Mufradat-ul-Quran - Al-Hadid : 18
اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَ الْمُصَّدِّقٰتِ وَ اَقْرَضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَهُمْ وَ لَهُمْ اَجْرٌ كَرِیْمٌ
اِنَّ الْمُصَّدِّقِيْنَ : بیشک صدقہ کرنے والے مرد وَالْمُصَّدِّقٰتِ : اور صدقہ کرنے والی عورتیں وَاَقْرَضُوا اللّٰهَ : اور انہوں نے قرض دیا اللہ کو قَرْضًا حَسَنًا : قرض حسنہ يُّضٰعَفُ : دوگنا کیا جائے گا لَهُمْ : ان کے لیے وَلَهُمْ : اور ان کے لیے اَجْرٌ كَرِيْمٌ : اجر ہے عزت والا
جو لوگ خیرات کرنے والے ہیں مرد بھی اور عورتیں بھی اور خدا کو (نیت) نیک (اور خلوص سے) قرض دیتے ہیں انکو دو چند ادا کیا جائے گا اور ان کے لئے عزت کا صلہ ہے
اِنَّ الْمُصَّدِّقِيْنَ وَالْمُصَّدِّقٰتِ وَاَقْرَضُوا اللہَ قَرْضًا حَسَـنًا يُّضٰعَفُ لَہُمْ وَلَہُمْ اَجْرٌ كَرِيْمٌ۝ 18 صدقه والصَّدَقَةُ : ما يخرجه الإنسان من ماله علی وجه القربة کالزّكاة، لکن الصدّقة في الأصل تقال للمتطوّع به، والزّكاة للواجب، وقد يسمّى الواجب صدقة إذا تحرّى صاحبها الصّدق في فعله . قال : خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة/ 103] ، وقال :إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة/ 60 ( ص دق) الصدقۃ ( خیرات ) ہر وہ چیز جو انسان اپنے مال سے قرب الہی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے اور یہی معنی زکوۃ کے ہیں مگر صدقۃ اسے کہتے ہیں جو واجب نہ ہو ۔ اور کبھی واجب کو بھی صدقۃ سے موسوم کردیا جاتا ہے ۔ جب کہ خیرات دینے والا اس سے صدق یعنی صلاح وتقوی کا قصد کرے قرآن میں ہے : ۔ خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة/ 103] ان کے مال میں سے زکوۃ قبول کرلو ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة/ 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں کا حق ہے ۔ قرض القَرْضُ : ضرب من القطع، وسمّي قطع المکان وتجاوزه قَرْضاً ، كما سمّي قطعا . قال : وَإِذا غَرَبَتْ تَقْرِضُهُمْ ذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 17] ، أي : تجوزهم وتدعهم إلى أحد الجانبین، وسمّي ما يدفع إلى الإنسان من المال بشرط ردّ بدله قَرْضاً ، قال : مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً [ البقرة/ 245] ، وسمّي المفاوضة في الشّعر مُقَارَضَةً ، والقَرِيضُ للشّعر، مستعار استعارة النّسج والحوک . ( ق ر ض ) القرض ( کرتا ) یہ قطع کی ایک قسم ہے پھر جس طرح کسی جگہ سے گزر نے اور تجاوز کر نیکے لئے قطع المکان کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اس طرح قرض المکان بھی کہتے بھی ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا غَرَبَتْ تَقْرِضُهُمْ ذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 17] اور جب غروب ہو تو اس سے بائیں طرف کترا جائے ۔ یعنی غروب کے وقت انہیں ایک جانب چھوڑتا ہو اگزر جاتا ہے ۔ اور قرض اس مال کو بھی کہتے ہیں جو کسی کو اس کی ضرورت پوری کرنے کے لئے دیا جائے اس شرط پر کہ وہ واپس مل جائیگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً [ البقرة/ 245] کوئی ہے خدا کو قرض حسنہ دے ؟ اور شعر گوئی ۔۔۔ کو بھی مقارضۃ کہا جاتا ہے اور شعر کو بطور استعارہ قریض کہا جاتا ہے جس طرح کہ تسبیح اور حو ک کے الفاظ اس معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ حسن الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب : مستحسن من جهة العقل . ومستحسن من جهة الهوى. ومستحسن من جهة الحسّ. والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ( ح س ن ) الحسن ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ ضعف ( دوگنا) ضِّعْفُ هو من الألفاظ المتضایفة التي يقتضي وجود أحدهما وجود الآخر، کالنّصف والزّوج، وهو تركّب قدرین متساويين، ويختصّ بالعدد، فإذا قيل : أَضْعَفْتُ الشیءَ ، وضَعَّفْتُهُ ، وضَاعَفْتُهُ : ضممت إليه مثله فصاعدا . قال بعضهم : ضَاعَفْتُ أبلغ من ضَعَّفْتُ «1» ، ولهذا قرأ أكثرهم : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب/ 30] ، وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء/ 40] ، وقال : مَنْ جاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثالِها [ الأنعام/ 160] ، والمُضَاعَفَةُ علی قضيّة هذا القول تقتضي أن يكون عشر أمثالها، وقیل : ضَعَفْتُهُ بالتّخفیف ضَعْفاً ، فهو مَضْعُوفٌ ، فَالضَّعْفُ مصدرٌ ، والضِّعْفُ اسمٌ ، کا لثَّنْيِ والثِّنْيِ ، فَضِعْفُ الشیءِ هو الّذي يُثَنِّيهِ ، ومتی أضيف إلى عدد اقتضی ذلک العدد ومثله، نحو أن يقال : ضِعْفُ العشرةِ ، وضِعْفُ المائةِ ، فذلک عشرون ومائتان بلا خلاف، وعلی هذا قول الشاعر : 293- جزیتک ضِعْفَ الوِدِّ لمّا اشتکيته ... وما إن جزاک الضِّعف من أحد قبلي «3» وإذا قيل : أعطه ضِعْفَيْ واحدٍ ، فإنّ ذلک اقتضی الواحد ومثليه، وذلک ثلاثة، لأن معناه الواحد واللّذان يزاوجانه وذلک ثلاثة، هذا إذا کان الضِّعْفُ مضافا، فأمّا إذا لم يكن مضافا فقلت : الضِّعْفَيْنِ فإنّ ذلك يجري مجری الزّوجین في أنّ كلّ واحد منهما يزاوج الآخر، فيقتضي ذلک اثنین، لأنّ كلّ واحد منهما يُضَاعِفُ الآخرَ ، فلا يخرجان عن الاثنین بخلاف ما إذا أضيف الضِّعْفَانِ إلى واحد فيثلّثهما، نحو : ضِعْفَيِ الواحدِ ، وقوله : فَأُولئِكَ لَهُمْ جَزاءُ الضِّعْفِ [ سبأ/ 37] ، وقوله : لا تَأْكُلُوا الرِّبَوا أَضْعافاً مُضاعَفَةً [ آل عمران/ 130] ، فقد قيل : أتى باللّفظین علی التأكيد، وقیل : بل المُضَاعَفَةُ من الضَّعْفِ لا من الضِّعْفِ ، والمعنی: ما يعدّونه ضِعْفاً فهو ضَعْفٌ ، أي : نقص، کقوله : وَما آتَيْتُمْ مِنْ رِباً لِيَرْبُوَا فِي أَمْوالِ النَّاسِ فَلا يَرْبُوا عِنْدَ اللَّهِ [ الروم/ 39] ، وکقوله : يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ [ البقرة/ 276] ، وهذا المعنی أخذه الشاعر فقال : زيادة شيب وهي نقص زيادتي وقوله : فَآتِهِمْ عَذاباً ضِعْفاً مِنَ النَّارِ [ الأعراف/ 38] ، فإنهم سألوه أن يعذّبهم عذابا بضلالهم، وعذابا بإضلالهم كما أشار إليه بقوله : لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً يَوْمَ الْقِيامَةِ وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ [ النحل/ 25] ، وقوله : لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلكِنْ لا تَعْلَمُونَ [ الأعراف/ 38] ، أي : لكلّ منهم ضِعْفُ ما لکم من العذاب، وقیل : أي : لكلّ منهم ومنکم ضِعْفُ ما يرى الآخر، فإنّ من العذاب ظاهرا و باطنا، وكلّ يدرک من الآخر الظاهر دون الباطن فيقدّر أن ليس له العذاب الباطن . ( ض ع) الضعف الضعف ۔ یہ اسمائے متضایقہ سے ہے یعنی وہ الفاظ جو اپنے مفہوم ومعنی کے تحقیق میں ایک دوسرے پر موقوف ہوتے ہیں جیسے نصف وزوج اور ضعف ( دوگنا) کے معنی ہیں ایک چیز کے ساتھ اس کے مثل کامل جانا اور یہ اسم عدد کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور اضعفت الشئی وضعتہ وضاعفتہ کے معنی ہیں کسی چیز کو دو چند کردینا بعض نے کہا ہے کہ ضاعفت ( مفاعلۃ ) میں ضعفت ( تفعیل ) سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے آیت کریمہ : ۔ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب/ 30] ان کو دگنی سزادی جائے گی ۔ اور آیت : ۔ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء/ 40] اور اگر نیکی ( رکی ) ہوگی تو اس کو دو چند کر دیگا ۔ میں یضاعف ( مفاعلۃ پڑھا ہے اور کہا ہے کہ اس سے نیکیوں کے دس گناہ ہونے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ آیت : ۔ مَنْ جاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثالِها [ الأنعام/ 160] سے معلوم ہوتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ ضعفتہ ضعفا فھوا مضعوف ۔ تخفیف عین کے ساتھ آتا ہے اس صورت میں ضعف مصدر ہوگا اور ضعف اسم جیسا کہ شئی اور شئی ہے اس اعتبار سے ضعف الشئی کے معنی ہیں کسی چیز کی مثل اتنا ہی اور جس سے وہ چیز دوگنی ہوجائے اور جب اس کی اضافت اسم عدد کی طرف ہو تو اس سے اتنا ہی اور عدد یعنی چند مراد ہوتا ہے لہذا ضعف العشرۃ اور ضعف المابۃ کے معنی بلا اختلاف بیس اور دو سو کے ہوں گے چناچہ اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) جز نیتک ضعف الواد لما اشتیتہ وما ان جزاک الضعف من احد قبلی جب تونے محبت کے بارے میں شکایت کی تو میں نے تمہیں دوستی کا دو چند بدلہ دیا اور مجھ سے پہلے کسی نے تمہیں دو چند بد لہ نہیں دیا ۔ اور اعطہ ضعفی واحد کے معنی یہ ہیں کہ اسے سر چند دے دو کیونکہ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہا یک اور اس کے ساتھ دو اور دے دو اور یہ کل تین ہوجاتے ہیں مگر یہ معنی اس صورت میں ہوں گے جب ضعف کا لفظ مضاعف ہو ورنہ بدوں اضافت کے ضعفین کے معنی تو زوجین کی طرح دوگنا ہی ہوں گے ۔ لیکن جب واحد کی طرف مضاف ہوکر آئے تو تین گنا کے معنی ہوتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ جَزاءُ الضِّعْفِ [ سبأ/ 37] ایسے لوگوں کو دوگنا بدلہ ملے گا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَآتِهِمْ عَذاباً ضِعْفاً مِنَ النَّارِ [ الأعراف/ 38] تو ان کی آتش جہنم کا دوگنا عذاب دے ۔ میں دوگنا عذاب مراد ہے یعنی دوزخی بار تعالٰ سے مطالیہ کریں گے کہ جن لوگوں نے ہمیں کمراہ کیا تھا انہیں ہم سے دو گناہ عذاب دیا جائے گا ایک تو انکے خود گمراہ ہونے کا اور دوسرے ، ہمیں گمراہ کرنے کا جیسا کہ آیت کریمہ : لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً يَوْمَ الْقِيامَةِ وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ [ النحل/ 25] یہ قیامت کے ادن اپنے اعمال کے پورے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور جن کو یہ بےتحقیق گمراہ کرتے ہیں ان کے بوجھ بھی اٹھائیں گے ۔ سے مفہوم ہوتا ہے ۔ پھر اس کے بعد لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلكِنْ لا تَعْلَمُونَ [ الأعراف/ 38] کہہ کر بتایا کہ ان میں سے ہر ایک کو تم سے دگنا عذاب دیا جائے گا ۔ بعض نے اس کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ تم اور ان میں سے ہر ایک کو اس سے دگنا عذاب ہور ہا ہے جتنا کہ دوسرے کو نظر آرہا ہے ۔ کیونکہ عذاب دو قسم پر ہے ظاہری اور باطنی ، ظاہری عذاب تو ایک دوسرے کو نظر آئے گا مگر باطنی عذاب کا ادراک نہیں کرسکیں گے اور سمجھیں گے کہ انہی اندرونی طور پر کچھ بھی عذاب نہیں ہورہا ہے ( حالانکہ وہ باطنی عذاب میں بھی مبتلا ہوں گے ۔ اور آیت ؛لا تَأْكُلُوا الرِّبَوا أَضْعافاً مُضاعَفَةً [ آل عمران/ 130] بڑھ چڑھ کر سود در سود نہ کھاؤ ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اضعافا کے بعد مضاعفۃ کا لفظ بطور تاکید لایا گیا ہے مگر بعض نے کہا ہے کہ مضاعفۃ کا لفظ ضعف ( بفتح الضاد ) سے ہے جس کے معنی کمی کے ہیں پس آیت کے معنی یہ ہیں کہ سود جسے تم افزونی اور بیشی سمجھ رہے ہو یہ ، دراصل بڑھانا نہیں ہے بلکہ کم کرنا ہے جیسے فرمایا : يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ [ البقرة/ 276] کہ اللہ تعالیٰ سود کو کم کرتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی کے پیش نظر شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (286) زیادۃ شیب وھی نقض زیادتی کہ بڑھاپے کی افرزونی دراصل عمر کی کمی ہے أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت/ 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف/ 57] . والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء/ 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری/ 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان/ 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء/ 93] . يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص/ 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ . والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی: اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص/ 26] . ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ { وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ } [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا } [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : { وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ } [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا { لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ } [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ { فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ } ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ { وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا } [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ { فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ } ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ { عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ } [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : { اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ } [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ كرم الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] . والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ : أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] منطو علی المعنيين . ( ک ر م ) الکرم ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ الا کرام والتکریم کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے
Top