Al-Qurtubi - An-Nahl : 17
فَلَمَّاۤ اَتٰىهَا نُوْدِیَ مِنْ شَاطِئِ الْوَادِ الْاَیْمَنِ فِی الْبُقْعَةِ الْمُبٰرَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ اَنْ یّٰمُوْسٰۤى اِنِّیْۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَۙ
فَلَمَّآ : پھر جب اَتٰىهَا : وہ آیا اس کے پاس نُوْدِيَ : ندا دی گئی مِنْ شَاطِیٴِ : کنارہ سے الْوَادِ الْاَيْمَنِ : میدان وادیاں فِي الْبُقْعَةِ : جگہ میں الْمُبٰرَكَةِ : برکت والی مِنَ الشَّجَرَةِ : ایک درخت سے اَنْ : کہ يّٰمُوْسٰٓي : اے موسیٰ اِنِّىْٓ اَنَا : بیشک میں اللّٰهُ : اللہ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ : جہانوں کا پروردگار
تو جو (اتنی مخلوقات) پیدا کرے کیا وہ ویسا ہے جو کچھ بھی پیدا نہ کرسکے ؟ تو پھر تم غور کیوں نہیں کرتے ؟
آیت نمبر 17 قولہ تعالیٰ : افمن یخلق وہ اللہ تعالیٰ ہے۔ کمن لا یخلق مراد بت ہیں۔ افلا تذکرون ان بتوں کے بارے خبر دی گئی ہے جو نہ کچھ بنا سکتے ہیں اور نہ کسی کو نقصان اور نفع پہنچا سکتے ہیں، جیسا کہ اس کے بارے خبر دی جا رہی ہے جو اس طور پر عمل کرتا ہے جیسے عمل کا عرب اس سے مطالبہ کرتے ہیں، کیونکہ وہ ان (بتوں) کی عبادت کرتے تھے اور اسے لفظ من کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ یہ قول ہے الھم ارجل (الاعراف :195) (کیا ان کے پاؤں ہیں) ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ذکر میں ضمیر خالق کے ساتھ ملنے کی وجہ سے ہے۔ فراء نے کہا ہے : یہ عربوں کے اس قول کی طرح ہے : إشتبہ علی الراکب و جملہ فلا ادری من ذا ومن ذا۔ (مجھ پر سوار اور اس کا اونٹ مشتبہ ہیں پس میں نہیں جانتا یہ کون ہے اور یہ کون ہے) ۔ اگرچہ ان دونوں میں سے ایک انسان نہیں ہے۔ اور مہدوی نے کہا ہے : کہ من کے ساتھ باری تعالیٰ کے بارے میں سوال کیا جا رہا ہے اور اس کے بارے ما کے ساتھ سوال نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ ما کے ساتھ اجناس کے بارے سوال کیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ جنس نہیں، اسی لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جواب دیا جس وقت ان کو فرمایا : فمن ربکما یموسی۔ (طہٰ ) (پس تم دونوں کا رب کون ہے اسے موسیٰ ) اور یہ جواب نہ دیا جس وقت ان کو فرمایا : فمن ربکما یموسی۔ (طہٰ ) (پس تم دونوں کا رب کون ہے اے موسیٰ ) اور یہ جواب نہ دیا جس وقت ان کو کہا وما رب العلمین۔ (الشعراء) مگر من کے جواب کے ساتھ اور ما کے جواب سے اضرب کیا جس وقت سوال فاسد تھا۔ اور آیت کا معنی یہ ہے : من کان قادر أعلی خلق الاشیاء المتقدمۃ الذکر کان بالعبادۃ أحق فمن ھو مخلوق لا یضر ولا ینفع۔ (جو ان تمام چیزوں کو پیدا کرنے پر قادر ہے جن کا ذکر پہلے ہوا وہ اس سے زیادہ عبادت کا مستحق ہے جو مخلوق ہے اور نفع و نقصان نہیں دے سکتا) ۔ ھذا خلق اللہ فارونی ما ذا خلق الذین من دونہ (لقمان :11) ( یہ تو ہے اللہ کی تخلیق (اے مشرکو ! ) اب ڈرا دکھاؤمجھ کو کیا بنایا ہے۔ اوروں نے اس کے سوا ؟ (کچھ بھی نہیں) اور ارونی ما ذا خلقوا من الارض (الاحقاف :4) (مجھے بھی تو دکھاؤ زمین کا وہ گوشہ جو انہوں نے بنایا ہے) ۔
Top