Tafseer-e-Usmani - Adh-Dhaariyat : 2
مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰىۚ
مَا ضَلَّ : نہیں بھٹکا صَاحِبُكُمْ : ساتھی تمہارا وَمَا غَوٰى : اور نہ وہ بہکا
بہکا نہیں تمہارا رفیق اور نہ بےراہ چلا4
4  " رفیق " سے مراد نبی کریم ﷺ ہیں۔ یعنی نہ آپ غلط فہمی کی بناء پر راستہ سے بہکے، نہ اپنے قصد و اختیار سے جان بوجھ کر بےراہ چلے، بلکہ جس طرح آسمان کے ستارے طلوع سے لے کر غروب تک ایک مقرر رفتار سے معین راستہ پر چلے جاتے ہیں کبھی ادھر ادھر ہٹنے کا نام نہیں لیتے۔ آفتاب نبوت بھی اللہ کے مقرر کیے ہوئے راستہ پر برابر چلا جاتا ہے۔ ممکن نہیں کہ ایک قدم ادھر یا ادھر پڑجائے۔ ایسا ہو تو ان کی بعثت سے جو غرض متعلق ہے وہ حاصل نہ ہو۔ انبیاء (علیہم السلام) آسمان نبوت کے ستارے ہیں جن کی روشنی اور رفتار سے دنیا کی راہنمائی ہوتی ہے اور جس طرح تمام ستاروں کے غائب ہونے کے بعد آفتاب درخشاں طلوع ہوتا ہے۔ ایسے ہی تمام انبیاء کی تشریف بری کے بعد آفتاب محمدی مطلع عرب سے طلوع ہوا۔ پس اگر قدرت نے ان ظاہری ستاروں کا نظام اس قدر محکم بنایا ہے کہ اس میں کسی طرح کے تزلزل اور اختلال کی گنجائش نہیں تو ظاہر ہے کہ ان باطنی ستاروں اور روحانی آفتاب و ماہتاب کا انتظام کس قدر مضبوط و محکم ہونا چاہیے۔ جن سے ایک عالم کی ہدایت وسعادت وابستہ ہے۔
Top