Kashf-ur-Rahman - Al-Israa : 12
لِلْفُقَرَآءِ الْمُهٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ اَمْوَالِهِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا وَّ یَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَۚ
لِلْفُقَرَآءِ : محتاجوں کیلئے الْمُهٰجِرِيْنَ : مہاجر (جمع) الَّذِيْنَ : وہ جو اُخْرِجُوْا : نکالے گئے مِنْ دِيَارِهِمْ : اپنے گھروں سے وَاَمْوَالِهِمْ : اور اپنے مالوں يَبْتَغُوْنَ : وہ چاہتے ہیں فَضْلًا : فضل مِّنَ اللّٰهِ : اللہ کا، سے وَرِضْوَانًا : اور رضا وَّيَنْصُرُوْنَ : اور وہ مدد کرتے ہیں اللّٰهَ : اللہ کی وَرَسُوْلَهٗ ۭ : اور اس کے رسول اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الصّٰدِقُوْنَ : سچے
(اور) ان مفلسان تارک الوطن کے لئے بھی جو اپنے گھروں اور مالوں سے خارج (اور جدا) کردیے گئے ہیں (اور) خدا کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار اور خدا اور اس کے پیغمبر کے مددگار ہیں یہی لوگ سچے (ایماندار) ہیں۔
تفسیر مال فئی اور غنیمتیں مہاجر فقراء کے لئے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ اغنیاء میں ہی گردش کناں نہ رہے بلکہ یہ فقراء کے لئے ہو۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ آیت ولذی القربی والیتمی والمسکین وابن السبیل کا بیان ہے۔ جب ان کی اصناف کا ذکر کیا گیا تو کہا گیا : مال ان لوگوں کیلئے ہے، کیونکہ یہ فقراء، مہاجر ہیں انہیں اپنے گھروں سے نکالا گیا ہے، یہ دوسرے لوگوں کی نسبت اس کے زیادہ حقدار ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا : اس کا معنی یہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ مہاجر فقراء کے لئے اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے تاکہ یہ اموال دنیا داروں میں سے اغنیاء کے درمیان ہی گردش نہ کرتے رہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : معنی ہے اللہ تعالیٰ مہاجر فقراء کی وجہ سے کفار کو سخت سزا دینے والا ہے۔ ان فقراء میں وہ فقراء بھی داخل ہوگئے ہیں جن کا ذکر پہلے ہوالذی القربی والیتمی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے۔ اس کا عطف ماقبل پر ہے مگر کہاں وائو عاطفہ نہیں جس طرح تیرا یہ قول ہے : ھذا المال لزید لبکر لفلان لفلان یہاں مہاجرین سے مراد وہ مہاجر ہیں جنہوں نے نبی کریم ﷺ کی محبت اور آپ ﷺ کی مدد کی خاطر آپ ﷺ کی طرف ہجرت کی۔ قتادہ نے کہا : یہاں وہ مہاجر مراد ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی محبت کی وجہ سے اپنے گھر، اپنے اموال، اپنے اہل اور اپنے وطن کو چھوڑا یہاں تک کہ ایک آدمی بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھتا تاکہ اس کی کمر سیدھی رہے، ایک آدمی موسم سرما میں ایک گڑھا کھودتا موسم سرما میں اس کیلئے اسکے سوا کوئی گرمی پہنچانے والا بسر نہ ہوتا۔ عبد الرحمن بن ابزی اور سعید بن جبیر نے کہا : مہاجروں میں سے ایسے لوگ بھی تھے جن میں سے کسی کے پاس غلام، بیوی، گھر اور سوار نہ تھی جس پر سوار ہو کر وہ حج کرتا یا جہاد کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں فقریر قرار دیا اور زکوٰۃ میں ان کا حصہ رکھا۔ اخر جوا من دیارھم کا معنی ہے کفار مکہ نے انہیں گھروں سے نکالا یعنی انہیں گھروں سے نکلنے پر مجبور کیا۔ وہ سو افراد تھے۔ یبتغون فضلا من اللہ ورضوانا وہ اللہ تعالیٰ سے دنیا میں غنیمت اور آخرت میں اپنے رب کی رضا چاہتے ہیں۔ و ینصرون اللہ و رسول وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں۔ اولئک ھم الصدقون۔ وہ اس فعل میں سچے ہیں۔ روایت بیان کی جاتی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے جابیہ کے مقام پر خطبہ دیا فرمایا : جو آدمی قرآن کے بارے میں کوئی سوال کرنا چاہے تو وہ حضرت ابی بن کعب کے پاس جائے، جو فرائض (وراثت) کا مسئلہ سمجھنا چاہے تو وہ حضرت زیدبن ثابت کے پاس جائے، جو فقہ کا مسئلہ پوچھنا چاہے تو وہ حضرت معاذ بن جبل کے پاس جائے، جو مال کا سوال کرنا چاہے تو وہ میرے پاس آئے اللہ تعالیٰ نے مجھے مال کا خازن اور قاسم بنایا ہے۔ خبردار ! میں مال کی تقسیم کا آغاز نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات سے کرنے والا ہوں، میں انہیں عطا کروں گا پھر مہاجرین اولین کا حق ہے میں اور میرے صحابہ کو مکہ مکرمہ سے نکالا گیا نہ ہمارے گھر رہے اور نہ ہی ہمارے اموال رہے۔
Top