Al-Qurtubi - Al-Anbiyaa : 32
وَ جَعَلْنَا السَّمَآءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا١ۖۚ وَّ هُمْ عَنْ اٰیٰتِهَا مُعْرِضُوْنَ
وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا السَّمَآءَ : آسمان سَقْفًا : ایک چھت مَّحْفُوْظًا : محفوظ وَّهُمْ : اور وہ عَنْ : سے اٰيٰتِهَا : اس کی نشانیاں مُعْرِضُوْنَ : روگردانی کرتے ہیں
اور آسمان کو محفوظ چھت بنایا اس پر بھی وہ ہماری نشانیوں سے منہ پھیر رہے ہیں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وجعلنا السمآء سقفا محفوظا یعنی گرنے اور زمین پر سقوط سے محفوظ کیا، اس کی دلیل یہ ارشاد ہے : و یمسسک السمآء ان تقع علی الارض الا باذنہ (الحج :65) بعض علماء نے فرمایا : اس کا مطلب ہے ستاروں کے ذریعے، شیطانوں سے اس کو محفوظ کیا، یہ فراء کا قول ہے اس کی دلیل یہ ارشاد ہے : وحفظنھا من کل شیطن رحیم۔ (الحجر :17) بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے ٹوٹنے پھوٹنے سے محفوظ بنایا اور اس سے محفوظ کیا کہ کوئی حیلہ کے ساتھ اس تک پہنچ سکے۔ بعض نے فرمایا : ایسا محفوظ بنایا کہ ستون کا محتاج نہیں۔ مجاہد نے محفوظ کا معنی مرفوعاً (بلند کیا گیا) بیان کیا ہے۔ بعض نے فرمایا : شرک اور معاصی سے محفوظ کیا۔ وھم عن ایتھا معرضون۔ یعنی کفار اس کی نشانیوں سے اعراض کرتے ہیں۔ مجاہد نے کہا : نشانیوں سے مراد سورج اور چاند ہیں۔ آیات کی اضافت آسمان کی طرف کی، کیونکہ وہ نشانیاں آسمان میں بنائی گئی ہیں۔ جبکہ کئی مقامات پر آیات کی نسبت اپنی طرف بھی کی کیونکہ وہی انکا فاعل حقیقی ہے۔ فرمایا : مشرکین آسمانوں میں اور ان کی نشانیوں میں، رات اور دن میں، شمس و قمر میں، آسمانوں کے افلاک میں، ان کی ہوائوں میں اور ان کے بادلوں میں اور ان کے جو اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مظاہر ہیں ان میں غوروفکر کرنے سے غافل ہیں اگر وہ غور و فکر کرتے تو جان لیتے کہ ان کا کوئی صانع ہے، قادر ہے اور وہ واحد ہے۔ اس کا شریک ہونا محال ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وھم الذی خلق الیل و النھار انہیں ایک اور نعمت یاد دلائی ان کے لیے رات بنائی تاکہ اس میں آرام کریں، دن بنایا تاکہ اس میں اپنی معاش کے لیے تصرف کریں۔ والشمس و القمر سورج کو دن کی نشانی بنایا اور چاند کو رات کی نشانی بنایا تاکہ مہینے، سال اور حساب معلوم ہو جیسا کہ سورة سبحان میں گزر چکا ہے۔ کل یعنی سورج، چاند، ستارے، کواکب، لیل و نہار میں سے ہر ایک اپنے اپنے مدار میں تیر رہا ہے۔ فی فلک یسبحون۔ تیزی کے ساتھ چلتے ہیں جیسے پانی میں تیرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اور وہ اصدق القائلیں ہے : واسجت سبحا۔ (النازعات) وہ گھوڑا جو لمبا پائوں رکھتا ہے دوڑنے میں اسے سابح کہتے ہیں۔ یسبحن اور لا تسبح نہیں فرمایا : سیبویہ کا مذہب یہ ہے کہ جب ان کے متعلق ذوی العقول کے فعل کے ساتھ خبر دی تو طاعت میں بھی انہیں ذوی العقول کے قائم مقام رکھا۔ ان کے متعلق واو اور نون کے ساتھ خبر دی۔ اس طرح فراء نے کہا یہ مفہوم سورة یوسف میں گزر چکا ہے۔ کسائی نے کہا : یسبحون فرمایا کیونکہ یہ آیت کا سرا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : نحن جمیع منتصر۔ (القمر) منتصرون نہیں فرمایا۔ بعض نے کہا : چلنا فلک کے لیے ہے۔ پس اس کی طرف نسبت کردی گئی۔ اصح یہ ہے کہ سیارہ فلک میں چلتا ہے۔ آسمانوں کے علاوہ سات افلاک ہیں۔ اور وہ آسمان فرشتوں کی جو لا نگاہیں اور ملکوت کے اسباب ہیں اور چاند نچلے فلک میں ہے اور پھر عطارد، پھر زہر، پھر سورج، پھر مریخ پھر مشتری پھر زحل ہے اور آٹھواں بروج کا فلک اور نواں الفلک الاعظم ہے۔ فلک، نجوم کے افلاک کا واحد ہے۔ ابو عمرو نے کہا : اس کی جمع فعل پر جائز ہے جیسے اسد و اسد، خشب و خشب، فلک کا اصل معنی گردش کرنا ہے۔ اسی سے فلکۃ المغزل چرخے کا پر تہ جو گھومتا ہے، اسی سے کہا جاتا ہے : فلک ثدی المراۃ تفلیکا عورت کے پستان کا گول ہونا۔ حضرت ابن مسعود ؓ کی حدیث میں ہے : ترکت فرسی کا نہ یدور فی فلک، (1) میں نے گھوڑے کو چھوڑا گویا وہ فلک میں گردش کر رہا ہے۔ اس کی گردش کی وجہ سے آسمان کے فلک کے ساتھ تشبیہ دی جس پر ستارے گھومتے ہیں۔ ابن زید نے کہا : الافلاک ستاروں، سورج اور چاند کی گزر گاہیں ہیں۔ فرمایا : آسمان اور زمین کے درمیان ہیں۔ قتادہ نے کہا : الفلک آسمان میں گردش ہے۔ آسمان کے ثبوت کے ساتھ ستاروں کے ساتھ گھومتا ہے۔ مجاہد نے کہا : فلک، چکی کے قطب کی طرح ہے۔ ضحاک نے کہا : فلک سے مراد ان کا گزرنا اور تیزی سے چلنا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : فلک ایک موج ہے جو رو کی گئی ہے، اس میں چاند اور سورج کی گزر گاہ ہے۔ واللہ اعلم۔
Top