Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 95
وَ لَنْ یَّتَمَنَّوْهُ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ
وَلَنْ يَتَمَنَّوْهُ ۔ اَبَدًا : اور وہ ہرگز اس کی آرزو نہ کریں گے۔ کبھی بِمَا : بسبب جو قَدَّمَتْ : آگے بھیجا اَيْدِیْهِمْ : ان کے ہاتھوں نے وَاللہُ : اور اللہ عَلِیْمٌ : جاننے والا بِالظَّالِمِیْنَ : ظالموں کو
یقین جانو کہ یہ کبھی اس کی تمنا نہ کریں گے، اس لیے کہ اپنے ہاتھوں جو کچھ کما کر انہوں نے وہاں بھیجا ہے، اس کا اقتضا یہی ہے (کہ یہ وہاں جانے کی تمنا نہ کریں) اللہ ان ظالموں کے حال سے خوب واقف ہے
[ وَلَنْ يَّتَمَنَّوْهُ : اور وہ الوگ ہرگز تمنا نہیں کریں گے اس کی ] [ اَبَدًۢا : کبھی بھی ] [ بِمَا : بسبب اس کے جو ] [ قَدَّمَتْ : آگے بھیجے ] [ اَيْدِيْهِمْ ۭ : ان کے ہاتھوں نے ] [ وَاللّٰهُ : اور اللہ ] [ عَلِيْمٌۢ : جاننے والا ہے ] [ بِالظّٰلِمِيْنَ : ظلم کرنے والوں کو ] ۔ ابتدائی ” وَ “ مستانفہ ہے، ترجمہ ” اور “ ہی کیا جاسکتا ہے۔ اگلا لفظ ۔ ” لن یتمنَّوہ “ ہے جس کے آخر پر ضمیر منصوب (ہ) ہے جس کا اردو ترجمہ تو ” اس کو “ بنتا ہے مگر اردو کے فعل (آرزو کرنا) کی مناسبت سے اس کا ترجمہ یہاں ” اس کی “ ہی ہوسکتا ہے۔ باقی صیغۂ فعل ” لن یتمنَّوْا “ ہے (خیال رہے جب ضمیر مفعول ساتھ نہیں لکھیں گے تو پھر واو الجمع کے بعد الف الوقایہ لکھنا ضروری ہے) ۔ یہ ابھی اوپر بیان کردہ فعل ” تمنّی… یتمنّی “ (آرزو کرنا) سے فعل مضارع معروف منفی ” بِلَنْ “ صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اس کا ترجمہ ہوگا ” وہ ہرگز آرزو نہیں کریں گے۔ “ ۔ [ اَبَدًا ] اس عبارت میں یہی لفظ نیا ہے۔ اس کے مادہ (ا ب د) سے فعل مجرد ” أبَد یَاْبُدُا بُودًا “ (نصر سے) ” وحشی ہونا۔ الگ تھلگ رہنا یا الگ گھومتے پھرنا “ کے معنی دیتا ہے اور ” أبِدَ یأبَدُ اَبَدًا “ (سمع سے) کے معنی ’ غضبناک ہونا ‘ بھی ہوتے ہیں۔ عام عربی میں اس مادہ سے مزید فیہ کے بعض ابواب سے بھی فعل استعمال ہوتے ہیں۔ اور بطور اسم ” اَبَدٌ“ بمعنی دہر یا زمانہ بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کا خاص مح اور اتی استعمال ” ابدَا الّا باد “ یا ” ابَد الّا بدین “ (رہتی دنیا تک ہمیشہ ہی “ کے مفہوم میں) ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا فعل یا اسم وغیرہ استعمال نہیں ہوا سوائے اس زیر مطالعہ لفظ (ابدًا) کے جو قرآن کریم میں 28 جگہ وارد ہوا ہے۔ ۔ یہ لفظ ” ابدًا “ ظرف ہے (اسی یہ ہمیشہ منصوب استعمال ہوتا ہے) یہ صرف زمانۂ مستقبل کے لیے آتا ہے اور نفی و اثبات یعنی منفی یا مثبت دونوں جملوں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے، مثلاً کہتے ہیں ” اَفْعَلُہ أبدًا “ (میں اسے آئندہ ہمیشہ کروں گا) یا بطور نفی ” لا اَفْعَلُہ اَبَدًا “ (میں یہ آئندہ کبھی بھی نہیں کروں گا) اسی یہ استمرار (کسی حالت یا کیفیت وغیرہ کے ہمیشہ جاری رہتے) کا مفہوم دیتا ہے یعنی ” ہمیشہ کے لیے “ یا ” ہمیشہ ہی “ کے لیے ہے۔ اسی مفہوم میں یہ قرآن کریم میں اکثر ” خالدین “ یا ” خالدًا “ (حال) کے ساتھ بطورہ تاکید (ابدًا) آتا ہے۔ ۔ قرآن کریم میں یہ زیادہ تر تو منفی جملوں کے ساتھ (کبھی نہ ہوگا کے معنی میں) استعمال ہوا ہے، تاہم مثبت جملوں کے ساتھ (ہمیشہ ایسا ہوگا کے معنی میں) بھی استعمال ہوا ہے، جن پر حسب موقع بات ہوگی۔ اِن شاء اللہ۔ خیال رہے کہ ” ابدًا “ ماضی کے ساتھ کبھی استعمال نہیں ہوتا۔ مثلاً اگر کہنا ” میں ہرگز ایسا (کبھی) نہیں کروں گا “ تو عربی میں کہیں گے ” لا افعلُہ “ یا ” لن افعلَہ ابدا “ اور اگر کہنا ہو کہ ” میں نے ہرگز کبھی ایسا نہیں کیا “ تو اس صورت میں عربی میں کہیں گے ” ما فعلتہُ ابدا “ کہنا بالکل غلط ہوگا۔ بہرحال ” ابدًا “ کا اردو ترجمہ ” کبھی بھی “ ہوسکتا ہے اور مراد ہوگا ” آئندہ کبھی بھی۔ “ ۔ اس حصۂ عبارت (وَلَن یتمنَّوہ ابدًا) کا ترجمہ بنتا ہے ” اور وہ ہرگز آرزو نہ کریں گے اس کی کبھی “ چونکہ اس میں نفی حجد بلَنْ بھی ہے (یعنی زور اور تاکید کے ساتھ نفی) اور ساتھ ” ابدًا “ بھی ہے اس لیے اردو محاورے میں ان دونوں کے مفہوم کو یکجا کرتے ہوئے ترجمہ ” وہ اس کی آرزو ہرگز کبھی بھی نہ کریں گے “ اور ” ہرگز کبھی اس کی آرزو نہ کریں گے “ سے کیا گیا ہے۔ بعض نے ضمیر مفعول (ہ) کی بجائے (اس کی بجائے) ” موت کی آرزو “ مرنے کی آرزو نہ کریں گے “ سے ترجمہ کیا کیونکہ یہاں اس ضمیر کا مرجع (مَوْت) پہلے مذکور ہوا ہے۔ 2:58:1 (4) [ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْھِمْ ] ۔ ” بِمَا “ (بسبب اس کے جو کہ) میں ” بِ “ سببیہ اور ” مَا “ موصولہ ہے جس کو مصدریہ بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ ۔ ” قَدَّمَتْ “ کا مادہ ” ق د م “ اور وزن ” فَقَلَتُ “ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد مختلف ابواب سے (اور مختلف مصادر کے ساتھ) مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے، تاہم اس کے تمام معانی میں ” قَدَمٌ“ (پائوں، جمع اقدام) اٹھانا “ کا مفہوم ضرور شامل ہوتا ہے اور اس لیے اس کے معانی میں ” آگے بڑھنا “ (سبقت) کا تصور ہوتا ہے، چاہے بلحاظ مکان (جگہ) ہو یا بلحاظ زمان یا بلحاظ زمان یا بلحاظ شرف و مرتبہ ہو۔ مثلاً (1) ” قَدَم… یقدُم قُدُومًا “ (نصر سے) کے معنی ہوتے ہیں : ”…سے آگے بڑھنا : … کے آگے آگے چلنا “ یعنی ” صارقُدَّامَھم “ اور اسی سے آیا ہے ” یقدُم قومَہ یومَ القیامۃِ “ (ھود :98) (یعنی وہ اپنے لوگوں کے آگے آگے آئے گا قیامت کے دن) اور کبھی ان ہی معنی کے لیے یہ فعل باب فتح سے (قدَم یقدَم قَدْمًا) بھی آتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں یہ باب نصر سے ہی آیا ہے (2) ” قدِم یقدَم قَدْمًا “ (سمع سے) کے معنی ” آپہنچا، آجانا “ ہوتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں ” قدِم فلانٌ من سفَرِہ “ (فلاں اپنے سفر سے واپس آگیا) اور اگر اس کے ساتھ ” الیٰ “ کا صلہ لگے یعنی ” قدِم الیٰ…“ تو اس کے معنی ”…تک پہنچنا، … کی طرف متوجہ ہونا “ ہوتے ہیں۔ اسی سے قرآن کریم میں آیا ہے ” وقدِمُنا الٰی ما عملوا من عمل “ (الفرقان :23) یعنی ” اور ہم پہنچے : متوجہ ہوئے ان کے اعمال (جو کچھ انہوں نے عمل کیا) تک : کی طرف “ (3) قدُم یقدُم قِدَمًا (کرم سے) کے معنی ہیں : ” قدیم ہونا۔ بلحاظ زمانہ پیچھے (ماضی میں) رہ جانا۔ پرانا ہونا “ اسی فعل سے عربی کی صفت مشتبہ قدیم ” اردو میں بھی مستعمل ہے۔ قرآن کریم میں یہ فعل اپنے پہلے دو معنی (1 اور 2 مندرجہ بالا) میں ہی استعمال ہوا ہے بلکہ اس فعل مجرد سے قرآن کریم میں صرف یہی دو صیغے آئے ہیں جو اوپر دو مثالوں میں مذکور ہوئے ہیں۔ ۔ زیر مطالعہ صیغۂ فعل (قدَّمَتْ ) اس مادہ سے باب تفعیل کا فعل ماضی معروف صیغہ واحد مونث غائب ہے۔ باب تفعیل کا یہ فعل ” قدَّم… یُقَدِّمُ تقدیمًا “ بنیادی طور پر بطور متعدی آتا ہے اور اس کے معنی ”…کو آگے بھیجنا : کرنا : لانا : پیش کرنا “ ہوتے ہیں۔ اور کبھی اس کے معنی بطور فعل لازم ” آگے بڑھنا “ (تقدَّم) کے بھی آتے ہیں اور اس کے معنی (بطور متعدی) ” کسی سے آگے نکل جانا “ (سبَقَہ) کے بھی ہوتے ہیں کہتے ہیں ” قدَّم القومَ “ (وہ لوگوں سے آگے نکل گیا) اس کے علاوہ مختلف صلات کے ساتھ یہ بھی مختلف معنی دیتا ہے۔ مثلاً ” قدَّم بَیْنَ یَدَیْ فلانٍ “ کے معنی ہیں ” وہ فلاں سے پہل کر گیا “ اور قرآن کریم (الحجرات :1) میں یہ اسی معنی میں آیا ہے۔” الی “ کے صلہ کے ساتھ اس کے معنی ”…کو قبل از وقت خبردار کرنا یا قبل از وقت کوئی حکم دینا “ بھی ہوتے ہیں اور اسی سے قرآن کریم میں آیا ہے ” وقد قدَّمتُ الیکم بالوعید “ کے معنی ”…سے قبل از وقت آگاہ کرنا “ ہوتے ہیں۔ اوپر کی مثال میں ” الیٰ “ اور ” ب “ دونوں کا استعمال ہوا ہے یعنی ”…کو …سے قبل از وقت آگاہ کردیا “۔ (الیہ اور بالوعید) ۔ قرآن کریم میں (باب تفعیل کے) اس فعل سے ماضی مضارع امر و نہی کے مختلف صیغے 27 جگہ آئے ہیں، جن میں سے صرف زیر مطالعہ صیغہ (قدَّمَتْ ) ہی 14 جگہ آیا ہے۔ نیز باب تفعّل اور استفعال سے افعال کے کچھ صیغے بھی چھ جگہ آئے ہیں۔ اس کے علاوہ مجرد و مزید سے مختلف مشتق و ماخوذ کلمات (مثلاً قدم، اَقدام، قدیم، اقدمو، مستقدمین) 13 جگہ وارد ہوئے ہیں۔ ۔ ” اَیْدِیْھِم “ (ان کے ہاتھوں نے) مرکب اضافی کا پہلا جزء ” اَیْدٍی “ لفظ ” ید “ (ہاتھ) کی جمع مکسر ہے۔ ” ید “ کی لغوی (مادہ، وزن، باب، فعل اور ساخت کلمہ وغیرہ کی) بحث پہلے البقرہ :66 [ 2:42:1 (6)] میں گزری تھی، پھر اسی لفظ (اَیْدِیْھِمْ ) پر البقرہ :79 [ 2:49:1 (4)] میں بھی بات ہوئی تھی۔ ۔ یوں اس عبارت (بِما قدَّمَتْ ایدیھم) کا ترجمہ بنتا ہے ” بسبب اس کے جو کہ آگے بھیجا ان کے ہاتھوں نے ” بما “ کا ترجمہ ” جس واسطے “ کیا گیا ہے جو کہ ” اس کے واسطے جو کہ “ کی زیادہ سلیس شکل ہے۔ بعض نے ” ان اعمال بد : برے کام : بداعمالیوں کے سبب، ان گناہوں کے سبب، ان اعمال کی وجہ سے جو “ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔ ظاہر ان میں ” بداعمالیوں، گناہوں “ وغیرہ تفسیری اضافے ہیں۔ اسی طرح بعض نے ” قَدَّمَتْ “ (آگے بھیجا) کا ترجمہ (جو گناہ وہ) پہلے کرچکے ہیں “ کے ساتھ کیا ہے اور بعض نے (جو اپنے ہاتھوں) ” سمیٹ چکے ہیں “ اور (جو) آگے کرچکے ہیں “ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ ان میں اکثر تراجم اردو محاورے اور اپنے مفہوم کے اعتبار سے درست ہیں ورنہ اصل الفاظ سے تو ذرا ہٹ کر ہی ہیں۔ ۔ بعض مترجمین نے اردو میں فقرے کی ساخت کے تقاضے کو ملحوظ رکھتے ہوئے پہلے ” بِمَا قَدَّمَت ایدیھم “ اور بعد میں (پہلی عبارت) ” ولن یَتَمَنَّوُہ اَبَدًا “ کا ترجمہ کیا ہے۔ جو ترجمے کے قواعد کے لحاظ سے درست ہی ہے۔ 2:58:1 (5) [ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بالظّٰلِمِیْنَ ] ۔ ” وَاللّٰہ “ کی ” واو “ یہاں مستانفہ ہے بلحاظ معنی اس کا سابقہ عبارت پر عطف (کا تعلق) ہو ہی نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے پہلے عبارت کے آخر پر وقف مطلق کی علامت (ط) ڈالی جاتی ہے کہ وہاں سابقہ مضمون ختم ہوتا ہے اور جملہ بھی مکمل ہوجاتا ہے۔ اسم جلالت (اللہ) کی لغوی بحث ” بسم اللہ “ کے ضمن میں ہوئی تھی۔ ۔ ” علیم “ جو مادہ ” ع ل م “ سے صفت مشبہ بروزن ” فعیل “ ہے، اس کی مکمل وضاحت البقرہ :21 [ 2:2:1] کے آخر پر ہوچکی ہے یعنی ” خوب جاننے والا “ ” بالظّٰلمین “ کی ابتدائی ” با (ب) “ وہ صلہ ہے جو کبھی کبھی فعل ” عَلِمَ “ پر آتا ہے یعنی ” عَلِمَہٗ “ اور ” عَلِمَ بہ “ دونوں کا مطلب ہے ” اس نے اسے جان لیا “ اور کلمہ ” الظالمین “ (یعنی اردو کا ” ظالموں “ ) کی لغوی بحث پہلی دفعہ البقرہ :35 [ 2:26:1] کے آخر پر ہوئی تھی۔ ۔ اب یہ عبارت آپ کے لیے چنداں مشکل نہیں اس کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ” اور اللہ تعالیٰ خوب اچھی طرح جاننے والا ہے ظالموں کو “ بعض نے ” علیم “ کا ترجمہ ” خوب واقف “ سے کیا ہے جبکہ بہت سے حضرات نے اس کا ترجمہ بصورتِ فعل یعنی ” خوب جانتا ہے “ سے کیا ہے جو اردو محاورے کے لحاظ سے درست ہے۔ ورنہ بظاہر تو یہ ” یَعْلَمُ “ کا ترجمہ لگتا ہے۔ بعض نے ” کو خوب اطلاع “ ہے سے ترجمہ کیا ہے جو تکلف اور تصنع سے خالی نہیں۔ اسی طرح ” ظالمین “ کا اردو ترجمہ ” گناہگاروں “ اور ” بےانصافوں “ سے بھی کیا گیا ہے جو بلحاظ مفہوم درست ہے۔ 2:58:2 الإعراب اس قطعہ کی پہلی آیت تو ایک ذرا لمبا مکمل شرطیہ جملہ ہے، ہم اسے دو حصوں (بیانِ شرط اور جوابِ شرط) میں تقسیم کرکے اعراب پر بات کریں گے۔ دوسری آیت (95) اعرابی لحاظ سے دو مکمل جملے ہیں۔ ہر ایک جملہ پر الگ الگ بات ہوگی۔ ۔ ” قل ان کانت لکم الدار الاخرۃ عند اللہ خالصۃ من دون الناس…“ [ قُل ] فعل امر صیغہ واحد مذکر حاضر ہے [ ان ] شرطیہ جازمہ ہے مگر یہاں فعل ماضی پر اس کا کوئی عمل نہیں ہوا ” اگرچہ بعض نحوی کہتے ہیں کہ یہاں فعل ” کانت “ محلاً مجزوم ہے، مگر یہ محض تکلف ہے۔ ” اِنْ “ تو صرف مضارع کو ہی جزم دیتا ہے۔ [ کانت ] فعل ناقص صیغہ ماضی واحد مؤنث غائب ہے۔ [ لکم ] جار مجرور (ل+کم) مل کر ” کانت “ کی خبر مقدم (جو اس کے اسم سے پہلے لائی گئی ہے) ہے اور اس تقدیم کی وجہ سے ” لکم “ کا ترجمہ ” تمہارے ہی لیے “ ہوگا۔ [ الدارُ الاخرۃُ ] مرکب توصیفی مل کر ” کانت “ کا اسم (لہٰذا) مرفوع ہے جو خبر سے مؤخر (بعد میں) لایا گیا ہے اور چاہیں تو یوں کہہ لیجئے کہ ” الدارُ “ (گھر) ہی دراصل اسم ” کانت “ ہے لہٰذا رفع میں ہے اور ” الآخرۃ “ اس (الدار) کی صفت ہے اور اس لیے یہ حالت، جنس عدد وغیرہ سب پہلوئوں سے اپنے موصوف کے مطابق ہے (اور یوں یہ مرفوع بھی ہے) [ عنداللہ ] میں ” عند “ ظرف مکان ہے (اس لیے منصوب ہے) جو ” اللّٰہ “ کی طرف مضاف ہے اور اسم جلالت اسی لیے مجرور ہے اور اس ظرف مکان کا تعلق اگلے لفظ ” خالصۃ “ سے ہے، یعنی یہ اس (خالصۃ) کے معنی مزید واضح کرتا ہے ) کہ الگ اور وہ بھی اللہ کے پاس [ خالصۃ ] یہ ” الدار “ کا حال ہے، اس لیے منصوب ہے یعنی ” خالص ہوتے ہوئے “ یا ” خاص کر “۔ ویسے یہ بھی ممکن ہے کہ ” خالصۃ “ کو فعل ناقص ” کانت “ کی خبر (لہٰذا منصوب) سمجھا جائے اور ابتدائی ” لکم “ کو اس کا متعلق خبر مقدم قرار دیا جائے۔ اس سے اردو ترجمہ میں کوئی فرق نہیں پڑسکتا۔ [ من دون الناس ] جار مجرور مل کر (جس میں مجرور ” دون الناس “ میں ظرف مضاف اور اس کا مضاف الیہ شامل ہیں) حال : یا خبر (خالصۃً ) کا حال مؤکدہ ہے، کیونکہ ” دُون “ اختصاص کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عربی میں کہتے ہیں ” ھذا لی دونک : مِن دونِک “ (یعنی یہ چیز میری ہی ہے، تیرا اس سے کوئی تعلق نہیں) اسی لیے ” من دون الناس “ کا ترجمہ دوسروں کا نہیں، دوسروں کو چھوڑ کر “ وغیرہ سے کیا گیا ہے (دیکھئے تراجم حصۃ ” اللغۃ “ میں) ۔ یہاں تک بیان شرط پورا ہوتا ہے۔ ۔ فتَمنَّوا المَوْتَ ان کنتم صادقین [ فتمنَّوا ] کی ابتدائی ” فا (فَ ) “ وہ ہے جو جوابِ شرط پر آتی ہے، خصوصاً جب جوابِ شرط میں معنی ” طلب “ پایا جائے۔ ” تَمَنَّوْا “ یہاں فعل امر صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس میں آخری ” ن “ (تتمنون کا) امر کے مجزوم ہونے کی وجہ سے گرگیا ہے۔ اب واو الجمع ضمیر الفاعلین ” انتم “ کے معنی دے رہی ہے اور اس صیغۃ کے شروع سے ایک ” ت “ بھی گرا دی گئی ہے۔ اصل صیغہ ” تَتَمَنَّوْا “ تھا، پھر باب تفعل اور تفاعل ہیں جہاں دو تاء (ت) جمع ہوتے ہیں وہاں ایک ” ت “ کا حذف جائز ہے اور اس طرح یہ صیغۂ امر بظاہر فعل ماضی کے صیغہ جمع مذکر غائب سے مشابہ ہوگیا ہے، ورنہ دراصل تو دونوں صیغے الگ الگ (” تَمَنَوَّا “ ماضی اور ” تَتَمَنَّوا “ امر) ہوتے ہیں۔ [ الموت ] فعل ” تَمَنَّوا “ کا مفعول (لہٰذا) منصوب ہے۔ [ ان کنتم صادقین ] یہ بذات خود ادھورا جملہ ہے جو بیان شرط پر مشتمل ہے یعنی ” ان “ شرطیہ ” کنتم “ فعل ناقص مع اسم ” انتم “ ہے اور ” صادقین “ اس (کنتم) کی خبر (لہٰذا) منصوب ہے علامت نصب آخری نون سے پہلے والی یاء ماقبل مکسور (-ِی) ہے اور یہ جملہ (ان کنتم صادقین) ایک محذوف جواب شرط کا محتاج ہے جو ” فافعلوا ھذا “ یا ” فتمنُّوا الموت “ ہوسکتا ہے۔ یعنی ” اگر سچے ہو “ تو یہ (موت کی تمنا کرنے والا) کام کردکھائو۔ یہ عبارت سابقہ (1) کا جواب شرط ہے۔ یہ دونوں جملے (1، 2 مندرجہ بالا) مل کر ایک جملہ شرطیہ مکمل ہوتا ہے۔ ۔ ولن یتمنَّوا ابدًا بما قدَّمَت ایدیھم [ وَ ] یہاں استیناف کی ہے [ لَنْ ] حرف ناصب ِ مضارع جو نفی اور مستقبل کے معنی دیتا ہے۔ [ یتمنوہ ] میں ” یتمنوا “ تو فعل مضارع نصوب (بِلَنْ ) ہے جس میں علامت نصب آخری نون کا (یتمنوْنَ کا) گر جانا ہے اس میں واو الجمع ضمیر الفاعلین ” ھم “ کے لیے ہے اور صیغۂ عل کے آخر پر ضمیر منصوب (ہ) اس فعل کا مفعول بہ ہے۔ مفعول ضمیر ہونے کے باعث یہاں واو الجمع کے بعد الف الوقایہ نہیں لکھا جاتا [ ابدًا ] ظرف زمان برائے مستقل ہے۔ جس کا تعلق فعل ” یتمنوہ “ سے ہے۔ [ بِما ] باء الجر (جو یہاں سببیہ ہے) اور ” مَا “ موصولہ کا مرکب ہے (قدَّمَتْ ) فعل ماضی واحد مؤنث غائب ہے اور [ اَیْدِیْھِمْ ] مضاف ” ایدی “ اور مضاف الیہ ” ھم “ مل کر فعل ” قَدَّمَتْ “ فعل ماضی واحد مؤنث غائب ہے اور [ اَیْدِیْھِمْ ] مضاف ” ایدی “ اور مضاف الیہ ” ھم “ مل کر فعل ” قَدَّمَتْ “ کا فاعل ہے۔ یہاں ” ایدیٍ “ مرفوع ہے جو آگے مضاف ہونے کے باعث خفیف ” اَیْدِیْ “ ہوگیا ہے (تنوین ختم ہوگئی ہے) یہ لفظ اسم منقوص کی طرح رفع نصب جر میں ” ایدی ۔ ایدیًا اور ایدٍی “ ہوتا ہے۔ پھر مضاف ہوتے وقت رفع اور جر میں تو ” ی “ ساکن ہوجاتی ہے مگر نصب میں مفتوح (ی) ہوجاتی ہے اور یہ پورا جملہ (قدمَتْ اَیْدِیْھِمْ ) اسم موصول ما (” بما “ والا) کا صلہ ہے اور یوں یہ پورا مرکب جاری (بما قدمت ایدیھم) متعلق فعل ” لن یتمنوا “ بنتا ہے۔ یعنی ” جرأت تمنا “ نہ کرسکنے کی وجہ بتاتا ہے۔ ۔ واللّٰہ علیم بالظالمین [ وَ ] مستانفہ ہے اور [ اللہ ] مبتدأ مرفوع ہے۔ [ علیم ] اس کی خبر (لہٰذا) مرفوع ہے [ بالظالمین ] جار مجرور (ب+ الظالمین) مل کر متعلق خبر (علیم) ہے اور یہ پورا جملہ اسمیہ ایک الگ (مستانفہ) جملہ ہے۔ 2:58:3 الرسم بلحاظ رسم عثمانی (قرآنی) اس قطعہ میں صرف دو لفظ قابل ذکر ہیں۔ یعنی ” صدقین “ اور ” الظلمین “۔ ویسے یہ دونوں لفظ پہلے بھی گزر چکے ہیں۔ اور ان کا قعدہ وہی جمع مذکر سالم کے حذف الف والا ہے، جو بیان ہوچکا ہے۔ ۔ ” صدقین “ جس کی رسم املائی ” صادقین “ ہے، قرآن کریم میں یہاں اور ہر جگہ ” بحذف الالف بعد الصاد “ لکھا جاتا ہے۔ ۔ ” الظلمین “ جس کی رسم املائی ” الظالمین “ ہے، یہ بھی قرآن کریم میں یہاں اور ہر جگہ ” بحذف الالف بعد الظائ “ لکھا جاتا ہے۔ خیال رہے دونوں لفظوں میں الف الفاعلین لکھنے میں محذوف ہوتا ہے مگر پڑھا ضرور جاتا ہے، پھر ضبط سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ 2:58:4 الضبط ان دو آیات کے کلمات میں ضبط کا تنوع زیادہ تر ساکن حرف علت، نون مخفاۃ اور اقلاب نون میم کے طریق ضبط سے تعلق رکھتا ہے۔ یا پھر افریقی مصاحف میںاور ق کے اعجام اور ” ن “ متطرف (آخر پر آنے والا نون) کے عدم اعجام سے متعلق ہے۔ تفصیل یوں ہے۔
Top