورت خوراک کی تھی اللہ تعالیٰ نے اس کا بندوبست بھی معجزانہ طریقے سے کیا وانزلنا علیھم المن والسلویٰ ہم نے ان پر من اور سلویٰ نازل فرمایا من کا لغوی معنی احسان ہے جو چیز مفت مل جائے وہ احسان ہوتا ہے تو اس کو من اس لیے بھی کہا گیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا بنی اسرائیل پر خاص احسان تھا ویسے من سے مراد ترنجبین کی قسم کی سفید شکر ہے جو بنی اسرائیل کے قیام کے مظالم پر شبنم کی طرح گرتی تھی اور جسے وہ اکٹھا کرلیتے تھے یہ خوش ذائقہ طاقتور اور زود ہضم خوراک تھی جسے بنی اسرائیل استعمال کرتے تے حدیث شریف خود روکھنبیوں کو بھی من کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے الکماۃ من المن وماء ھا شفاء للعین ، کھنبیاں من میں سے ہیں جن کا پانی آنکھوں کے لیے باعث شفا ہے اسے دکھتی آنکھوں میں سرمہ میں ملا کر یا ویسے ہی ڈال دیاجائے تو نہایت مفید ہوتا ہے۔ بہرحال خوراک کے لیے ایک تو اللہ نے من مہیا کیا اور دوسرا سلویٰ یہ بٹیر کی طرح کا پرندہ تھا ان کو ہوا اڑا کر بنی اسرائیل کے خیموں کے پاس لے آتی جنہیں وہ آسانی سے پکڑ لیتے اور ذبح کرکے اس کا گوشت استعمال کرتے جو نہایت ہی لذیز ہوتا من میں شکر اور نشاستہ کے اجزا پائے جاتے تھے جب کہ پروٹین کے لیے اللہ نے پرندوں کا گوشت مہیا کردیا اور اس طرح بنی اسرائیل کی خوراک کا مسئلہ بھی حل ہوگیا اللہ نے فرمایا کلوا من طیبت مارزقنکم کھائو جو ہم نے تمہیں پاک روزی عطا کی ہے طیبت سے مراد پاک روزی جو ملتی بھی مفت تھی مگر اللہ کی اس عظیم نعمت پر بھی وہ لوگ مطمئن نہ ہوئے اور جیسا کہ سورة بقرہ میں ہے کہنے لگے لن تصبرعلی طعام واحد روزانہ ایک ہی قسم کا کھانا کھاتے ہمارے منہ کا ذائقہ بگڑ گیا ہے لہٰذا ہمارے لیے اپنے رب سے سبزی تر کاری ، دال ، لہسن ، پیاز وغیرہ کا سوال کریں موسیٰ (علیہ السلام) نے سمجھایا اتستبدلون الذی ھو ادنیٰ بالذی ھوخیر ، کیا تم من وسلویٰ جیسی اعلیٰ چیزوں کی بجائے ساگ پات جیسی ادنیٰ چیزیں چاہتے ہو ؟ مگر وہ قوم اپنی بات پر اڑی رہی اس کے بعد کا بیان اگلی آیت میں آرہا ہے اللہ نے فرمایا وما ظلمونا انہوں نے نافرمانی کرکے ہم پر ظلم نہیں کیا یعنی ہمارا کوئی نقصان نہیں کیا ، اللہ تعالیٰ تو غنی اور صمد ہے کسی کی غلط کارروائی کا اس پر کیا اثر ہوسکتا ہے ولکن کانو انفسھم یظلمون حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اپنے پیغمبر کی بار بار نافرمانی کرکے انہوں نے خود اپنا ہی نقصان کیا اس سے اللہ تعالیٰ کا کیا نقصان ہوسکتا تھا انہوں نے اپنے آپ پر ہی ظلم اور زیادتی کی۔ روشنی کا انتظام اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے پہلے پانی کا انتظام کیا اور ان کے لیے بارہ چشمے جاری کردیئے پھر خوراک کے لیے من جیسی میٹھی چیز اور سلویٰ جیسا تازہ اور لذیز گوشت فراہم کیا دھوپ میں سایہ کے لیے بادل بھیج دیئے تفسیری روایات میں آتا ہے کہ دن کو بادلوں کا سایہ ہوتا تھا اور رات کے وقت اللہ تعالیٰ روشنی کے بڑے بڑے مینار کھڑے کردیتا تھا اللہ جل شانہٗ نے بغیر ستونوں کے روشنی کے بڑے بڑے راڈ بنا دیئے جن سے معجزانہ طور پر روشنی نکلتی تھی یہ بھی بنی اسرائیل کے لیے ایک اضافی سہولت تھی اس کا ذکر قرآن و سنت میں تو کہیں نہیں آتا صرف تفسیری روایات میں ذکر آتا ہے جس کی حتمی طور پر تصدیق نہیں کی جاسکتی بایں ہمہ جو مالک الملک پتھر سے بارہ چشمے جاری کرسکتا ہے دھوپ میں بادلوں کا سایہ مہیا کرسکتا خوراک کے لیے من وسلویٰ نازل کرسکتا ہے اس کے لیے کیا بعید ہے کہ وہ روشنی کا انتظام بھی کردے یہ تمام چیزیں اللہ نے انعام کے طور پر عطا فرمائیں مگر اس قوم نے ان کی قدر نہ کی اب آگے بنی اسرائیل کا بستی میں اترنے کا واقعہ اللہ نے بیان فرمایا ہے۔
Top