Al-Qurtubi - Al-Anbiyaa : 59
قَالُوْا مَنْ فَعَلَ هٰذَا بِاٰلِهَتِنَاۤ اِنَّهٗ لَمِنَ الظّٰلِمِیْنَ
قَالُوْا : کہنے لگے مَنْ : کون۔ کس فَعَلَ : کیا ھٰذَا : یہ بِاٰلِهَتِنَآ : ہمارے معبودوں کے ساتھ اِنَّهٗ : بیشک وہ لَمِنَ : البتہ۔ سے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
کہنے لگے کہ ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ معاملہ کس نے کیا ؟ وہ تو کوئی ظالم ہے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قالو من فعل ھذا با لھتنا انہ لمن الظلمین۔ جب وہ اپنے میلے سے لوٹ کر آئے اور ان کے بتوں کا جو حشر ہوچکا تھا تو بحث و انکار کی حجت سے یہ کہا : من فعل۔ الخ، بعض نے فرمایا : من استفہامیہ نہیں بلکہ یہ مبتدا ہے اور اس کی خبر لمن الظلمین ہے یعنی ایسا کرنے والا ظالم ہے۔ پہلا قول اصح ہے کیونکہ ارشاد ہے : سمعنا فتی یذکرھم یہ من فعل ھذا کا جواب ہے۔ قالوا میں ضمیر ان کمزور لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے حضرت ابراہیم کی بات سنی تھی یا وہ ایک شخص ہے جس نے آپ کا جملہ سنا تھا۔ یذکرھم کا معنی ہے وہ انہیں عیب لگاتا ہے اور انہیں برا بھلا کہتا ہے۔ شاید اس نے یہ کیا ہو۔ ابراہیم پر رفع کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ زجاج نے کہا : یقال لہ ابراھیم۔ کے معنی پر مرفوع ہے اس صورت میں مبتدا محذوف کی خبر ہوگا اور جملہ محکیہ ہوگا اور یہ بھی جائز ہے کہ ندا کی بنا پر مرفوع ہو اور ضمہ مبنی ہونے کی بنا پر ہوا اور نائب الفاعل کے قائم مقام ہو۔ اور بعض نے کہا : اس کو رفع نائب الفاعل کی بنا پر ہے اس بنا پر ابراہیم مخصوص شخص پر دلالت کرنے والا نہ بنایا جائے بلکہ اس کے ساتھ بولنا اس لفظ کی بنا پر دلالت کرنے کے لیے ہو یعنی اس کے لیے یہ قول اور یہ لفظ بولا جاتا ہے جسا کہ تو کہتا ہے : زید فعل کے وزن پر ہے یا زید تین حرف ہیں۔ اور یہ کسی وجہ سے شخص پر دلالت نہیں کرتا بلکہ تو نے اسے قول اور کلام کے قائم مقام رکھا اس کے بعد فعل کو مجہول بنانے میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ یہ رفع میں ابن عطیہ کا اختیار ہے۔ استاذ ابو الحجاج اشبیل اعلم نے کہا : یہ اہمال کی بنا پر رفع ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : جب اس نے رفع کی وجوہ دیکھیں تو گویا وہ معنی واضح نہیں کر تیں جن کا انہوں نے قصد کیا ہے تو انہوں نے بغیر کسی چیز کے اس کو رفع دیا جیسا کہ عوامل سے خالی ہونے کی وجہ سے مبتدا کو رفع دیا جاتا ہے۔ الفتی کا معنی نوجوان ہے اور الفتاہ کا معنی جوان لڑکی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بھیجا مگر نوجوان (1) پھر یہ آیت پڑھی : سمعنا فتی یذکرھم اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قالوا فوتو بہ علی اعین الناس۔ اس میں ایک مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ جب نمرود اور اس کے حواریوں کو یہ خبر پہنچی تو انہوں نے بغیر دلیل کے حضرت ابراہیم کو پکڑنا ناپسند کیا انہوں نے کہا : اسے لوگوں کے سامنے لے آئو تاکہ اسے دیکھیں۔ لعلھم یشھدون۔ تاکہ وہ اس کے خلاف گواہی دیں جو اس نے کہا ہے، تاکہ اس حجت قائم ہوجائے۔ بعض علماء نے فرمایا : لعلھم یشھدون تاکہ اس کے سزا کا مشاہدہ کریں تاکہ اس کے بعد اس جیسا کوئی اقدام نہ کرے یا یہ مطلب ہے کہ تاکہ لوگ گواہی دیں کہ انہوں نے یہ ان کے بتوں کو برا بھلا کہا ہے تاکہ وہ جان لیں کہ یہ سزا کا مستحق ہے۔ میں کہتا ہوں : اس دلیل ہے کہ کسی سے صرف کسی دعوی کا بنا پر مواخذہ نہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاتوا بہ علی اعین الناس لعلھم یشھدون۔ ہماری شریعت میں بھی یہی عمل ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر 1: جب سماع عام نہ تھا اور شہادت ثابت نہ تھی تو انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے پوچھا : کیا انہوں نے یہ کیا ہے ای نہیں ؟ اس کلام میں حذف ہے یعنی ابراہیم آئے جب انہیں لایا گیا تو انہوں نے پوچھا : کیا تو نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کیا ہے ؟ حضرت ابراہیم نے ان پر حجت کرنے کے لیے یہ کہا : بل فعلہ، کبیرھم ھذا یہ دھوکا اور غضب ہے کہ اس کی اور اس کے ساتھ چھوٹے بتوں کی عبادت کی جائے پھر اس نے ان کے ساتھ یہ کیا ہوا اگر یہ بولتے ہیں تو ان سے پوچھو۔ بڑے بت کے فعل کو دوسروں کے بولنے کے ساتھ معلق کیا ہے انہیں ان کے بد عقیدہ پر تنبیہ کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے گویا فرمایا : بلکہ یہ اس بڑے نے کیا ہے اگر یہ بولتے ہیں۔ اس تاویل پر کلام میں تقدیم ہے۔ فسئلو ھم ان کانوا ینطقون۔ بعض علماء نے فرمایا : اس سے مراد یہ ہے کہ بلکہ بڑے نے کیا ہوگا اگر یہ بولتے ہیں یہ بیان کیا کہ جو بولتے نہیں ہیں اور کچھ جانتے بھی نہیں ہیں وہ عبادت کے مستحق نہیں ہیں۔ اس کا یہ قول تعریض تھا اور معارض۔ جھوٹ سے بچنے کے لیے ہوتی ہیں یعنی ان سے پوچھیے۔ اگر یہ بولتے ہیں تو وہ سچے ہیں اگر یہ نہیں بولتے تو وہ ایسا کرنے والا نہیں۔ اس کلام کے ضمن میں اعتراف ہے کہ وہ ایسا کرنے والا ہے۔ یہ صحیح ہے کیونکہ انہوں نے اپنے نفس پر اس کو شمار کیا۔ پس یہ دلیل ہے کہ آپ نے یہ کلام تعریض کی حیثیت سے ذکر کی ہے۔ یہ اس لیے کہ وہ لوگ ان کی عبادت کرتے تھے اللہ کو چھوڑ کر انہیں معبود بناتے تھے جیسا کہ حضرت ابراہیم نے اپنے رب سے کہا تھا : یابت لم تعبد مالا یسمع ولا یبصر (مریم :42) حضرت ابراہیم نے فرمایا : فل فعلہ، کبیرھم ھذا تاکہ وہ اپنی زبان سے اعتراف کریں کہ یہ بولتے نہیں یہ نہ نفع دیتے ہیں اور نہ نقصان دیتے ہیں۔ پس پھر انہیں آپ کہیں کہ تم ان کی عبادت کیوں کرتے ہو اور ان پر حجت قائم ہوجائے۔ اسی وجہ سے امت کے نزدیک خصم کے ساتھ باطل کا فرض کرنا جائز ہے تاکہ خصم خود ہی حق کی طرف لوٹ آئے کیونکہ یہ چیز حجت کے زیادہ قریب ہوتی ہے اور شبہ کو ختم کرنے والی ہوتی ہے جیسا کہ آپ نے اپنی قوم سے کہا : ھذا ربی (الانعام :77) ھذا ختی، انی سقیم۔ (الصافات) بل فعلہ کبیرھم ھذا، ابن سمیقع نے بل فعلہ لام کی تشدید کے ساتھ پڑھا ہے۔ معنی یہ ہوگا کہ شاید ایسا کرنے والا ان کا بڑا ہو۔ کسائی نے کہا : بل فعلہ پر وقف ہوگا یعنی اس نے کیا جس نے کیا پھر کبیرھم ھذا سے نئی کلام ہوگی۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا مطلب ہے ان کے بڑے نے ایسا کیا ہے اس کا کیوں انکار کرتے ہیں۔ یہ خبر کے لفظ کے ساتھ الزام ہے یعنی جو ان کی عبادت کا اعتقاد رکھتا ہے اس کے لیے لازم ہے کہ وہ ان کے لیے فعل کا بھی اثبات کرے۔ مطلب یہ ہے کہ جو چیز تمہیں لازم ہے اس کے اعتبار سے تو ان کے بڑے نے یہ عمل کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 2: بخاری، مسلم اور ترمذی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” حضرت ابراہم نے کبھی (بظاہر) بھی جھوٹ نہیں بولا (بظاہر) تین مواقع پر۔ آپ نے کہا : انی سقیم۔ (الصافات) اور حضرت سارہ کے متعلق کہا یہ میری بہن اور فرمایا : بل فعلہ کبیرھم (1) یہ ترمذی کے الفاظ ہیں۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں واقعہ معراج میں ہے فرمایا : ” ستارے کے بارے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا : ھذا ربی (الانعام :77) اس بنا پر کذبات کی تعداد چار ہوگی لیکن نبی کریم ﷺ نے اس کی نفی کی فرمایا : ” ابراہیم (علیہ السلام) نے کبھی جھوٹ نہیں بولا مگر بظاہر تین مواقع پر دو مواقع پر اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے تھا۔ فرمایا : انی سقیم۔ (الصافات) اور بل فعلہ کبیرھم اور ایک سارہ کے بارے تھا “۔ یہ الفاظ مسلم کی حدیث کے ہیں۔ ستارے کے بارے میں جو کہا تھا : ھذا ربی (الانعام :77) یہ بھی کذب میں داخل ہے لیکن اس کو کذب شمار نہیں کیا کیونکہ آپ نے بچپن میں کیا تھا جب کہ آپ مکلف نہ تھے یا آپ نے توبیخ و انکار کے بنا پر ان سے سوالیہ انداز میں یہ کہا اور ہمزہ استفہام حذف کیا گیا یا اپنی قوم پر حجت قائم کرنے کے لیے کہا : اس بات پر تنبیہ کرتے ہوئے کہ جو متغیر ہوتا ہے وہ رب ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ یہ تمام وجوہ سورة الانعام میں واضح طور پر گزر چکی ہیں۔ الحمد اللہ۔ مسئلہ نمبر 3: قاضی ابوبکر بن عربی نے کہا : اس حدیث میں ایک عظیم نکتہ ہے جو پیٹھ کو توڑ دیتا ہے وہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” حضرت ابراہم نے جھوٹ بولا مگر بظاہر تین صورتوں میں دو ایسی صورتیں تھیں جن سے انہوں نے اپنے دین کا دفاع کیا وہ یہ تھیں آپ نے فرمایا : انی سقیم۔ (الصافات) اور فرمایا : بل فعلہ کبیرھم “ اور ھذا ختی (سارہ میری بہن ہے) کو ذات الہٰی میں شمار نہیں کیا اگرچہ انہیں آپ نے مجبور ہونے کی صورت میں جابر بادشاہ کے پاس بھیجا تھا لیکن اس میں چونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اپنی فراش کے حفاظت اور اپنے گھروالوں کی حمایت کا کچھ حصہ تھا تو اسے اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے نہیں بنایا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے لیے صرف وہ عمل ہوتا ہے جو خالصۃ اللہ کی رضا کے لیے ہو اور دنیا کے ثواب سے پاک ہو اور وہ معاریض (ایسی کلام جس کو سننے والا اور مفہوم میں سمجھے اور متکلم کا ارادہ کچھ اور ہو) جو نفس کی طرف لوٹتی ہیں جب وہ خالص دین کے لیے ہوں تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : الا للہ الدین الخالص (الزمر :3) یہ اگر ہماری طرف سے صادر ہوں تب بھی اللہ تعالیٰ کے لیے ہوں لیکن حضرت ابراہیم کا مقام بلند اسی بات کا مقتضی ہے۔ مسئلہ نمبر 4: ہمارے علماء نے فرمایا : کذب (جھوٹ) کا مطلب ہے کسی چیز کے باے میں ایسی خبر دینا جو اس کی حقیقت کے خلاف ہو۔ ظاہر یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قول تعریض اور توریہ تھا۔ معاریض، حسنات اور حجج اور دلالات جائز ہوتی ہیں لیکن مرتبہ کی کمی میں موثر ہوتی ہیں اور محمود مرتبہ سے کم کردیتی ہیں اور ان کا قائل ان سے احیا کرتا ہے جیسا کہ حدیث شفاعت میں وارد ہے انبیاء کرام ایسی باتوں سے ڈرتے ہیں جن سے دوسرے لوگ نہیں ڈرتے۔ (1) یہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتا ہے کیونکہ وہ ذات جو نبوت اور خلت کے مرتبہ پر فائز ہے وہ حق کو واضح کرے اور امر کا صراحۃ بیان کرے جیسا بھی ہو لیکن انہیں رخصت دی گئی تھی تو انہوں نے رخصت کر قبول کرلیا تھا پس ان کے قصہ میں یہی ہوا تھا اسی وجہ سے حدیث شفاعت میں ہے : انما أتحذت خلیلا من وراء وراء وراء مبنی ہونے کی وجہ سے منصوب ہے جیسے خمسۃ عشر ہے اور جس طرح عرب کہتے ہیں : جاری بیت بیت اور مسلم کے بعض نسخوں میں من ورای من ورای، من کے اعادہ کے ساتھ ہے اس صورت میں مبنی بر فتحہ جائز نہیں ان میں سے ایک مبنی پر ضمہ ہوگا کیونکہ مقطوع الاضافہ ہے اور مضاف کے نیت کی گئی ہے جیسے : قبل و بعد میں ہوتا ہے اور اگر مضاف کی نیت نہ ہو تو معرب ہوتا ہے اور منون ہوتا ہے لیکن وراء غیر منصرف ہے کیونکہ اس کی الف تانیث کے لیے ہے کیونکہ عرب اس کی تصغیر میں ورئیۃ کہتے ہیں۔ جوہری نے کہا : یہ شاذ ہے اس بنا پر من کے موجود ہونے کے ساتھ ہی دونوں میں فتحہ ہو صحیح ہوگا۔ معنی یہ ہے کہ میں خلیل تھا جو دوسروں سے پیچھے تھا۔ اس سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ خلت اپنے کمال کے ساتھ صحیح نہیں ہے مگر اس کے لیے اس دن مقام محمود پر فائز ہونا صحیح ہوگا جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے، وہ ہمارے نبی کریم ﷺ ہیں۔
Top