Mutaliya-e-Quran - Al-An'aam : 51
وَ اَنْذِرْ بِهِ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْ یُّحْشَرُوْۤا اِلٰى رَبِّهِمْ لَیْسَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ وَلِیٌّ وَّ لَا شَفِیْعٌ لَّعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
وَاَنْذِرْ : اور ڈراویں بِهِ : اس سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَخَافُوْنَ : خوف رکھتے ہیں اَنْ : کہ يُّحْشَرُوْٓا : کہ وہ جمع کیے جائیں گے اِلٰى : طرف (سامنے) رَبِّهِمْ : اپنا رب لَيْسَ : نہیں لَهُمْ : انکے لیے مِّنْ : کوئی دُوْنِهٖ : اس کے سوا وَلِيٌّ : کوئی حمایتی وَّلَا : اور نہ شَفِيْعٌ : سفارش کرنیوالا لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَّقُوْنَ : بچتے رہیں
اے محمدؐ! تم اس (علم وحی) کے ذریعہ سے اُن لوگوں کو نصیحت کرو جو اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے سامنے کبھی اس حال میں پیش کیے جائیں گے کہ اُس کے سوا وہاں کوئی (ایسا ذی اقتدار) نہ ہوگا جو ان کا حامی و مدد گار ہو، یا ان کی سفارش کرے، شاید کہ (اس نصیحت سے متنبہ ہو کر) وہ خدا ترسی کی روش اختیار کر لیں
وَاَنْذِرْ [ اور آپ خبردار کریں ] بِهِ [ اس سے ] الَّذِيْنَ [ ان لوگوں کو جو ] يَخَافُوْنَ [ ڈرتے ہیں ] اَنْ [ کہ ] يُّحْشَرُوْٓا [ وہ اکٹھا کئے جائیں گے ] اِلٰى رَبِّهِمْ [ اپنے رب کی طرف ] لَيْسَ [ نہیں ہے ] لَهُمْ [ ان کے لئے ] مِّنْ دُوْنِهٖ [ جس کے علاوہ ] وَلِيٌّ [ کوئی کارساز ] وَّلَا شَفِيْعٌ [ اور نہ ہی کوئی شفاعت کرنے والا ] لَّعَلَّهُمْ [ شائد کہ وہ لوگ ] يَتَّقُوْنَ [ تقوی کریں ] ط ر د : (ن) طردا کسی کو حقیر سمجھ کر دور کرنا ۔ دھتکارنا ۔ زیر مطالعہ آیت نمبر 52 ۔ طارد ۔ اسم الفاعل ہے۔ دھتکارنے والا ۔ وَمَآ اَنَا بِطَارِدِ الْمُؤْمِنِيْنَ [ اور میں مومنوں کو دھتکارنے والا نہیں ہوں ] 26:114 ۔ ترکیب : (6:51) بہ میں ضمیر میں گزشتہ آیت میں مایوحی کے لئے ہے یعنی قرآن مجید مندونہ میں ضمیر رب کے لئے ہے ۔ (6:52) یریدون حال ہے یدعون کا ۔ فعل نہی اور فعل نفی کے جواب میں اگر فعل مضارع آتا ہے تو وہ حالت نصب میں ہوتا ہے ۔ یہاں فتطرد کی نصب فعل نہی ولا تطرد کی وجہ سے نہی ہے بلکہ فعل نفی ما علیک مں حسابہم کی وجہ سے ہے جبکہ فتکون فاسببیہ کی وجہ سے نصب میں ہے ۔ (6:53) لیقولوا پر لام کی نہیں بلکہ لام عاقبت ہے۔ (6:54) انہ میں ضمیر الشان ہے جبکہ فانہ میں ضمیر رب کے لئے ہے من عمل کامن شرطیہ ہے۔ اس لئے ترجمہ حال میں ہوگا ۔ (6:55) تستبین واحد مونث کا صیغہ ہے اور سبیل المجرمین اس کا فاعل ہے۔ نوٹ : آیات مذکورہ سے چند ہدایات واضح ہوتی ہیں ۔ اولا یہ کہ کسی ظاہری خستہ حالی کو دیکھ کر اس کو حقیر سمجھنا درست نہیں ہے ۔ بسا اوقات ان میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اللہ کے نزدیک نہایت معزز ہوتے ہیں ۔ ثانیا یہ کہ شرافت کا معیار محض دنیا کی دولت و ثروت کو سمجھنا انسانیت کی توہین ہے ۔ ثالثا یہ کہ کسی قوم کے مصلح اور مبلغ کے لئے اگرچہ تبلیغ بھی ضروری ہے جس میں ماننے اور نہ ماننے والے سب مخاطب ہوں ، لیکن ان لوگوں کا حق مقدم ہے جو ان تعلیمات پر عمل پیرا ہوں ۔ رابعا یہ کہ جو شخص انعامات الہیہ کی زیادتی کا طالب ہو، اس پر لازم ہے کہ قول وعمل سے شکر گزاری کو اپنا شعار بنائے ۔ (معارف القرآن )
Top