Mufradat-ul-Quran - Al-Haaqqa : 14
وَّ حُمِلَتِ الْاَرْضُ وَ الْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَّاحِدَةًۙ
وَّحُمِلَتِ : اور اٹھائی جائے گی الْاَرْضُ : زمین وَالْجِبَالُ : اور پہاڑ فَدُكَّتَا : تو دونوں توڑ دئیے جائیں گے دَكَّةً : توڑنا وَّاحِدَةً : یکبارگی
اور زمین اور پہاڑ دونوں اٹھا لئے جائیں گے پھر ایک بارگی توڑپھوڑ کر برابر کردئیے جائیں گے
وَّحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّۃً وَّاحِدَۃً۝ 14 ۙ حمل الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل . وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی: وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] ، ( ح م ل ) الحمل ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ جبل الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل : أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] ( ج ب ل ) قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا " ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟ دك الدَّكُّ : الأرض الليّنة السّهلة، وقد دَكَّهُ دَكّاً ، قال تعالی: وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبالُ فَدُكَّتا دَكَّةً واحِدَةً [ الحاقة/ 14] ، وقال : دُكَّتِ الْأَرْضُ دَكًّا [ الفجر/ 21] ، أي : جعلت بمنزلة الأرض اللّيّنة . وقال اللہ تعالی: فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا [ الأعراف/ 143] ، ومنه : الدُّكَّان . والدّكداك «4» : رمل ليّنة . وأرض دَكَّاء : مسوّاة، والجمع الدُّكُّ ، وناقة دكّاء : لا سنام لها، تشبيها بالأرض الدّكّاء . ( دک ک ) الدک ( اسم ) کے معنی نرم اور ہموار زمین کے ہیں ۔ اور دلہ ( ن) دکا کے معنی کوٹ کر ہموار کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبالُ فَدُكَّتا دَكَّةً واحِدَةً [ الحاقة/ 14] اور زمین اور پہاڑ دونوں اٹھائے جائیں گے پھر ایک بارگی توڑ کر برابر کردیئے جائیں گے ۔ دُكَّتِ الْأَرْضُ دَكًّا [ الفجر/ 21] یعنی زمین کوٹ کوٹ کر ہموار کردی جائیگی ۔ فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا [ الأعراف/ 143] جب ان کا پروردگار پہاڑ پر نمودار ہواتو ( تجلی انوار بانی نے ) اس کو ریزہ ریزہ کردیا ۔ اور اسی سے دکان ہے جس کے معنی ہموار چبوترہ کے ہیں ۔ الدکداک نرم ریت ہموار زمین ۔ ج د ک ۔ اور ہموار زمین کے ساتھ تشبیہ دے کر ناقۃ دکآء اس اونٹنی کو کہہ دیتے ہیں جس کی کوہان نہ ہو ۔
Top