Tafseer-e-Usmani - Al-An'aam : 130
وَ جَعَلْنَا الَّیْلَ وَ النَّهَارَ اٰیَتَیْنِ فَمَحَوْنَاۤ اٰیَةَ الَّیْلِ وَ جَعَلْنَاۤ اٰیَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَ١ؕ وَ كُلَّ شَیْءٍ فَصَّلْنٰهُ تَفْصِیْلًا
وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا الَّيْلَ : رات وَالنَّهَارَ : اور دن اٰيَتَيْنِ : دو نشانیاں فَمَحَوْنَآ : پھر ہم نے مٹا دیا اٰيَةَ الَّيْلِ : رات کی نشانی وَجَعَلْنَآ : اور ہم نے بنایا اٰيَةَ النَّهَارِ : دن کی نشانی مُبْصِرَةً : دکھانے والی لِّتَبْتَغُوْا : تاکہ تم تلاش کرو فَضْلًا : فضل مِّنْ رَّبِّكُمْ : اپنے رب سے (کا) وَلِتَعْلَمُوْا : اور تاکہ تم معلوم کرو عَدَدَ : گنتی السِّنِيْنَ : برس (جمع) وَالْحِسَابَ : اور حساب وَ : اور كُلَّ شَيْءٍ : ہر چیز فَصَّلْنٰهُ : ہم نے بیان کیا ہے تَفْصِيْلًا : تفصیل کے ساتھ
اے جماعت جنوں کی اور انسانوں کی کیا نہیں پہنچے تھے تمہارے پاس رسول تمہی میں سے کہ سناتے تھے تم کو میرے حکم اور ڈراتے تھے تم کو اس دن کے پیش آنے سے7 کہیں گے کہ ہم نے اقرار کرلیا اپنے گناہ کا اور ان کو دھوکا دیا دنیا کی زندگی نے8 اور قائل ہوگئے اپنے اوپر اس بات کے کہ وہ کافر تھے9
7 اوپر جن و انس کی شرارت اور سزا کا بیان تھا اور " اولیاء الجن " کی زبانی فی الجملہ معذرت بھی نقل کی گئی تھی، اب بتلایا جاتا ہے کہ ان کا کوئی عذر معقول اور قابل سماعت نہیں، دنیا میں خدا کی حجت تمام ہوچکی تھی جس کا خود انہیں بھی اقرار کرنا پڑے گا۔ یہ خطاب " یَامَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ " کا قیامت کے دن ہوگا اور مخاطب جن وانس کا یعنی کل مکلفین کا مجموعہ ہے، ہر جماعت الگ الگ مخاطب نہیں جو یہ اعتراض ہو کہ رسول تو ہمیشہ انسانوں میں سے آئے قوم جن میں سے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا گیا۔ پھر " رُسُلٌ مِّنْکُمْ " (رسول تم ہی میں کے) کہنا کیسے صحیح ہوگا۔ اصل یہ ہے کہ مجموعہ مخاطبین میں سے اگر کسی نوع میں بھی اتیان رسل متحقق ہوجائے جس کی غرض تمام مخاطبین کو بلا تخصیص فائدہ پہنچانا ہو تو مجموعہ کو خطاب کرنے میں کوئی اشکال نہیں رہتا۔ مثلاً کوئی یہ کہے " اے عرب و عجم کے باشندو ! اور پورب پچھم کے رہنے والو ! کیا تم ہی میں سے خدا نے محمد ﷺ جیسے کامل انسان کو پیدا نہیں کیا " اس عبارت کا مطلب کسی کے نزدیک یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک محمد ﷺ تو عرب میں پیدا کئے گئے اور دوسرے عجم میں ہونے چاہئیں، اسی طرح پورب کے علیحدہ اور پچھم کے علیحدہ محمد ﷺ ہوں، تب یہ عبارت صحیح ہوگی، علیٰ ہذا القیاس یہاں سمجھ لیجئے کہ ( يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ ) 6 ۔ الانعام :130) کا مدلول صرف اس قدر ہے کہ جن وانس کے مجموعہ سے پیغمبر بھیجے گئے۔ باقی یہ تحقیق کہ ہر نوع میں سے الگ الگ پیغمبر آئے یا ہر ایک پیغمبر کل افراد جن و انس کی طرف مبعوث ہوا، یہ آیت اس کے بیان سے ساکت ہے۔ دوسری نصوص سے جمہور علماء نے یہ ہی قرار دیا ہے کہ نہ ہر ایک پیغمبر کی بعثت عام ہے اور نہ کسی جن کو اللہ نے مستقل رسول بنا کر بھیجا۔ اکثر معاشی و معادی معاملات میں ان کو حق تعالیٰ نے انسانوں کے تابع بنا کر رکھا ہے جیسا کہ سورة جن کی آیات اور نصوص حدیثیہ وغیرہ اس پر دلالت کرتی ہیں۔ یہ کوئی ضابطہ نہیں کہ مخلوق کی ہر نوع کے لئے اسی نوع کا کوئی شخص رسول ہوا کرے۔ باقی انسانوں کی طرف فرشتہ کو رسول بنا کر بھیجنے سے جو قرآن کے متعدد مواضع میں انکار کیا گیا ہے، اس کا اصلی منشاء یہ ہے کہ عام انسان بہیئۃ الاصلیہ اس کی رویت کا تحمل نہیں کرسکتے اور بےاندازہ خوف وہیبت کی وجہ سے مستفید نہیں ہوسکتے اور بصورت انسان آئیں تو بےضرورت التباس رہتا ہے۔ اسی پر قیاس کرلو کہ اگر قوم جن میں منصب نبوت کی اہلیت ہوتی تو وہ بھی انسانوں کے لئے مبعوث نہیں کئے جاسکتے تھے کیونکہ وہاں بھی یہ ہی اشکال تھا۔ ہاں رسول انسی کا جن کی طرف مبعوث ہونا اس لئے نہیں کہ جنوں کے حق میں انسان کی رؤیت نہ تو ناقابل تحمل ہے اور نہ انسان کا صوری خوف و رعب استفادہ سے مانع ہوسکتا ہے۔ ادھر پیغمبر کو حق تعالیٰ وہ قوت قلبی عطا فرما دیتا ہے کہ اس پر جن جیسی ہیبت ناک مخلوق کا کوئی رعب نہیں پڑتا۔ 8 یعنی دنیا کی لذات و شہوات نے انہیں آخرت سے غافل بنادیا۔ کبھی خیال بھی نہ آیا کہ اس احکم الحاکمین کے سامنے جانا ہے جو ذرہ ذرہ کا حساب لے گا۔ 9 اس سورت میں اوپر مذکور ہوا کہ اول کافر اپنے کفر کا انکار کریں گے۔ پھر حق تعالیٰ تدبیر سے ان کو قائل کرے گا۔
Top