Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 161
وَ اِذْ قِیْلَ لَهُمُ اسْكُنُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ وَ كُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ وَ قُوْلُوْا حِطَّةٌ وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطِیْٓئٰتِكُمْ١ؕ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ
وَ : اور اِذْ : جب قِيْلَ : کہا گیا لَهُمُ : ان سے اسْكُنُوْا : تم رہو هٰذِهِ : اس الْقَرْيَةَ : شہر وَكُلُوْا : اور کھاؤ مِنْهَا : اس سے حَيْثُ : جیسے شِئْتُمْ : تم چاہو وَقُوْلُوْا : اور کہو حِطَّةٌ : حطۃ (بخشدے) وَّادْخُلُوا : اور داخل ہو الْبَابَ : دروازہ سُجَّدًا : سجدہ کرتے ہوئے نَّغْفِرْ : ہم بخشدیں گے لَكُمْ : تمہیں خَطِيْٓئٰتِكُمْ : تمہاری خطائیں سَنَزِيْدُ : عنقریب ہم زیادہ دیں گے الْمُحْسِنِيْنَ : نیکی کرنے والے
اور (اس واقعہ کو یاد کرو) جب کہا گیا ان (بنی اسرائیل) سے کہ رہائش پذیر ہو اس بستی میں اور کھائو اس سے جہاں چاہو تم اور کہو حطۃ (معافی) اور داخل ہو دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے ، ہم بخش دیں گے تمہاری خطائیں اور ضرور زیادہ کریں گے ہم نیکی کرنے والوں کے لئے
ربط آیات گزشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو انتظامی حیثیت سے بارہ قبیلوں میں تقسیم کیا صحرائے سینا میں پہنچ کر بنی اسرائیل کے لیے پانی کا مسئلہ پیدا ہوا انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے عرض کیا اور آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو اللہ نے فرمایا اپنی لاٹھی کو پتھر پر مارو ایسا کرنے سے اس پتھر سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے ہر قبیلے نے اپنا گھاٹ معلوم کرلیا اور پانی سے سیراب ہونے لگے دھوپ سے بچنے کے لیے اللہ نے بادلوں کا سایہ کردیا اور خوراک کے طور پر من اور سلویٰ نازل فرمایا اور ساتھ ہی حکم دیا کہ ہماری عطا کردہ روزی میں سے پاک چیزیں کھائو نیز یہ بھی فرمایا کہ انہوں نے ہمارا تو کچھ نہیں بگاڑا البتہ وہ اپنی جانوں پر خود ظلم کرتے تھے۔ مصر سے نکلنے کے بعد چالیس سال تک صحرائے سینا میں سرگرداں رہنے کا واقعہ سورة مائدہ میں بیان ہوچکا ہے جب بنی اسرائیل نے جہاں کرنے سے انکار کردیا تو اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر انہیں صحرا میں سرگرداں رکھا سورة بقرہ میں صحرائے سینا کا یہ واقعہ بھی بیان ہوچکا ہے کہ بنی اسرائیل من وسلویٰ جیسی اعلیٰ غذا کھاتے کھاتے تنگ آگئے اور پھر انہوں نے اس کی بجائے سبزی تر کاری ، دال ، لہسن ، پیاز کا مطالبہ شروع کردیا ، کہنے لگے کہ ہم ایک ہی کھانے پر اکتفا نہیں کرسکتے لہٰذا ہمارے لیے دوسری چیزیں مہیا کی جائیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں سمجھایا کہ تم اعلیٰ خوراک کو چھوڑ کر ادنیٰ خوراک کو پسند کر رہے ہو مگر وہ اپنے مطالبے پر اڑے رہے اس پر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تم اس بستی میں داخل ہوجائو وہاں جاکر کاشت کرو ، اپنی من پسند سبزیاں وغیرہ اگائو اور استعمال کرو اب تمہیں کوئی چیز مفت نہیں ملے گی بلکہ تمہیں اس کے لیے محنت و مشقت کرنا پڑے گی بستی میں داخلے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بعض شرائط بھی عائد کیں جن کا ذکر آج کے درس میں آرہا ہے۔ بستی میں داخلہ عربی زبان میں بادیہ بالکل معمولی گائوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جب کہ قریہ بستی کا اطلاق قصبات سے لے کر بڑے بڑے شہروں پر ہوتا ہے قرآن پاک میں سورة یوسف میں خود مصر کے لیے بھی قریہ کا لفظ آیا ہے ” واسئل القریۃ النی کنا فیھا “ قرآن پاک میں مکہ مکرمہ اور طائف کو قرینین یعنی دو بستیاں کہا گیا ہے یہ دونوں بھی بڑے شہر ہیں۔ بہرحال اللہ نے فرمایا اس واقعہ کا دھیان میں لائو وازقیل لھم اسکنوا ھذہ القریۃ جب بنی اسرائیل سے کہا گیا کہ اس بستی میں سکونت اختیار کرو یہ واقعہ پیش آنے کے زمانہ کے متعلق مفسرین کا اختلاف ہے بعض فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل کا مذکورہ بستی میں داخلہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی میں ہی پیش آیا تاہم اکثر مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے بعد آپ کے جانشین حضرت یوشع (علیہ السلام) کے زمانے میں پیش آیا یہ بستی کونسی تھی جس میں داخلے کا حکم ہوا ؟ اکثر مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ اریحانامی بستی تھی جو کہ دشمن قوم کنعانیوں کے قبضے میں تھی بعض نے ستیم کی بستی کا ذکر کیا ہے جو یروشلم سے تیس میل کے فاصلے پر تھی بعض فرماتے ہیں کہ یہ کوئی بستی تھی جو ہزارون کی مشرق جانب آٹھ دس میل کی مسافت پر تھی بہرحال اکثر رائے ایرحا نامی بستی کے حق میں ہے اس بستی کے باشندوں سے جنگ کرکے اس پا قابض ہونا تھا چناچہ ایسا ہی ہوا ، بائیبل کی روایت کے مطابق وہاں پر زبردست لڑائی کے بعد شہر فتح ہوا تو بنی اسرائیل اس میں داخل ہوئے۔ اللہ نے فرمایا اب تم اس بستی میں رہو ، کھیتی باڑی کرو ، غلہ اور سبزیاں اگائو وکلومنھا حیث شئتم اور جہاں چاہو اس میں سے کھائو ، تمہارے لیے کوئی روک رکاوٹ نہیں البتہ اس بستی میں داخلے کے لیے دو شرائط پوری کرنا ہوگی پہلی بات یہ ہے کہ وقولو حطۃ شہر میں داخل ہوتے وقت حطۃ کہو ، عربی زبان میں اس لفظ کا معنی گرا دینا یا اتار دینا آتا ہے اور یہاں پر معافی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی اے اللہ ہماری گناہوں کو گرا دے اور ہمیں معاف کردے اگر یہ لفظ عربانی یا سریانی زبان کا ہے تو معنی پھر بھی یہی ہے کہ اے اللہ ! ہم سے بڑی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں ہمیں معاف فرما دے گویا اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو استغفار کرنے کا حکم دیا ظاہر ہے کہ معافی مانگنا ، عاجزی اور انکساری کی علامت ہے اور معافی مانگنے والا شخص آئندہ ایسی غلطی کے عدم اعادہ کا وعدہ کرتا ہے فرمایا استغفار کرتے ہوئے بستی میں داخل ہونا اور زبان سے کوئی بےہودہ کلمہ نہ ادا کرنا کیونکہ ایسا کرنا غیر اسلامی اور غیر متمدن فعل ہے جب غیر اسلامی تمدن والے لوگ کسی بستی کو فتح کرتے ہیں تو شان و شوکت سے غرور وتکبر کا اظہار کرتے ہوئے داخل ہوتے ہیں بینڈ باجے اور نعرہ بازی کے ساتھ داخلہ ہوتا ہے ترانے گائے جاتے اور جشن منایا جاتا ہے فرمایا یہ سب کافرانہ تمدن کی باتیں ہیں تم ایسا نہ کرنا بلکہ اپنی خطائوں کی معافی طلب کرتے ہوئے داخل ہونا اس ضمن میں ہمارے لیے حضور خاتم النبیین ﷺ کا اسوہ حسنہ مشعل راہ ہے جب آپ مکہ میں بحیثیت فاتح داخل ہوئے تو آپ کے سرمبارک پر خود پہنا ہوا تھا اور آپ کی گردن جھکی ہوئی تھی پھر جب آپ نے نزول فرمایا تو خود اتار دیا آپ نے اپنی چچازاد بہن ام ہانی کے ہاں قیام فرمایا پھر غسل کیا اور آٹھ رکعت نماز ادا فرمائی ہر بحال بنی اسرائیل کو اللہ نے فرمایا کہ پہلی بات یہ ہے کہ استغفار کرتے ہوئے بستی میں داخل ہونا۔ داخلہ بحالت سجدہ اور دوسری بات یہ ہے کہ وادخلوالباب سجداً اور دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونا مفسرین نے یہاں پر سجدہ کے دو معنی کیے ہیں یعنی مکمل سجدہ یا صرف جھک جانا ، سجدہ اور رکوع دونوں عاجزی کی علامت ہیں اور دونوں چیزیں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے روا ہیں تو سجدہ کرنے سے یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ عاجزی کے ساتھ گردن کو جھکائے ہوئے داخل ہونا ، اور غرور وتکبر کا اظہار نہ کرنا اور اگر سجدہ سے مراد سجدہ لیا تو معنی ہوگا کہ شکرانے کے نفل ادا کرکے بستی میں داخل ہونا ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ ابوجہل کے قتل پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دو رکعت نماز نفل شکرانہ ادا فرمائے تھے کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس امت کا فرعون واصل جہنم ہوا۔ فرمایا تعمیل حکم میں اگر یہ دونوں کام کر لوگے تو نغفرلکم خطیتکم ہم تہماری خطائوں کو معاف کردیں گے سنزید المحسنین اور نیکی کرنے والوں کو مزید انعام عطا فرمائیں گے یہ س تاکید کے لیے ہوتا ہے کہ ہم ضرور بضرور ایسا کردیں گے اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اب جب کہ یہ شہر تمہارے قبضے میں آگیا ہے تو اب اگر یہاں اللہ کے احکام پر عمل کرتے ہوئے نیکی کا راستہ اختیار کرو گے تو مزید علاقے تمہارے تسلط میں آجائیں گے اللہ تعالیٰ کا یہ عام قانون بھی ہے کہ اگر تم شکر کرو گے ” لازید نکم “ تو میں تمہیں مزید عطا کروں گا اور اگر ناشکری کروگے ان عذابی لشدید تو میرا عذاب بھی بڑا سخت ہے۔ بنی اسرائیل کی نافرمانی فرمایا بنی اسرائیل نے ہمارے حکم کی تعمیل کرنے کی بجائے فبدل الذین ظلموا منھم ان میں سے جو ظالم لوگ تھے انہوں نے بدل دیا قولاً غیرالذی قیل لھم اس بات کو جو ان سے کی گئی تھی یہ مفسد ذہن کے لوگ تھے یہ ہمیشہ الٹا چلتے تھے اللہ نے تو فرمایا تھا کہ شہر میں داخل ہوتے وقت حطۃً کہنا یعنی اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا ، مگر بخاری شریف کی روایت کے مطابق بنی اسرائیل نے حطۃ کی بجائے حنطۃ فی شعیرۃ کے الفاظ کہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے لیے سٹے کے اندر گندم ہونی چاہیے ایسی الٹ پلٹ باتیں کیں اللہ نے دوسرا حکم یہ دیا تھا کہ سجدہ کرتے ہوئے یعنی عاجزی اور انکساری کے ساتھ گردن کو خم کیے ہوئے شہر میں داخل ہونا مگر حدیث شریف میں آتا ہے کہ ان لوگوں نے اکڑ دکھائی اور گردن کو جھکانے کی بجائے چوتڑوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اس طرح انہوں نے حکم عدولی کرتے ہوئے اللہ کے دونوں احکام کو تبدیل کردیا۔ عذاب الٰہی بنی اسرائیل کی نافرمانی کا نتیجہ یہ نکلا فارسلنا علیھم رجزاً من السماء ہم نے ان پر آسمان سے عذاب بھیجا اللہ تعالیٰ نے ان کو فتح سے ہمکنار کرنے کا یقین دلایا مگر انہوں نے اس کا عائد کردہ شرائط کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور اللہ تعالیٰ کے کلمات کو تبدیل کردیا عذاب کی نوعیت کے بارے میں تورات کے باب گنتی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر طاعون کی وبا مسلط کردی جس سے بکثرت اموات واقع ہونے لگیں جب طاعون پھیلتا ہے تو دیکھتے ہی دیکھتے بستیوں کی بستیاں صاف ہوجاتی ہیں اور پھر اللہ کا قانون یہ ہے کہ کہ وہ کسی قوم کو بلاوجہ سزا میں مبتلا نہیں کرتا بلکہ بما کانو یظلمون بنی اسرائیل کو ان کے ظلم اور نافرمانی کی وجہ سے سزا ملی تھی دوسرے مقام پر یفسقون کا لفظ بھی آتا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کی تھی جو شخص بھی خدائی قانون تبدیل کرنے کی کوشش کرے گا وہ سزا کا مستحق ہوگا اور یہ قانون صرف بنی اسرائیل ہی کے لیے نہیں بلکہ اللہ نے فرمایا کذلک نجزی کل کفور ہم ہر ناشکر گزار کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔ سزا کی مختلف صورتیں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ طاعون یا کوئی دیگر وبائی بیماری ہی سزا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ مختلف طریقوں سے نافرمانوں کو سزا میں مبتلا کرتا ہے مثلاً یہ بھی اللہ کی طرف سے سزا ہے کہ کسی کی نیکی کرنے کی قوت ہی سلب کرلے انسان کو علم بھی نہیں ہوتا مگر اس پر سزا وارد ہوچکی ہوتی تھی غلامی میں مبتلا کردینا ، کفار کو غالب کردینا اور سیاسی یا اقتصادی طور پر مغلوب کردینا بھی سزا کی ایک قسم ہے آج کی اسلامی دنیا پر نظر ڈالیں تو کسی کو امریکہ نے جکڑا ہوا ہے اور کوئی روس کی غلامی میں مبتلا ہے نہ ان کی اپنی سیاست ہے اور نہ معیشت بڑی طاقتوں کے دست نگر میں یہی تو سزا ہے ربنا لاتجعلنا فتنۃ للقوم الظمین اے اللہ ہمیں ظالم قوم کے ہاتھ سے آزمائش میں نہ ڈالنا برصغیر کے لوگ دو سو سال تک انگریز کی غلامی میں رہے مگر احساس تک نہیں ہوا ذلت اٹھائی اور غلامی کو غلامی نہیں سمجھا غلامی میں ذہن معکوس ہوجاتے ہیں یہ بھی سزا کی ایک صورت ہے اس وقت دنیا میں پچاس اسلامی ریاستیں ہیں اور سب کے سب غلام ہیں یا نیم غلام ، غلطی پر غلطی کر رہے ہیں مگر حق کی طرف رجوع نہیں کرتے ابودائود شریف کی روایت میں آتا ہے کہ خدا تعالیٰ تمہاری ذلت کو اس وقت تک دور نہیں کرے گا حتیٰ ترجعو الی دینکم یہاں تک کہ تم دین کی طرف واپس نہ آجائو جب تک دین سے دور رہو گے خدا تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا رہو گے غلامی اقتصادی ہو یا سیاسی ، جہالت مسلط ہو یا نیکی کی حالت طاقت سلب ہوجائے یہ سزا ہی کی صورتیں ہیں بہرحال اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو وبا کی صورت میں سزا دی۔ اب بھی جو کوئی من مانی کرے گا خدا کی نافرمانی کا مرتکب ہوگا قانون خداوندی کے مطابق سزا میں مبتلا ہوگا شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا اٹل قانون ہے یایترک عاصیا وہ کسی مجرم کو چھوڑتا نہیں اور انہیں اسباب کے دوران ہی سزا دیدی جاتی ہے دنیا میں تو ایسی سزا ملتی ہے اور آخرت میں تو تمام اسباب بھی معطل ہوجائیں گے اور پھر قطعی طور پر سزا ملے گی۔
Top