Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 160
وَ قَطَّعْنٰهُمُ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ اَسْبَاطًا اُمَمًا١ؕ وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اِذِ اسْتَسْقٰىهُ قَوْمُهٗۤ اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ١ۚ فَانْۢبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا١ؕ قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ١ؕ وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْهِمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْهِمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰى١ؕ كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ١ؕ وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
وَقَطَّعْنٰهُمُ
: اور ہم نے جدا کردیا انہیں
اثْنَتَيْ
: دو
عَشْرَةَ
: دس (بارہ)
اَسْبَاطًا
: باپ دادا کی اولاد (قبیلے)
اُمَمًا
: گروہ در گرو
وَاَوْحَيْنَآ
: اور وحی بھیجی ہم نے
اِلٰي
: طرف
مُوْسٰٓي
:
اِذِ
: جب
اسْتَسْقٰىهُ
: اس سے پانی مانگا
قَوْمُهٗٓ
: اس کی قوم
اَنِ
: کہ
اضْرِبْ
: مارو
بِّعَصَاكَ
: اپنی لاٹھی
الْحَجَرَ
: پتھر
فَانْۢبَجَسَتْ
: تو پھوٹ نکلے
مِنْهُ
: اس سے
اثْنَتَا عَشْرَةَ
: بارہ
عَيْنًا
: چشمے
قَدْ عَلِمَ
: جان لیا (پہچان لیا)
كُلُّ
: ہر
اُنَاسٍ
: شخص
مَّشْرَبَهُمْ
: اپنا گھاٹ
وَظَلَّلْنَا
: اور ہم نے سایہ کیا
عَلَيْهِمُ
: ان پر
الْغَمَامَ
: ابر
وَاَنْزَلْنَا
: اور ہم نے اتارا
عَلَيْهِمُ
: ان پر
الْمَنَّ
: من
وَالسَّلْوٰى
: اور سلوی
كُلُوْا
: تم کھاؤ
مِنْ
: سے
طَيِّبٰتِ
: پاکیزہ
مَا رَزَقْنٰكُمْ
: جو ہم نے تمہں دیں
وَ
: اور
مَا ظَلَمُوْنَا
: ہمارا کچھ نہ بگاڑا انہوں نے
وَلٰكِنْ
: اور لیکن
كَانُوْٓا
: وہ تھے
اَنْفُسَهُمْ
: اپنی جانوں پر
يَظْلِمُوْنَ
: ظلم کرتے
اور ہم نے جدا جدا کردیا ان کو بارہ قبیلوں اور جماعتوں میں اور وحی کی ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف جب کہ آپ سے پانی مانگا آپ کی قوم نے ، کہ مارو اپنی لاٹھی کے ساتھ پتھر پر ، پس پھوٹ پڑے اس سے بارہ چشمے تحقیق پہچان لیا ہر ایک قبیلے نے اپنے گھاٹ کو اور ہم نے سایہ کیا ان پر بادلوں کا اور اتارا ہم نے ان پر من اور سلویٰ (اور ہم نے کہا) کھائو پاکیزہ چیزیں جو ہم نے رزق دی ہیں تم کو اور انہوں نے کہا) کھائو پاکیزہ چیزیں جو ہم نے رزق دی ہیں تم کو اور انہوں نے نہیں ظلم کیا ہم پر ، لیکن تھے وہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ۔
ربط آیات گزشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعض منصف مزاج لوگوں کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اگرچہ ایسے لوگوں کی تعداد بالکل قلیل ہے مگر ان کی صفت یہ ہے کہ وہ حق کے مطابق رہنمائی کرتے ہیں اور اسی کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں جب حضور ﷺ کی بعثت ہوئی اور قرآن نازل ہونا شروع ہوا تو یہ لوگ فوراً ایمان لے آئے اس سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کا ذکر ہوچکا ہے اللہ تعالیٰ نے دعا کا ایک حصہ قبول کرکے بنی اسرائیل کو معاف فرما دیا تاہم دوسرے حصے کے متعلق فرمایا کہ میری رحمت خاصہ ان لوگوں کو پہنچے گی جن میں مذکورہ اوصاف پائے جائیں گے پھر حضور ﷺ کی نبوت عامہ کا ذکر ہوا قرآن پاک اور حضور خاتم البیین علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانے کی بات ہئی۔ اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے ایک اور واقعہ کا ذکر کیا ہے جو بنی اسرائیل کو صحرائے سینا میں پیش آیا حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے زمانے میں جب یہ لوگ مصر میں داخل ہوئے تھے تو ان کی کل نفری اسی تھی چار پانچ صدیاں وہاں گزار کر جب یہ لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ مصر سے نکلے تو ان کی تعداد چھ لاکھ ستر ہزار تک پہنچ چکی تھی صدیوں تک فرعونیوں کی غلامی میں رہنے کی وجہ سے ان میں بہت سی کمزوریاں پیدا ہوچکی تھیں اللہ تعالیٰ کی نتشاریہ تھی کہ سرزمین شام و فلسطین کی طرف پیشقدمی کرنے سے پہلے انہیں وہاں کی طاقتور قوم سے مقابلہ کے لیے تیار کیا جائے چناچہ انہیں چالیس سال کا عرصہ صحرا نوردی میں گزارنا پڑا پھر جب اس قوم میں آزادی کی لہر اور جفا کشی پیدا ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں شام کی طرف کوچ کا حکم دیا آج کی آیت میں بیان ہونے والا واقعہ بنی اسرائیل کو صحرائے سینا میں قیام کے دوران پیش آیا۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبائل ارشاد باری تعالیٰ ہے وقطعنھم اثنتی عشرۃ اسباطاً امماً ہم نے ان کو جدا جدا کردیا بارہ قبیلے اور جماعتوں میں سبط دراصل اولاد کو کہتے ہیں اس کا اطلاق قبیلے اور جماعت پر بھی ہوتا ہے ترمذی شریف کی حدیث میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے حسین سبط من من الاسباط یعنی امام حسین ؓ جماعتوں میں سے ایک جماعت ہے آپ کی نسل کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی واقعہ کربلا کے بعد ایک بیٹا زندہ بچا جو اس وقت بیمار تھا مگر آج ان کی اولاد دنیا میں اس قدر پھیل چکی ہے کہ شمار سے باہر ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حالات بھی ایسے ہی تھے مشرکین آپ کے قتل کے درپے تھے اس وقت آپ کی اولاد بھی نہیں ہوئی تھی مگر اللہ نے فرمایا ابراہیم ! میں تیری اولاد کو دنیا میں ریت کے ذروں کی طرح پھیلا دوں گا چناچہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ حرف بحرف پورا ہوا غرضیکہ اسباط کا لفظ گروہ قبیلے اور جماعت کے لیے آتا ہے تاہم یہاں پر بارہ قبیلے مراد ہیں اور امم تو امت کی جمع ہے جس کا معنی بھی جماعت ہی ہے تو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو بارہ قبیلوں یا بارہ جماعتوں میں تقسیم کردیا بائیبل کے بیان کے مطابق پوری قوم بنی اسرائیل حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے دس اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کی اولاد تھی اور اس طرح یہ بارہ قبیلے بن گئے موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے ہر قبیلے کا ایک ایک نقیب یا سردار مقرر کردیا اس کا ذکر سورة مائدہ میں موجود ہے ” وبعتنا منھم اثنی عشرنقیباً “ ہم نے ان میں بارہ سردار مقرر کردیئے یہ قوم کی انتظامی لحاظ سے تقسیم تھی تاکہ اگر کسی فرد کو موسیٰ (علیہ السلام) تک کوئی بات پہنچانا مقصود ہو تو وہ اپنے نقیب کی وساطت سے ایسا کرسکے ظاہر ہے کہ اتنی بڑی قوم کے ہر فرد کی رسائی اپنے نبی اور بادشاہ موسیٰ (علیہ السلام) تک ممکن نہ تھی لہٰذا ان کو بارہ قبائل میں تقسیم کرکے ہر ایک کا ایک ایک سردار مقرر کردیا گیا جو ہر قبیلہ سے متعلقہ امور کو نمٹانے کا ذمہ دار تھا موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی اجتماعیت کے امور کے لیے افراد کی ضرورت پڑتی تھی تو آپ انہی نقیبوں کی معرفت تمام کام انجام دیتے تھے اس طرح یہ تقسیم خالصتاً انتظامی نوعیت کی تقسیم تھی۔ بنی اسرائیل کی پراگندگی قطعنا کے لفظ سے مفسرین کرام یہ مراد بھی لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا یہ لوگ تخریبی کارروائیاں کرتے تھے نافرمان تھے ان میں بہت سی خرابیاں پیدا ہوچکی تھیں جس کی وجہ سے یہ مغضوب علیہ ٹھہری اسی مصلحت کے تحت اللہ تعالیٰ نے ان کی اجتماعیت کو ختم کردیا اور پوری دنیا میں کہیں بھی انہیں چین کی زندگی نصیب نہ ہوسکی گزشتہ دو اڑھائی ہزار سال کی تاریخ شاہد ہے کہ یہودیوں کو کہیں بھی تسلط حاصل نہیں ہوسکا یہ ہمیشہ پراگندہ حال ہی رہے ان کے کچھ افراد کسی ملک میں اور کچھ کسی ملک میں غلامانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور رہے ہیں کبھی کسی طاقت کا تختہ مشق بنے اور کبھی کسی ملک نے ان کی سرکوبی کی جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دور آیا تو انہوں نے اسلام کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع کردیں چناچہ مسلمانوں کی طرف سے بھی شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا حتیٰ کہ ملک بدر کردیئے گئے اور یہ لوگ اپنی فطری شرارت پسندی کی وجہ سے دربدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے اس سورة میں آگے آرہا ہے اور بعض دوسری سورتوں میں بھی اشارات ملتے ہیں کہ یہ لوگ قیامت تک سزا کا مزا چکھتے رہیں گے۔ موجودہ زمانے میں بظاہر یہودیوں کو ایک ٹھکانا میسر آگیا ہے اور یہ اسرائیل نامی سلطنت قائم کرکے اس چھوٹے سے خطے میں مجتمع ہوگء ہیں حقیقت یہ ہے کہ اس خطہ ارضی میں بھی اسرائیل کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ یہ محض ایک دھوکہ ہے بڑی طاقتوں نے اسے اپنا فوجی اڈا بنا رکھا ہے جسے اپنی مصلحت کے تحت استعمال کررہی ہیں برطانیہ برصغیر پر قابض تھا انہیں نہر سویز کے ذریعے آمدورفت کی ضرورت تھی چناچہ انہوں نے اس نہر پر تسلط حاصل کرنے کے لیے اسرائیل کا اڈا مضبوط کیا ان کے ساتھ روس اور فرانس بھی شامل ہوگئے بعد میں جب انگریز کمزور ہوگئے تو امریکہ نے ان تینوں طاقتوں کو بےدخل کرکے اسرائیل پر خود تسلط جما لیا اب اسرائیل کی مکمل پشت پناہی امریکہ کے ذمہ ہے اگر یہ چاروں طاقتیں اسرائیل سے اپنا سایہ اٹھالیں تو یہ دو دن بھی قائم نہیں رہ سکتا حقیقت میں یہ اسرائیل کی اپنی سلطنت نہیں بلکہ بڑی طاقتوں کا اڈا ہے جسے اپنے مخصوص مفادات کے لیے استعمال کیا جارہا ہے لوگ کہتے ہیں کہ قرآن پاک اور مسلمان قوم کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہوگیا ہے کہ دنیا میں یہودی سلطنت کبھی قائم نہیں ہوگی ایسے لوگ دھوکے میں ہیں اسرائیل ہرگز یہودیوں کی سلطنت نہیں بلکہ امریکہ ، روس ، برطانیہ اور فرانس کی حکومت ہے لہٰذا اس سلطنت کے قیام سے قرآن پاک کا یہ دعویٰ غلط ثابت نہیں ہوتا کہ یہودی قیام تک سزا میں مبتلا رہیں گے قرآن پاک کا تو یہ بھی دعویٰ ہے کہ یہودیوں پر ہمیشہ ذلت مسلط رہے گی البتہ اس ذلت سے اگر انہیں کبھی افاقہ ہوگا تو دو وجہ سے ” الال بحبل من اللہ وحبل من الناس (اٰل عمران) یا تو اللہ تعالیٰ کی رسی کو پکڑ لیں یعنی قرآن پاک پر ایمان لے آئیں اور یا پھر لوگوں کی رسی کو پکڑ لیں اور ان کے زیر سایہ اور پشت پناہی میں رہ کر ذلت و رسوائی سے قدرے باہر نکل سکتے ہیں آج کل یہ جل من الناس کے سائے میں ہیں انہوں نے امریکہ کی رسی کو پکڑ رکھا ہے اور ایک چھوٹے سے علاقے میں اپنی اجتماعیت قائم کیے بیٹھے ہیں جونہی امریکہ کی سرپرستی ڈھیلی پڑے گی یہ لوگ پھر اسی ذلت و مسکنت کا شکار ہوجائیں گے۔ بنی اسرائیل کی اجماعیت کی ایک باطنی وجہ ہے اور وہ یہ کہ قرب قیامت تک ان کا اکٹھا ہونا بھی ضروری ہے جب مسیح (علیہ السلام) کا نزول ہوگا تو عیسائی لوگ تو آپ پر ایمان لاکر امت محمدیہ کا حصہ بن جائیں گے مگر یہودی اپنے عناد پر قائم رہتے ہوئے دجال کے پیچھے چلیں گے دجال کے ساتھ مقابلہ کے وقت یہودیوں کو چن چن کر ختم کردیاجائے گا حتیٰ کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ کوئی درخت اور کوئی پتھر بھی کسی یہودی کو پناہ دینے کے لیے تیار نہیں ہوگا پتھر اور درخت بول کر کہیں گے کہ مسلمان ! یہ دیکھو میرے پیچھے یہودی چھپا ہوا ہے اور پھر اسے و تیغ کردیاجائے گا تل ابیب سے 36 میل دور لدکا ہوائی اڈا وہی جگہ ہے جس کے متعلق حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ اس جگہ پر مسیح (علیہ السلام) کے ہاتھوں دجال قتل ہوگا لہٰذا قرب قیامت میں یہودیوں کا ایک جگہ اکٹھا ہونا تکوینی طور پر بھی ضروری ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا حصہ ہے۔ اجتماعیت کی اہمیت دنیا میں اجتماعیت کو بڑی اہمیت حاصل ہے جو قومیں متحد و متفق رہتی ہیں ترقی کی منازل طے کرتی ہیں اور کوئی ان کی طرف نظر بد سے نہیں دیکھ سکتا برخلاف اس کے جو قومیں انتشار و اتفراق کا شکار ہوتی ہیں وہ دوسروں کی مغلوب و مقہور ہو کر رہ جاتی ہیں اس وقت دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمان اقلیت اور پراگندگی کی حالت میں ہیں سخت تکالیف اٹھا رہے ہیں قبرض میں ترک اقلیت میں تھے مختلف علاقوں میں بٹے ہوئے تھے اور اکثریت کے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے تھے پچھلی ربع صدی میں چالیس مزار قبرصی ترک مارے گئے پھر وہ جزیرے کے ایک حصے میں اکٹھے ہوگئے اور اس طرح انہوں نے اس علاقہ میں اپنی اجتماعیت قائم کرلی اب یہ لوگ سکون میں ہیں مگر امریکہ انگریز اور اٹلی کی اب بھی خواہش ہے کہ قبرصی مسلمانوں کو پھر سے منتشر کرکے کمزور کردیا جائے مگر ترک اپنی اجتماعیت پر ڈٹے ہوئے ہیں فلپائن کے مسلمانوں کو بھی ایسا ہی حال ہے قلیل تعداد میں ہونے کی وجہ سے اکثریت کا ظلم و ستم برداشت کر رہے ہیں عیسائی حکمران ان کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈا کرکے انہیں مورد مسلمان یعنی قذاق اور ڈاکو کو نام دیتے ہیں ان کا قصور صرف یہ ہے کہ مسلمان ہیں اور پراگندہ حالت میں ہیں موزے تنگ کے زمانے میں چین کے صوبہ سنکیانگ میں مسلمانوں کی آبادی چھ سات کروڑ افراد پر مشتمل تھی مگر حکومت نے انہیں منتشر کردیا تاکہ یہ اپنی اجتماعی قوت قائم نہ کرسکیں اب وہاں ایک کروڑ مسلمان بھی نہیں ہیں غیر مسلم اقوام مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ تقسیم کرو اور حکومت کرو کا ہتھیار استعمال کرتی رہی ہیں اور اب بھی کررہی ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے بنی اسرائیل کو بارہ قبیلوں میں ٹکڑے ٹکڑے کردیا ابتداء میں تو یہ تنظیمی تقسیم تھی لیکن بعد میں ان کی شرارت پسندی کی وجہ سے ان کو تقسیم کردینا ہی بہتر تھا تاکہ یہ اکٹھے ہو کر کسی بڑی مصیبت کا پیش خیمہ نہ بن جائیں۔ صحرائے سینا میں سرگردانی مصر سے نکل کر بحیرہ قلزم عبور کیا اور بنی اسرائیل صحرائے سینا میں پہنچ گئے فرعون کی غرقابی کے باوجود انہیں واپس مصر جانے کا حکم نہیں تھا کیونکہ وہاں بہرحال اسی کی قوم آباد تھی اور یہ لوگ اپنے اصل وطن شام و فلسطین میں داخل ہونے کے ابھی اہل نہیں تھے صدیوں غلامی میں رہنے کی وجہ سے ان کے قوی امضحمل ہوچکے تھے محنت و مشقت سے عاری ہوچکے تھے اور شام و فلسطین کی فتح کے لیے جس جذبہ جہاد کی ضرورت تھی اس سے یہ عاری تھے چناچہ سورة مائدہ میں گزر چکا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ ارض مقدس میں داخل ہوجائو اللہ نے اسے تمہارے مقدر میں کردیا ہے تم ہمت تو کرو ، تو کہنے لگے وہاں تو بڑی جنگجو قوم آباد ہے ہم ان کی موجودگی میں وہاں نہیں جاسکتے ، اے موسیٰ (علیہ السلام) ! تم اور تمہارا خدا جاکر ان سے مقابلہ کرو ” انا ھھنا قعدون “ ہم تو یہیں بیٹھیں گے اس جواب سے موسیٰ (علیہ السلام) بڑے رنجیدہ خاطر ہوئے اور رب العزت سے عرض کیا رب انی لا املک الانفسی واحی مولا کریم ! میں تو اپنی ذات اور بھائی کا مالک ہوں جو میری بات مانتا ہے اس کے علاوہ قوم کا کوئی فرد ہماری بات سننے کے لیے تیار نہیں ہے بنی اسرائیل کی طرف سے بزدلی کے اس مظاہرے پر اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا کہ عرصہ تک انہیں اسی صحرائے سینا میں سرگرداں رکھا جائے تاکہ یہ یہاں کی تکالیف برداشت کرکے جفا کش بن جائیں اور شام و فلسطین کو فتح کرسکیں چناچہ ایسا ہی ہوا فانھا محرمۃ علیھم اربعین سنۃ یتیھون فی الارض “ ارض مقدس ان پر حرام کردی گئی اور چالیس سال تک یہ اسی صحرائے سینا میں سرگرداں پھرتے رہے پھر اخراج مصر سے ستر پچھتر سال بعد جاکر ان سے غلامی کا اثر ختم ہوا نئی خوراک کھانے سے نیا خون پیدا ہوا آزادی کی لہر پیدا ہوئی اور پھر انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کے جانشین حضرت یوشع اور قالب کی قیادت میں ملک شام و فلسطین کو فتح کیا اور وہاں آباد ہوئے۔ انسان کی بنیادی ضروریات الغرض ! بنی اسرائیل ابتدائی طور پر صحرائے سینا میں مقیم ہوئے یہ ایک لمبا چوڑا تپتا ہوا صحرا ہے جس میں ضروریات زندگی کی کوئی چیز مہیا نہیں اس خطہ کی آبادی کا یہ حال ہے کہ آج بیسیویں صدی میں بھی وہاں چند ہزار نفوس سے زیادہ لوگ آباد نہیں جو کہ مختلف حیشیتوں میں وہاں رہتے ہیں ظاہر ہے کہ آج سے ہزاروں سال پہلے وہاں کتنے لوگ ہوں گے اور ان کی معیشت کا کیا انتظام ہو اس لق دق صحرا میں یکایک چھ سات لاکھ نفوس کے لیے ضروریات زندگی کہاں سے مہیا ہوسکتی تھیں وہاں تو پینے کے لیے پانی جیسی اہم ترین چیز بھی میسر نہیں تھی حالانکہ یہ انسان کی چھ بنیادی ضروریات میں شامل ہے انسان کے بنیادی حقوق کا دعویدار آج اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ یونیسکو بنا ہوا ہے حالانکہ سب سے پہلے اس کی تعلیم حضور ﷺ نے دی تھی انسان کے چھ بنیادی حقوق (BASIC RIGHTS) کا ذکر قرآن و سنت میں موجود ہے ان میں پانی خوراک ، لباس ، مکان ، صحت اور تعلیم شامل ہیں انسانی زندگی کے لیے سب سے پہلی ضرورت آکسیجن یعنی صاف ہوا ہے اس کے بغیر انسان نہ سانس لے سکتا ہے اور نہ اپنی زندگی کو قائم رکھ سکتا ہے اس کے بعد انسانی زندگی کا انحصار خوراک پر ہے جس میں پانی کی اولیت حاصل ہے خوراک بھی جیسی کیسی انسان کو ملنی چاہیے اس زمین پر کوئی بھوکوں نہیں مرنا چاہیے سرچھپانے کے لیے جھونپڑی کی بھی ضرورت ہوتی ہے انسان کو چھوٹا موٹا مکان ضرور حاصل ہونا چاہیے جس کے ذریعے وہ گرمی سردی اور دیگر آفات کے بچائو کرسکے متمدن زندگی کے لیے انسان کے لیے لباس بھی اس کی بنیادی ضرورت ہے کوئی شخص ننگا نہیں رہنا چاہیے یہ بھی ضرورت ہے اس کے بعد تعلیم اور صحت ہے جہالت کی تاریکی کو دور کرنے اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور زندگی کو احسن طریقے سے بسر کرنے کے لیے تعلیم کی ضرورت ہے اور اگر انسان بیمار پڑجائے تو اس کی زندگی دوبھر ہوجاتی ہے لہٰذا یہ بھی اس کا بنیادی حق ہے کہ صحت کو برقرار رکھنے کے لیے اسے تمام ضروری وسائل مہیا ہوں۔ بنی اسرائیل کے لیے بارہ چشمے صحرائے سینا میں بنی اسرائیل کو پہلی بنیادی ضرورت ہوا تو اللہ نے وافر مقدار میں فری مہیا کررکھی تھی تاہم خوراک کے سلسلے میں ان کی اولین ضرورت پانی کی بہم رسانی تھی ہوا کے بعد انسانی جسم کو پانی کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے اس کے بغیر انسان زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا انسانی جسم میں دوڑنے والے خون کا اسی فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے۔ بلکہ سطح ارضی پر موجود ہر چیز کا انحصار پانی پر ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” وجعلنا من الماء کل شی ئٍ “ (انبیائ) اسی لیے پانی پر ٹیکس کو ظالمانہ کہا گیا ہے تو بنی اسرائیل کے لیے بھی صحرائے سینا میں سب سے پہلا مسئلہ پانی کا پیدا ہوا اور قوم نے اس کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف رجوع کیا کہ جس بےآب وگیاہ زمین میں انہیں لے آئے ہیں وہاں پانی کا انتظام بھی کریں یہاں پر اللہ تعالیٰ نے اسی چیز کو بیان کیا ہے واوحینا الی موسیٰ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی کی کیا ان اضرب بعصاک البحر کہ اپنی لاٹھی پتھر پر ماریں ظاہر ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قوم کی درخواست پیش کی تو اللہ نے پانی کی معجزانہ طور پر بہم رسانی کے لیے اپنی معجزے والی لاٹھی کو چٹان پر مارنے کا حکم دیا فانبجست منہ اثنتا عشرہ عیناً پس پھوٹ پڑے اس سے بارہ چشمے ، ابنجاس کا معنی ہوتا ہے تھوڑا تھوڑا پانی رسنا اور انفجار کا معنی پوری طرح پانی بہہ جانا ہوتا ہے قرآن میں یہ دونوں الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس سے مفسرین کرام یہ مطلب اخذ کرتے ہیں کہ ابتداء میں تھوڑا تھوڑا پانی نکلا ہوگا مگر بعد میں اس میں اضافہ ہوگیا اور چشمہ پوری طرح بہنے لگا تو فرمایا اس پتھر سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے قد علم کل اناس مشربھم ، ہر قبیلے نے اپنا اپنا گھاٹ پہچان لیا چناچہ ہر ایک کو حکم ہوا کہ وہ اپنے اپنے مقررہ چشمے سے پانی حاصل کریں اور ایک دوسرے کے گھاٹ میں مداخلت نہ کریں اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے اس نے معجزانہ طریقے سے بنی اسرائیل کے لیے پانی کا انتظام کردیا۔ ہر صاحب عقل سلیم اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اعتراف کرتا ہے تاہم سرسید پرویز اور دیگر نیچری قسم کے لوگ معجزات کا بھی انکار کرتے ہیں حالانکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے معجزات کا صراحت کے ساتھ ذکر کیا ہے معجزہ اللہ تعالیٰ کا فعال ہوتا ہے وہ جب چاہتا ہے نبی کے ہاتھ پر ظاہر کردیتا ہے اور اسی طرح کرامت بھی خدا تعالیٰ اپنے کسی ولی کے ہاتھ اللہ نے بنی اسرائیل کے لیے پانی کے بارہ چشمے جاری فرما کر بنی اسرائیل کے لیے پانی کا بندوبست کردیا۔ گرمی اور سایہ صحرائے سینا میں شدید گرمی پڑتی ہے جس سے بچائو کے لیے نہ کوئی مکان تھا ، نہ خیمہ اور نہ کوئی درخت ، عرب سمیت پورا مشرق وسطیٰ بہت گرم علاقہ ہے عرب میں یہاں پنجاب کی نسبت چارگنا زیادہ گرمی پڑتی ہے جب کہ صحرائے سینا میں چھ گنا زیادہ ہے عرب لوگوں کے سر پر رومال باندھنے میں یہی حکمت ہے کہ وہ لو سے محفوظ رہتے ہیں اگر گردن کو لو لگ جائے تو ضربہ شمسیہ ہوجاتا ہے پٹھے مرجھا جاتے ہیں اور انسان ہلاک ہوجاتا ہے لہٰذا گردن کو تپش سے محفوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے ابوکبیر ہزلی کہتا ہے ؎ ولد صبرت علی السموم یکننی قرد علی اللیقین غیر مرجل میں تو بڑا صابر ہوں جس نے لو کر برداشت کیا ہے جب کہ میرے پراگندہ بالوں کے سوا سر پر سایہ کرنے والی کوئی چیز نہ تھی ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ افضل صدقہ کون سا ہے تو آپ نے فرمایا ظل فسطاطٍ یعنی خیمہ کا سایہ کسی گرم علاقے میں گرمی سے بچائو کے لیے خیمہ مہیا کردینا بہت بڑا صدقہ ہے بہرحال بنی اسرائیل کو اس تپتے ہوئے صحرا میں سایہ کی ضرورت تھی اللہ نے فرمایا وظللنا علیھم الغمام ہم نے ان پر بادلوں کا سایہ کردیا اللہ تعالیٰ نے انہیں عرصہ تک صحرا میں رکھ کر ان کی کمزوریاں دور کرنا چاہتا تھا لہٰذا ان کے لیے بنیادی ضروریات زندگی کا انتظام بھی فرما دیا۔ من اور سلویٰ کی خوراک پانی کے بعد اگلی ضرورت خوراک کی تھی اللہ تعالیٰ نے اس کا بندوبست بھی معجزانہ طریقے سے کیا وانزلنا علیھم المن والسلویٰ ہم نے ان پر من اور سلویٰ نازل فرمایا من کا لغوی معنی احسان ہے جو چیز مفت مل جائے وہ احسان ہوتا ہے تو اس کو من اس لیے بھی کہا گیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا بنی اسرائیل پر خاص احسان تھا ویسے من سے مراد ترنجبین کی قسم کی سفید شکر ہے جو بنی اسرائیل کے قیام کے مظالم پر شبنم کی طرح گرتی تھی اور جسے وہ اکٹھا کرلیتے تھے یہ خوش ذائقہ طاقتور اور زود ہضم خوراک تھی جسے بنی اسرائیل استعمال کرتے تے حدیث شریف خود روکھنبیوں کو بھی من کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے الکماۃ من المن وماء ھا شفاء للعین ، کھنبیاں من میں سے ہیں جن کا پانی آنکھوں کے لیے باعث شفا ہے اسے دکھتی آنکھوں میں سرمہ میں ملا کر یا ویسے ہی ڈال دیاجائے تو نہایت مفید ہوتا ہے۔ بہرحال خوراک کے لیے ایک تو اللہ نے من مہیا کیا اور دوسرا سلویٰ یہ بٹیر کی طرح کا پرندہ تھا ان کو ہوا اڑا کر بنی اسرائیل کے خیموں کے پاس لے آتی جنہیں وہ آسانی سے پکڑ لیتے اور ذبح کرکے اس کا گوشت استعمال کرتے جو نہایت ہی لذیز ہوتا من میں شکر اور نشاستہ کے اجزا پائے جاتے تھے جب کہ پروٹین کے لیے اللہ نے پرندوں کا گوشت مہیا کردیا اور اس طرح بنی اسرائیل کی خوراک کا مسئلہ بھی حل ہوگیا اللہ نے فرمایا کلوا من طیبت مارزقنکم کھائو جو ہم نے تمہیں پاک روزی عطا کی ہے طیبت سے مراد پاک روزی جو ملتی بھی مفت تھی مگر اللہ کی اس عظیم نعمت پر بھی وہ لوگ مطمئن نہ ہوئے اور جیسا کہ سورة بقرہ میں ہے کہنے لگے لن تصبرعلی طعام واحد روزانہ ایک ہی قسم کا کھانا کھاتے ہمارے منہ کا ذائقہ بگڑ گیا ہے لہٰذا ہمارے لیے اپنے رب سے سبزی تر کاری ، دال ، لہسن ، پیاز وغیرہ کا سوال کریں موسیٰ (علیہ السلام) نے سمجھایا اتستبدلون الذی ھو ادنیٰ بالذی ھوخیر ، کیا تم من وسلویٰ جیسی اعلیٰ چیزوں کی بجائے ساگ پات جیسی ادنیٰ چیزیں چاہتے ہو ؟ مگر وہ قوم اپنی بات پر اڑی رہی اس کے بعد کا بیان اگلی آیت میں آرہا ہے اللہ نے فرمایا وما ظلمونا انہوں نے نافرمانی کرکے ہم پر ظلم نہیں کیا یعنی ہمارا کوئی نقصان نہیں کیا ، اللہ تعالیٰ تو غنی اور صمد ہے کسی کی غلط کارروائی کا اس پر کیا اثر ہوسکتا ہے ولکن کانو انفسھم یظلمون حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اپنے پیغمبر کی بار بار نافرمانی کرکے انہوں نے خود اپنا ہی نقصان کیا اس سے اللہ تعالیٰ کا کیا نقصان ہوسکتا تھا انہوں نے اپنے آپ پر ہی ظلم اور زیادتی کی۔ روشنی کا انتظام اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے پہلے پانی کا انتظام کیا اور ان کے لیے بارہ چشمے جاری کردیئے پھر خوراک کے لیے من جیسی میٹھی چیز اور سلویٰ جیسا تازہ اور لذیز گوشت فراہم کیا دھوپ میں سایہ کے لیے بادل بھیج دیئے تفسیری روایات میں آتا ہے کہ دن کو بادلوں کا سایہ ہوتا تھا اور رات کے وقت اللہ تعالیٰ روشنی کے بڑے بڑے مینار کھڑے کردیتا تھا اللہ جل شانہٗ نے بغیر ستونوں کے روشنی کے بڑے بڑے راڈ بنا دیئے جن سے معجزانہ طور پر روشنی نکلتی تھی یہ بھی بنی اسرائیل کے لیے ایک اضافی سہولت تھی اس کا ذکر قرآن و سنت میں تو کہیں نہیں آتا صرف تفسیری روایات میں ذکر آتا ہے جس کی حتمی طور پر تصدیق نہیں کی جاسکتی بایں ہمہ جو مالک الملک پتھر سے بارہ چشمے جاری کرسکتا ہے دھوپ میں بادلوں کا سایہ مہیا کرسکتا خوراک کے لیے من وسلویٰ نازل کرسکتا ہے اس کے لیے کیا بعید ہے کہ وہ روشنی کا انتظام بھی کردے یہ تمام چیزیں اللہ نے انعام کے طور پر عطا فرمائیں مگر اس قوم نے ان کی قدر نہ کی اب آگے بنی اسرائیل کا بستی میں اترنے کا واقعہ اللہ نے بیان فرمایا ہے۔
Top