Urwatul-Wusqaa - Al-Haaqqa : 14
وَّ حُمِلَتِ الْاَرْضُ وَ الْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَّاحِدَةًۙ
وَّحُمِلَتِ : اور اٹھائی جائے گی الْاَرْضُ : زمین وَالْجِبَالُ : اور پہاڑ فَدُكَّتَا : تو دونوں توڑ دئیے جائیں گے دَكَّةً : توڑنا وَّاحِدَةً : یکبارگی
اور (اچھی طرح سن لو اور یاد رکھو کہ) زمین اور پہاڑ اٹھائے جائیں گے پھر یکبارگی ریزہ ریزہ کردیئے جائیں گے
زمین اور پہاڑ اٹھائے جائیں گے پھر یکبارگی ریزہ ریزہ کردیئے جائیں گے 14 ؎ (حملت) وہ اٹھائی گئی۔ وہ اٹھائی جائے گی۔ حمل اور جمل سے ماضی مجہول کا صیغہ واحد مؤنث غائب۔ اگر آپ غور کریں گے تو یہ ایک لفظ (حملت) کا زمین کی ہیئت کذائی اور اس کی ساری حقیقت کی وضاحت کے لئے کافی ہے اور یہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس طرح فضا کے اندر دوسرے سیارے چلتے پھرتے اور گھومتے ہم کو نظر آ رہے ہیں اس طرح یہ ہماری زمین بھی چکر کھا رہی ہے جو اس طرح کا ایک سیارہ ہے اور جس طرح دوسرے سیارگان سورج ، چاند وغیرہ ہم کو اٹھائے گئے نظر آتے ہیں اسی طرح ہماری زمین بھی بعض جگہوں سے نظر آتی ہوگی اور جس طرح اس زمین میں پہاڑ گاڑے گئے ہیں ان میں بھی یقینا گاڑے گئے ہیں خواہ وہ پہاڑ ایسے ہی ہیں یا اس سے مختلف بہرحال چاند سے پتھروں کا لانا روشنی میں آچکا ہے اگرچہ ابھی وہاں کی آبادی کی تصدیق نہیں کی جاسکتی لیکن قرآن کریم میں ایسے اشارات پائے جاتے ہیں جن سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ وہاں آبادی ضرور ہے خواہ وہ چاند میں ہے یا دوسرے سیاروں میں یا سب میں۔ اور جب زمین یہ اٹھا لی جائے گی تو ظاہر ہے کہ اس کے پہاڑ بھی اس کے ساتھ ہی اٹھا لئے جائیں گے اور پھر ان کے باقی رہنے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ (قد کتادکۃ) وہ دونوں توڑ دی جائیں گی۔ دونوں سے مراد کیا ہے ؟ ظاہر ہے کہ آیت زیر نظر میں پہاڑوں اور زمین دونوں کا ذکر ہے اس لئے اس سے مراد یہی دونوں لئے جاسکتے ہیں یعنی زمین اور پہاڑ اور دک کے معنی ریزہ ریزہ کرنے کے کئے جاتے ہیں اور دکتادک سے ماضی مجہول کا صیغہ تثنیہ مؤنث غائب ہے اور دوسری جگہ اس کے نشیب و فراز کے ختم ہونے کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ زمین کو ہموار کر کے ایک نئی زمین بچھائی جائے گی اور اس میں کوئی بلندی ، کوئی پستی ، کوئی ٹیلہ ، کوئی گڑھا باقی نہیں رہے گا اور ظاہر ہے کہ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ان دونوں کو یعنی زمین کو اور زمین کے اندر کے پہاڑوں کو ایک بار ریزہ ریزہ کر کے اڑا دیا جائے اور یہ بات آنے والی سورتوں میں بہت وضاحت سے کہی گئی ہے۔
Top