Mutaliya-e-Quran - Al-A'raaf : 102
وَ مَا وَجَدْنَا لِاَكْثَرِهِمْ مِّنْ عَهْدٍ١ۚ وَ اِنْ وَّجَدْنَاۤ اَكْثَرَهُمْ لَفٰسِقِیْنَ
وَ : اور مَا وَجَدْنَا : ہم نے نہ پایا لِاَكْثَرِهِمْ : ان کے اکثر میں مِّنْ عَهْدٍ : عہد کا پاس وَاِنْ : اور درحقیقت وَّجَدْنَآ : ہم نے پائے اَكْثَرَهُمْ : ان میں اکثر لَفٰسِقِيْنَ : نافرمان۔ بدکردار
ہم نے ان میں سے اکثر میں کوئی پاس عہد نہ پایا بلکہ اکثر کو فاسق ہی پایا
[ وَمَا وَجَدْنَا : اور ہم نے نہیں پایا ] [ لِاَكْثَرِهِمْ : ان کے اکثر کے لیے ] [ مِّنْ عَهْدٍ : وعدہ کی کوئی پابندی ] [ وَاِنْ : اور بیشک ] [ وَّجَدْنَآ : ہم نے پایا ] [ اَكْثَرَهُمْ : ان کے اکثرکو ] [ لَفٰسِقِيْنَ : یقینا نافرمانی کرنے والے ] آیت نمبر 102 میں لفسقین پر لام تاکید سے معلوم ہوا کہ ان وجدنا کا ان نافیہ نہیں بلکہ ان مخففہ ہے۔ جس کے معنی ہیں ” بیشک “ نوٹ ۔ 1: ایک ایک قوم کا معاملہ بیان کرکے جو سبق انسانیت کو دیا گیا ہے اسے اب ایک جامع ضابطہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے ۔ اس ضابطے کی ایک اہم شق انبیاء کی بعثت ہے ۔ اور اب چونکہ نبوت و رسالت کا دروازہ بند ہوچکا ہے ، اس لیے ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ آج کے دور میں اس ضابطہ کا اطلاق نہیں ہوگا اور ہمارا ان آیات سے کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ اس غلط فہمی کو دور کرنا ضروری ہے۔ انبیاء کی بعثت کا مقصد یہ ہے کہ گم کردہ راہ انسانوں کو ہدایت اور راہنمائی فراہم کی جائے ۔ لیکن ختم نبوت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسانیت کی رہنمائی کے سلسلہ کو ختم کردیا گیا ہے ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے آخری نبی ﷺ جو ہدایات لائے تھے انہیں قیامت تک کے لیے محفوظ کردیا گیا ہے ، اس لیے اب کسی نئے نبی کو بھیجنے کی ضرورت باقی نہیں رہی اور اب قیامت تک قرآن وحدیث سے بعثت انبیاء کا مقصد پورا ہوتا رہے گا ۔ اس لیے مذکورہ ضابطہ کا اطلاق آج بھی اسی طرح ہوگا ۔ جیسے ماضی میں ہوا ہے اور قیامت تک اسی طرح ہوتا رہے گا۔ ضابطہ یہ ہے کہ اقوال کو اچھے اور برے حالات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی فراہم کردہ رہنمائی کی طرف راغب کیا جاتا ہے ۔ لیکن جب کسی قوم کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ نہ تو مصائب سے ان کا دل اللہ کے آگے جھکتا ہے ، نہ ہی نعمتوں پر وہ شکر گزار ہوتی ہے اور کسی حال میں بھی اصلاح قبول نہیں کرتی تو بربادی اس کا مقدر ہوجاتی ہے ۔ اپنے ہاتھوں کی لکھی ہوئی اس تقدیر کو ان کی قوت و اقتدار ، دولت و ثروت اور ٹیکنا لوجی تبدیل نہیں کرسکتی ۔ گذشتہ آیات میں جن اقوام کا ذکر کیا گیا ہے وہ سب اپنے اپنے وقت میں عروج و ترقی کی اس حد کو پہنچ چکی تھیں کہ دنیا میں ان کا کوئی مد مقابل نہیں رہا تھا ۔ لیکن جب ان کے ہاتھوں کی کمائی ان کے سامنے آئی توس ان کے سائنس وٹیکنا لوجی ان کو نہ بچا سکی ۔ آج کے دور میں مغربی تہذیب بھی اپنے عروج کی اس حد کو پہنچ گئی ہے کہ اب دنیا میں ان کا کوئی مقابل باقی نہیں رہا ۔ ان لوگوں نے آثار قدیمہ پر بھی بہت تحقیقات کی ہیں ۔ اقوام کے عروج و زوال پر بڑی سائنٹیفک ریسرچ ہوئی ہیں ۔ لیکن اس ساری افلاطونیت اور ارسطونیت میں کہیں بھی نہ تو مسبب الاسباب ہستی کا ذکر ہے اور نہ ہی اس کے ضابطوں کا ۔ ایسی صورت میں اصلاح کا امکان ختم ہوگیا ہے اور اس تہذیب کی تباہی اس کا مقدر ہوگئی ہے ۔
Top