Al-Qurtubi - An-Nisaa : 59
فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّاۙ
فَخَلَفَ : پھر جانشین ہوئے مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد خَلْفٌ : چند جانشین (ناخلف) اَضَاعُوا : انہوں نے گنوادی الصَّلٰوةَ : نماز وَاتَّبَعُوا : اور پیروی کی الشَّهَوٰتِ : خواہشات فَسَوْفَ : پس عنقریب يَلْقَوْنَ : انہیں ملے گی غَيًّا : گمراہی
پھر ان کے بعد چند ناخلف ان کے جانشنیں ہوئے جنہوں نے نماز کو (چھوڑ دیا گو یا اسے) کھو دیا اور خواہشات نفسانی کے پیچھے لگ گئے سو عنقریب ان کو گمراہی (کی سزا) ملے گی
(تفسیر 59-63) اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فخلف من بعدھم خلف اس سے مراد بری اولاد ہے۔ ابو عبیدہ نے کہا : ہمیں حجاج نے بیان کیا انہوں نے ابن جریج سے انہوں نے مجاہد سے روایت کیا ہے فرمایا : یہ قیامت کے قیام کے وقت ہوگا اور اس امت کے نیک لوگوں کے چلے جانے کے وقت ہوگا، لوگ گلیوں میں زنا کریں گے۔ خلف کے متعلق کلام سورة الاعراف میں گزر چکی ہے۔ اعادہ کی ضرورت نہیں۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اضاعوا الصلوٰۃ۔ حضرت عبدالللہ اور حسن نے اضاعوا الصلوات، پڑھا ہے یہ مذمت ہے اور نص ہے کہ نماز کا ضائع کرنا ان کبائر میں سے ہے جو انسان کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا : جس نے نماز کو ضائع کیا وہ اس کے علاوہ احکام شرع کو زیادہ ضائع کرنے والا ہوگا۔ علماء کا اختلاف ہے کہ اس آیت سے کون مراد ہیں ؟ مجاہد نے کہا : نصاریٰ مراد ہیں، جو یہود کے بعد آئے۔ محمد بن کعب قرظی اور مجاہد اور عطا نے کہا : اس سے مراد آخر زمانہ میں نبی کریم ﷺ کی امت سے آنے والے لوگ ہیں (1) یعنی اس امت سے ہوں جن کی یہ صفت ہوگی، نصاریٰ مراد نہیں ہیں۔ اور علماء کا نماز کو ضائع کرنے کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ قرظی نے کہا : اس سے مراد نماز کا انکار کرنا ہے۔ قاسم بن مخیمرہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے کہا : اس کو وقت پر ادا نہ کرنا اور اسکے حقوق کو قائم نہ کرنا ہے۔ یہ قول صحیح ہے کیونکہ جب نماز وقت پر ادا نہ کی جائے اور آداب و حقوق سے خالی ہو تو وہ صحیح نہیں ہوتی کیونکہ نبی کریم ﷺ نے اس شخص کو فرمایا جس نے نماز پڑھی اور آیا اور آپ کو سلام پیش کیا : ” واپس جا اور نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی “ (2) یہ تین مرتبہ فرمایا۔ اس حدیث کو مسلم نے نقل کیا ہے۔ حضرت حذیفہ نے ایک شخص کو فرمایا جس نے نماز میں کوتاہی کی تھی : تو کتنے عرصہ سے یہ نماز پڑھ رہا ہے ؟ اس نے کہا : چالیس سال سے۔ حضرت حذیفہ نے فرمایا : تو نے نماز نہیں پڑھی اگر تو اس طرح نماز پڑھتے ہوئے مرگیا تو حضرت محمد ﷺ کی سنت پر نہیں مرے گا، پھر فرمایا : انسان کو نماز مختصر پڑھنی چاہیے مکمل پڑھے اور اچھے انداز میں پڑھے۔ اس حدیث کو بخاری نے نقل کیا ہے اور یہ لفظ نسائی کے ہیں۔ ترمذی میں حضرت ابو مسعود انصاری سے روایت کیا ہے فرمایا نبی کریم ﷺ نے فرمایا : وہ نماز جائز نہیں ہوتی جس میں انسان سیدھا نہیں ہوتا یعنی رکوع اور سجود میں پیٹھ کو سیدھا نہیں کرتا ہے (1) ۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور اہل علم صحابہ اور تابعین کا اس پر عمل ہے ان کا نظریہ ہے کہ آدمی رکوع و سجود میں اپنی پیٹھ کو سیدھا کرے۔ امام شافعی، امام احمد اور اسحاق نے کہا : جو اپنی پیٹھ رکوع اور سجود میں سیدھی نہیں کرتا اس کی نماز فاسد ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” یہ نماز منافق کی نماز ہے سورج کو تاڑتے ہوئے بیٹھا رہتا ہے حتیٰ کہ جبسورج شیطان کے سینگوں کے درمیان ہوجاتا ہے تو کھڑا ہوتا ہے اور چار ٹھونگیں مارتا ہے وہ نماز میں اللہ کا ذکر نہیں کرتا مگر تھوڑا (2) “ یہ مذمت ہے اس شخص کی جو ایسا کرتا ہے۔ فروہ بن خالد بن سنان نے کہا : ایک دفعہ ضحاک کے ساتھیوں نے نماز عصر میں امیر کا بہت دیر تک انتظار کیا حتیٰ کہ سورج غروب ہونے کے قریب پہنچ گیا۔ ضحاک نے اس وقت یہ آیت پڑھی پھر فرمایا : اللہ کی قسم ! نماز کو ترک کرنا میرے نزدیک اسے ضائع کرنے سے بہتر ہے۔ بہر حال اس باب میں حتمی قول یہ ہے کہ جو نماز کا مکمل وضو نہیں کرتا اور رکوع و سجود صحیح نہیں کرتا وہ نماز کی حفاظت کرنے والا نہیں اور جس نے نماز کی حفاظت نہیں کی اس نے اسے ضائع کردیا اور جس نے نماز کو ضائع کیا وہ دوسرے احکام شرع کو زیادہ ضائع کرنے والا ہوگا۔ حسن نے کہا : نماز کے ضیاع سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے مساجد کو معطل کردیا اور اپنے دنیا کے کاموں اور اسباب میں مشغول ہوگئے۔ واتبعوا الشعوت یعنی لذات اور معاصی کی پیروی کی۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ ترمذی اور ابو دائود بن انس بن حکیم ضبی سے روایت کیا ہے (3) کہ وہ مدینہ طیبہ آئے تو حضرت ابوہریرہ ؓ سے ملے انہوں نے کہا : اے نوجوان ! کیا میں تجھے ایسی حدیث بیان نہ کروں شاید اللہ تعالیٰ تجھے اس سے نفع دے ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں (ضرور بتائیے) فرمایا : قیامت کے روز لوگوں کے اعمال میں سے جس کا پہلے محاسبہ ہوگا وہ نماز ہے۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائے گا حالانکہ وہ زیادہ جانتا ہے : میرے بندے کی نماز دیکھو اس نے اس کو مکمل کیا یا کو تای کی اگر وہ نماز مکمل ہوگی تو اس کے لیے مکمل لکھی جائے گی، اگر اس میں کچھ کمی ہوگی تو ارشاد ہوگا : دیکھو کیا میرے بندے کے نوافل ہیں، اگر اس کے نوافل ہوں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میرے ببندے کے لیے اس کے نوافل سے اس کے فرائض کو مکمل کر دو پھر اس پر دوسرے اعمال کا مؤاخذہ ہوگا۔ یونس نے کہا : میرا گمان ہے حضرت ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے ﷺ یہ ابو دائود کے الفاظ ہیں (4) فرمایا : ہمیں موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا انہوں نے ہمیں حماد نے بیان کیا انہوں نے تمیم داری سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے یہی مفہوم روایت کیا ہے پھر فرمایا : ” زکوٰۃ بھی اس کی مثل ہے (1) پھر اس کے مطابق اعمال کا مواخذہ ہوگا۔ “ اس حدیث کو نسائی نے ہمام سے انہوں نے حسن سے انہوں نے حریث بن قبیصہ سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : میں نے نبی پاک ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ” قیامت کے روز بندے کا جس چیز کے متعلق محاسبہ کیا جائے گا وہ نماز ہے۔ اگر نماز درست ہوگی تو وہ شخص کامیاب و کامران ہوجائے گا اگر نماز کا معاملہ خراب ہوگا تو وہ خائب و خاسر ہوگا۔ “ ہمام نے کہا : میں نہیں جانتا یہ قتادہ کے کلام سے ہے یا روایت سے ہے، اگر اس کے فرائض میں سے کچھ کمی ہوگی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : دیکھو کیا میرے بندے کے لیے کوئی نفل ہے پھر فرائض کی کمی نفل سے پوری کی جائے گی پھر تمام اعمال اس کے مطابق ہوں گے۔ ابو العوام نے اس کی مخالفت کی۔ انہوں نے یہ قتادہ سے انہوں نیحسن سے انہوں نے ابو رافع سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” قیامت کے روز بندے کا سب سے پہلے جس چیز کا محاسبہ ہوگا وہ اس کی نماز ہے اگر وہ مکمل پائی جائے گی تو وہ مکمل لکھی جائے گی، اگر اس میں کچھ کمی ہوگی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : دیکھو کیا تم اس کے لیے نفل پاتے ہو فرائض نماز میں سے جو کمی ہوگی اس کے نفل سے مکمل کی جائے گی پھر تمام اعمال اس کے مطابق جاری ہوں گے (2) ۔ نسائی نے کہا ہمیں اسحاق بن ابراہیم نے بتایا انہوں نے کہا ہمیں نضر بن شمیل نے بتایا فرمایا ہمیں حماد بن سلمہ نے خببر دی انہوں نے ازرق بن قیس سے انہوں نے یحییٰ بن یعمر سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے انہوں نے نبی پاک ﷺ سے روایت کیا ہے فرمایا : ” قیامت کے روز سب سے پہلے بندے کے جس عمل کا محاسبہ کیا جائے گا وہ اس کی نماز ہے اگر نماز درستہو گی تو وہ شخص کامیاب و کامران ہوجائے گا اگر نماز کا معاملہ خراب ہوگیا تو وہ خائب و خاسر ہوگا۔ “ (3) ورنہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے بندے کے بارے میں دیکھو کیا اس کے نفل ہیں اگر نفل ہوئے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس کے فرائض کی کمی کو پورا کر دو ۔ ابوعمر بن عبدالبر نے کتاب التمہید میں فرمایا : نوافل سے فرائض کا مکمل کرنا اس کے لیے ہوگا جو فرض کو بھول گیا ہوگا اور اسے ادا نہ کیا ہوگا یا اس کا رکوع و سجود بہتر ادا نہ کیا ہوگا اور اسے اس کی قدر معلوم نہ ہوگی لیکن جس نے نماز کو جان بوجھ کر ترک کیا ہوگا یا پہلے بھولا ہوگا پھر اسے یاد آیا ہوگا لیکن جان بوجھ کر پھر ادا نہ کیا ہوگا اور فرض کی ادائیگی کو چھوڑ کر نوافل میں مشغول ہوا ہوگا جبکہ فرض اسے یاد بھی ہوگا تو اس کے لیے نوافل سے فرض کو مکمل نہیں جائے گا۔ اس کے بارے میں شامیین کی حدیث سے ایک منکر حدیث مروی ہے جس کو محمد بن حمیر نے عمرو بن قیس سکونی سے انہوں نے عبداللہ بن قرط سے انہوں نے نبی پاک ﷺ سے روایت کیا ہے فرمایا : ” جس نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں رکوع و سجود مکمل نہ کیا، اس میں اس کی تسبیحات زیادہ کہی گئیں حتیٰ کہ نماز مکمل کی جائے گی۔ ابو عمر نے کہا : یہ نبی کریم ﷺ سے محفوظ نہیں ہے مگر اسی طریق سے اور یہ قوی نہیں اور اگر یہ صحیح ہو تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ وہ نماز سے باہر ہوگیا اس نے اپنے خیال میں نماز کو مکمل کیا جبکہ حکم میں مکمل نہ تھی۔ میں کہتا ہوں : انسان کے لیے مناسب ہے کہ وہ فرض اور نفل اچھے طریقے سے ادا کرے تاکہ اس کے لیے نفل ہوں جو اس کے فرض سے زائد ہوں اور وہ اپنیرب کا ان کے ذریعے قرب حاصل کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں “ (1) (الحدیث) رہا یہ کہ جب اس کے لیے نفل ہوگا اس کے ساتھ فرض کو پورا کیا جائے گا تو اس کا حکم معنی میں فرض کا حکم ہوگا اور جو فرائض اچھی طرح نہیں پڑھتا وہ نفل بھی احھی طرح نہیں پڑھے گا یقینا لوگوں سے نوافل میں زیادہ نقصان اور خلل ہوتا ہے کیونکہ ان کے نزدیک ان کی زیادہ اہمیت نہیں ہوتی اور اس میں وہ سستی کرتے ہیں حتیٰ کہ گویا اس کو کچھ شمار نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ کی قسم ! جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ پایا جاتا ہے اس کے متعلق علم کا گمان کیا جاتا ہے اس کے نفل اسی طرح ہوا کرتے ہیں بلکہ فرض کو بھی مرغ کے دانہ چگنے کی طرح ادا کرتا ہے کیونکہ حدیث کی معرفت نہیں ہوتی پھر جہال کی کیا حالت ہوگی جو کچھ جانتے بھی نہیں ؟ علماء نے فرمایا : رکوع و سجود جائز نہیں ہوتا اور رکوع کے بعد وقوف جائز نہیں ہوتا اور دو سجدوں کے درمیان جلوس جائز نہیں ہوتا حتیٰ کہ اعتدال کے ساتھ رکوع کرے، وقوف کرے، سجدہ کرے اور بیٹھے۔ یہ اثر میں صحیح ہے اسی طرح جمہور اور اہل نظر کا نظریہ ہے ؛ یہ ابن وہب اور ابو مصعب کی امام مالک سے روایت ہے ؛ یہ معنی سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ جب معاملہ اس طرح ہو تو ایسے نوافل کے ساتھ فرض کی کمی کو کیسے پورا کیا جائے گا بلکہ یہ تمام غیر صحیح اور غیر مقبول ہیں کیونکہ یہ غیر مطلوب طریقہ پر واقع ہوا ہے۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واتبعوا الشعوت۔ حضرت علی ؓ سے اس ارشاد کے تحت مروی ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے پختہ مکان بنائے، قابل دید سواری پر سوار ہوا اور مشہور اور شہرت والا لباس پہنا۔ میں کہتا ہوں : الشھوت سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جو انسان کے موافق ہوتی ہیں انسان ان کی خواہش کرتا ہے اور وہ اس کے مناسب ہوتی ہیں اور انسان سے نہیں بچتا ہے۔ صحیح حدیث میں ہے : ” جنت کا تکالیف کے ساتھ گھیرا گیا ہے اور دوزخ کو شہوات کے ساتھ گھیرا گیا ہے (2) “ اور حضرت علی ؓ سے جو مروی ہے وہ اس کا جزء ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فسوف یلقون غیا۔ ابن زید نے کہا : غیا سے مراد شریا گمراہی یا خسارہ ہے۔ شاعر نے کہا ہے : فمن یلق خیرا یحمد الناس امرہ ومن یغو لا یعدم علی الغی لائما حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا : جہنم میں ایک وادی ہے (3) اہل لغت کے نزدیک تقدیر عبارت اس طرح ہے : فسوف یلقون ھذا الغی۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ومن یفعل ذلک یلق اثاما۔ (الفرقان) ( اظہر یہ ہے کہ الغی وادی کا نام ہے، اس کو یہ نام اس لیے دیا گیا ہے کہ گمراہ لوگ اس کی طرف جائیں گے۔ کعب نے کہا : آخر زمانہ میں ایک قوم ظاہر ہوگی ان کے ہاتھوں میں گائے کے دموں کی طرح کوڑے ہوں گے پھر یہ تلاوت کیا : فسوف یلقون غیا۔ یعنی وہ جہنم میں ہلاکت و گمراہی پائیں گے، ان سے یہی مروی ہے کہ غی جہنم میں ایک وادی ہے جہنم کی سب سے گہری وادی ہے اور انتہائی گرم وادی ہے اس میں ایک کنواں ہے جس کو البیہم کہا جاتا ہے، جب جہنم بجھتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کنویں پر کھول دیتا ہے پس جہنم اس کے ساتھ بھڑک اٹھتی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : غی جہنم میں ایک وادی ہے اور جہنم کی دوسری وادیاں اس کی گرمی سے پناہ مانگتی ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس وادی کو اس زانی کے لیے تیار کیا ہے جو زنا پر اصرار کرتا ہے اور اس شرابی کے لیے تیار کیا ہے جو ہمیشہ شراب پیتا ہے اور جھوٹ کی گواہی دینے والوں کے لیے تیار کیا ہے اور اس عورت کے لیے تیار کیا ہے جس نے اپنے خاوند پر ایسے بچے کو داخل کیا جو اس سے نہیں ہے۔
Top