Al-Qurtubi - Maryam : 74
وَ كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ هُمْ اَحْسَنُ اَثَاثًا وَّ رِءْیًا
وَكَمْ : اور کتنے ہی اَهْلَكْنَا : ہم ہلاک کرچکے قَبْلَهُمْ : ان سے پہلے مِّنْ قَرْنٍ : گروہوں میں سے هُمْ : وہ اَحْسَنُ : بہت اچھے اَثَاثًا : سامان وَّرِءْيًا : اور نمود
اور ہم نے ان سے پہلے بہت سی امتیں ہلاک کردیں وہ لوگ (ان سے) ٹھاٹھ اور نمود میں کہیں اچھے تھے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وکم اھلکنا قبلہم من قرن، قرن سے مراد امت اور جماعت ہے، ھم احسن اثاثاً زیادہ مال و متاع مراد ہے۔ شاعر نے کہا : وفرع یزین المتن اسود فاحم اثیث کفنو النخلۃ المستعثکل الاثاث سے مراد گھر کا سازوسامان ہوتا ہے۔ بعض علما نے فرمایا : اثاث جو بچھایا جاتا ہے۔ الحرثی جو پہنا جاتا ہے۔ حسن بن علی طوسی نے یہ شعر کہا ہے : تقادیم العھد من ام الولید بنا دھراً وصار اثاث البیت خرثیا حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : ا ثاث سے مراد ہئیت ہے۔ مقاتل نے کہا : اس سے مراد کپڑے ہیں، وریاء یا خوبصورت منظر، اس میں پانچ قراتیں ہیں : اہل مدینہ نے وریا، بغیر ہمزہ کے پڑھا ہے۔ اہل کوفہ نے ورئیا ہمزہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ یعقوب نے حکایت کیا ہے کہ طلحہ نے وریا ایک یاء مخففہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور سفیان نے اعمش سے انہوں نے ابو ظبیان سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے : ھم احسن اثاثا وزیا یعنی زاء کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ چار قرأیتیں ہیں۔ ابو اسحاق نے کہا : ھم احسن اثاثا ورئیا یعنی یا کے بعد ہمزہ کے ساتھ بھی جائز ہے۔ نحاس نے کہا : اہل مدینہ کی قرأت اس میں بہتر ہے اور اس میں دو تقریریں ہیں۔ (1) یہ رایت سے مشتق ہو پھر ہمزہ میں تخفیف کی گئی ہو اور اس کو یاء سے بدل دیا گیا ہو اور پھر یاء کو یاء میں ادغام کیا گیا ہو۔ یہ بہتر ہے تاکہ آیات کے سرے متفق ہوجائیں کیونکہ وہ غیر مہموز ہیں اس بنا پر حضرت اببن عبب اس ؓ نے کہا : الرنئی کا مطلب منظر ہے بس معنی یہ ہے ھم احسن اثاثا ولبا سا اور دوسری تقریر یہ ہے کہ ائن جلودھم مرتویہ من النعمۃ ان کی کھالیں نعمتوں سے سیراب تھیں۔ پس اس بنا پر ہمزہ جائز نہیں اور ورش کی روایت میں نافع اور ابن ذاکوان نے ابن عامر سے ریئا ہمزہ کے ساتھ پہلی وجہ پر ہوگا ؛ یہ اہل کوفہ اور ابو عمرو کی قرأت ہے یہ اصل پر رائیت سے مشتق ہوگا۔ طلحہ بن مصرف کی قرأت وریا ایک یاء مخففہ کے ساتھ میں، اس کو غلط خیال کرتا ہوں۔ بعض نحویوں کا خیال ہے کہ اس کی اصل ہمزہ ہے پھر ہمزہ کو یا سے تبدیل کیا گیا پھر ایک یاء کو حذف کیا گیا۔ مہدوی نے کہا : ریئا ہونا بھی جائز ہے یا کو تبدیل کیا گیا تو وہ ربیا ہوگیا۔ پھر ہمزہ کی حرکت یا کی طرف نقل کی گئی اور اسے حذف کیا گیا، بعض نے وریا قلب کی بنا پر پڑھا ہے۔ یہ پانچویں قرأت ہے۔ سیبویہ نے راء بمعنی رأی حکایت کیا ہے۔ جوہری نے کہا : جس نے اس کو ہمزہ دیا ہے اس نے اسے رایت سے مشتق کیا ہے اور اس سے مراد منظر ہے جس کو آنکھ اچھی حالت اور خوبصورت لباس میں دیکعتی ہے۔ ابو عبیدہ نے محمد بن نمیر ثقفی نے کہا : اشاقتک الظعائن یوم بانوا بذی الرئی الجمیل من الاثاث اور جنہوں نے اس کو ہمزہ نہیں دیا یا تو وہ ہمزہ کی تخفیف کی بنا پر ہے یا وہ رویت الوانھم وجلودھم ریا سے مشتق ہوگا، جس کا معنی ہے ان کے رنگ اور کھالیں بھری ہوئی اور خوبصورت تھیں۔ رہی حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابی بن کعب اور سعید بن جبیر اور اعسم مکی اور یزید بربری کی قرأت و زیا، زاء کے ساتھ اس کا معنی بھی ہئیت اور خوبصورت ہے۔ یہ جائز ہے کہ یہ زویت سے مشتق ہو یعنی جمع کی گئئی اس کی اصل رویا ہوگی واو کو یاء سے بدلا گیا ہے اسی سے نبی کریم ﷺ کا قول ہے زویت لی الأرض (1) زمین میرے لیے لپیٹ دی گئی یعنی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی چیز بھی فائدہ نہ دے گی۔ یہ لوگ جتنا چاہیں زندگی گزاریں پس انہیں موت اور عذاب کی طرف لوٹنا ہے اگرچہ وہ کتنی لمبی عمر پائیں یا جلدی پہنچنے والا عذاب مراد ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ان کی معرفت کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قل من کان فی الضللۃ، یہاں ضلالت سے مراد کفر ہے۔ فلیمددلہ الرحمن مداً یعنی اس کی جہالت اور کفر کی سرکشی میں اسے چھوڑے رکھتا ہے۔ صیغہ امر کا ہے لیکن اس کا معنی خبر ہے یعنی جو گمراہی میں ہوگا اللہ تعالیٰ اسے ڈھیل دے گا حتیٰ کہ اس کا غرور بڑھتا جائے پس وہ اس کے عقاب کو مزید سخت کر دے گا اس کی مثال یہ ہے : انما نملی لھم لیزدادوا اثماً (آل عمران : 178) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ونذرھم فی طغیانھم یعمھون۔ (الانعام) اس کی مثالیں بہت سی ہیں 0 یعنی جتنا چاہے زندہ رہے اپنی عمر میں اپنے لیے وسعت کرے اس کا انجام موت اور عقاب ہی ہوگا۔ یہ شدید و عید اور دھمکی ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ دعا ہے جس کا نبی کریم ﷺ کو حکم دیا گیا ہے۔ تو کہتا ہے : من سرق مالی فلیقطع اللہ تعالیٰ بیدہ، جو میرا مال چوری کرے گا اللہ تعالیٰ اس کا ہاتھ کاٹے۔ یہ چور کے خلاف بددعا ہے یہ جواب شرط ہے اس بنا پر فلیمدد خبر نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : حتیٰ اذا راو ما یوعدون، رأو، فرمایا کیونکہ لفظ من واحد اور جمع کی صلاحیت رکھتا ہے اور اذا ماضی کے ساتھ بھی مستقبل کا معنی دیتا ہے، یعنی حتیٰ کہ وہ دیکھ لیں گے جو ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔ العذاب سے یہاں مراد ان کے خلاف مومنین کی مدد کر کے عذاب دینا ہے پس وہ تلوار اور قیدی بنا کر انہیں عذاب دیں گے یا قیامت قائم ہوگی پس اور وہ آگ کی طرف جائیں گے۔ فسیعلمون من ھو شر مکانا واضعف جنداً ۔ اس وقت حقائق منکشف ہوں گے۔ یہ ان کے قول : ای القرنین …… الخ کا رد ہے۔
Top