Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 160
وَ قَطَّعْنٰهُمُ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ اَسْبَاطًا اُمَمًا١ؕ وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اِذِ اسْتَسْقٰىهُ قَوْمُهٗۤ اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ١ۚ فَانْۢبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا١ؕ قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ١ؕ وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْهِمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْهِمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰى١ؕ كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ١ؕ وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
وَقَطَّعْنٰهُمُ
: اور ہم نے جدا کردیا انہیں
اثْنَتَيْ
: دو
عَشْرَةَ
: دس (بارہ)
اَسْبَاطًا
: باپ دادا کی اولاد (قبیلے)
اُمَمًا
: گروہ در گرو
وَاَوْحَيْنَآ
: اور وحی بھیجی ہم نے
اِلٰي
: طرف
مُوْسٰٓي
:
اِذِ
: جب
اسْتَسْقٰىهُ
: اس سے پانی مانگا
قَوْمُهٗٓ
: اس کی قوم
اَنِ
: کہ
اضْرِبْ
: مارو
بِّعَصَاكَ
: اپنی لاٹھی
الْحَجَرَ
: پتھر
فَانْۢبَجَسَتْ
: تو پھوٹ نکلے
مِنْهُ
: اس سے
اثْنَتَا عَشْرَةَ
: بارہ
عَيْنًا
: چشمے
قَدْ عَلِمَ
: جان لیا (پہچان لیا)
كُلُّ
: ہر
اُنَاسٍ
: شخص
مَّشْرَبَهُمْ
: اپنا گھاٹ
وَظَلَّلْنَا
: اور ہم نے سایہ کیا
عَلَيْهِمُ
: ان پر
الْغَمَامَ
: ابر
وَاَنْزَلْنَا
: اور ہم نے اتارا
عَلَيْهِمُ
: ان پر
الْمَنَّ
: من
وَالسَّلْوٰى
: اور سلوی
كُلُوْا
: تم کھاؤ
مِنْ
: سے
طَيِّبٰتِ
: پاکیزہ
مَا رَزَقْنٰكُمْ
: جو ہم نے تمہں دیں
وَ
: اور
مَا ظَلَمُوْنَا
: ہمارا کچھ نہ بگاڑا انہوں نے
وَلٰكِنْ
: اور لیکن
كَانُوْٓا
: وہ تھے
اَنْفُسَهُمْ
: اپنی جانوں پر
يَظْلِمُوْنَ
: ظلم کرتے
اور ہم نے ان کو بارہ خاندانوں میں الگ الگ امتیں بنادیا ‘ اور ہم نے موسیٰ کی طرف جب کہ اس کی قوم نے پانی طلب کیا وحی کی کہ اپنا عصاء پتھر پر مارو ‘ تو اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ‘ ہر گروہ نے اپنا اپنا گھاٹ متعین کرلیا ‘ اور ہم نے ان پر بدلیوں کا سایہ کیا ‘ اور ان پر من اور سلویٰ اتارا ‘ کھائو ہماری بخشی ہوئی پاکیزہ چیزوں میں سے ‘ اور انھوں نے کچھ ہمارا نہیں بگاڑا ‘ بلکہ خود اپنی ہی جانوں پر ظلم ڈھاتے رہے۔
ارشاد ہوتا ہے۔ وَقَطَّعْنٰہُمُ اثْنَتَیْ عَشْرَۃَ اَسْبَاطًا اُمَمًاط وَاَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰٓی اِذِاسْتَسْقٰہُ قَوْمُہٗٓ اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَج فَامنْبَجَسَتْ مَنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْنْاط قَدْ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَھُمْط وَطَلَّلْنَا عَلَیْھِمُ الْغَمَامَ وَاَنْزَلْنَا عَلَیْھِمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰیط کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْط وَمَا ظَلَمُوْنَا وَلٰکِنْ کَانُوْا اَنفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ ۔ (الاعراف : 160) ” اور ہم نے ان کو بارہ خاندانوں میں الگ الگ امتیں بنادیا ‘ اور ہم نے موسیٰ کی طرف جب کہ اس کی قوم نے پانی طلب کیا وحی کی کہ اپنا عصاء پتھر پر مارو ‘ تو اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ‘ ہر گروہ نے اپنا اپنا گھاٹ متعین کرلیا ‘ اور ہم نے ان پر بدلیوں کا سایہ کیا ‘ اور ان پر من اور سلویٰ اتارا ‘ کھائو ہماری بخشی ہوئی پاکیزہ چیزوں میں سے ‘ اور انھوں نے کچھ ہمارا نہیں بگاڑا ‘ بلکہ خود اپنی ہی جانوں پر ظلم ڈھاتے رہے “۔ تضمین ختم، اصل سلسلہ مضمون شروع۔ بنی اسرائیل کی تنظیم اور دیگر احسانات کا تذکرہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے متعدد احسانات کا ذکر فرمایا ہے۔ اور یہ احسانات زندگی کی ضروریات اور قومی زندگی کی بقاء کے لیے اس قدر بنیادی ہیں کہ ان کے بغیر وادی سینا میں ایک محدود عرصے کے لیے زندہ رہنا اور بطور ایک قوم کے اپنا قومی فرض انجام دینا ممکن نہیں تھا۔ چناچہ ان احسانات میں سے سب سے پہلے جس احسان کا ذکر کیا گیا ہے وہ بنی اسرائیل میں تنظیم پیدا کرنا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے کوہ سینا کے بیابان میں سب سے پہلے بنی اسرائیل کی مردم شماری کرائی پھر ان کے بارہ گھرانوں کو جو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے دس بیٹوں اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کی نسل سے تھے ‘ الگ الگ گروہوں کی شکل میں منظم کیا اور ہر گروہ پر ایک ایک سردار اور نقیب مقرر کیا تاکہ وہ ان کے اندر اخلاقی ‘ مذہبی ‘ تمدنی ‘ معاشرتی اور فوجی حیثیت سے نظم قائم رکھے اور احکامِ شریعت کا اجراء کرتا رہے نیز حضرت یعقوب کے بارہویں بیٹے لاوی کی اولاد کو جس کی نسل سے حضرت موسیٰ اور ہارون تھے ‘ ایک الگ جماعت کی شکل میں منظم کیا تاکہ وہ ان سب قبیلوں کے درمیان شمع حق روشن رکھنے کی خدمت انجام دیتی رہے اس طرح ان بارہ خاندانوں کو قومی لڑی میں پرو کر اور ایک قوم کا تصور دے کر نئی اجتماعی زندگی کے لیے تیار کیا گیا اور غلامی نے جس طرح ان کے اندر ہر اجتماعی تصور کو تباہ کر کے رکھ دیا تھا اس کو ازسر نو پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ قوم اپنی گزشتہ کمزوریوں کی تلافی کرتی اور موسیٰ کلیم اللہ کی صحبت میں بلند ہمتی اور اولوالعزمی کا سبق پڑھتی اور بلند مقاصد کے انجام دہی کے لیے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتی لیکن غلامی نے چونکہ ایسے تمام خصائص سے انھیں عاری کردیا تھا اس لیے ان کے یہاں ترجیح کے قابل وہ چیزیں تھیں جو انسان کی جسمانی ضرورتوں میں سب سے مقدم سمجھی جاتی ہیں اس لیے انھوں نے سب سے پہلے انھیں چیزوں کا مطالبہ کیا۔ بلاشبہ ان بنیادی ضرورتوں کے بغیر انسانی زندگی گزرنا ممکن نہیں لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ بڑی اہم ہے کہ جو پیغمبر اس قوم کو بحرہ قلزم سے نکال کر لایا ہے اور جس پروردگار نے ان پر یہ احسانات کیے ہیں کیا وہ انھیں ان بنیادی ضرورتوں سے محروم رکھے گا ؟ اب بجائے اس کے یہ معاملات اللہ اور اس کے رسول پر چھوڑدیئے جاتے انھوں نے ایک ایک ضرورت کے لیے تورات کی وضاحت کے مطابق واویلا کرنا شروع کردیا۔ تورات میں ان کی بےصبری اور بےچینی اور اللہ کی عنایت کو پوری تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ کتاب ‘ گنتی باب بیس میں ہے۔ ” اور پہلے مہینہ میں بنی اسرائیل کی ساری جماعت دشت سین میں آگئی اور وہ لوگ قادس میں رہنے لگے… اور جماعت کے لوگوں کے لیے وہاں پانی نہ ملا۔ سو وہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کے خلاف اکٹھے ہوئے اور لوگ موسیٰ (علیہ السلام) سے جھگڑنے اور یہ کہنے لگے کاش ! ہم بھی اس وقت مرجاتے جب ہمارے بھائی خداوند کے حضور مرتے۔ تم خداوند کی جماعت کو اس دشت میں کیوں لے آئے ہو کہ ہم بھی اور ہمارے جانور بھی یہاں مریں اور تم نے کیوں ہم کو مصر سے نکال کر اس بری جگہ پہنچایا ہے ؟ یہ تو بونے کی اور انجیروں کی اور تاکوں اور اناروں کی جگہ نہیں ہے بلکہ یہاں تو پینے کے لیے پانی تک میسر نہیں موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) جماعت کے پاس سے جا کر خیمہ اجتماع کے دروازے پر اوندھے منہ گرے ‘ تب خداوند کا جلال ان کے اوپر ظاہر ہوا اور خداوند نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اس لاٹھی کو لے اور تو اور تیرا بھائی ہارون (علیہ السلام) تم دونوں جماعت کو اکٹھا کرو اور ان کی آنکھوں کے سامنے اس چٹان سے کہو کہ وہ اپنا پانی دے اور تو ان کے لیے چٹان ہی سے پانی نکالنا۔ یوں جماعت کو اور ان کے چوپایوں کو پلانا۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے خداوند کے حضور سے اسی کے حکم کے مطابق وہ لاٹھی لی اور موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) نے جماعت کو اس چٹان کے سامنے اکٹھا کیا اور اس نے ان سے کہا سنو ! اے باغیو ! کیا ہم تمہارے لیے اس چٹان سے پانی نکالیں۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور اس چٹان پر دو بار لاٹھی ماری اور کثرت سے پانی بہہ نکلا اور جماعت نے اور ان کے چوپایوں نے پیا۔ (گنتی باب 20‘ 1۔ 12) قرآن کریم بتاتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے چٹان پر عصاء مارنے سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے اور بنی اسرائیل کے خاندان کیونکہ بارہ ہی تھے اسی لیے ہر خاندان نے اپنے اپنے گھاٹ الگ الگ متعین کرلیے اور اس چیز کا اندیشہ باقی نہیں رہا کہ پانی لینے پر کوئی جھگڑا ہوگا اگر اس بہتات کے ساتھ پانی نہ نکلتا یا پانی نکلتا لیکن بارہ الگ الگ چشمے نہ ہوتے تو صحرا کی اس گرمی میں جب پیاس کی شدت سے انسان اور حیوان بےقرار ہوتے تو ہر کوئی پانی کے چشمے کی طرف بھاگتا اور سب سے پہلے پانی لینے کی کوشش کرتا۔ نتیجہ اس کا یہ ہوتا کہ روزانہ ان میں پانی لینے پر تلواریں نکلتی اور آپس میں خون ریزی ہوتی یہ اللہ کا کتنا بڑا احسان تھا کہ انھیں صرف پانی ہی عطا نہیں فرمایا بلکہ بارہ خاندانوں کے لیے بارہ الگ الگ چشمے رواں کر دئیے تاکہ ان میں تصادم کا کوئی اندیشہ نہ رہے۔ عبد الوہاب نجار نے اپنی کتاب قصص الانبیاء میں لکھا ہے کہ پانی کے وہ چشمے جن کا ذکر بنی اسرائیل کے واقعات میں آیا ہے بحر احمر کے مشرقی بیابان میں سویز سے زیادہ دور نہیں ہیں اور اب بھی عیون موسیٰ (موسیٰ کے چشمے) کے نام سے مشہور ہیں ان چشموں کا پانی اب بہت کچھ سوکھ گیا ہے اور بعض کے آثار بھی قریب قریب معدوم ہوگئے ہیں اور کہیں کہیں ان چشموں پر کھجور کے باغات نظر آتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں دوسرے جس احسان کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اس صحرا میں کھلے آسمان کے نیچے جہاں نہ کوئی سایہ دار درخت تھا اور نہ مکانوں کی راحت میسر تھی۔ بنی اسرائیل نے محسوس کیا کہ یہ تپش اور تمازت تو ہماری زندگی کا خاتمہ کر دے گی۔ چناچہ پھر وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس شکایت لے کر گئے کہ پانی تو مل گیا ہے لیکن اس دھوپ اور گرمی کا کیا کریں ؟ یہ تو ہمیں بالکل تباہ کر دے گی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ سے دعا کی ‘ دعا قبول ہوئی اور آسمان پر بادلوں کے پرے کے پرے بنی اسرائیل پر سایہ فگن ہوگئے۔ بنی اسرائیل جہاں بھی سفر کرتے ہوئے جاتے بادلوں کا یہ سائبان ان کے سروں پر تنا رہتا اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو دھوپ اور گرمی کی تمازت سے محفوظ فرمایا۔ تیسرا احسان جس کا پروردگار نے یہاں ذکر فرمایا ہے وہ خاص غذا کا فراہم کرنا ہے جو اس صحرائے سینا میں بنی اسرائیل کو بغیر کسی مشقت کے مہیا کی گئی نہ انھیں اس کے لیے ہل چلانے پڑے نہ تخم ریزی اور آبپاشی کی زحمتیں اٹھانی پڑیں۔ تورات میں اس کی تفصیل اس طرح بیان کی گئی ہے ) اور یوں ہوا کہ شام کو اتنی بٹیریں آئیں کہ ان کے خیمہ کو ڈھانک لیا اور صبح خیمہ کے آس پاس اوس پڑئی ہوئی تھی جب اوس جو پڑئی ہوئی تھی سوکھ گئی تو کیا دیکھتے ہیں کہ بیابان میں چھوٹی چھوٹی گول چیز ایسی چھوٹی جیسے پالے کے دانے ہوتے ہیں زمین پر پڑی ہے۔ بنی اسرائیل اس کو دیکھ کر آپس میں کہنے لگے من کیونکہ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا ہے ؟ تب موسیٰ نے ان سے کہا یہ وہی روٹی ہے جو خداوند نے تمہیں کھانے کو دی ہے اور وہ ہر صبح کو اپنے کھانے کی مقدار کے مطابق جمع کرلیتے تھے اور دھوپ تیز ہوتے ہی وہ پگھل جاتی تھی ( اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شبنم کی طرح ایک چیززمین پر ٹپکتی تھی اور دھینے کے بیج کی طرح زمین پر جم جاتی تھی۔ آفتاب کی تمازت بڑھنے سے پہلے پہلے اس کا جمع کرلینا ممکن ہوتا تھا تمازت بڑھنے کے بعد یہ دانے پگھل جاتے تھے۔ چونکہ یہ نعمت بغیر کسی زحمت و مشقت اٹھائے حاصل ہوئی تھی اور ایک ایسے بےآب وگیاہ صحرا میں حاصل ہوئی تھی جہاں فراہمی غذا کے اسباب و وسائل مفقود تھے اس وجہ سے اس کا نام ” من “ قرار پایا۔ عربی اور عبرانی دونوں زبانیں قریب الماخذ ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ دونوں زبانوں میں اس کا معنی احسان ہے۔ تو بنی اسرائیل نے خود اسے اللہ کا احسان قرار دیا۔ لیکن تورات کے مرتب کرنے والوں نے نہ جانے اس کو استفہام کی شکل دے کر کیوں اپنی بد مذاقی کا ثبوت فراہم کیا ہے ؟ مزید موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف جو تعبیر منسوب کی گئی ہے کہ انھوں نے اسے روٹی قرار دیا یہ بھی سراسر مترجمین کی غلطی معلوم ہوتی ہے۔ انھوں نے اسے رزق کہا ہوگا انھوں نے اس کا ترجمہ روٹی سے کردیا۔ دوسری چیز جو ان کو کھانے کو ملی اسے قرآن کریم نے ” سلویٰ “ کا نام دیا ہے۔ من کی طرح لفظ سلویٰ بھی عربی میں اہل کتاب کے واسطے سے آیا ہے اور اہل عرب نے اس کو اپنے اشعار میں استعمال کیا ہے یہ لفظ ان پرندوں کے لیے استعمال ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ نے صحرائے سیناء میں بنی اسرائیل کی غذا کے لیے بھیجے۔ یہ بٹیروں سے ملتے جلتے تھے اور بٹیروں ہی کی طرح ان کا شکار نہایت آسان تھا۔ خروج میں اس کی تفصیل اس طرح آئی ہے (پھر وہ ایلیم سے روانہ ہوئے اور بنی اسرائیل کی ساری جماعت ملک مصر سے نکلنے کے بعد دوسرے مہینے کی پندرھویں تاریخ کو سین کے بیابان جو ایلیم اور سیناء کے درمیان ہے پہنچی ‘ اور اس بیابان میں بنی اسرائیل کی ساری جماعت موسیٰ اور ہارون پر بڑبڑانے لگی اور بنی اسرائیل کہنے لگے کہ کاش ہم خداوند کے ہاتھ سے ملک مصر میں جب ہی مار دئیے جاتے جب ہم گوشت کی ہانڈیوں کے پاس بیٹھ کر دل بھر کر روٹی کھاتے تھے کیونکہ تم تو ہم کو اس بیابان میں اسی لیے لے آئے ہو کہ سارے مجمع کو بھوکا مارو… اور خداوند نے موسیٰ سے کہا میں نے بنی اسرائیل کا بڑبڑانا سن لیا ہے سو تو ان سے کہہ دے کہ شام کو تم گوشت کھائو گے اور صبح کو تم روٹی سے سیر ہو گے اور تم جان لو گے کہ میں خداوند تمہارا خدا ہوں اور یوں ہوا کہ شام کو اتنی بٹیریں آئیں کہ ان کی خیمہ گاہ کو ڈھانک لیا) (خروج باب 16‘ 1۔ 13) اس کے بعد فرمایا کہ ہم نے جو تم کو پاکیزہ نعمتیں بخشیں انھیں کھائو یعنی من اور سلویٰ جیسی پاکیزہ نعمتیں جو انھیں بےآب وگیاہ صحرا میں بغیر کسی محنت اور مشقت کے روزانہ تازہ بہ تازہ مل رہی تھیں ان سے فائدہ اور مزہ اٹھانے کا حکم دیا گیا اور ساتھ ہی یہ بات جو بین السطور میں جھلکتی ہے ضرور فرمائی گئی ہوگی کہ جس مقصد کے لیے تمہیں اس صحرا میں لایا گیا ہے اس مقصد کو کبھی نہ بھولو۔ یہ ضرورتیں یقینا تمہارا حق ہیں لیکن تمہارا مقصد زندگی اس سے بہت ارفع ہے۔ کھانے پینے کے بعد تمہاری ساری صلاحیتیں اس مقصد کے حصول کے لیے صرف ہونی چاہئیں اور وہ مقصد کیا ہے ؟ صرف یہ کہ اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ اللہ کے شکر گزار بندے اور اس کے دین کے علم بردار سپاہی ثابت کریں لیکن آیت کے آخری جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے ان نعمتوں سے فائدہ تو خوب اٹھایا لیکن ان کا حق ہرگز نہیں پہچانا وہ ان نعمتوں کو پا کر شکر گزار بننے کی بجائے ان کی ناقدری اور اللہ کی نافرمانی کرتے رہے۔ یہ بات چونکہ سیاق کلام سے واضح ہے اس وجہ سے لفظوں سے واضح نہیں کی گئی بلکہ اس کی جگہ پر یہ بات کہہ دی گئی کہ انھوں نے ہمارا کچھ نہیں بگاڑا بلکہ اپنی ہی جانوں پر ظلم کرتے رہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جو لوگ اللہ کی کسی نعمت کی ناقدری کرتے ہیں وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑتے بلکہ اپنا ہی بگاڑتے ہیں۔ بنی اسرائیل کے منتشر قبائل کو ایک تنظیم میں پرو کر ایک قوم کا تشخص عطا کرنا اور پھر ایک جزیرہ نما سیناء کے بیابانی علاقہ میں ان کی بنیادی تین ضروریات کا فراہم کرنا ایسے عظیم احسانات ہیں کہ اگر یہ تین اہم ترین ضروریاتِ زندگی کا بندوبست نہ کیا جاتا تو یہ قوم جس کی تعداد کئی لاکھ تک پہنچی ہوئی تھی اس علاقے میں بھوک پیا س سے بالکل ختم ہوجاتی۔ صاحب تفہیم القرآن نے بالکل صحیح کہا ہے کہ آج بھی کوئی شخص وہاں جائے تو یہ دیکھ حیران رہ جائے گا کہ اگر یہاں پندرہ بیس لاکھ آدمیوں کا ایک عظیم الشان قافلہ یکایک آ ٹھہرے تو اس کے لیے پانی ‘ خوراک اور سائے کا آخر کیا انتظام ہوسکتا ہے ؟ موجودہ زمانے میں پورے جزیرہ نما کی آبادی 55 ہزار سے زیادہ نہیں ہے اور آج اس بیسویں صدی میں بھی اگر کوئی سلطنت وہاں پانچ چھ لاکھ فوج لے جانا چاہے تو اس کے لیے مدبروں کو رسد کے انتظام کی فکر میں دردسر لاحق ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانے کے بہت سے محققین نے جو نہ کتاب کو مانتے ہیں اور نہ معجزات کو تسلیم کرتے ہیں یہ ماننے سے انکار کردیا ہے کہ بنی اسرائیل جزیرہ نمائے سیناء کے اس حصہ سے گزرے ہوں گے جس کا ذکر بائیبل اور قرآن میں ہوا ہے۔ ان کا گمان ہے کہ شائد یہ واقعات فلسطین کے جنوبی اور عرب کے شمالی حصہ میں پیش آئے ہوں گے۔ جزیرہ نمائے سینا کے طبعی اور معاشی جغرافیہ کو دیکھتے ہوئے وہ اس ات کو بالکل ناقابل تصور سمجھتے ہیں کہ اتنی بڑی قوم یہاں برسوں ایک ایک جگہ پڑائو کرتی ہوئی گزر سکتی تھی ‘ خصوصاً جب کہ مصر کی طرف سے اس کی رسد کا راستہ بھی منقطع تھا اور دوسری طرف خود اس جزیرہ نما کے مشرق اور شمال میں عمالقہ کے قبیلے اس کی مزاحمت پر آمادہ تھے۔ ان امور کو پیش نظر رکھنے سے صحیح طور پر اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ کہ ان چند مختصر آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے جن احسانات کا ذکر فرمایا ہے وہ درحقیقت کتنے بڑے احسانات تھے اور اس کے بعد یہ کتنی بڑی احسان فراموشی تھی کہ اللہ کے فضل و کرم کی ایسی صریح نشانیاں دیکھ لینے پر بھی یہ قوم مسلسل ان نافرمانیوں اور غداریوں کی مرتکب ہوتی رہی جن سے اس کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ اگلی دو آیتوں میں اللہ کے مزید ایک احسان کا ذکر ہے اور ساتھ ہی بنی اسرائیل کی اس خصلت بد کا بھی جس کا انھوں نے ہر موقع پر اظہار کیا۔
Top