Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 95
وَ لَنْ یَّتَمَنَّوْهُ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ
وَلَنْ يَتَمَنَّوْهُ ۔ اَبَدًا
: اور وہ ہرگز اس کی آرزو نہ کریں گے۔ کبھی
بِمَا
: بسبب جو
قَدَّمَتْ
: آگے بھیجا
اَيْدِیْهِمْ
: ان کے ہاتھوں نے
وَاللہُ
: اور اللہ
عَلِیْمٌ
: جاننے والا
بِالظَّالِمِیْنَ
: ظالموں کو
یقین جانو کہ یہ کبھی اس کی تمنا نہ کریں گے، اس لیے کہ اپنے ہاتھوں جو کچھ کما کر انہوں نے وہاں بھیجا ہے، اس کا اقتضا یہی ہے (کہ یہ وہاں جانے کی تمنا نہ کریں) اللہ ان ظالموں کے حال سے خوب واقف ہے
[ وَلَنْ يَّتَمَنَّوْهُ : اور وہ الوگ ہرگز تمنا نہیں کریں گے اس کی ] [ اَبَدًۢا : کبھی بھی ] [ بِمَا : بسبب اس کے جو ] [ قَدَّمَتْ : آگے بھیجے ] [ اَيْدِيْهِمْ ۭ : ان کے ہاتھوں نے ] [ وَاللّٰهُ : اور اللہ ] [ عَلِيْمٌۢ : جاننے والا ہے ] [ بِالظّٰلِمِيْنَ : ظلم کرنے والوں کو ] ۔ ابتدائی ” وَ “ مستانفہ ہے، ترجمہ ” اور “ ہی کیا جاسکتا ہے۔ اگلا لفظ ۔ ” لن یتمنَّوہ “ ہے جس کے آخر پر ضمیر منصوب (ہ) ہے جس کا اردو ترجمہ تو ” اس کو “ بنتا ہے مگر اردو کے فعل (آرزو کرنا) کی مناسبت سے اس کا ترجمہ یہاں ” اس کی “ ہی ہوسکتا ہے۔ باقی صیغۂ فعل ” لن یتمنَّوْا “ ہے (خیال رہے جب ضمیر مفعول ساتھ نہیں لکھیں گے تو پھر واو الجمع کے بعد الف الوقایہ لکھنا ضروری ہے) ۔ یہ ابھی اوپر بیان کردہ فعل ” تمنّی… یتمنّی “ (آرزو کرنا) سے فعل مضارع معروف منفی ” بِلَنْ “ صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اس کا ترجمہ ہوگا ” وہ ہرگز آرزو نہیں کریں گے۔ “ ۔ [ اَبَدًا ] اس عبارت میں یہی لفظ نیا ہے۔ اس کے مادہ (ا ب د) سے فعل مجرد ” أبَد یَاْبُدُا بُودًا “ (نصر سے) ” وحشی ہونا۔ الگ تھلگ رہنا یا الگ گھومتے پھرنا “ کے معنی دیتا ہے اور ” أبِدَ یأبَدُ اَبَدًا “ (سمع سے) کے معنی ’ غضبناک ہونا ‘ بھی ہوتے ہیں۔ عام عربی میں اس مادہ سے مزید فیہ کے بعض ابواب سے بھی فعل استعمال ہوتے ہیں۔ اور بطور اسم ” اَبَدٌ“ بمعنی دہر یا زمانہ بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کا خاص مح اور اتی استعمال ” ابدَا الّا باد “ یا ” ابَد الّا بدین “ (رہتی دنیا تک ہمیشہ ہی “ کے مفہوم میں) ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں اس مادہ سے کسی قسم کا فعل یا اسم وغیرہ استعمال نہیں ہوا سوائے اس زیر مطالعہ لفظ (ابدًا) کے جو قرآن کریم میں 28 جگہ وارد ہوا ہے۔ ۔ یہ لفظ ” ابدًا “ ظرف ہے (اسی یہ ہمیشہ منصوب استعمال ہوتا ہے) یہ صرف زمانۂ مستقبل کے لیے آتا ہے اور نفی و اثبات یعنی منفی یا مثبت دونوں جملوں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے، مثلاً کہتے ہیں ” اَفْعَلُہ أبدًا “ (میں اسے آئندہ ہمیشہ کروں گا) یا بطور نفی ” لا اَفْعَلُہ اَبَدًا “ (میں یہ آئندہ کبھی بھی نہیں کروں گا) اسی یہ استمرار (کسی حالت یا کیفیت وغیرہ کے ہمیشہ جاری رہتے) کا مفہوم دیتا ہے یعنی ” ہمیشہ کے لیے “ یا ” ہمیشہ ہی “ کے لیے ہے۔ اسی مفہوم میں یہ قرآن کریم میں اکثر ” خالدین “ یا ” خالدًا “ (حال) کے ساتھ بطورہ تاکید (ابدًا) آتا ہے۔ ۔ قرآن کریم میں یہ زیادہ تر تو منفی جملوں کے ساتھ (کبھی نہ ہوگا کے معنی میں) استعمال ہوا ہے، تاہم مثبت جملوں کے ساتھ (ہمیشہ ایسا ہوگا کے معنی میں) بھی استعمال ہوا ہے، جن پر حسب موقع بات ہوگی۔ اِن شاء اللہ۔ خیال رہے کہ ” ابدًا “ ماضی کے ساتھ کبھی استعمال نہیں ہوتا۔ مثلاً اگر کہنا ” میں ہرگز ایسا (کبھی) نہیں کروں گا “ تو عربی میں کہیں گے ” لا افعلُہ “ یا ” لن افعلَہ ابدا “ اور اگر کہنا ہو کہ ” میں نے ہرگز کبھی ایسا نہیں کیا “ تو اس صورت میں عربی میں کہیں گے ” ما فعلتہُ ابدا “ کہنا بالکل غلط ہوگا۔ بہرحال ” ابدًا “ کا اردو ترجمہ ” کبھی بھی “ ہوسکتا ہے اور مراد ہوگا ” آئندہ کبھی بھی۔ “ ۔ اس حصۂ عبارت (وَلَن یتمنَّوہ ابدًا) کا ترجمہ بنتا ہے ” اور وہ ہرگز آرزو نہ کریں گے اس کی کبھی “ چونکہ اس میں نفی حجد بلَنْ بھی ہے (یعنی زور اور تاکید کے ساتھ نفی) اور ساتھ ” ابدًا “ بھی ہے اس لیے اردو محاورے میں ان دونوں کے مفہوم کو یکجا کرتے ہوئے ترجمہ ” وہ اس کی آرزو ہرگز کبھی بھی نہ کریں گے “ اور ” ہرگز کبھی اس کی آرزو نہ کریں گے “ سے کیا گیا ہے۔ بعض نے ضمیر مفعول (ہ) کی بجائے (اس کی بجائے) ” موت کی آرزو “ مرنے کی آرزو نہ کریں گے “ سے ترجمہ کیا کیونکہ یہاں اس ضمیر کا مرجع (مَوْت) پہلے مذکور ہوا ہے۔ 2:58:1 (4) [ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْھِمْ ] ۔ ” بِمَا “ (بسبب اس کے جو کہ) میں ” بِ “ سببیہ اور ” مَا “ موصولہ ہے جس کو مصدریہ بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ ۔ ” قَدَّمَتْ “ کا مادہ ” ق د م “ اور وزن ” فَقَلَتُ “ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد مختلف ابواب سے (اور مختلف مصادر کے ساتھ) مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے، تاہم اس کے تمام معانی میں ” قَدَمٌ“ (پائوں، جمع اقدام) اٹھانا “ کا مفہوم ضرور شامل ہوتا ہے اور اس لیے اس کے معانی میں ” آگے بڑھنا “ (سبقت) کا تصور ہوتا ہے، چاہے بلحاظ مکان (جگہ) ہو یا بلحاظ زمان یا بلحاظ زمان یا بلحاظ شرف و مرتبہ ہو۔ مثلاً (1) ” قَدَم… یقدُم قُدُومًا “ (نصر سے) کے معنی ہوتے ہیں : ”…سے آگے بڑھنا : … کے آگے آگے چلنا “ یعنی ” صارقُدَّامَھم “ اور اسی سے آیا ہے ” یقدُم قومَہ یومَ القیامۃِ “ (ھود :98) (یعنی وہ اپنے لوگوں کے آگے آگے آئے گا قیامت کے دن) اور کبھی ان ہی معنی کے لیے یہ فعل باب فتح سے (قدَم یقدَم قَدْمًا) بھی آتا ہے۔ تاہم قرآن کریم میں یہ باب نصر سے ہی آیا ہے (2) ” قدِم یقدَم قَدْمًا “ (سمع سے) کے معنی ” آپہنچا، آجانا “ ہوتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں ” قدِم فلانٌ من سفَرِہ “ (فلاں اپنے سفر سے واپس آگیا) اور اگر اس کے ساتھ ” الیٰ “ کا صلہ لگے یعنی ” قدِم الیٰ…“ تو اس کے معنی ”…تک پہنچنا، … کی طرف متوجہ ہونا “ ہوتے ہیں۔ اسی سے قرآن کریم میں آیا ہے ” وقدِمُنا الٰی ما عملوا من عمل “ (الفرقان :23) یعنی ” اور ہم پہنچے : متوجہ ہوئے ان کے اعمال (جو کچھ انہوں نے عمل کیا) تک : کی طرف “ (3) قدُم یقدُم قِدَمًا (کرم سے) کے معنی ہیں : ” قدیم ہونا۔ بلحاظ زمانہ پیچھے (ماضی میں) رہ جانا۔ پرانا ہونا “ اسی فعل سے عربی کی صفت مشتبہ قدیم ” اردو میں بھی مستعمل ہے۔ قرآن کریم میں یہ فعل اپنے پہلے دو معنی (1 اور 2 مندرجہ بالا) میں ہی استعمال ہوا ہے بلکہ اس فعل مجرد سے قرآن کریم میں صرف یہی دو صیغے آئے ہیں جو اوپر دو مثالوں میں مذکور ہوئے ہیں۔ ۔ زیر مطالعہ صیغۂ فعل (قدَّمَتْ ) اس مادہ سے باب تفعیل کا فعل ماضی معروف صیغہ واحد مونث غائب ہے۔ باب تفعیل کا یہ فعل ” قدَّم… یُقَدِّمُ تقدیمًا “ بنیادی طور پر بطور متعدی آتا ہے اور اس کے معنی ”…کو آگے بھیجنا : کرنا : لانا : پیش کرنا “ ہوتے ہیں۔ اور کبھی اس کے معنی بطور فعل لازم ” آگے بڑھنا “ (تقدَّم) کے بھی آتے ہیں اور اس کے معنی (بطور متعدی) ” کسی سے آگے نکل جانا “ (سبَقَہ) کے بھی ہوتے ہیں کہتے ہیں ” قدَّم القومَ “ (وہ لوگوں سے آگے نکل گیا) اس کے علاوہ مختلف صلات کے ساتھ یہ بھی مختلف معنی دیتا ہے۔ مثلاً ” قدَّم بَیْنَ یَدَیْ فلانٍ “ کے معنی ہیں ” وہ فلاں سے پہل کر گیا “ اور قرآن کریم (الحجرات :1) میں یہ اسی معنی میں آیا ہے۔” الی “ کے صلہ کے ساتھ اس کے معنی ”…کو قبل از وقت خبردار کرنا یا قبل از وقت کوئی حکم دینا “ بھی ہوتے ہیں اور اسی سے قرآن کریم میں آیا ہے ” وقد قدَّمتُ الیکم بالوعید “ کے معنی ”…سے قبل از وقت آگاہ کرنا “ ہوتے ہیں۔ اوپر کی مثال میں ” الیٰ “ اور ” ب “ دونوں کا استعمال ہوا ہے یعنی ”…کو …سے قبل از وقت آگاہ کردیا “۔ (الیہ اور بالوعید) ۔ قرآن کریم میں (باب تفعیل کے) اس فعل سے ماضی مضارع امر و نہی کے مختلف صیغے 27 جگہ آئے ہیں، جن میں سے صرف زیر مطالعہ صیغہ (قدَّمَتْ ) ہی 14 جگہ آیا ہے۔ نیز باب تفعّل اور استفعال سے افعال کے کچھ صیغے بھی چھ جگہ آئے ہیں۔ اس کے علاوہ مجرد و مزید سے مختلف مشتق و ماخوذ کلمات (مثلاً قدم، اَقدام، قدیم، اقدمو، مستقدمین) 13 جگہ وارد ہوئے ہیں۔ ۔ ” اَیْدِیْھِم “ (ان کے ہاتھوں نے) مرکب اضافی کا پہلا جزء ” اَیْدٍی “ لفظ ” ید “ (ہاتھ) کی جمع مکسر ہے۔ ” ید “ کی لغوی (مادہ، وزن، باب، فعل اور ساخت کلمہ وغیرہ کی) بحث پہلے البقرہ :66 [ 2:42:1 (6)] میں گزری تھی، پھر اسی لفظ (اَیْدِیْھِمْ ) پر البقرہ :79 [ 2:49:1 (4)] میں بھی بات ہوئی تھی۔ ۔ یوں اس عبارت (بِما قدَّمَتْ ایدیھم) کا ترجمہ بنتا ہے ” بسبب اس کے جو کہ آگے بھیجا ان کے ہاتھوں نے ” بما “ کا ترجمہ ” جس واسطے “ کیا گیا ہے جو کہ ” اس کے واسطے جو کہ “ کی زیادہ سلیس شکل ہے۔ بعض نے ” ان اعمال بد : برے کام : بداعمالیوں کے سبب، ان گناہوں کے سبب، ان اعمال کی وجہ سے جو “ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔ ظاہر ان میں ” بداعمالیوں، گناہوں “ وغیرہ تفسیری اضافے ہیں۔ اسی طرح بعض نے ” قَدَّمَتْ “ (آگے بھیجا) کا ترجمہ (جو گناہ وہ) پہلے کرچکے ہیں “ کے ساتھ کیا ہے اور بعض نے (جو اپنے ہاتھوں) ” سمیٹ چکے ہیں “ اور (جو) آگے کرچکے ہیں “ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ ان میں اکثر تراجم اردو محاورے اور اپنے مفہوم کے اعتبار سے درست ہیں ورنہ اصل الفاظ سے تو ذرا ہٹ کر ہی ہیں۔ ۔ بعض مترجمین نے اردو میں فقرے کی ساخت کے تقاضے کو ملحوظ رکھتے ہوئے پہلے ” بِمَا قَدَّمَت ایدیھم “ اور بعد میں (پہلی عبارت) ” ولن یَتَمَنَّوُہ اَبَدًا “ کا ترجمہ کیا ہے۔ جو ترجمے کے قواعد کے لحاظ سے درست ہی ہے۔ 2:58:1 (5) [ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بالظّٰلِمِیْنَ ] ۔ ” وَاللّٰہ “ کی ” واو “ یہاں مستانفہ ہے بلحاظ معنی اس کا سابقہ عبارت پر عطف (کا تعلق) ہو ہی نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے پہلے عبارت کے آخر پر وقف مطلق کی علامت (ط) ڈالی جاتی ہے کہ وہاں سابقہ مضمون ختم ہوتا ہے اور جملہ بھی مکمل ہوجاتا ہے۔ اسم جلالت (اللہ) کی لغوی بحث ” بسم اللہ “ کے ضمن میں ہوئی تھی۔ ۔ ” علیم “ جو مادہ ” ع ل م “ سے صفت مشبہ بروزن ” فعیل “ ہے، اس کی مکمل وضاحت البقرہ :21 [ 2:2:1] کے آخر پر ہوچکی ہے یعنی ” خوب جاننے والا “ ” بالظّٰلمین “ کی ابتدائی ” با (ب) “ وہ صلہ ہے جو کبھی کبھی فعل ” عَلِمَ “ پر آتا ہے یعنی ” عَلِمَہٗ “ اور ” عَلِمَ بہ “ دونوں کا مطلب ہے ” اس نے اسے جان لیا “ اور کلمہ ” الظالمین “ (یعنی اردو کا ” ظالموں “ ) کی لغوی بحث پہلی دفعہ البقرہ :35 [ 2:26:1] کے آخر پر ہوئی تھی۔ ۔ اب یہ عبارت آپ کے لیے چنداں مشکل نہیں اس کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ” اور اللہ تعالیٰ خوب اچھی طرح جاننے والا ہے ظالموں کو “ بعض نے ” علیم “ کا ترجمہ ” خوب واقف “ سے کیا ہے جبکہ بہت سے حضرات نے اس کا ترجمہ بصورتِ فعل یعنی ” خوب جانتا ہے “ سے کیا ہے جو اردو محاورے کے لحاظ سے درست ہے۔ ورنہ بظاہر تو یہ ” یَعْلَمُ “ کا ترجمہ لگتا ہے۔ بعض نے ” کو خوب اطلاع “ ہے سے ترجمہ کیا ہے جو تکلف اور تصنع سے خالی نہیں۔ اسی طرح ” ظالمین “ کا اردو ترجمہ ” گناہگاروں “ اور ” بےانصافوں “ سے بھی کیا گیا ہے جو بلحاظ مفہوم درست ہے۔ 2:58:2 الإعراب اس قطعہ کی پہلی آیت تو ایک ذرا لمبا مکمل شرطیہ جملہ ہے، ہم اسے دو حصوں (بیانِ شرط اور جوابِ شرط) میں تقسیم کرکے اعراب پر بات کریں گے۔ دوسری آیت (95) اعرابی لحاظ سے دو مکمل جملے ہیں۔ ہر ایک جملہ پر الگ الگ بات ہوگی۔ ۔ ” قل ان کانت لکم الدار الاخرۃ عند اللہ خالصۃ من دون الناس…“ [ قُل ] فعل امر صیغہ واحد مذکر حاضر ہے [ ان ] شرطیہ جازمہ ہے مگر یہاں فعل ماضی پر اس کا کوئی عمل نہیں ہوا ” اگرچہ بعض نحوی کہتے ہیں کہ یہاں فعل ” کانت “ محلاً مجزوم ہے، مگر یہ محض تکلف ہے۔ ” اِنْ “ تو صرف مضارع کو ہی جزم دیتا ہے۔ [ کانت ] فعل ناقص صیغہ ماضی واحد مؤنث غائب ہے۔ [ لکم ] جار مجرور (ل+کم) مل کر ” کانت “ کی خبر مقدم (جو اس کے اسم سے پہلے لائی گئی ہے) ہے اور اس تقدیم کی وجہ سے ” لکم “ کا ترجمہ ” تمہارے ہی لیے “ ہوگا۔ [ الدارُ الاخرۃُ ] مرکب توصیفی مل کر ” کانت “ کا اسم (لہٰذا) مرفوع ہے جو خبر سے مؤخر (بعد میں) لایا گیا ہے اور چاہیں تو یوں کہہ لیجئے کہ ” الدارُ “ (گھر) ہی دراصل اسم ” کانت “ ہے لہٰذا رفع میں ہے اور ” الآخرۃ “ اس (الدار) کی صفت ہے اور اس لیے یہ حالت، جنس عدد وغیرہ سب پہلوئوں سے اپنے موصوف کے مطابق ہے (اور یوں یہ مرفوع بھی ہے) [ عنداللہ ] میں ” عند “ ظرف مکان ہے (اس لیے منصوب ہے) جو ” اللّٰہ “ کی طرف مضاف ہے اور اسم جلالت اسی لیے مجرور ہے اور اس ظرف مکان کا تعلق اگلے لفظ ” خالصۃ “ سے ہے، یعنی یہ اس (خالصۃ) کے معنی مزید واضح کرتا ہے ) کہ الگ اور وہ بھی اللہ کے پاس [ خالصۃ ] یہ ” الدار “ کا حال ہے، اس لیے منصوب ہے یعنی ” خالص ہوتے ہوئے “ یا ” خاص کر “۔ ویسے یہ بھی ممکن ہے کہ ” خالصۃ “ کو فعل ناقص ” کانت “ کی خبر (لہٰذا منصوب) سمجھا جائے اور ابتدائی ” لکم “ کو اس کا متعلق خبر مقدم قرار دیا جائے۔ اس سے اردو ترجمہ میں کوئی فرق نہیں پڑسکتا۔ [ من دون الناس ] جار مجرور مل کر (جس میں مجرور ” دون الناس “ میں ظرف مضاف اور اس کا مضاف الیہ شامل ہیں) حال : یا خبر (خالصۃً ) کا حال مؤکدہ ہے، کیونکہ ” دُون “ اختصاص کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عربی میں کہتے ہیں ” ھذا لی دونک : مِن دونِک “ (یعنی یہ چیز میری ہی ہے، تیرا اس سے کوئی تعلق نہیں) اسی لیے ” من دون الناس “ کا ترجمہ دوسروں کا نہیں، دوسروں کو چھوڑ کر “ وغیرہ سے کیا گیا ہے (دیکھئے تراجم حصۃ ” اللغۃ “ میں) ۔ یہاں تک بیان شرط پورا ہوتا ہے۔ ۔ فتَمنَّوا المَوْتَ ان کنتم صادقین [ فتمنَّوا ] کی ابتدائی ” فا (فَ ) “ وہ ہے جو جوابِ شرط پر آتی ہے، خصوصاً جب جوابِ شرط میں معنی ” طلب “ پایا جائے۔ ” تَمَنَّوْا “ یہاں فعل امر صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ اس میں آخری ” ن “ (تتمنون کا) امر کے مجزوم ہونے کی وجہ سے گرگیا ہے۔ اب واو الجمع ضمیر الفاعلین ” انتم “ کے معنی دے رہی ہے اور اس صیغۃ کے شروع سے ایک ” ت “ بھی گرا دی گئی ہے۔ اصل صیغہ ” تَتَمَنَّوْا “ تھا، پھر باب تفعل اور تفاعل ہیں جہاں دو تاء (ت) جمع ہوتے ہیں وہاں ایک ” ت “ کا حذف جائز ہے اور اس طرح یہ صیغۂ امر بظاہر فعل ماضی کے صیغہ جمع مذکر غائب سے مشابہ ہوگیا ہے، ورنہ دراصل تو دونوں صیغے الگ الگ (” تَمَنَوَّا “ ماضی اور ” تَتَمَنَّوا “ امر) ہوتے ہیں۔ [ الموت ] فعل ” تَمَنَّوا “ کا مفعول (لہٰذا) منصوب ہے۔ [ ان کنتم صادقین ] یہ بذات خود ادھورا جملہ ہے جو بیان شرط پر مشتمل ہے یعنی ” ان “ شرطیہ ” کنتم “ فعل ناقص مع اسم ” انتم “ ہے اور ” صادقین “ اس (کنتم) کی خبر (لہٰذا) منصوب ہے علامت نصب آخری نون سے پہلے والی یاء ماقبل مکسور (-ِی) ہے اور یہ جملہ (ان کنتم صادقین) ایک محذوف جواب شرط کا محتاج ہے جو ” فافعلوا ھذا “ یا ” فتمنُّوا الموت “ ہوسکتا ہے۔ یعنی ” اگر سچے ہو “ تو یہ (موت کی تمنا کرنے والا) کام کردکھائو۔ یہ عبارت سابقہ (1) کا جواب شرط ہے۔ یہ دونوں جملے (1، 2 مندرجہ بالا) مل کر ایک جملہ شرطیہ مکمل ہوتا ہے۔ ۔ ولن یتمنَّوا ابدًا بما قدَّمَت ایدیھم [ وَ ] یہاں استیناف کی ہے [ لَنْ ] حرف ناصب ِ مضارع جو نفی اور مستقبل کے معنی دیتا ہے۔ [ یتمنوہ ] میں ” یتمنوا “ تو فعل مضارع نصوب (بِلَنْ ) ہے جس میں علامت نصب آخری نون کا (یتمنوْنَ کا) گر جانا ہے اس میں واو الجمع ضمیر الفاعلین ” ھم “ کے لیے ہے اور صیغۂ عل کے آخر پر ضمیر منصوب (ہ) اس فعل کا مفعول بہ ہے۔ مفعول ضمیر ہونے کے باعث یہاں واو الجمع کے بعد الف الوقایہ نہیں لکھا جاتا [ ابدًا ] ظرف زمان برائے مستقل ہے۔ جس کا تعلق فعل ” یتمنوہ “ سے ہے۔ [ بِما ] باء الجر (جو یہاں سببیہ ہے) اور ” مَا “ موصولہ کا مرکب ہے (قدَّمَتْ ) فعل ماضی واحد مؤنث غائب ہے اور [ اَیْدِیْھِمْ ] مضاف ” ایدی “ اور مضاف الیہ ” ھم “ مل کر فعل ” قَدَّمَتْ “ فعل ماضی واحد مؤنث غائب ہے اور [ اَیْدِیْھِمْ ] مضاف ” ایدی “ اور مضاف الیہ ” ھم “ مل کر فعل ” قَدَّمَتْ “ کا فاعل ہے۔ یہاں ” ایدیٍ “ مرفوع ہے جو آگے مضاف ہونے کے باعث خفیف ” اَیْدِیْ “ ہوگیا ہے (تنوین ختم ہوگئی ہے) یہ لفظ اسم منقوص کی طرح رفع نصب جر میں ” ایدی ۔ ایدیًا اور ایدٍی “ ہوتا ہے۔ پھر مضاف ہوتے وقت رفع اور جر میں تو ” ی “ ساکن ہوجاتی ہے مگر نصب میں مفتوح (ی) ہوجاتی ہے اور یہ پورا جملہ (قدمَتْ اَیْدِیْھِمْ ) اسم موصول ما (” بما “ والا) کا صلہ ہے اور یوں یہ پورا مرکب جاری (بما قدمت ایدیھم) متعلق فعل ” لن یتمنوا “ بنتا ہے۔ یعنی ” جرأت تمنا “ نہ کرسکنے کی وجہ بتاتا ہے۔ ۔ واللّٰہ علیم بالظالمین [ وَ ] مستانفہ ہے اور [ اللہ ] مبتدأ مرفوع ہے۔ [ علیم ] اس کی خبر (لہٰذا) مرفوع ہے [ بالظالمین ] جار مجرور (ب+ الظالمین) مل کر متعلق خبر (علیم) ہے اور یہ پورا جملہ اسمیہ ایک الگ (مستانفہ) جملہ ہے۔ 2:58:3 الرسم بلحاظ رسم عثمانی (قرآنی) اس قطعہ میں صرف دو لفظ قابل ذکر ہیں۔ یعنی ” صدقین “ اور ” الظلمین “۔ ویسے یہ دونوں لفظ پہلے بھی گزر چکے ہیں۔ اور ان کا قعدہ وہی جمع مذکر سالم کے حذف الف والا ہے، جو بیان ہوچکا ہے۔ ۔ ” صدقین “ جس کی رسم املائی ” صادقین “ ہے، قرآن کریم میں یہاں اور ہر جگہ ” بحذف الالف بعد الصاد “ لکھا جاتا ہے۔ ۔ ” الظلمین “ جس کی رسم املائی ” الظالمین “ ہے، یہ بھی قرآن کریم میں یہاں اور ہر جگہ ” بحذف الالف بعد الظائ “ لکھا جاتا ہے۔ خیال رہے دونوں لفظوں میں الف الفاعلین لکھنے میں محذوف ہوتا ہے مگر پڑھا ضرور جاتا ہے، پھر ضبط سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ 2:58:4 الضبط ان دو آیات کے کلمات میں ضبط کا تنوع زیادہ تر ساکن حرف علت، نون مخفاۃ اور اقلاب نون میم کے طریق ضبط سے تعلق رکھتا ہے۔ یا پھر افریقی مصاحف میںاور ق کے اعجام اور ” ن “ متطرف (آخر پر آنے والا نون) کے عدم اعجام سے متعلق ہے۔ تفصیل یوں ہے۔
Top