Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 179
وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ١ۖ٘ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا١٘ وَ لَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَا١٘ وَ لَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَا١ؕ اُولٰٓئِكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ
وَلَقَدْ ذَرَاْنَا : اور ہم نے پیدا کیے لِجَهَنَّمَ : جہنم کے لیے كَثِيْرًا : بہت سے مِّنَ : سے الْجِنِّ : جن وَالْاِنْسِ : اور انسان لَهُمْ : ان کے قُلُوْبٌ : دل لَّا يَفْقَهُوْنَ : سمجھتے نہیں بِهَا : ان سے وَلَهُمْ : اور ان کے لیے اَعْيُنٌ : آنکھیں لَّا يُبْصِرُوْنَ : نہیں دیکھتے بِهَا : ان سے وَلَهُمْ : اور ان کیلئے اٰذَانٌ : کان لَّا يَسْمَعُوْنَ : نہیں سنتے بِهَا : ان سے اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ كَالْاَنْعَامِ : چوپایوں کے مانند بَلْ : بلکہ هُمْ : وہ اَضَلُّ : بدترین گمراہ اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الْغٰفِلُوْنَ : غافل (جمع)
اور البتہ تحقیق پیدا کئے ہم نے جہنم کے لئے بہت سے جنوں میں سے اور انسانوں میں سے ۔ ان کے لئے دل ہیں کہ نہیں سمجھتے ان کے ساتھ اور ان کے لئے آنکھیں ہیں کہ نہیں دیکھتے ان کے ساتھ اور ان کے لئے کان ہیں نہیں سنتے ان کے ساتھ ، یہ لوگ ہیں جانوروں کی طر ح بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ یہی لوگ ہیں غافل۔
جن و انس کی تخلیق اللہ تعالیٰ نے گزشتہ دروس کی آیات میں عہد خاص و عام کا ذکر کیا اور پھر اس عہد و پیمان کو توڑنے والوں کی مذمت کی اور ان کا انجام بھی بیان فرمایا اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کی گمراہی اور ان کے جہنم میں جانے کا ذکر کیا ہے ارشاد ہوتا ہے ولقد ذرانا اور البتہ تحقیق ہم نے پیدا کیے ذرا کا لفظی معنی بکھیرنا اور مراد پیدا کرنا ہوتا ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا ” ھوالذی ذراکم فی الارض والیہ تحشرون (الملک) وہی ذات ہے جس نے تمہیں زمین میں بکھیرا اور پھر تمہیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے تو گویا ذرا کا معنی پیدا کرنا ، بکھیرنا اور پھیلانا ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا پھر اس کی نسل کو زمین میں بکھیر دیا اور ان سے آگے نسل انسانی کو پھیلایا تو البتہ تحقیق ہم نے پیدا کیے ہیں لجھنم جہنم کے لیے کثیراً من الجن والانس بہت سے لوگ جنوں میں سے بھی اور انسانوں میں سے بھی۔ ایک اشکال اس ٹکڑا آیت سے یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے محض جہنم رسیدگی کے لیے جنوں اور انسانوں کو کثیر تعداد میں پیدا کیا ؟ ایسا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے مقصد تخلیق جن و انس کو اس طرح بیان فرمایا ہے ” وما خلقت الجن والانس الالیعبدون “ (الذاریات) میں نے جنوں اور انسانوں کو نہیں پیدا کیا مگر اپنی عبادت کے لیے گویا جنوں اور انسانوں کی پیدائش کا مقصد معرفت الٰہی اور عبادت الٰہی ہے مگر آیت زیر درس سے مترشح ہوتا ہے کہ جنوں اور انسانوں کی تخلیق کا مقصد ان کو جہنم میں ڈالنا ہے مفسرین کرام نے اس اشکال کو اس طرح دور کیا ہے کہ مقصد تخلیق تو اللہ کی پہچان اور ان کی عبادت ہی ہے مگر جب لوگ اپنے مرکز سے ہٹ جاتے ہیں اور مقصد تخلیق کو پورا نہیں کرتے تو پھر اس کا نتیجہ جہنم کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ اس بات کو اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ لجھنم کالام ابتداء کے لیے نہیں بلکہ غائت کے لیے آیا ہے یعنی مقصد جہنم نہیں بلکہ اس کی غائت یا انتہا جہنم ہے اس کی مثال سورة قصص میں موجود ہے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے آپ کو پانی میں بہادیا ” فالتقطہ ال فرعون “ پس اٹھا لیا اس بچے کو آل فرعون نے لیکون لھم عدواً حزناً تاکہ ہوجائے وہ ان کے لیے دشمن اور باعث غم ، لیکون کالام بھی اسی قسم کا ہے بچے کو اٹھانے کا بنیادی مقصد یہ نہیں تھا کہ وہ ان کے لیے باعث مصیبت بن جائے بلکہ ان کا مقصد تو یہ تھا عسیٰ ان ینفعنا او نتخذہ ولداً شاید یہ ہمیں فائدہ دے یا ہم اسے بیٹا بنالیں مگر اس کی انتہا یہ ہوئی کہ وہ فرعونیوں کا دشمن اور ان کے لیے باعث غم ثابت ہوا ظاہر ہے کہ فرعون اور اس کی قوم کا زوال اس بچے کی وجہ سے آیا جسے انہوں نے دریا سے اٹھا لیا تھا۔ بہرحال اس آیت کریمہ کا مطلب یہی ہے کہ ہم نے بہت سے جنوں اور انسانوں کو پیدا کیا جن کی انتہا جہنم میں پہنچنا ہوگا۔ اس قسم کے طرز کلام کی مثالیں عربی ادب میں بھی ملتی ہیں مثلاً عرب کہتے ہیں ؎ فلا تحزنی اوس فانہ لموت ماغذت الوالدۃ اے ام ادس ! تو غم نہ کر کیونکہ ماں اپنے بچے کو موت ہی کے لیے غذا دیتی ہے یعنی کھلاتی پلاتی اور پرورش کرتی ہے۔ اگرچہ ماں بچے کو موت کے لیے نہیں پالتی مگر اس کی غایت یہی ہے کہ بالآخر ہر پیدا ہونے والا موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے ایک اور عربی شاعر کہتا ہے ؎ لتا ملک ینادی کل یوم لدو للموت وایتو اللحزاب ہمارے لیے ہر روز فرشتہ آواز دیتا ہے کہ اے انسانو ! اولاد موت کے لیے جنو اور عمارتیں بربادی کے لیے تعمیر کرو ، مقصد یہ کہ جننے کا نتیجہ موت ہے اور تعمیر کا نتیجہ ویرانی۔ جنوں اور انسانوں کی اکثریت کی جہنم میں جانے کی تاویل اللہ تعالیٰ کے علم کی بنیاد پر بھی ہوسکتی ہے یعنی یہ بات اللہ تعالیٰ کے قطعی علم میں ہے کہ جن و انس کی اکثریت جہنم میں جائے گی چناچہ حدیث شریف کے الفاظ اس طرح ہیں کہ اللہ نے پیدا کیا مخلوق کو حالانکہ وہ اپنے آبائو اجداد کی پشت میں ہے لیکن ہیں وہ جہنمی ، نیز فرمایا کہ پیدا کیا اللہ نے مخلوق کو حالانکہ وہ اپنے آبائو اجداد کی پشت میں ہیں لیکن ہیں وہ جنتی ، مقصد یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کے متعلق خوب جانتا ہے کہ فلاں وقت وہ اپنے اختیار سے کفر کرے گا اور جہنم کا مستحق ہوگا جیسا کہ حضور ﷺ نے تقدیر کا مسئلہ سمجھانے کے لیے فرمایا ، یاد رکھو ! کہ جہنم میں جانے والے کا آخری عمل ایسا ہوگا جسے انجام دے کر وہ جہنم میں چلا جائے گا اور جنت میں جانے والے کا آخری عمل ایسا ہوگا جسے انجام دے کر وہ جنت میں داخل ہوگا یہ اللہ تعالیٰ کے ازلی علم میں موجود ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جنوں اور انسانوں کی اکثریت کو جہنم کے لیے پیدا کیا۔ آگے اللہ تعالیٰ نے انسان کے جہنمی ہونے کے لیے اس کے تین اجزائے جسم کا ذکر فرمایا ہے یعنی دل ، آنکھیں اور کان جو لوگ اللہ کی عطا کردہ ان نعمتوں سے کماحقہ مستفید نہیں ہوتے وہی جہنم کے مستحق بنتے ہیں اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ وہ بلا وجہ کسی کو سزا میں مبتلا نہیں کرتا ، اسے پورا پورا اختیار دیا جاتا ہے اور پھر عمل کے لیے میدان مہیا کیا جاتا ہے حضور علیہ اصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے کل میس لما خلق لہ ہر ایک کو اس چیز کی توفیق ملتی ہے جس چیز کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے یہاں تک کہ اس کا خاتمہ اس کے آخری عمل کے مطابق کردیا جاتا ہے ظاہر ہے کہ جو شخص دل ، آنکھ اور کان کو صحیح طور پر بروئے کار نہیں لائے گا وہ نہ تو ان سے مستفید ہوسکے گا اور نہ ہی کامیاب ہوگا بلکہ ایسا شخص جہنم کا حقدار ہوگا۔ دل اور اس کی کارکردگی ارشاد ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو جہنم کے لیے پیدا کیا گیا ہے لھم قلوب لا یفقھون بھا ان کے لیے دل ہیں مگر ان کے ساتھ سمجھتے نہیں یہ پہلی دیل ہے ان کے جہنمی ہونے کی کہ اللہ نے انہیں دل جیسی دولت عطا فرمائی ہے لیکن وہ اس سے کام ہی نہیں لیتے سورة انفال میں ایسے ہی لوگوں کے متعلق فرمایا ان شرالدواب عنداللہ اصلم البکم الذین یایعقلون یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین جانور بہرے گونگے ہیں جو کچھ نہیں سمجھتے اللہ تعالیٰ نے انہیں عقل جیسا جو ہر عطا کیا ہے مگر وہ اس سے کام ہی نہیں لیتے امام بیضادی (رح) قلب کے متعلق لکھت ہیں ھوالعقل کہ اس سے مراد عقل ہے گویا قلب ، فواد اور عقل قریب المعنی الفاظ ہیں پھر ان کا آپس میں ربط ہوتا ہے اطبا کہتے ہیں کہ ادراک کا تعلق دماغ کے ساتھ ہوتا ہے اور بعض یہ تعلق دل کے کے ساتھ مانتے ہیں گویا ادراک اور سمجھ وغیرہ کا تعلق دل کے ساتھ ہوتا ہے انسانی جسم کے اعضا دل ، دماغ اور جگر اعضائے رئیسہ کہلاتے ہیں ان میں سے اگر ایک جزو بھی ناکام ہوجائے تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا اللہ تعالیٰ نے انسان کے جسم میں جگر کی صورت میں بہت بڑی فیکٹری لگادی ہے جو خوراک خون میں تبدیل کرتی ہے انسان جو بھی خوراک کھاتا ہے وہ معدے میں پہنچتی ہے وہاں سے باریک نالیوں کے ذریعے جگر میں جاتی ہے جو اسے خون میں تبدیل کرتا ہے خون میں انسانی غذا کے جملہ اجزاء موجود ہوتے ہیں جگر اس خون کو نالیوں کے ذریعے قلب تک پہنچاتا ہے اور پھر قلب اس کو پورے جسم میں پھیلاتا ہے ایک منٹ میں دل بہتر مرتبہ حرکت کرتا ہے اور باریک ترین نالیوں کے ذریعے خون کو ہر حصہ جسم تک پہنچاتا ہے اس طرح جسم کا ہر عضو اپنی ضرورت کی غذا خون سے حاصل کرتا ہے دماغ ، ہڈیوں اور بالوں وغیرہ کو مختلف قسم کی غذا کی ضرورت ہوتی ہے ہر عضو مطلوبہ غذا لے لیتا ہے اور باقی کو دوسروں کے لیے چھوڑ دیتا ہے اور اس طرح جو فضلہ بن جاتا ہے وہ نالیوں کے ذریعے دوسرے راستوں سے خارج ہوجاتا ہے اسی طرح کاربن ڈائی آکسائیڈ انسانی جسم سے باہر نکل جاتی ہے جبکہ آکسیجن دوبارہ اندر داخل ہوتی ہے اگر انسانی جسم میں قلب موجود نہ ہو تو انسان کا خون دورہ نہ کرسکے اور نہ ہی جسم کے حص میں خوراک پہنچائی جاسکے اسی لیے جب انسان کا ہارٹ فیل ہکوجاتا ہے تو انسان کا خاتمہ ہوجاتا ہے قلب اور انسانی جسم کے نظام کو دماغی اعصاب کنٹرول کرتے ہیں دماغ کو باریک باریک شاخیں سارے جسم میں پھیلی ہوئی ہیں یہ اعضائے رئیسہ کہلاتے ہیں۔ اطبا کے نزدیک تو قلب کی کارکردگی اسی قدر ہے۔ مگر دراصل قلب ایک بہت بڑی حقیقت ہے اور یہ ایسی چیزوں کا حامل ہے جو بظاہر نظر نہیں آتیں اہل حق جن کی باطنی نگاہ اور تجربہ بہت وسیع ہوتا ہے وہ قلب کی اصلیت کو خوب سمجھتے ہیں محبت ، نفرت ، خوف ، رجیٰ اور اقدام کے تمام جذبات کا تعلق قلب کے ساتھ ہوتا ہے اسی لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ انسان کے جسم میں ایک لوتھڑا ہے اگر اس کی اصلاح ہوجائے تو سارے جسم کی اصلاح ہوجاتی ہے اور اگر اس میں بگاڑ پیدا ہوجائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے فرمایا الاوہی القلب یاد رکھو ! وہ لوتھڑا دل ہے قلب مرکز اخلاق ہے جب یہ بگڑ جاتا ہے تو سارا نظام ہی خراب ہوجاتا ہے فرض کرو اگر قلب میں ایمان کی بجائے شرک ، اخلاص کی بجائے ریا کاری اور نفاق پیدا ہوجائے تو نظام بگڑ جائے گا اور اگر اس میں ایمان ، توحید اور اخلاص ہے تو دل ٹھیک ٹھاک ہے اور سارا نظام درست ہے۔ قلب کی وجہ تسمیہ قلب کا لغوی معنی الٹ پلٹ ہوتا ہے اور دل کو قلب اس لیے کہتے ہیں کہ یہ جسم میں الٹا لٹکا ہوا ہے اس کا پیندا اوپر اور سرنیچے کی طرف ہے اس کا نام قلب اس لیے بھی ہے کہ یہ جلدی جلدی پلٹیاں کھاتا ہے دل کے متعلق قرآن و سنت میں بہت سی دعائیں بھی مذکور ہیں جیسے ربنا لاتزغ قلوبنا بعد اذھدایتنا اے ہمارے پروردگار ! ہدایت سے سرفراز کرنے کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر (آل عمران) حضور علیہ اسلام نے یہ دعا سکھائی ہے یا مقلب القلوب صرف قلبی علی طاعتک اے دلوں کے پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے اگلی سورة میں بھی آرہا ہے کہ دیکھو نیکی اور اطاعت کرنے میں جلدی کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ دل ہی پلٹ جائے واعلمو ان اللہ یحول بین المرء وقلبہ (انفال) یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ آدمی اور اس کے دل کے درمیان رکاوٹ ڈال دیے گا اور اس کے خیالات ہی پلٹ جائیں گے بہرحال دل کو قلب اس لیے کہتے ہیں انہ یتقلب کہ یہ پلٹیاں کھاتا رہا ہے اس کی مثال لفظ انسان سے بھی دی جاسکتی ہے وما سمی الانسان الالانسہ انسان کو انسان اس لیے کہتے ہیں کہ وہ مانوس ہوتا ہے اسے انس کی ضرورت ہوتی ہے وہ تنہائی کو پسند نہیں کرتا بلکہ مل جل کر رہنا چاہتا ہے اسی طرح دل کو پلٹیاں کھانے کے وجہ سے قلب کہا جاتا ہے تمام اچھے برے خیالات دل ہی سے اٹھتے ہیں اگر قلب میں اس قسم کے خیالات پیدا ہوں جن کا تعلق کھانے پینے یا شہوانیات سے ہو تو ایسے قلب کو شریعت میں قلب بہیمی کہتے ہیں گویا یہ جانوروں جیسا دل ہے جو نفسانی خواہشات تک محدود ہے اور اگر دل میں پاکیزہ خیالات وارد ہوں ، نیکی کی بات پیدا ہو ، فرشتوں کے الہام کو قبول کرنے والا مادہ آجائے تو ایسے قلب کو قلب ملکی کہا جاتا ہے گویا یہ ملکیت کے جذبات رکھنے والا دل ہے اس طرح اگر کسی شخص کا دل شیطانی وسواس کا قبول کرتا ہے تو ایسے انسان کو شیطان کہا جاتا ہے۔ دل کا صحیح استعمال دل ایک بہت بڑی حقیقت ہے یہ خدا شناسی کا مرکز ہے روح کا تعلق بھی قلب کے ساتھ ہے اس کے علاوہ بزرگان دین کے تجربات میں آنے والے لطائف ظاہرہ و باطنہ ، سر ، خفی ، اخفی اور حجربحت وغیرہ کا تعلق دل کے ساتھ ہے قرآن پاک میں اس کو فواد وغیرہ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے ان السمع والبصر والفواد کل اولیک کان عنہ مسولاً (بنی اسرائیل) کان ، آنکھ اور دل بڑی اہم چیزیں ہیں ان کے متعلق باز پرس ہوگی اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کے لیے دل جیسی عظیم نعمت عطا کی ہے اگر اسے اس مقصد کے لیے استعمال نہ کیا گیا تو انسان ناکام ہوجائے گا اور پھر لجھنم کا مستحق ٹھہرے گا اگر دل سے صحیح بات نہیں سوچی دل میں صحیح جذبات نہیں جمائے بلکہ غلط خیالات اور باطل عقائد کو دل میں جگہ دی ہے تو یہ دل کا صیح استعمال نہیں ہے اس کا نتیجہ جہنم کی صورت میں برآمد ہوگا ڈاکٹر اقبال مرحوم بھی کہتے ہیں ؎ غافل ترے زمرد مسلماں نہ دیدہ ام دل درمیان سینہ و بیگانہ دل است میں نے مسلمان سے زیادہ غافل کسی انسان کو نہیں دیکھا کہ اس کے سینے میں دل موجود ہے مگر وہ اس سے بیگانہ ہے ۔ اسے علم ہی نہیں کہ یہ اللہ کی عطا کردہ کتنی بڑی دولت ہے اسی لیے فرمایا کہ ان کے دل ہیں مگر وہ سمجھتے نہیں اللہ نے دل تو اس لیے دیا تھا کہ لوگ فہم سے کام لیں اور دل میں پاکیزہ جذبات پیدا کریں مگر انہوں نے نا سمھجی میں اس کو ضائع کردیا۔ آنکھوں کی نعمت دل کا شکوہ کرنے کے بعد فرمایا ولھم اعین لایبصرون بھا ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان کے ساتھ دیکھتے ہی نہیں اللہ تعالیٰ نے یہ آنکھیں اچھی اور بری چیز کی امتیاز کے لیے دی تھیں آنکھیں آیا ت الٰہی اور دلائل قدرت کے مشاہدہ کے لیے عطا کی گئی تھیں اور یہ بہت بڑی نعمت ہیں حضور ﷺ کا ارشاد ہے من سیلت کریمتیہ فصبر فلن ارضی لہ دون الجنۃ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس شخص نے دو عزت والی چیزیں یعنی آنکھیں میں نے چھین لیں اور اس نے صبر کیا تو میں اس کے لیے جنت سے کم کسی چیز پر راضی نہیں ہوں گا یعنی اسے ضرور جنت میں داخل کروں گا مشہور مقولہ ہے کہ نظر ہے تو جہاں ہے ورنہ کچھ نہیں ان آنکھوں کی ناقدری یہ ہے کہ جس کام کے لیے عطا کی گئی ہیں اس سے اغماض نہ برتیں اگر کسی غلط جگہ پر آنکھ اٹھے گی تو ظاہر ہے کہ اس کا استعمال صحیح نہیں ہوگا اللہ نے تو یہ آنکھیں اس لیے دی ہیں کہ ان کے ساتھ اچھی چیز کو دیکھا جائے کلام الٰہی کی تلاش کی جائے قدرت کے نشانات کا مشاہدہ کیا جائے اور ان سے صحیح نتیجہ اخذ کیا جائے کفر ، شرک اور حرام اشیاء کی طرف سے آنکھیں بند کرلی جائے ، کھیل تماشے ، فلم ، ٹیلیویژن اور ناچ گانے سے پرہیز کیا جائے خدا تعالیٰ اور اس کے پیغمبر کے حکیمانہ کلام کو دیکھا جائے اور اگر ان آنکھوں سے جائز کام نہیں لیا جائے گا بلکہ ان کو ناجائز امور کی طرف لگایا جائے گا تو مطلب یہی ہوگا کہ ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ کانوں سے استفادہ کان بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں ان کے ذریعے انسان آنکھوں سے بھی زیادہ معلومات حاصل کرتا ہے یعنی بصارت کی نسبت سماعت سے انسان زیادہ مستفید ہوتا ہے آنکھیں اور کان معلومات کو دماغ تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں جب یہ معلومات دماغ میں پہنچتی ہیں تو پھر وہ معاملے کا فیصلہ کرتا ہے اور انسان اس کے مطابق عملدرآمد کرتا ہے آنکھوں کی طرح کانوں کا صحیح استعمال ہی انسان کو کامیابی سے ہمکنار کرسکتا ہے قرآن پاک کی تلاوت ، احادیث نبوی ، احکامات الٰہی ، وعظ و نصیحت سنے گا تو یہ کانوں کا صحیح مصرف ہوگا اور اگر کسی شخص نے اپنی سماعت کو گانے بجانے ، قصہ کہانیاں ، بیہودہ باتیں ، لطیفہ گوئی ، ٹیلیویژن اور وی سی آر کی طرف مرکوز کردیا تو ظاہر ہے کہ اس نے اس نعمت کی قدر نہیں کی ایسے ہی لوگوں کے متعلق یہاں ارشاد باری تعالیٰ ہے ولھم اذان لایسمعون بھا ان کے کان تو موجود ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ جانوروں سے بدتر اللہ تعالیٰ نے یہاں پر انسان کے تین اہم اجزا دل ، آنکھ اور کان کا ذکر کرکے فرمایا کہ جن لوگوں نے ان اعضائے رئیسہ سے صحیح کام نہ لیا اولیک کالا نعام یہ جانوروں اور مویشیوں کی طرح ہیں جانور بھی اپنی مادی ضروریات کھانے پینے اور شہوانیات تک محدود رکھتے ہیں ان کے نزدیک اور کوئی اعلیٰ وارفع مقصد نہیں ہوتا اسی طرح یہ لوگ بھی مادیت کے پجاری ہیں لہٰذا یہ بھی جانوروں کی مانند ہیں فرمایا بل ھم اضل بلکہ جانوروں سے بھی زیادہ گمراہ ہیں ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ہیں وجہ یہ ہے کہ کوئی جانور اپنے مقصد تخلیق کو فراموش نہیں کرتا اللہ تعالیٰ نے اسے جس مقصد کے لیے پیدا فرمایا ہے وہ اپنا فرض انجام دیتا ہے جب اس کا مالک کسی کام کے لیے پکارتا ہے تو وہ اس آواز کو سنتا ہے اور اس کے حکم پر عمل کرتا ہے اور جس چیز سے منع کرتا ہے اس سے رک جاتا ہے مگر یہ حضرت انسان ہے کہ اس کا مالک اسے دن میں پانچ دفعہ بلاتا ہے مگر یہ سنی ان سنی کردیتا ہے وہ جس کام کا حکم دیتا ہے اسے ٹال جاتا ہے اور جس کام سے منع کرتا ہے یہ اس پر اڑا رہتا ہے جانور اپنے مالک کی خواہش کو اپنی خواہش پر مقدم رکھتے ہیں مگر انسان اپنی مرضی کو مالک کی مرضی پر ترجیح دیتا ہے اسی لیے فرمایا کہ اللہ کی نعمتوں کی ناقدری کرنے والے انسان جانوروں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں شاہ عبدالعزیز (رح) فرماتے ہیں کہ کفر اور شرک کرنے والے اللہ کی بدترین مخلوق ہیں جنہیں اللہ نے شرا البریۃ فرمایا ہے وجہ یہی ہے کہ وہ اپنی خواہش کو مالک کی خواہش پر مقدم رکھتے ہیں۔ غافل لوگ فرمایا مذکورہ تعریف کی بنا پر جو لوگ جانوروں سے بھی بدتر ہیں اولیک ھم الغفلون وہ حقیقت میں غافل ہیں غفلت انسان کو دوزخ تک پہنچانے کا ذریعہ بن جاتی ہے اللہ کے ذکر سے غافل ہونا ناکامی کی دلیل ہے غفلت ہی مادیت ، حرص اور دنیا میں انہماک کا سبب بنتی ہے اسی لیے فرمایا کہ یہ لوگ غافل ہیں جو اپنے رب تعالیٰ کو یاد ہی نہیں کرتے اس کا حکم تو یہ ہے کہ اپنے رب کو صبح و شام یاد کرو ” ولا تکن من الغفلین “ (اعراف) اور غفلت کرنے والوں میں نہ ہوجائو اللہ تعالیٰ سے سب سے بعید چیز قلب غافل ہے لہٰذا خدا کی یاد سے غافل نہیں ہونا چاہیے یہ لوگ کال درجے کے غافل ہیں لہٰذا ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔
Top