Mufradat-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 130
وَ اِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَۚ
وَاِذَا : اور جب بَطَشْتُمْ : تم گرفت کرتے ہو بَطَشْتُمْ : گرفت کرتے ہو تم جَبَّارِيْنَ : جابر بن کر
اور جب تم (کسی کو) پکڑتے ہو تو ظالمانہ پکڑتے ہو
وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِيْنَ۝ 1 30ۚ بطش البَطْشُ : تناول الشیء بصولة، قال تعالی: وَإِذا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ [ الشعراء/ 130] ، يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان/ 16] ، وَلَقَدْ أَنْذَرَهُمْ بَطْشَتَنا [ القمر/ 36] ، إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ [ البروج/ 12] . يقال : يد بَاطِشَة . ( ب ط ش ) البطش کے معنی کوئی چیز زبردستی لے لینا کے ہیں قرآن میں : { وَإِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ } ( سورة الشعراء 130) اور جب کسی کو پکڑتے تو ظالمانہ پکڑتے ہو ۔ يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان/ 16] جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے ۔ وَلَقَدْ أَنْذَرَهُمْ بَطْشَتَنا [ القمر/ 36] اور لوط نے ان کو ہماری گرفت سے ڈرایا ۔ إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ [ البروج/ 12] بیشک تمہاری پروردگار کی گرفت بڑی سخت ہے ید کا طشۃ سخت گیر ہاتھ ۔ جبر أصل الجَبْر : إصلاح الشیء بضرب من القهر، والجبّار في صفة الإنسان يقال لمن يجبر نقیصته بادّعاء منزلة من التعالي لا يستحقها، وهذا لا يقال إلا علی طریق الذم، کقوله عزّ وجل : وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم/ 15] ( ج ب ر ) الجبر اصل میں جبر کے معنی زبردستی اور دباؤ سے کسی چیز کی اصلاح کرنے کے ہیں ۔ الجبار انسان کی صفت ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں ناجائز تعلی سے اپنے نقص کو چھپانے کی کوشش کرنا ۔ بدیں معنی اس کا استعمال بطور مذمت ہی ہوتا ہے ۔ جیسے قران میں ہے : ۔ وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم/ 15] تو ہر سرکش ضدی نامراد ہ گیا ۔
Top