Bayan-ul-Quran - Ibrahim : 104
لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْۤ اَیْمَانِكُمْ وَ لٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوْبُكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ
لَا يُؤَاخِذُكُمُ : نہیں پکڑتا تمہیں اللّٰهُ : اللہ بِاللَّغْوِ : لغو (بیہودہ) فِيْٓ : میں اَيْمَانِكُمْ : قسمیں تمہاری وَلٰكِنْ : اور لیکن يُّؤَاخِذُكُمْ : پکڑتا ہے تمہیں بِمَا : پر۔ جو كَسَبَتْ : کمایا قُلُوْبُكُمْ : دل تمہارے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا حَلِيْمٌ : بردبار
اے ایمان والو تم راعِنَا مت کہا کرو بلکہ اُنْظُرْنَا کہا کرو اور توجہّ سے بات کو سنو ! اور ان کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے
آیت 104 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا ط قبل ازیں منافقین بنی اسرائیل کا ذکر ہوا تھا ‘ جن کا قول تھا : سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا۔ اب یہاں ان منافقین کا طرز عمل بیان ہو رہا ہے جو مسلمانوں میں شامل ہوگئے تھے اور یہود کے زیر اثر تھے۔ یہودی اور ان کے زیر اثر منافقین جب رسول اللہ ﷺ کی محفل میں بیٹھتے تھے تو اگر آپ ﷺ ‘ کی کوئی بات انہیں سنائی نہ دیتی یا سمجھ میں نہ آتی تو وہ راعِنَا کہتے تھے ‘ جس کا مفہوم یہ ہے کہ حضور ﷺ ! ذرا ہماری رعایت کیجیے ‘ بات کو دوبارہ دہرا دیجیے ‘ ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ اہل ایمان بھی یہ لفظ استعمال کرنے لگے تھے۔ لیکن یہود اور منافقین اپنے خبث باطن کا اظہار اس طرح کرتے کہ اس لفظ کو زبان دباکر کہتے تو راعِیْنَا ہوجاتا یعنی اے ہمارے چرواہے ! اس پر دل ہی دل میں خوش ہوتے اور اس طرح اپنی خباثت نفس کو غذا مہیاّ کرتے۔ اگر کوئی ان کو ٹوک دیتا کہ یہ تم کیا کہہ رہے ہو تو جواب میں کہتے ہم نے تو راعِنَا کہا تھا ‘ معلوم ہوتا ہے آپ کی سماعت میں کوئی خلل پیدا ہوچکا ہے۔ چناچہ مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ تم اس لفظ ہی کو چھوڑ دو ‘ اس کی جگہ کہا کرو : اُنْظُرْنَا۔ یعنی اے نبی ﷺ ہماری طرف توجہ فرمایئے ! یا ہمیں مہلت دیجیے کہ ہم بات کو سمجھ لیں۔ اور دوسرے یہ کہ توجہ سے بات کو سنا کرو تاکہ دوبارہ پوچھنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
Top