Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 96
وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّ : یہ ہوتا کہ اَهْلَ الْقُرٰٓي : بستیوں والے اٰمَنُوْا : ایمان لاتے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگاری کرتے لَفَتَحْنَا : تو البتہ ہم کھول دیتے عَلَيْهِمْ : ان پر بَرَكٰتٍ : برکتیں مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان وَالْاَرْضِ : اور زمین وَلٰكِنْ : اور لیکن كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا فَاَخَذْنٰهُمْ : تو ہم نے انہیں پکڑا بِمَا : اس کے نتیجہ میں كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ : جو وہ کرتے تھے
اور اگر بستیوں کے رہنے والے ایمان لاتے اور تقوے کی راہ اختیار کرتے تو البتہ ہم کھول دیتے ان پر برکتیں آسمان کی طرف سے اور زمین سے ، لیکن انہوں نے جھٹلایا ، پس پکڑا ان کو ان کاموں کے بدلے جو وہ کماتے تھے
ربط آیات تبلیغ رسالت کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے اس سورة کی ابتداء میں تخلیق انسان اور خلاف ارضی کا ذکر کیا ہے پھر انبیاء کی بعثت اور سلسلہ تبلیغ کے ضمن میں پانچ انبیاء اور ان کی قوموں کا حال بیان کیا گزشتہ دو آیات میں اللہ نے اقوام عالم کی ذہنیت کا حال بیان فرمایا ، ان کی انبیاء دشمنی اور اللہ کی سنت کا ذکر کیا جب لوگوں انبیاء (علیہم السلام) کی مخالفت پر تل جاتے ہیں تو ابتداء میں اللہ تعالیٰ معمولی آزمائش میں ڈالتا ہے اندرونی اور بیرونی تکالیف میں ڈال کر قوم کو متنبہ کرتا ہے اگر لوگ اس تنبیہہ کا کوئی اثر قبول نہیں کرتے تو پھر اللہ تعالیٰ تکلیف کی جگہ راحت اور برائی کی جگہ اچھائی کو لے آتا ہے آرام و راحت میں پڑ کر اکثر لوگ غفلت کا شکار ہوجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع نہیں کرتے تکلیف اور راحت کو زمانے کا چکر سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے آبائو اجداد سے یہ دستور چلا آرہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی گرفت اچانک آتی ہے اور انہیں بیخبر ی میں ہی ہلاک کردیتی ہے اللہ تعالیٰ نے یہاں پر صرف پانچ اقوام کا تذکرہ کیا ہے جو نازفرمانی اور تکذیب کی وجہ سے تباہ ہوئیں مگر انسانی تاریخ شاہد ہے کہ ہر نبی کے زمانے میں اس قسم کے حالات پیش آئے۔ ایمان اور تقویٰ کی برکات آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے ان ذرائع کا ذکر کیا ہے جن کی وجہ سے انسان دنیا اور آخرت میں کامیابی کی منازل طے کرسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ سکتا ہے ارشاد ہوتا ہے ولو ان اھل القویٰ اگر بستیوں میں رہنے والے جیسا کہ گزشتہ درس میں عرض کیا تھا بستی سے مراد ہر چھوٹا بڑا شہر قصبہ یا دیہات ہے اگر ان بستیوں کے رہنے والے امنو واتقوا ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے ، پرہیز گاری کا راستہ پکڑتے لفتحنا علیھم برکت من السماء ولارض تو ہم ان پر آسمان کی طرف سے اور زمین سے برکتیں کھول دیتے یعنی اگر یہ لوگ خدا کی گرفت سے ڈرتے اور کفر ، شرک اور معاصی سے بچتے رہتے تو یقیناً ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہوتا اور آسمان و زمین کی برکات کے دروازے کھل جاتے۔ آسمان کی طرف سے نزول کا ایک سیدھا سادھا مفہوم تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بارش برساتا اور زمین بھی اناج ، سبزہ اور پھل اگائی اس طرح بارش بھی ان کے لیے باعث رحمت ہوتی اور یہ لوگ زمین کی مختلف الانواع پیداوار سے بھی مستفید ہوتے غرضیکہ دنیا و آخرت میں کامیابی کے اللہ تعالیٰ نے دو اصول بیان فرمائے ہیں ایک ایمان اور دوسرا تقویٰ ۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ اگر انسان نیکی ، ایمان اور تقویٰ کی راہ اخیار کریں تو ہم ان پر ایسی مہربانی کریں کہ رات کو بارش برائیں اور گرج کی آواز تک لوگوں کے کانوں میں نہ پہنچے پھر دن کے وقت سورج کو خوب روشن کردیں اور اس طرح ان کی بدحالی خوشحالی میں بدل جائے ترمذی شریف کی حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے یا بن اٰدم تفرغ لعبادتی اے آدم کے بیٹے ! اپنے دل کو میری عبادت کے لیی فارغ کردے اگر ایسا کروگے لاملاقلبک غنی تو میں تمہارے دل کو غنی سے بھردوں گا اسد فقرک اور تیری محتاجی کو دور کردوں گا اور اگر ایسا نہیں کرو گے میری عبادت کی طرف رجوع نہیں کرو گے میرے سامنے عاجزی کا اظہار نہیں کرو گے تو تمہارے دل کو فکر اور اندیشے سے بھردوں گا اور تمہاری احتیاج کو بھی بند نہیں کروں گا۔ ایمان اور تقویٰ کی اہمیت سے متعلق سورة مائدہ میں بھی گزر چکا ہے وتو ان اھل الکتب امنو واتقو اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور تقویٰ کی راہ اختیار کرتے تو ہم ان کے گناہ معاف کرکے انہیں جنت میں داخل کرتے مگر انہوں نے ناشکری کی اور طرح طرح کے آرام و مصائب کا شکار ہوئے یہاں بھی اللہ کا فرمان ہے کہ اگر اہل القریٰ ایمان لاتے اور تقویٰ کی راہ پر چلتے تو ہم ان کے لیے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔ کمذبین کی گرفت فرمایا ایمان اور تقویٰ کی بجائے اکثر لوگوں نے ولکن کذبو اللہ کے پیغمبروں کی تکذیب کی اطاعت کی بجائے نافرمانی کا راستہ اختیار کیا اور نیکی کے بجائے بدی کو قبول کیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوا فاخذنھم ہم نے ان کو پکڑ لیا حبا کانو یکسبون ان اعمال کی پاداش میں جو وہ انجام دیتے تھے جن گناہوں میں وہ لوگ مبتلا تھے اور برائی کے کام کرتے تھے کفر ، شرک اور معاصی میں غرق تھے لہٰذا پہلے ہم نے انہیں مہلت دی اور جب انہوں نے تنبیہ کو قبول نہ کیا تو پھر اچانک ہماری گرفت آئی اور وہ عذاب میں مبتلا ہوگئے اللہ تعالیٰ نے انہیں نہایت ذلت ناک طریقے سے ہلاک کیا کسی پر زلزلہ آیا ، کسی پر آسمان سے آگ برسی ، کوئی طوفان کا شکار ہوئے اور کسی پر پتھروں کی بارش ہوئی اس سورة میں اللہ تعالیٰ نے پانچ قوموں کا حال باین کیا ہے تاہم باقی اقوام کے لیے بھی یہی اصول ہے جو بھی قوم اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتی ہے وہ طرح طرح کے عذاب میں مبتلا ہوتی ہے اور پھر آخرت کا عذاب تو سب سے بڑھ کر ہے اور دائمی ہے۔ برکت کا مفہوم برکت ایسی زیادتی کو کہتے ہیں جس میں تقدس کا مفہوم پایا جائے اس مقدس زیادتی کی مختلف صورتیں ہیں بعض اوقات کسی ظاہری چیز میں فی الواقع اضافہ ہوجاتا ہے حضور ﷺ کے کئی معجزات کے ذکر میں آتا ہے کہ پانی یا کھانا قلیل مقدار میں تھا پھر اس میں اللہ نے برکت دی تو چند آدمیوں کا کھانا سینکڑوں آدمیوں نے کھایا یا تھوڑا سا پانی تھا مگر اس سے سینکڑوں جانور اور آدمی سیراب ہوئے بعض اوقات تھوڑی مقدار کھانے میں اللہ تعالیٰ ایسی برکت عطا کرتا ہے کہ اچھے سے اچھا اور زیادہ مقدار کی نسبت بہتر صحت اور توانائی حاصل ہوجاتی ہے حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب کھانا کھائو تو برتن کو اچھی طرح صاف کرلیا کرو پھر اپنی انگلیوں کو بھی چاٹ لیا کرو فانکم لاتدرون فی ایۃ البرکۃ کیونکہ تمہیں علم نہیں کہ اللہ نے کس حصہ میں برکت رکھی ہے ہوسکتا ہے کہ پورے کھانے میں سے صرف انگلی کو لگنے والے حصہ میں ہی برکت ہو ، سیر بھر کھانا کھانے میں وہ صحت اور طاقت نہ ہو جو اس معمولی سے حصہ میں ہو ، بعض اوقات اللہ تعالیٰ معمولی سی چیز کو بڑی چیز کی نسبت زیادہ بابرکت بنا دیتا ہے۔ بسا اوقات کسی خاص وقت میں بڑی برکت ہوتی ہے کوئی انسان بارہ گھنٹے میں اتنا کام نہیں کرسکتا جتنا ایک گھنٹے میں کرلیتا ہے بزرگان دین کے اوقات مصروفیت دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اتنے کم وقت میں اتنا زیادہ کام کیسے انجام دے لیتے تھے مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) کی تصانیف کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے اس کے علاوہ آپ درس و تدریس کا کام بھی کرتے تھے روزانہ دس پارے تلاوت بھی کرتے ، بیعت ہونے والے مریدوں کو بھی ہدایات دیتے اور پھر روزانہ دو دو ، چار چار سو آنے والے خطوط کا جواب خود اپنے قلم سے تحریر فرماتے آدمی حیران ہوجاتا ہے کہ اتنے بہت سے کام کیسے انجام دے دیتے تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کے اوقات میں برکت دے رکھی تھی کہ تھوڑے وقت میں زیادہ سے زیادہ کام انجام پا جاتا تھا۔ امام جلال الدین سیوطی (رح) کا بھی یہی حال تھا اللہ نے عمر زیادہ نہیں دی مگر جتنی دی ہے اس میں بہت زیادہ برکت عطا کی آپ نے سینکڑوں تصانیف چھوڑی ہیں جن سے مخلوق خدا مستفید ہوتی ہے تعلیم بھی دیتے تھے عبادات کی طرف بھی خاص رغبت تھی اور پھر روزمرہ کے دیگر امور بھی انجام دیتے تھے یہ سب اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی تھی جس نے وقت میں اتنی برکت ڈال دی کہ عام حالات میں اتنا کام سوگنا زیادہ وقت میں بھی نہیں کیا جاسکتا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی صحت میں جان میں اور مال میں برکت عطا کرتا ہے جس کی وجہ سے انسان کو فلاح نصیب ہوجاتی ہے تاہم برکات کے نزول کا دارومدار دو چیزوں پر ہے یعنی ایمان اور تقویٰ یہ دونوں چیزیں جس قدر پرخلوص ہوں گی ، اللہ تعالیٰ ان میں اتنی ہی برکت عطا فرمائے گا۔ بے برکتی کے نتائج اس زمانے میں اپنے اردگرد نظر مارلیں اشیا کی تعداد اور مقدار لامحدود ہے اناج پہلے سے کئی گنا زیادہ ہے روزمرہ ضروریات زندگی کی فراوانی ہے ہر گھر میں ہر کام مشینوں کے ذریعے ہنے لگا ہے مہینوں کا کام ہفتوں میں اور ہفتوں کا دنوں میں ہورہا ہے بڑے بڑے کارخانے اور فیکٹریاں ہیں جن میں سو سو مزدور کا کام ایک ایک مشین انجام دے رہی ہے مگر اس کے باوجود ایک عام آدمی کی پریشانیوں میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے آخر وجہ کیا ہے ؟ ضرورت زندگی کی کثرت کے باوجود آدمی کو سکون کیوں میسر نہیں بات وہی ہے کہ ہر چیز سے برکت اٹھ گئی ہے برکت دو چیزوں سے حاصل ہوتی ہے یعنی ایمان اور تقویٰ جب انسان سے یہ بنیادی چیزیں مفقود ہوگئیں تو اللہ نے ہر چیز سے اپنی برکت اٹھالی۔ اب بےچینی اور اضطراب کے سوا کچھ نہیں ایک مزدور بھی پریشان ہے اور کروڑوں روپے میں کھیلنے والا ، محلات میں رہنے والا اور دنیا کی تمام آسائشوں کا حامل بھی بےچین اور مضطرب ہے آج روپے پیسے کی خوب ریل پیل ہے پرانے زمانے میں جو کام ایک پیسہ کے ذریعے ہوجاتا تھا وہ کام آج ایک روپے میں نہیں ہوتا نہ دلوں میں ایمان اور تقویٰ ہے اور نہ مال میں خیروبرکت ہے حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص جھوٹی قسم اٹھا کر سودا بیچتا ہے اس پر گاہک تو اعتماد کرلیتا ہے مگر اس کی کمائی سے برکت اٹھ جاتی ہے ایمان اور تقویٰ ہوگا تو تھوڑی چیز میں بھی برکت ہوگی ماقل وکفی خیرمماکثروالھی جو چیز تھوڑی مگر کفایت کرجائے وہ بہتر ہے اس سے جو زیادہ ہو مگر غفلت میں ڈال دے آج لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں کفر ، شرک اور معاصی عام ہیں ایمان اور تقویٰ کمزور ہیں خوف خدا مفقود ہے ہر چیز کی فرواوانی ہے مگر سکون نایاب ہے۔ عذاب سے بےفکری فرمایا پہلے لوگوں کو بھی یہی حال تھا اگر بستیوں والے ایمان اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم برکات نازل کرتے مگر انہوں نے کبھی زبان سے جھٹلایا اور کبھی عمل سے۔ پھر ہم نے انہیں سزا میں مبتلا کیا کبھی بےبرکتی کی سزا میں مبتلا کیا اور کبھی بدامنی اور بےچینی پیدا کردی برے اعمال کا یہی نتیجہ ہوتا ہے فرمایا افامن اھل القریٰ کیا بستیوں والے اس بات سے بےفکر ہوگئے ہیں ان یاتھم باسنابیانا کہ ان کے پاس ہماری گرفت رات کے وقت آجائے وھم نائمون اس حالت میں کہ وہ سوئے ہوئے ہوں انسان کو ڈرنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی گرفت کہیں رات کو سوتے میں نہ آجائے ابھی پندرہ بیس سال کی بات ہے الجزائر کے ساحلی شہر بذرتہ میں رات تین بجے ایسا زلزلہ آیا کہ پورا شہر ملیا میٹ ہوگیا پچاس ہزار کی آبادی میں سے اکثر ہلاک ہوئے اور جو بچ گئے وہ بےگھر ہوئے کوئٹہ کا مشہور زلزلہ بھی رات کے وقت ہی آیا تھا جس میں ڈیڑھ لاکھ انسان مارے گئے ۔ آگے فرمایا او امن اھل القریٰ کیا اہل شہر اس بات سے بےخوف ہوگئے ہیں ان یاتیھم باسنا ضحیٰ کہ آجائے ان کے پاس ہماری گرفت دوپہر کے وقت وھم یلعبون اور وہ کھیل میں مصروف ہوں مقصد یہ ہے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں اس کی پکڑ اچانک ہی نہ آجائے اور وہ غفلت ہی میں مارے جائیں۔ مایوسی کبیرہ گناہ ہے اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بےخوف ہوجانا کبیرہ گناہ ہے صاحب روح المعانی حضرت عبداللہ ابن باس ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ حضور ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کبیرہ گناہ کون سے ہیں فرمایا الشرک باللہ سب سے بڑا گناہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا ہے والیاس من روح اللہ اور خدا کی رحمت سے مایوس ہوجانا ہے والامن من مکر اللہ اور خدا کی مخفی تدبیر سے بےفکر ہونا ہے سورة یوسف میں بھی آتا ہے کہ انہ لایالیس من روح اللہ الا القوم الفکرون اللہ کی رحمت سے صرف کافر ہی ناامید ہوتے ہیں مومن ہمیشہ اس کی رحمت اور مہربانی کا امیدوار ہوتا ہے اور بےفکر نہیں ہوتا اسی لیے امام ابوحنیفہ (رح) اور بعض دوسرے بزرگان دین فرماتے ہیں الایمان بین الخوف والرجا یعنی ایمان جو ہے وہ خوف اور امید کے درمیان ہے انسان کو اللہ تعالیٰ کی پکڑ کا ڈر بھی ہونا چاہیے اور اس کی رحمت کی امید بھی اگر وہ مایوس ہوگیا تو خدا کی رحمت سے دور ہوگیا اور اگر نڈر ہوگیا تو پھر بھی تباہ ہوگیا۔ مخفی تدبیر سے بےفکری فرمایا افامنو مکر اللہ کیا یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی مخفی تدبیر سے بےخوف اور بےفکر ہوگئے ہیں مکر کا معنی پوشیدہ تدبیر ہوتی ہے ” ومکروا ومکر اللہ واللہ خیرالمکرین “ (آل عمران) انہوں نے بھی خفیہ تدبیر کی اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر کی اور اللہ بہترین تدبیر کنندہ ہے یہ اردو یا پنجابی والا مکر نہیں جس کا معنی دھوکہ اور فریب ہوتا ہے بلکہ عربی زبان میں مکر سے مراد خفیہ تدبیر ہوتی ہے تو فرمایا کیا یہ لوگ مخفی تدبیر سے بےفکر ہوگئے ہیں حالانکہ فلا یامن مکر اللہ الا القوم الخسرون اللہ کی پوشیدہ تدبیر سے نقصان اٹھانے والے لوگ ہی بےفکر ہوتے ہیں کامیابی حاصل کرنے والوں کا یہ شیوہ ہرگز نہیں ہوسکتا وہ تو ہمیشہ اس کی گرفت سے ڈرتے رہتے ہیں۔ حضرت خواجہ حسن بصری (رح) کا مقولہ ہے کہ مومن آدمی نیک اعمال بھی انجام دیتا ہے اور ساتھ خدا تعالیٰ سے ڈرتا بھی رہتا ہے قرآن پاک میں مشفقون کا لفظہ بھی آتا ہے مطلب یہ ہے کہ ہر وقت خدا تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے کہ شاید کوئی کوتاہی ہوگئی ہو اور یہ کہ خدا تعالیٰ ناراض ہوجائے فرمایا منافق قسم کے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو برائی کا ارتکاب بھی کرتے ہیں مگر بےخوف بھی ہوتے ہیں انہیں نہ کوئی فکر ہوتا ہے اور نہ اندیشہ ، ایک حدیث شریف میں یہ بھی آتا ہے کہ جب مومن سے گناہ سر زد ہوتا ہے تو اسے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا اس کے سر پر پہاڑ آگرا ہے اور منافق بڑے سے بڑا گناہ بھی کرتا ہے تو ایسے محسوس کرتا ہے جیسے ناک پر مکھی بیٹھ گئی ہو ، بس یوں کیا اور اڑ گئی اسے گناہ کا اتنا بھی خوف نہیں ہوتا جتنا مکھی کے بیٹھنے کا۔ یہ منافقوں کی حالت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے شکوہ کیا ہے اور جس کے اکثر لوگ شکار ہیں خدا کی مخفی تدبیر سے بےخوف ہونا نقصان اٹھانے والوں کا شیو ہے فلاح پانے والے ایما اور تقویٰ کو اپنا شعار بناتے ہیں جس کے ذریعے دنیا میں بھی امن و سکون اور ترقی نصیب ہوتی ہے اور عقبی میں کامیابی حاصل ہوگی۔
Top