Mufradat-ul-Quran - Al-Ankaboot : 34
اِنَّا مُنْزِلُوْنَ عَلٰۤى اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْیَةِ رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ
اِنَّا : بیشک ہم مُنْزِلُوْنَ : نازل کرنے والے عَلٰٓي : پر اَهْلِ : لوگ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ : اس کی بستی رِجْزًا : عذاب مِّنَ السَّمَآءِ : آسمان سے بِمَا : اس وجہ سے کہ كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ : وہ بدکاری کرتے تھے
ہم اس بستی کے رہنے والوں پر اس سبب سے کہ یہ بدکرداری کرتے رہے ہیں آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں
اِنَّا مُنْزِلُوْنَ عَلٰٓي اَہْلِ ہٰذِہِ الْقَرْيَۃِ رِجْزًا مِّنَ السَّمَاۗءِ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ۝ 34 نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا أهل أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل : أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب/ 33] ( ا ھ ل ) اھل الرجل ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ { إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ } ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔ رجز أصل الرِّجْزِ : الاضطراب، ومنه قيل : رَجَزَ البعیرُ رَجَزاً ، فهو أَرْجَزُ ، وناقة رَجْزَاءُ : إذا تقارب خطوها واضطرب لضعف فيها، وشبّه الرّجز به لتقارب أجزائه وتصوّر رِجْزٍ في اللسان عند إنشاده، ويقال لنحوه من الشّعر أُرْجُوزَةٌ وأَرَاجِيزُ ، ورَجَزَ فلان وارْتَجَزَ إذا عمل ذلك، أو أنشد، وهو رَاجِزٌ ورَجَّازٌ ورِجَّازَةٌ. وقوله : عَذابٌ مِنْ رِجْزٍ أَلِيمٌ [ سبأ/ 5] ، فَالرِّجْزُ هاهنا کالزّلزلة، وقال تعالی: إِنَّا مُنْزِلُونَ عَلى أَهْلِ هذِهِ الْقَرْيَةِ رِجْزاً مِنَ السَّماءِ [ العنکبوت/ 34] ، ( ر ج ز ) الرجز اس کے اصل معنی اضطراب کے ہیں اور اسی سے رجز البعیر ہے جس کے معنی ضعف کے سبب چلتے وقت اونٹ کی ٹانگوں کے کپکپائی اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے کے ہیں ایسے اونٹ کو ارجز اور ناقہ کو رجزاء کہا جاتا ہے اور شعر کے ایک بحر کا نام بھی رجز ہے جس میں شعر پڑھنے سے زبان میں اضطراب سا معلوم ہوتا ہے اور جو قصیدہ اس بحر میں کہا جائے اسے ارجوزۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع اراجیز آتی ہے اور رجز فلان وارتجز کے معنی بحر رجز پر شعر بنانے يا ارجوه پڑہنے کے ہیں اور رجز گو شاعر کو راجز ، رجاز اور رجازۃ کہا جاتا ہے ۔ اور آیت : ۔ عَذابٌ مِنْ رِجْزٍ أَلِيمٌ [ سبأ/ 5]( ان کیلئے ) عذاب دردناک کی سزا ہے ۔ میں لفظ رجز زلزلہ کی طرح عذاب سے کنایہ ہے ۔ اور فرمایا : ۔ إِنَّا مُنْزِلُونَ عَلى أَهْلِ هذِهِ الْقَرْيَةِ رِجْزاً مِنَ السَّماءِ [ العنکبوت/ 34] ہم ان پر ایک آسمانی آفت نازل کرنے والے ہیں ۔ فسق فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به، (س ق ) فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔
Top