Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 179
وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ١ۖ٘ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا١٘ وَ لَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَا١٘ وَ لَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَا١ؕ اُولٰٓئِكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ
وَلَقَدْ ذَرَاْنَا
: اور ہم نے پیدا کیے
لِجَهَنَّمَ
: جہنم کے لیے
كَثِيْرًا
: بہت سے
مِّنَ
: سے
الْجِنِّ
: جن
وَالْاِنْسِ
: اور انسان
لَهُمْ
: ان کے
قُلُوْبٌ
: دل
لَّا يَفْقَهُوْنَ
: سمجھتے نہیں
بِهَا
: ان سے
وَلَهُمْ
: اور ان کے لیے
اَعْيُنٌ
: آنکھیں
لَّا يُبْصِرُوْنَ
: نہیں دیکھتے
بِهَا
: ان سے
وَلَهُمْ
: اور ان کیلئے
اٰذَانٌ
: کان
لَّا يَسْمَعُوْنَ
: نہیں سنتے
بِهَا
: ان سے
اُولٰٓئِكَ
: یہی لوگ
كَالْاَنْعَامِ
: چوپایوں کے مانند
بَلْ
: بلکہ
هُمْ
: وہ
اَضَلُّ
: بدترین گمراہ
اُولٰٓئِكَ
: یہی لوگ
هُمُ
: وہ
الْغٰفِلُوْنَ
: غافل (جمع)
اور البتہ تحقیق پیدا کئے ہم نے جہنم کے لئے بہت سے جنوں میں سے اور انسانوں میں سے ۔ ان کے لئے دل ہیں کہ نہیں سمجھتے ان کے ساتھ اور ان کے لئے آنکھیں ہیں کہ نہیں دیکھتے ان کے ساتھ اور ان کے لئے کان ہیں نہیں سنتے ان کے ساتھ ، یہ لوگ ہیں جانوروں کی طر ح بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ یہی لوگ ہیں غافل۔
جن و انس کی تخلیق اللہ تعالیٰ نے گزشتہ دروس کی آیات میں عہد خاص و عام کا ذکر کیا اور پھر اس عہد و پیمان کو توڑنے والوں کی مذمت کی اور ان کا انجام بھی بیان فرمایا اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کی گمراہی اور ان کے جہنم میں جانے کا ذکر کیا ہے ارشاد ہوتا ہے ولقد ذرانا اور البتہ تحقیق ہم نے پیدا کیے ذرا کا لفظی معنی بکھیرنا اور مراد پیدا کرنا ہوتا ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا ” ھوالذی ذراکم فی الارض والیہ تحشرون (الملک) وہی ذات ہے جس نے تمہیں زمین میں بکھیرا اور پھر تمہیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے تو گویا ذرا کا معنی پیدا کرنا ، بکھیرنا اور پھیلانا ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا پھر اس کی نسل کو زمین میں بکھیر دیا اور ان سے آگے نسل انسانی کو پھیلایا تو البتہ تحقیق ہم نے پیدا کیے ہیں لجھنم جہنم کے لیے کثیراً من الجن والانس بہت سے لوگ جنوں میں سے بھی اور انسانوں میں سے بھی۔ ایک اشکال اس ٹکڑا آیت سے یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے محض جہنم رسیدگی کے لیے جنوں اور انسانوں کو کثیر تعداد میں پیدا کیا ؟ ایسا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے مقصد تخلیق جن و انس کو اس طرح بیان فرمایا ہے ” وما خلقت الجن والانس الالیعبدون “ (الذاریات) میں نے جنوں اور انسانوں کو نہیں پیدا کیا مگر اپنی عبادت کے لیے گویا جنوں اور انسانوں کی پیدائش کا مقصد معرفت الٰہی اور عبادت الٰہی ہے مگر آیت زیر درس سے مترشح ہوتا ہے کہ جنوں اور انسانوں کی تخلیق کا مقصد ان کو جہنم میں ڈالنا ہے مفسرین کرام نے اس اشکال کو اس طرح دور کیا ہے کہ مقصد تخلیق تو اللہ کی پہچان اور ان کی عبادت ہی ہے مگر جب لوگ اپنے مرکز سے ہٹ جاتے ہیں اور مقصد تخلیق کو پورا نہیں کرتے تو پھر اس کا نتیجہ جہنم کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ اس بات کو اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ لجھنم کالام ابتداء کے لیے نہیں بلکہ غائت کے لیے آیا ہے یعنی مقصد جہنم نہیں بلکہ اس کی غائت یا انتہا جہنم ہے اس کی مثال سورة قصص میں موجود ہے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے آپ کو پانی میں بہادیا ” فالتقطہ ال فرعون “ پس اٹھا لیا اس بچے کو آل فرعون نے لیکون لھم عدواً حزناً تاکہ ہوجائے وہ ان کے لیے دشمن اور باعث غم ، لیکون کالام بھی اسی قسم کا ہے بچے کو اٹھانے کا بنیادی مقصد یہ نہیں تھا کہ وہ ان کے لیے باعث مصیبت بن جائے بلکہ ان کا مقصد تو یہ تھا عسیٰ ان ینفعنا او نتخذہ ولداً شاید یہ ہمیں فائدہ دے یا ہم اسے بیٹا بنالیں مگر اس کی انتہا یہ ہوئی کہ وہ فرعونیوں کا دشمن اور ان کے لیے باعث غم ثابت ہوا ظاہر ہے کہ فرعون اور اس کی قوم کا زوال اس بچے کی وجہ سے آیا جسے انہوں نے دریا سے اٹھا لیا تھا۔ بہرحال اس آیت کریمہ کا مطلب یہی ہے کہ ہم نے بہت سے جنوں اور انسانوں کو پیدا کیا جن کی انتہا جہنم میں پہنچنا ہوگا۔ اس قسم کے طرز کلام کی مثالیں عربی ادب میں بھی ملتی ہیں مثلاً عرب کہتے ہیں ؎ فلا تحزنی اوس فانہ لموت ماغذت الوالدۃ اے ام ادس ! تو غم نہ کر کیونکہ ماں اپنے بچے کو موت ہی کے لیے غذا دیتی ہے یعنی کھلاتی پلاتی اور پرورش کرتی ہے۔ اگرچہ ماں بچے کو موت کے لیے نہیں پالتی مگر اس کی غایت یہی ہے کہ بالآخر ہر پیدا ہونے والا موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے ایک اور عربی شاعر کہتا ہے ؎ لتا ملک ینادی کل یوم لدو للموت وایتو اللحزاب ہمارے لیے ہر روز فرشتہ آواز دیتا ہے کہ اے انسانو ! اولاد موت کے لیے جنو اور عمارتیں بربادی کے لیے تعمیر کرو ، مقصد یہ کہ جننے کا نتیجہ موت ہے اور تعمیر کا نتیجہ ویرانی۔ جنوں اور انسانوں کی اکثریت کی جہنم میں جانے کی تاویل اللہ تعالیٰ کے علم کی بنیاد پر بھی ہوسکتی ہے یعنی یہ بات اللہ تعالیٰ کے قطعی علم میں ہے کہ جن و انس کی اکثریت جہنم میں جائے گی چناچہ حدیث شریف کے الفاظ اس طرح ہیں کہ اللہ نے پیدا کیا مخلوق کو حالانکہ وہ اپنے آبائو اجداد کی پشت میں ہے لیکن ہیں وہ جہنمی ، نیز فرمایا کہ پیدا کیا اللہ نے مخلوق کو حالانکہ وہ اپنے آبائو اجداد کی پشت میں ہیں لیکن ہیں وہ جنتی ، مقصد یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کے متعلق خوب جانتا ہے کہ فلاں وقت وہ اپنے اختیار سے کفر کرے گا اور جہنم کا مستحق ہوگا جیسا کہ حضور ﷺ نے تقدیر کا مسئلہ سمجھانے کے لیے فرمایا ، یاد رکھو ! کہ جہنم میں جانے والے کا آخری عمل ایسا ہوگا جسے انجام دے کر وہ جہنم میں چلا جائے گا اور جنت میں جانے والے کا آخری عمل ایسا ہوگا جسے انجام دے کر وہ جنت میں داخل ہوگا یہ اللہ تعالیٰ کے ازلی علم میں موجود ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جنوں اور انسانوں کی اکثریت کو جہنم کے لیے پیدا کیا۔ آگے اللہ تعالیٰ نے انسان کے جہنمی ہونے کے لیے اس کے تین اجزائے جسم کا ذکر فرمایا ہے یعنی دل ، آنکھیں اور کان جو لوگ اللہ کی عطا کردہ ان نعمتوں سے کماحقہ مستفید نہیں ہوتے وہی جہنم کے مستحق بنتے ہیں اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ وہ بلا وجہ کسی کو سزا میں مبتلا نہیں کرتا ، اسے پورا پورا اختیار دیا جاتا ہے اور پھر عمل کے لیے میدان مہیا کیا جاتا ہے حضور علیہ اصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے کل میس لما خلق لہ ہر ایک کو اس چیز کی توفیق ملتی ہے جس چیز کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے یہاں تک کہ اس کا خاتمہ اس کے آخری عمل کے مطابق کردیا جاتا ہے ظاہر ہے کہ جو شخص دل ، آنکھ اور کان کو صحیح طور پر بروئے کار نہیں لائے گا وہ نہ تو ان سے مستفید ہوسکے گا اور نہ ہی کامیاب ہوگا بلکہ ایسا شخص جہنم کا حقدار ہوگا۔ دل اور اس کی کارکردگی ارشاد ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو جہنم کے لیے پیدا کیا گیا ہے لھم قلوب لا یفقھون بھا ان کے لیے دل ہیں مگر ان کے ساتھ سمجھتے نہیں یہ پہلی دیل ہے ان کے جہنمی ہونے کی کہ اللہ نے انہیں دل جیسی دولت عطا فرمائی ہے لیکن وہ اس سے کام ہی نہیں لیتے سورة انفال میں ایسے ہی لوگوں کے متعلق فرمایا ان شرالدواب عنداللہ اصلم البکم الذین یایعقلون یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین جانور بہرے گونگے ہیں جو کچھ نہیں سمجھتے اللہ تعالیٰ نے انہیں عقل جیسا جو ہر عطا کیا ہے مگر وہ اس سے کام ہی نہیں لیتے امام بیضادی (رح) قلب کے متعلق لکھت ہیں ھوالعقل کہ اس سے مراد عقل ہے گویا قلب ، فواد اور عقل قریب المعنی الفاظ ہیں پھر ان کا آپس میں ربط ہوتا ہے اطبا کہتے ہیں کہ ادراک کا تعلق دماغ کے ساتھ ہوتا ہے اور بعض یہ تعلق دل کے کے ساتھ مانتے ہیں گویا ادراک اور سمجھ وغیرہ کا تعلق دل کے ساتھ ہوتا ہے انسانی جسم کے اعضا دل ، دماغ اور جگر اعضائے رئیسہ کہلاتے ہیں ان میں سے اگر ایک جزو بھی ناکام ہوجائے تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا اللہ تعالیٰ نے انسان کے جسم میں جگر کی صورت میں بہت بڑی فیکٹری لگادی ہے جو خوراک خون میں تبدیل کرتی ہے انسان جو بھی خوراک کھاتا ہے وہ معدے میں پہنچتی ہے وہاں سے باریک نالیوں کے ذریعے جگر میں جاتی ہے جو اسے خون میں تبدیل کرتا ہے خون میں انسانی غذا کے جملہ اجزاء موجود ہوتے ہیں جگر اس خون کو نالیوں کے ذریعے قلب تک پہنچاتا ہے اور پھر قلب اس کو پورے جسم میں پھیلاتا ہے ایک منٹ میں دل بہتر مرتبہ حرکت کرتا ہے اور باریک ترین نالیوں کے ذریعے خون کو ہر حصہ جسم تک پہنچاتا ہے اس طرح جسم کا ہر عضو اپنی ضرورت کی غذا خون سے حاصل کرتا ہے دماغ ، ہڈیوں اور بالوں وغیرہ کو مختلف قسم کی غذا کی ضرورت ہوتی ہے ہر عضو مطلوبہ غذا لے لیتا ہے اور باقی کو دوسروں کے لیے چھوڑ دیتا ہے اور اس طرح جو فضلہ بن جاتا ہے وہ نالیوں کے ذریعے دوسرے راستوں سے خارج ہوجاتا ہے اسی طرح کاربن ڈائی آکسائیڈ انسانی جسم سے باہر نکل جاتی ہے جبکہ آکسیجن دوبارہ اندر داخل ہوتی ہے اگر انسانی جسم میں قلب موجود نہ ہو تو انسان کا خون دورہ نہ کرسکے اور نہ ہی جسم کے حص میں خوراک پہنچائی جاسکے اسی لیے جب انسان کا ہارٹ فیل ہکوجاتا ہے تو انسان کا خاتمہ ہوجاتا ہے قلب اور انسانی جسم کے نظام کو دماغی اعصاب کنٹرول کرتے ہیں دماغ کو باریک باریک شاخیں سارے جسم میں پھیلی ہوئی ہیں یہ اعضائے رئیسہ کہلاتے ہیں۔ اطبا کے نزدیک تو قلب کی کارکردگی اسی قدر ہے۔ مگر دراصل قلب ایک بہت بڑی حقیقت ہے اور یہ ایسی چیزوں کا حامل ہے جو بظاہر نظر نہیں آتیں اہل حق جن کی باطنی نگاہ اور تجربہ بہت وسیع ہوتا ہے وہ قلب کی اصلیت کو خوب سمجھتے ہیں محبت ، نفرت ، خوف ، رجیٰ اور اقدام کے تمام جذبات کا تعلق قلب کے ساتھ ہوتا ہے اسی لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ انسان کے جسم میں ایک لوتھڑا ہے اگر اس کی اصلاح ہوجائے تو سارے جسم کی اصلاح ہوجاتی ہے اور اگر اس میں بگاڑ پیدا ہوجائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے فرمایا الاوہی القلب یاد رکھو ! وہ لوتھڑا دل ہے قلب مرکز اخلاق ہے جب یہ بگڑ جاتا ہے تو سارا نظام ہی خراب ہوجاتا ہے فرض کرو اگر قلب میں ایمان کی بجائے شرک ، اخلاص کی بجائے ریا کاری اور نفاق پیدا ہوجائے تو نظام بگڑ جائے گا اور اگر اس میں ایمان ، توحید اور اخلاص ہے تو دل ٹھیک ٹھاک ہے اور سارا نظام درست ہے۔ قلب کی وجہ تسمیہ قلب کا لغوی معنی الٹ پلٹ ہوتا ہے اور دل کو قلب اس لیے کہتے ہیں کہ یہ جسم میں الٹا لٹکا ہوا ہے اس کا پیندا اوپر اور سرنیچے کی طرف ہے اس کا نام قلب اس لیے بھی ہے کہ یہ جلدی جلدی پلٹیاں کھاتا ہے دل کے متعلق قرآن و سنت میں بہت سی دعائیں بھی مذکور ہیں جیسے ربنا لاتزغ قلوبنا بعد اذھدایتنا اے ہمارے پروردگار ! ہدایت سے سرفراز کرنے کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر (آل عمران) حضور علیہ اسلام نے یہ دعا سکھائی ہے یا مقلب القلوب صرف قلبی علی طاعتک اے دلوں کے پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے اگلی سورة میں بھی آرہا ہے کہ دیکھو نیکی اور اطاعت کرنے میں جلدی کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ دل ہی پلٹ جائے واعلمو ان اللہ یحول بین المرء وقلبہ (انفال) یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ آدمی اور اس کے دل کے درمیان رکاوٹ ڈال دیے گا اور اس کے خیالات ہی پلٹ جائیں گے بہرحال دل کو قلب اس لیے کہتے ہیں انہ یتقلب کہ یہ پلٹیاں کھاتا رہا ہے اس کی مثال لفظ انسان سے بھی دی جاسکتی ہے وما سمی الانسان الالانسہ انسان کو انسان اس لیے کہتے ہیں کہ وہ مانوس ہوتا ہے اسے انس کی ضرورت ہوتی ہے وہ تنہائی کو پسند نہیں کرتا بلکہ مل جل کر رہنا چاہتا ہے اسی طرح دل کو پلٹیاں کھانے کے وجہ سے قلب کہا جاتا ہے تمام اچھے برے خیالات دل ہی سے اٹھتے ہیں اگر قلب میں اس قسم کے خیالات پیدا ہوں جن کا تعلق کھانے پینے یا شہوانیات سے ہو تو ایسے قلب کو شریعت میں قلب بہیمی کہتے ہیں گویا یہ جانوروں جیسا دل ہے جو نفسانی خواہشات تک محدود ہے اور اگر دل میں پاکیزہ خیالات وارد ہوں ، نیکی کی بات پیدا ہو ، فرشتوں کے الہام کو قبول کرنے والا مادہ آجائے تو ایسے قلب کو قلب ملکی کہا جاتا ہے گویا یہ ملکیت کے جذبات رکھنے والا دل ہے اس طرح اگر کسی شخص کا دل شیطانی وسواس کا قبول کرتا ہے تو ایسے انسان کو شیطان کہا جاتا ہے۔ دل کا صحیح استعمال دل ایک بہت بڑی حقیقت ہے یہ خدا شناسی کا مرکز ہے روح کا تعلق بھی قلب کے ساتھ ہے اس کے علاوہ بزرگان دین کے تجربات میں آنے والے لطائف ظاہرہ و باطنہ ، سر ، خفی ، اخفی اور حجربحت وغیرہ کا تعلق دل کے ساتھ ہے قرآن پاک میں اس کو فواد وغیرہ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے ان السمع والبصر والفواد کل اولیک کان عنہ مسولاً (بنی اسرائیل) کان ، آنکھ اور دل بڑی اہم چیزیں ہیں ان کے متعلق باز پرس ہوگی اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کے لیے دل جیسی عظیم نعمت عطا کی ہے اگر اسے اس مقصد کے لیے استعمال نہ کیا گیا تو انسان ناکام ہوجائے گا اور پھر لجھنم کا مستحق ٹھہرے گا اگر دل سے صحیح بات نہیں سوچی دل میں صحیح جذبات نہیں جمائے بلکہ غلط خیالات اور باطل عقائد کو دل میں جگہ دی ہے تو یہ دل کا صیح استعمال نہیں ہے اس کا نتیجہ جہنم کی صورت میں برآمد ہوگا ڈاکٹر اقبال مرحوم بھی کہتے ہیں ؎ غافل ترے زمرد مسلماں نہ دیدہ ام دل درمیان سینہ و بیگانہ دل است میں نے مسلمان سے زیادہ غافل کسی انسان کو نہیں دیکھا کہ اس کے سینے میں دل موجود ہے مگر وہ اس سے بیگانہ ہے ۔ اسے علم ہی نہیں کہ یہ اللہ کی عطا کردہ کتنی بڑی دولت ہے اسی لیے فرمایا کہ ان کے دل ہیں مگر وہ سمجھتے نہیں اللہ نے دل تو اس لیے دیا تھا کہ لوگ فہم سے کام لیں اور دل میں پاکیزہ جذبات پیدا کریں مگر انہوں نے نا سمھجی میں اس کو ضائع کردیا۔ آنکھوں کی نعمت دل کا شکوہ کرنے کے بعد فرمایا ولھم اعین لایبصرون بھا ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان کے ساتھ دیکھتے ہی نہیں اللہ تعالیٰ نے یہ آنکھیں اچھی اور بری چیز کی امتیاز کے لیے دی تھیں آنکھیں آیا ت الٰہی اور دلائل قدرت کے مشاہدہ کے لیے عطا کی گئی تھیں اور یہ بہت بڑی نعمت ہیں حضور ﷺ کا ارشاد ہے من سیلت کریمتیہ فصبر فلن ارضی لہ دون الجنۃ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس شخص نے دو عزت والی چیزیں یعنی آنکھیں میں نے چھین لیں اور اس نے صبر کیا تو میں اس کے لیے جنت سے کم کسی چیز پر راضی نہیں ہوں گا یعنی اسے ضرور جنت میں داخل کروں گا مشہور مقولہ ہے کہ نظر ہے تو جہاں ہے ورنہ کچھ نہیں ان آنکھوں کی ناقدری یہ ہے کہ جس کام کے لیے عطا کی گئی ہیں اس سے اغماض نہ برتیں اگر کسی غلط جگہ پر آنکھ اٹھے گی تو ظاہر ہے کہ اس کا استعمال صحیح نہیں ہوگا اللہ نے تو یہ آنکھیں اس لیے دی ہیں کہ ان کے ساتھ اچھی چیز کو دیکھا جائے کلام الٰہی کی تلاش کی جائے قدرت کے نشانات کا مشاہدہ کیا جائے اور ان سے صحیح نتیجہ اخذ کیا جائے کفر ، شرک اور حرام اشیاء کی طرف سے آنکھیں بند کرلی جائے ، کھیل تماشے ، فلم ، ٹیلیویژن اور ناچ گانے سے پرہیز کیا جائے خدا تعالیٰ اور اس کے پیغمبر کے حکیمانہ کلام کو دیکھا جائے اور اگر ان آنکھوں سے جائز کام نہیں لیا جائے گا بلکہ ان کو ناجائز امور کی طرف لگایا جائے گا تو مطلب یہی ہوگا کہ ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ کانوں سے استفادہ کان بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں ان کے ذریعے انسان آنکھوں سے بھی زیادہ معلومات حاصل کرتا ہے یعنی بصارت کی نسبت سماعت سے انسان زیادہ مستفید ہوتا ہے آنکھیں اور کان معلومات کو دماغ تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں جب یہ معلومات دماغ میں پہنچتی ہیں تو پھر وہ معاملے کا فیصلہ کرتا ہے اور انسان اس کے مطابق عملدرآمد کرتا ہے آنکھوں کی طرح کانوں کا صحیح استعمال ہی انسان کو کامیابی سے ہمکنار کرسکتا ہے قرآن پاک کی تلاوت ، احادیث نبوی ، احکامات الٰہی ، وعظ و نصیحت سنے گا تو یہ کانوں کا صحیح مصرف ہوگا اور اگر کسی شخص نے اپنی سماعت کو گانے بجانے ، قصہ کہانیاں ، بیہودہ باتیں ، لطیفہ گوئی ، ٹیلیویژن اور وی سی آر کی طرف مرکوز کردیا تو ظاہر ہے کہ اس نے اس نعمت کی قدر نہیں کی ایسے ہی لوگوں کے متعلق یہاں ارشاد باری تعالیٰ ہے ولھم اذان لایسمعون بھا ان کے کان تو موجود ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ جانوروں سے بدتر اللہ تعالیٰ نے یہاں پر انسان کے تین اہم اجزا دل ، آنکھ اور کان کا ذکر کرکے فرمایا کہ جن لوگوں نے ان اعضائے رئیسہ سے صحیح کام نہ لیا اولیک کالا نعام یہ جانوروں اور مویشیوں کی طرح ہیں جانور بھی اپنی مادی ضروریات کھانے پینے اور شہوانیات تک محدود رکھتے ہیں ان کے نزدیک اور کوئی اعلیٰ وارفع مقصد نہیں ہوتا اسی طرح یہ لوگ بھی مادیت کے پجاری ہیں لہٰذا یہ بھی جانوروں کی مانند ہیں فرمایا بل ھم اضل بلکہ جانوروں سے بھی زیادہ گمراہ ہیں ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ہیں وجہ یہ ہے کہ کوئی جانور اپنے مقصد تخلیق کو فراموش نہیں کرتا اللہ تعالیٰ نے اسے جس مقصد کے لیے پیدا فرمایا ہے وہ اپنا فرض انجام دیتا ہے جب اس کا مالک کسی کام کے لیے پکارتا ہے تو وہ اس آواز کو سنتا ہے اور اس کے حکم پر عمل کرتا ہے اور جس چیز سے منع کرتا ہے اس سے رک جاتا ہے مگر یہ حضرت انسان ہے کہ اس کا مالک اسے دن میں پانچ دفعہ بلاتا ہے مگر یہ سنی ان سنی کردیتا ہے وہ جس کام کا حکم دیتا ہے اسے ٹال جاتا ہے اور جس کام سے منع کرتا ہے یہ اس پر اڑا رہتا ہے جانور اپنے مالک کی خواہش کو اپنی خواہش پر مقدم رکھتے ہیں مگر انسان اپنی مرضی کو مالک کی مرضی پر ترجیح دیتا ہے اسی لیے فرمایا کہ اللہ کی نعمتوں کی ناقدری کرنے والے انسان جانوروں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں شاہ عبدالعزیز (رح) فرماتے ہیں کہ کفر اور شرک کرنے والے اللہ کی بدترین مخلوق ہیں جنہیں اللہ نے شرا البریۃ فرمایا ہے وجہ یہی ہے کہ وہ اپنی خواہش کو مالک کی خواہش پر مقدم رکھتے ہیں۔ غافل لوگ فرمایا مذکورہ تعریف کی بنا پر جو لوگ جانوروں سے بھی بدتر ہیں اولیک ھم الغفلون وہ حقیقت میں غافل ہیں غفلت انسان کو دوزخ تک پہنچانے کا ذریعہ بن جاتی ہے اللہ کے ذکر سے غافل ہونا ناکامی کی دلیل ہے غفلت ہی مادیت ، حرص اور دنیا میں انہماک کا سبب بنتی ہے اسی لیے فرمایا کہ یہ لوگ غافل ہیں جو اپنے رب تعالیٰ کو یاد ہی نہیں کرتے اس کا حکم تو یہ ہے کہ اپنے رب کو صبح و شام یاد کرو ” ولا تکن من الغفلین “ (اعراف) اور غفلت کرنے والوں میں نہ ہوجائو اللہ تعالیٰ سے سب سے بعید چیز قلب غافل ہے لہٰذا خدا کی یاد سے غافل نہیں ہونا چاہیے یہ لوگ کال درجے کے غافل ہیں لہٰذا ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔
Top