Al-Qurtubi - Al-Anbiyaa : 109
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ اٰذَنْتُكُمْ عَلٰى سَوَآءٍ١ؕ وَ اِنْ اَدْرِیْۤ اَقَرِیْبٌ اَمْ بَعِیْدٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ
فَاِنْ : پھر اگر تَوَلَّوْا : وہ روگردانی کریں فَقُلْ : تو کہ دو اٰذَنْتُكُمْ : میں نے تمہیں خبردار کردیا عَلٰي سَوَآءٍ : برابر پر وَاِنْ : اور نہیں اَدْرِيْٓ : جانتا میں اَقَرِيْبٌ : کیا قریب ؟ اَمْ بَعِيْدٌ : یا دور مَّا تُوْعَدُوْنَ : جو تم سے وعدہ کیا گیا
پس اگر یہ لوگ منہ پھیریں تو کہہ دو کہ میں نے تم سب کو یکساں (احکام الہی) سے آگاہ کردیا ہے اور مجھ کو معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے (عن) قریب (آنیوالی) ہے یا (اس کا وقت) دور ہے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فان تولوا یعنی اگر وہ اسلام سے اعراض کریں۔ فقل اذنتکم علی سوآء یعنی میں تمہیں آگاہ کرتا ہوں کہ میری اور تمہاری جنگ ہے ہماری کوئی صلح نہیں ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واما تخافن من قوم خیانۃ فانبذ الیہم علی سوآء (الانفال : 58) یعنی انہیں آگاہ کرو کہ تو نے عہد توڑ دیا ہے یعنی تم اور وہ برابر ہو کسی ایک فریق کا فانبذ الیہم علی سوآء (الانفال :58) یعنی انہیں آگاہ کرو کہ تو نے عہد توڑ دیا ہے یعنی تم اور وہ برابر ہو کسی ایک فریق کا دوسرے فریق کے لیے لازم عہد نہیں ہے۔ زجاج نے کہا : اس کا معنی ہے میں نے تمہیں بتایا کہ میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ اس کے علم میں برابر ہیں میں نے ایسا نہیں کیا کہ کسی کے سامنے کوئی چیز ظاہر کی ہو اور دوسروں سے چھپائی ہو۔ وان ادری ان نافیہ ہے بمعنی ما یعنی ما ادری۔ اقریب ام بعید ما توعدون یعنی قیامت کی مدت کوئی نہیں جانتا نہ کوئی نبی مرسل جانتا ہے اور نہ کوئی مقرب فرشتہ ؛ یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : میں تمہیں جنگ کے متعلق آگاہ کرتا ہوں لیکن میں نہیں جانتا کہ مجھے کب تم سے جنگ کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انہ یعلم الجھر من القول ویعلم ما تکتمون۔ یعنی شرک میں سے جو تم بلند آواز سے کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو وہ سب جانتا ہے وہ اس پر جزا دے گا۔ وان ادری لعلہ شاید مہلت دینا، فتنت لکم تمہارے لیے امتحان ہوتا کہ وہ دیکھے تمہارا عمل کیسا ہے جبکہ وہ سب کچھ جانتا ہے۔ ومتاع الی حین بعض علماء نے فرمایا : مدت کے ختم ہونے تک۔ روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بنی امیہ کو خواب میں دیکھا کہ وہ لوگوں پر غالب ہیں۔ حکم آپ کے پاس نکلا تو بنی امیہ کو اس کی خبر دی۔ بنو امیہ نے حکم کو کہا کہ تو آپ سے پوچھ یہ کب ہوگا ؟ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : وان ادری اقریب ام بعید ما توعدون۔ وان ادری لعلہ فتنۃ لکم ومتاع الی حین، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (علیہ السلام) کو حکم فرما دیا کہ اپنا امر اللہ تعالیٰ کو تفویض کرو اور اس کی بارگاہ سے کشادگی کی توقع رکھو، یعنی میرے درمیان اور ان جھٹلانے والوں کے درمیان فیصلہ کر اور ان کے خلاف میری مدد فرما۔ سعید نے قتادہ سے روایت کیا ہے فرمایا : انبیاء کرام کہتے تھے : ربنا افتح بیننا وبین قومنا بالحق (الاعراف :89) نبی کریم ﷺ کو یہ کہنے کا حکم دیا : رب احکم بالحق یعنی اس وقت آپ یہ کہتے تھے جب دشمن سے آمنا سامنا ہوتا تھا حالانکہ آپ کو یقین کامل تھا کہ آپ حق پر ہیں اور دشمن باطل پر ہے : رب احکم بالحق اے میرے پروردگار حق کے ساتھ فیصلہ فرما۔ ابو عبیدہ نے کہا : یہاں صفت کو موصوف کے قائم مقام رکھا گیا ہے۔ تقدیر عبارت اس طرح ہے : رب احکم بحکمک الحق اور رب محل نصب میں ہے، کیونکہ یہ ندا مضاف ہے۔ ابو جعفر بن قعقاع اور ابن محیصن نے قل رب احکم بالحق با کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ نحاس نے کہا : یہ نحویوں کے نزدیک غلط ہے۔ ان کے نزدیک رجل اقبل کہنا جائز نہیں حتیٰ کہ تم کہو : یا رجل اقبل یا اس کے مشابہ کہو۔ ضحاک، طلحہ اور یعقوب نے قال رب احکم بالحق ہمزہ قطعی کے ساتھ اور کاف مفتوحہ اور میم مضمومہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ یعنی حضرت محمد ﷺ نے عرض کی اے میرے رب ! تو ہر حاکم سے زیادہ بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ جحدری نے قل رب احکم پڑھا ہے، یعنی تمام امور کو حق کے ساتھ پختہ کرنے والا ہے۔ وربنا الرحمن المستعان علی ما تصفون۔ جو تم کفر اور تکذیب میں سے بیان کرتے ہو۔ مفضل اور سلمی نے علی ما یصفون یا کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور باقیوں نے تا کے ساتھ پڑھا ہے۔ واللہ اعلم۔
Top