Mufradat-ul-Quran - An-Nahl : 68
وَ اَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِشُوْنَۙ
وَاَوْحٰى : اور الہام کیا رَبُّكَ : تمہارا رب اِلَى : طرف۔ کو النَّحْلِ : شہد کی مکھی اَنِ : کہ اتَّخِذِيْ : تو بنا لے مِنَ : سے۔ میں الْجِبَالِ : پہاڑ (جمع) بُيُوْتًا : گھر (جمع) وَّ : اور مِنَ : سے۔ میں الشَّجَرِ : پھل وَمِمَّا : اور اس سے جو يَعْرِشُوْنَ : چھتریاں بناتے ہیں
اور تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھیوں کو ارشاد فرمایا کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور اونچی اونچی چھتریوں میں جو لوگ بناتے پیں گھر بنا۔
وَاَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِيْ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُوْنَ 68؀ۙ وحی وإمّا بإلقاء في الرّوع کما ذکر عليه الصلاة والسلام : «إنّ روح القدس نفث في روعي» «2» ، وإمّا بإلهام نحو : وَأَوْحَيْنا إِلى أُمِّ مُوسی أَنْ أَرْضِعِيهِ [ القصص/ 7] ، وإمّا بتسخیر نحو قوله : وَأَوْحى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ [ النحل/ 68] أو بمنام کما قال عليه الصلاة والسلام : «انقطع الوحي وبقیت المبشّرات رؤيا المؤمن» فالإلهام والتّسخیر ( و ح ی ) الوحی وحی کی تیسری صؤرت القاء فی لروع کی ہے یعنی دل میں کسی بات کا ڈال دیتا جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا کہ روح القدس نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی ۔ اور کبھی وحی بذریعہ الہام ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى أُمِّ مُوسی أَنْ أَرْضِعِيهِ [ القصص/ 7] ہم نے موسیٰ کی ماں کی طرف وحی بھیجی کہ اسکو دودھ پلاؤ اور کبھی وحی تسخیر ی ہوتی ہے یعنی کسی چیز کو اس کے کام پر مامور کرنا جیسے فرمایا : ۔ وَأَوْحى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ [ النحل/ 68] اور تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھیوں کو ارشاد فرمایا : ۔ اور کبھی نیند میں خواب کے ذریعے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا کہ وحی تو منقطع ہوچکی ہے مگر بیشرات یعنی رویا مومن باقی رہ گئے ہیں اور وحی کی ان ہر سہ اقسام یعنی الہام تسخیر نحل النَّحْل : الحَيَوانُ المخصوصُ. قال تعالی: وَأَوْحى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ [ النحل/ 68] والنَّحْلَةُ والنِّحْلَةُ : عَطِيَّة علی سبیل التّبرُّع، وهو أخصُّ من الهِبَة، إذ كلُّ هِبَةٍ نِحْلَةٌ ، ولیس کلُّ نِحْلَةٍ هِبَةً ، واشتقاقه فيما أرى «1» أنه من النَّحْل نظرا منه إلى فعله، فكأنَّ نَحَلْتُهُ : أعطیته عطيّةَ النَّحْلِ ، وذلک ما نبّه عليه قوله : وَأَوْحى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ الآية [ النحل/ 68] . وبيَّن الحکماء أنّ النّحل يقع علی الأشياء کلّها فلا يضرّها بوجه، وينفع أعظْمَ نفعٍ ، فإنه يعطي ما فيه الشِّفاء کما وصفه اللهُ تعالی، وسُمِّيَ الصَّدَاقُ بها من حيثُ إنه لا يجب في مقابلته أكثرُ من تمتُّع دون عِوَضِ ماليٍّ ، وکذلک عطيَّةُ الرَّجُل ابْنَهُ. يقال : نَحَلَ ابنَه كذا، وأَنْحَلَهُ ، ومنه : نَحَلْتُ المرأةَ ، قال تعالی: وَآتُوا النِّساءَ صَدُقاتِهِنَّ نِحْلَةً [ النساء/ 4] والانْتِحَالُ : ادِّعَاءُ الشیءِ وتناوُلُه، ومنه يقال : فلان يَنْتَحِلُ الشِّعْرَ. ونَحِلَ جِسْمُهُ نُحُولًا : صار في الدّقّة کالنَّحْل، ومنه : النَّوَاحِلُ للسُّيُوف أي : الرِّقَاق الظُّبَات تصوُّراً لنُحُولِهَا، ويصحُّ أن يُجْعَل النِّحْلَة أصلا، فيُسَمَّى النَّحْل بذلک اعتبارا بفعله . والله أعلم . ( ن ح ل ) النحل شہد کی مکھی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَوْحى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ [ النحل/ 68] اور تمہارے پروردگار نے شہد کی کھیوں کو ارشاد فرمایا ۔ النحلۃ والنحلۃ اس عطیہ کو کہتے ہیں جو تبرعا دیا جائے ۔ یہ ہبہ سے خاص ہے کیونکہ ہر ہبہ تو کہہ سکتے ہیں لیکن ہر نحلۃ کو ہبہ نہیں کہتے میرے خیال میں یہ نحل سے مشتق ہے اور اس میں مکھی کے فعل کے معنی ملحوظ ہیں تو گویا نحلتہ کے معنی نحل کی طرح عطیہ دینے کے ہیں جس پر کہ آیت : ۔ وَأَوْحى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ الآية [ النحل/ 68] میں متنبہ کیا ہے حکماء کا بیان ہے کہ نحل جن پودوں سے غذا لیتی ہے انہیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ الٹا فائدہ پہنچاتی ہے اور شہد جیسی شفا بخفی چیز لوگوں کو حاصل کر کے دیتی ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق بیان فرمایا ہے ۔ اور نحلۃ ونحلۃ صداق یعنی عورتوں کے مہر کو بھی کہتے ہیں کیونکہ اس کے مقابلہ میں سوائے لذت اندوزی کے اور کوئی مالی معاوضہ حاصل نہیں ہوتا اسی سے اولاد کو عطیہ دینے بر نحل ابنہکذا وانحلہ بولتے ہیں ۔ اور اسی سے نحلت المرءۃ ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَآتُوا النِّساءَ صَدُقاتِهِنَّ نِحْلَةً [ النساء/ 4] اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دیدیا کرو ۔ اور محل جسمہ کے معنی دبلا ہو کر مکھی کی طرح باریک ہوجانے کے ہیں ۔ اور اسی سے تیز تلواروں کو ان کی دھاروں کے باریک ہونے کی وجہ سے فواحل کہا جاتا ہے ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نحلۃ کو اصل قرادوے کر نحل کو اس سے مشتق مانا جائے ۔ کیونکہ مکھی سے جو شہد حاصل ہوتا ہے وہ بھی فائدہ بخش ہونے کے لحاظ سے ایک قسم کی عطا ہی ہوتی ہے ۔ الا نتحال کے معنی کسی چیز کا ادعاء کرنے اور لینے کے ہیں اسی سے فلان ینتحل الشعر کا محاورہ ہے جس کے معنی شعری سر قہ کرنے کے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ بيت أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] ، ( ب ی ت ) البیت اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ عرش العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها [ البقرة/ 259] ، ومنه قيل : عَرَشْتُ الکرمَ وعَرَّشْتُهُ : إذا جعلت له كهيئة سقف، وقد يقال لذلک المُعَرَّشُ. قال تعالی: مَعْرُوشاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشاتٍ [ الأنعام/ 141] ، وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ [ النحل/ 68] ، وَما کانُوا يَعْرِشُونَ [ الأعراف/ 137] . قال أبو عبیدة «2» : يبنون، واعْتَرَشَ العنبَ : رَكَّبَ عَرْشَهُ ، ( ع رش ) العرش اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة/ 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ اسی سے عرشت ( ن ) الکرم وعرشتہ کا محاورہ ہے جس کے معنی انگور کی بیلوں کے لئے بانس وغیرہ کی ٹٹیاں بنانا کے ہیں اور ٹٹیوں پر چڑھائی ہوئی بیل کو معرش بھی کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : مَعْرُوشاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشاتٍ [ الأنعام/ 141] ٹٹیوں پر چڑھائے ہوئے اور جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے ہوئے ۔ وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ [ النحل/ 68] اور درختوں میں اور ان سے جنہیں ٹٹیوں پر چڑھاتے ہیں ۔ وَما کانُوا يَعْرِشُونَ [ الأعراف/ 137] جو ٹٹیوں پر چڑھاتے تھے ۔ ابوعبیدہ نے کہا ہے کہ یعرشون کے معنی یبنون ہیں یعنی جو وہ عمارتیں بناتے تھے اعترش العنب انگور کی بیل کے لئے بانس وغیرہ کی ٹٹی بنائی
Top