Tafseer-e-Baghwi - Al-A'raaf : 160
وَ قَطَّعْنٰهُمُ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ اَسْبَاطًا اُمَمًا١ؕ وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اِذِ اسْتَسْقٰىهُ قَوْمُهٗۤ اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ١ۚ فَانْۢبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا١ؕ قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ١ؕ وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْهِمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْهِمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰى١ؕ كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ١ؕ وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
وَقَطَّعْنٰهُمُ : اور ہم نے جدا کردیا انہیں اثْنَتَيْ : دو عَشْرَةَ : دس (بارہ) اَسْبَاطًا : باپ دادا کی اولاد (قبیلے) اُمَمًا : گروہ در گرو وَاَوْحَيْنَآ : اور وحی بھیجی ہم نے اِلٰي : طرف مُوْسٰٓي : اِذِ : جب اسْتَسْقٰىهُ : اس سے پانی مانگا قَوْمُهٗٓ : اس کی قوم اَنِ : کہ اضْرِبْ : مارو بِّعَصَاكَ : اپنی لاٹھی الْحَجَرَ : پتھر فَانْۢبَجَسَتْ : تو پھوٹ نکلے مِنْهُ : اس سے اثْنَتَا عَشْرَةَ : بارہ عَيْنًا : چشمے قَدْ عَلِمَ : جان لیا (پہچان لیا) كُلُّ : ہر اُنَاسٍ : شخص مَّشْرَبَهُمْ : اپنا گھاٹ وَظَلَّلْنَا : اور ہم نے سایہ کیا عَلَيْهِمُ : ان پر الْغَمَامَ : ابر وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے اتارا عَلَيْهِمُ : ان پر الْمَنَّ : من وَالسَّلْوٰى : اور سلوی كُلُوْا : تم کھاؤ مِنْ : سے طَيِّبٰتِ : پاکیزہ مَا رَزَقْنٰكُمْ : جو ہم نے تمہں دیں وَ : اور مَا ظَلَمُوْنَا : ہمارا کچھ نہ بگاڑا انہوں نے وَلٰكِنْ : اور لیکن كَانُوْٓا : وہ تھے اَنْفُسَهُمْ : اپنی جانوں پر يَظْلِمُوْنَ : ظلم کرتے
اور ہم نے ان کو (یعنی بنی اسرائیل کو) الگ الگ کر کے بارہ قبیلے (اور) بڑی بڑی جماعتیں بنادیا۔ اور جب موسیٰ سے ان کی قوم نے پانی طلب کیا تو ہم نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ اپنی لاٹھی پتھر پر مار دو ۔ تو اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور سب لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کرلیا۔ اور ہم نے ان (کے سروں) پر بادل کو سائبان بنائے رکھا اور ان پر من وسلوی اتارتے رہے۔ (اور ان کے کہا کہ) جو پاکیزہ چیزیں ہم تمہیں دیتے ہیں انہیں کھاؤ اور ان لوگوں نے ہمارا کچھ نقصان نہیں کیا بلکہ (جو) نقصان (کیا) اپنا ہی کیا۔
تفسیر 160 (وقطعنھم اثنی عشرۃ اسیاطاً امما) ہم نے نے بنی اسرائیلیوں کو فرقہ فرقہ کردیا۔ فراء (رح) فرماتے ہیں کہ ” النتی عشرہ “ مئونث ذکر کیا ہے حالانکہ سبط مذکر ہے اس وجہ سے کہ اس کا تعلق ” امما “ سے ہے اور زجاج (رح) فرماتے ہیں معنی یہ ہے کہ ہم نے ان کو بارہ مختلف جماعتوں میں جدا جدا کردیا اور ” اسباطا امما “ جمع کے ساتھ ذکر کیا ہے حالانکہ دس سے اوپر کی تفسیر جمع کے ساتھ نہیں کی جاتی۔ پس ” اتالی النا عشر رجالا نہیں کہا جئے گا ؟ جواب یہ ہے کہ اسباط حقیقت میں مفسر محذوف کی صفت ہے اور وہ فرقتہ ہے یعنی ” وقطعناھم اثنتی عشرۃ فرقہ امما “ اور بعض نے کہا ہے اس میں تقدیم اور تاخیر ہے۔ اصل عبارت یوں ہے ” وقطعداھم اسباطا امما اثنتی عشرہ “ اور الاسباط قبائل اس کا واحد سبط ہے۔ (واوحینآ الی موسیٰ اذا مستقہ قومۃ) وادی تیہ میں (ان اضرب بعضاک الحجر فاء تبحست منہ) اور ابو عمرو بن علاء کہتے ہیں جاری ہوئے پھر پھٹو پڑے۔ (الثناء عشرۃ عیناً ) ہر جماعت کا ایک چشمہ (قدعلم کل اناس مبشربھم) ہر جماعت ایک باپ کی اولاد تھی (وظللنا علیھم الغمام) وادی تیہ میں جو ان کو سورج کی گرمی سے بچاتا تھا (وانزلنا علیھم اتمن و السلوی ط کلوا من طیبت مارزفنکم ط وما ظلمونا ولکن کانوآ انفسھم یظلمون)
Top