Mufradat-ul-Quran - Al-Qalam : 25
وَّ غَدَوْا عَلٰى حَرْدٍ قٰدِرِیْنَ
وَّغَدَوْا : اور وہ صبح سویرے گئے عَلٰي حَرْدٍ : اوپر بخیلی کے۔ بخل کرتے ہوئے قٰدِرِيْنَ : جیسا کہ قدرت رکھنے والے ہوں
اور کوشش کیساتھ سویرے ہی جا پہنچے (گویا کھیتی پر) قادر (ہیں)
وَّغَدَوْا عَلٰي حَرْدٍ قٰدِرِيْنَ۝ 25 غدا الْغُدْوَةُ والغَدَاةُ من أول النهار، وقوبل في القرآن الغُدُوُّ بالآصال، نحو قوله : بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الأعراف/ 205] ، وقوبل الغَدَاةُ بالعشيّ ، قال : بِالْغَداةِ وَالْعَشِيِ [ الأنعام/ 52] ، غُدُوُّها شَهْرٌ وَرَواحُها شَهْرٌ [ سبأ/ 12] ( غ د و ) الغدوۃ والغداۃ کے معنی دن کا ابتدائی حصہ کے ہیں قرآن میں غدو ( غدوۃ کی جمع ) کے مقابلہ میں اصال استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا : ۔ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الأعراف/ 205] صبح وشام ( یا د کرتے رہو ) ( غدو ( مصدر ) رواح کے مقابلہ میں ) جیسے فرمایا : ۔ غُدُوُّها شَهْرٌ وَرَواحُها شَهْرٌ [ سبأ/ 12] اس کا صبح کا جانا ایک مہینہ کی راہ ہوتی ہے اور شام کا جانا بھی ایک مہینے کی ۔ حرد الحَرْد : المنع من حدّة وغضب، قال عزّ وجلّ : وَغَدَوْا عَلى حَرْدٍ قادِرِينَ [ القلم/ 25] ، أي : علی امتناع من أن يتناولوه قادرین علی ذلك، ونزل فلان حریدا، أي ممتنعا من مخالطة القوم، وهو حرید المحل . وحَارَدَت السّنة : منعت قطرها، والناقة : منعت درّها، وحَرِدَ : غضب، وحَرَّدَهُ كذا، وبعیر أحرد : في إحدی يديه حَرَدٌ والحُرْدِيَّة : حظیرة من قصب . ( ح ر د ) الحرد ( ض) تیزی اور غصہ کے ساتھ کسی چیز کو روکنا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَغَدَوْا عَلى حَرْدٍ قادِرِينَ [ القلم/ 25] اور کوشش کے ساتھ سویرے ہی جاپنچے ( گویا کھیتی پر ) قادر ہیں ۔ یعنی و ہ اس بات پر قدرت رکھتے تھے کہ مسکینوں کو اپنے باغ میں آنے سے روک دیں ۔ نزل فلان حریدا یعنی فلاں قوم سے الگ تھلگ اترا ۔ ھو حرید المحل یعنی الگ تھلگ رہنے والا ہے ۔ حاردت السنۃ یعنی امسال بارش نہیں ہوئی ۔ حاردت الناقۃ اونٹنی نے د ودھ روک لیا ۔ ( یعنی اس کا دودھ کم یا خشک ہوگیا ) حردرس ) غضبناک کردیا ۔ بعیر احرد اونٹ جسکی اگلی ناک کا پٹھا ڈھیلا ہو ۔ الحردیۃ سرکنڈے کا باڑہ ۔ قادر الْقُدْرَةُ إذا وصف بها الإنسان فاسم لهيئة له بها يتمكّن من فعل شيء ما، وإذا وصف اللہ تعالیٰ بها فهي نفي العجز عنه، ومحال أن يوصف غير اللہ بالقدرة المطلقة معنی وإن أطلق عليه لفظا، بل حقّه أن يقال : قَادِرٌ علی كذا، ومتی قيل : هو قادر، فعلی سبیل معنی التّقييد، ولهذا لا أحد غير اللہ يوصف بالقدرة من وجه إلّا ويصحّ أن يوصف بالعجز من وجه، والله تعالیٰ هو الذي ينتفي عنه العجز من کلّ وجه . ( ق د ر ) القدرۃ ( قدرت) اگر یہ انسان کی صنعت ہو تو اس سے مراد وہ قوت ہوتی ہے جس سے انسان کوئی کام کرسکتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے قادرہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ عاجز نہیں ہے اور اللہ کے سوا کوئی دوسری ہستی معنوی طور پر قدرت کا ملہ کے ساتھ متصف نہیں ہوسکتی اگرچہ لفظی طور پر ان کیطرف نسبت ہوسکتی ہے اس لئے انسان کو مطلقا ھو قادر کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ تقیید کے ساتھ ھوقادر علی کذا کہاجائیگا لہذا اللہ کے سوا ہر چیز قدرت اور عجز دونوں کے ساتھ متصف ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ایسی ہے جو ہر لحاظ سے عجز سے پاک ہے
Top