Al-Qurtubi - Al-Anbiyaa : 17
لَوْ اَرَدْنَاۤ اَنْ نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّاۤ١ۖۗ اِنْ كُنَّا فٰعِلِیْنَ
لَوْ اَرَدْنَآ : اگر ہم چاہتے اَنْ : کہ نَّتَّخِذَ : ہم بنائیں لَهْوًا : کوئی کھلونا لَّاتَّخَذْنٰهُ : تو ہم اس کو بنا لیتے مِنْ لَّدُنَّآ : اپنے پاس سے اِنْ كُنَّا : اگر ہم ہوتے فٰعِلِيْنَ : کرنے والے
اگر ہم چاہتے کہ کھیل (کی چیزیں یعنی زن و فرزند) بنائیں تو اگر ہم کو کرنا ہی ہوتا تو ہم اپنے پاس سے بنا لیتے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لو اردنا ان نتخذ لھوا جب ایک قوم نے یہ عقیدہ رکھا کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بیٹا ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اردنا ان نتخذ لھواً ، اللھو سے مراد یمنی لغت میں عورت ہے، یہ قتادہ کا قول ہے۔ عقبہ بن ابی جسرہ نے کہا : طائوس، عطا اور مجاہد ان سے لو اردنا ان نتخذ لھوا کے متعلق پوچھنے کے لیے آئے تو انہوں نے فرمایا : اللھو سے مراد زوجہ ہے، یہ حسن کا قول ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : اللھو سے مراد بچے ہیں، حسن کا یہ بھی قول ہے۔ جوہری نے کہا : اللھو جماع سے کنایہ ہے۔ میں کہتا ہوں امرء القیس کا قول ہے : الا زعمت بسباسۃ الیوم اننی کبرت والا یحسن اللھو امثالی جوہری نے کہا : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لو اردنا ان نتخذ لھواً سے مراد عورت ہے۔ کہا جاتا ہے : ولداً یعنی بچہ۔ لا تخذنہ من لدنا یعنی ہم اپنی طرف سے نہ کہ تمہاری طرف سے۔ ابن جریج نے کہا : اہل سماء کی طرف سے نہ اہل زمین کی طرف سے۔ بعض نے فرمایا : یہ ان کا رد ہے جنہوں نے کہا کہ بت اللہ کی بیٹیاں ہیں یعنی تمہارا گھڑا ہوا بت ہماری اولاد کیسے ہو سکتا ہے۔ ابن قتیبہ نے کہا : یہ آیت نصاریٰ کا رد ہے۔ ان کنا فعلین۔ قتادہ، مقاتل، ابن جریج اور حسن نے کہا : اس کا معنی ہے ہم ایسا کرنے والے نہیں جیسے : ان انت الا نذیر۔ (فاطر) یعنی تو نہیں ہے مگر ڈرانے والا۔ ان نفی کے معنی میں ہے۔ لاتخذنہ من لدنا پر کلام مکمل ہوئی۔ بعض نے فرمایا : یہ شرط کے معنی پر ہے یعنی اگر ہم ایسا کرنے والے ہوتے لیکن ہم ایسا کرنے والے نہیں کیونکہ ہمارے لیے اولاد ہونا محال ہے کیونکہ اگر یہ ہوتا تو ہم جنت، دوزخ، موت، بعث، حساب پیدا نہ کرتے۔ بعض علماء نے فرمایا : اگر ہم کسی کو متبنیٰ بناتے تو ہم ملائکہ میں سے بناتے۔ اس کی طرف ایک قوم کا رجحان ہے کیونکہ ارادہ متبنیٰ کے ساتھ متعلق ہے رہا اولاد بنانا تو یہ محال ہے۔ ارداہ مستحیل کے متعلق نہیں ہوتا۔
Top