Mufradat-ul-Quran - Maryam : 4
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ وَ اشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَیْبًا وَّ لَمْ اَكُنْۢ بِدُعَآئِكَ رَبِّ شَقِیًّا
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں وَهَنَ : کمزور ہوگئی الْعَظْمُ : ہڈیاں مِنِّيْ : میری وَاشْتَعَلَ : اور شعلہ مارنے لگا الرَّاْسُ : سر شَيْبًا : سفید بال وَّ : اور لَمْ اَكُنْ : میں نہیں رہا بِدُعَآئِكَ : تجھ سے مانگ کر رَبِّ : اے میرے رب شَقِيًّا : محروم
(اور) کہا کہ اے میرے پروردگار میری ہڈیاں بڑھاپے کے سبب کمزور ہوگئی ہیں اور سر (ہے کہ بڑھاپے کی وجہ) سے شعلہ مارنے لگا ہے اور اے میرے پروردگار میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا
قَالَ رَبِّ اِنِّىْ وَہَنَ الْعَظْمُ مِنِّيْ وَاشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَيْبًا وَلَمْ اَكُنْۢ بِدُعَاۗىِٕكَ رَبِّ شَقِيًّا۝ 4 قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ وهن الوَهْنُ : ضعف من حيث الخلق، أو الخلق . قال تعالی: قالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي [ مریم/ 4] ، فَما وَهَنُوا لِما أَصابَهُمْ [ آل عمران/ 146] ، وَهْناً عَلى وَهْنٍ [ لقمان/ 14] أي : كلّما عظم في بطنها : زادها ضعفا علی ضعف : وَلا تَهِنُوا فِي ابْتِغاءِ الْقَوْمِ [ النساء/ 104] ، وَلا تَهِنُوا وَلا تَحْزَنُوا [ آل عمران/ 139] ، ذلِكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ مُوهِنُ كَيْدِ الْكافِرِينَ [ الأنفال/ 18] . ( و ھ ن ) الوھن کے معنی کسی معاملہ میں جسمانی طور پر کمزور ہونے یا اخلاقی کمزور یظاہر کرنے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ قالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي[ مریم/ 4] اے میرے پروردگار میری ہڈیاں بڑھاپے کے سبب کمزور ہوگئی ہیں / فَما وَهَنُوا لِما أَصابَهُمْ [ آل عمران/ 146] تو جو مصیبتیں ان پر واقع ہوئیں ان کے سبب انہوں نے نہ تو ہمت ہاری ۔ وَهْناً عَلى وَهْنٍ [ لقمان/ 14] تکلیف پر تکلیف سہہ کر ۔ یعنی جوں جوں پیٹ میں حمل کا بوجھ بڑھتا ہے کمزور ی پر کزوری بڑھتی چلی جاتی ہے ولا تَهِنُوا فِي ابْتِغاءِ الْقَوْمِ [ النساء/ 104] اور دیکھو بےدل نہ ہونا اور کسی طرح کا غم کرنا ۔ اور کفار کا پیچھا کرنے میں سستی نہ کرنا ۔ ذلِكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ مُوهِنُ كَيْدِ الْكافِرِينَ [ الأنفال/ 18] بات یہ ہے کچھ شک نہیں کہ خدا کافروں کی تدبیر کو کمزور کردینے والا ہے ۔ عظم العَظْمُ جمعه : عِظَام . قال تعالی: عِظاماً فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون/ 14] ، وقرئ : عظاما «1» فيهما، ومنه قيل : عَظْمَة الذّراع لمستغلظها، ( ع ظ م ) العظم کے معنی ہڈی کے ہیں اس کی جمع عظا م آتی ہے ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ عِظاماً فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون/ 14] ہڈیاں ( بنائیں ) پھر ہڈیوں پر گوشت ( پوست ) چڑھا یا ۔ ایک قرات میں دونوں جگہ عظم ہے اور اسی سے عظمۃ الذراع ہے جس کے معنی بازو کا موٹا حصہ کے ہیں عظم الرجل بغیر تنگ کے پالان کی لکڑی عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے ہو یا عقل سے ۔ شعل الشَّعْلُ : التهاب النّار، يقال : شُعْلَةٌ من النّار، وقد أَشْعَلْتُهَا، وأجاز أبو زيد : شَعَلْتَهَا «2» ، والشَّعِيلَةُ : الفتیلة إذا کانت مُشْتَعِلَةً ، وقیل : بياض يَشْتَعِلُ ، قال تعالی: وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم/ 4] ، تشبيها بِالاشْتِعَالِ من حيث اللّون، واشْتَعَلَ فلان غضبا تشبيها به من حيث الحرکة، ومنه : أَشْعَلْتُ الخیل في الغارة، نحو : أوقدتها، وهيّجتها، وأضرمتها ( ش ع ل ) الشعل ۔ آگ کا بھڑکنا یا بھڑکانا کہا جاتا ہے : شعلۃ من النار ۔ آگ کا شعلہ اور قد اشعل تھا کے معنی ہیں میں نے آگ بھڑکائی ۔ ابوزید کے نزدیک شعل تھا ( فعل مجرد ) کہنا بھی جائز ہے ۔ الشعیلہ جلتی ہوئی بتی ۔ بعض نے سفیدی کے چمکنے کے لئے بھی بیاض یشتعل کا محاورہ استعمال کیا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ؛ وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم/ 4] اور سر ہے کہ بڑھاپے کی وجہ سے شعلہ مارنے لگا ہے ۔ یہاں رنگت کے لحاظ سے بالوں کی سفیدی کو آگ کے ساتھ تشبیہ دے کر اشتعال کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ اشتعل فلان غضبا ۔ فلان غصہ سے بھڑک اٹھا یہاں غصہ کو حرکت کے لحاظ سے آگ کے بھڑکنے کے ساتھ تشبیہ دی ہے ۔ اور اسی سے اشعلت الخیل فی الغارۃ کا محاورہ ہے ۔ یعنی میں نے غارت گری کے لئے سواروں کو چاروں طرف پھیلا دیا ۔ جیسا کہ اوقد تھا و ھیج تھا واضرم تھا کے محاورات ہیں ۔ رأس الرَّأْسُ معروف، وجمعه رُؤُوسٌ ، قال : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم/ 4] ، وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة/ 196] ، ويعبّر بِالرَّأْسِ عن الرَّئِيسِ ، والْأَرْأَسُ : العظیم الرّأس، وشاة رَأْسَاءُ : اسودّ رأسها . ورِيَاسُ السّيف : مقبضه . ( ر ء س ) الراس سر کو کہتے ہیں اور اس کی جمع رؤوس آتی ہے ۔ قرآم میں ہے : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم/ 4] اور سر بڑاھاپے ( کی آگ ) سے بھڑک اٹھا ہے ۔ وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة/ 196] اپنے سر نہ منڈاؤ اور کبھی راس بمعنی رئیس بھی آتا ہے اور ارء س ( اسم تفصیل ) کے معنی بڑے سر والا کے ہیں اور سیاہ سر والی بکری کو شاۃ راساء کہتے ہیں اور ریاس السیف کے معنی دستہ شمشیر کے ہیں ۔ شيب الشَّيْبُ والْمَشِيبُ : بياض الشّعر . قال تعالی: وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم/ 4] ، وباتت المرأة بلیلة شَيْبَاءَ : إذا افتضّت، وبلیلة حرّة «2» :إذا لم تفتضّ. ( ش ی ب ) الشیب والمشیب بڑھاپا بالوں کی سفیدی ۔ قران میں ہے : ۔ وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم/ 4] اور بڑھاپے سے سر شعلہ مارنے لگا ۔ عورت نے شب زفاف گزاری یعنی جس میں اسکی بکارت زائل کی گئی ہو اس کے بر عکس باتت المرءۃ بلیلۃ حرۃ وہ رات جس میں اس کی بکارت زائل نہ کی گئی ہو ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ شقي الشَّقَاوَةُ : خلاف السّعادة، وقد شَقِيَ «2» يَشْقَى شَقْوَة، وشَقَاوَة، وشَقَاءً ، . قال عزّ وجلّ : فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقى[ طه/ 123] ( ش ق و ) اشقاوۃ ( بدبختی ) یہ سعادت کی ضد ہے اور شقی ( س) شقوۃ وشقاوۃ وشقاء کے معنی بدبخت ہونے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔: فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقى[ طه/ 123] وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ تکلیف میں پڑے گا ۔
Top