Al-Qurtubi - Al-Muminoon : 99
حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِۙ
حَتّيٰٓ : یہانتک کہ اِذَا جَآءَ : جب آئے اَحَدَهُمُ : ان میں کسی کو الْمَوْتُ : موت قَالَ : کہتا ہے رَبِّ : اے میرے رب ارْجِعُوْنِ : مجھے واپس بھیج دے
(یہ لوگ اسی طرح غفلت میں رہیں گے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے گی تو کہے گا اے پروردگار ! مجھے پھر (دنیا میں) واپس بھیج دے
آیت نمبر 99-100 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : حتیٰ اذا جاء احدھم الموت قال رب ارجعون۔ کلام کو پھر مشرکین کی طرف لوٹایا یعنی انہوں نے کہا۔ ء اذا کنا متنا وکنا ترابا وعظاما وانا لمبعوثون۔ لقد وعدنا نحن وابائونا ھذا من قبل ان ھذا الا اساطیر الاولین۔ پھر ان پر حجت قائم کی اور انہیں ہر چیز پر اپنی قدرت یا ددلائی پھر فرمایا : وہ اس پر مصر ہیں حتیٰ کہ جب ان میں سے کسی کو موت آئے گی تو اسے اپنی گمراہی کا یقین ہوگا اور وہ ان ملائکہ کو دیکھے گا جو اس کی روح قبض کریں گے جیسا کہ اللہ نے فرمایا : ولو تری اذ یتوفی الذین کفرو الملئکۃ (الانفال :50) قال رب ارجعون لوٹنے کی تمنا کرے گا تاکہ اعمال صالحہ کرے جسے وہ چھوڑ آیا ہے۔ کبھی قول دل میں ہوتا ہے اللہ نے فرمایا : ویقولون فی انفسھم لولا یعذبنا اللہ بما نقول ( المجادلہ :8) اور ارجعون کا قول، وہ اپنے رب سے مخاطب ہے اس نے ارجعنی نہیں کہا تعظیم کیلئے جمع کا صیغہ استعمال کیا۔ بعض نے فرمایا۔ انہوں نے ابتداء میں اللہ سے استغاثہ کیا ان کے کہنے والے نے کہا : رب۔ پھر فرشتوں سے مخاطب ہوا اور کہا ارجعون الی الدنیا مجھے دنیا کی طرف لوٹا دو ؛ یہ ابن جریح کا قول ہے۔ بعض نے کہا : ارجعون تکرار کی جہت سے ہے یعنی ارجعنی ارجعنی ارجعنی۔ مزنی نے القیا فی جھنم (ق :24) کی تفسیر میں کہا : اس کا معنی ہے الق الق۔ ضحاک نے کہا : اس سے مراد مشرک ہیں۔ میں کہتا ہوں : رجوع کا سوال کافر کے ساتھ مختص نہیں مومن بھی رجوع کا سوال کرے گا جیسا کہ سورة منافقین کے آخر میں آئے گا۔ یہ آیت دلیل ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرتا حتیٰ کہ وہ اضطراری طور پر جان لیتا ہے کہ کیا وہ اولیاء اللہ سے ہے یا اللہ کے دشمنوں سے ہے اگر یہ نہ ہوتا تو مومن لوٹنے کا سوال نہ کرتا پس وہ جان لیتے ہیں موت کے نزول اور اس کا ذائقہ چکھنے سے پہلے لعلی اعمل صالحا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اس سے مراد لا الہ الا اللہ کی گواہی دینا ہے۔ فیما ترکت جو میں نے طاعات میں سے ضائع کیا اور چھوڑ دیا۔ بعض نے فرمایا : فیما ترکت جو مال میں نے چھوڑایا تاکہ میں صدقہ کروں۔ لعل تردد کو متضمن ہے یہ وہ ہے جو لوٹنے کا سوال کرے گا جب کہ اسے عذاب کا یقین ہوچکا ہوگا وہ قطعی طور پر عمل صالح کا قول کرے گا اسے کوئی تردد نہ ہوگا تو اس کا جواب یہ ہے کہ تردد یا تو دنیا کی لوٹنے کی طرف راجع ہے یا توفیق کی طرف راجع ہے یعنی میں عمل صالح کروں گا اگر تو مجھے توفیق عطا فرمائے گا کیونکہ قدرت وتوفیق کا وجود قطعی نہیں ہے اگر وہ دنیا کی طرف لوٹایا بھی گیا۔ کلا یہ کلمہ رد ہے یعنی ایسا ہرگز نہیں ہوگا جیسا کہ اس نے گمان کیا ہے کہ دنیا کی طرف لوٹنے کی استدعا قبول کی جائے گی بلکہ یہ کلام ہوا میں بکھر جائے گا۔ بعض نے کہا : اگر قبول کرلیا جائے جو وہ طلب کررہا ہے تو وہ اپنے کہنے کو پورا نہیں کرے گا جیسے اللہ نے فرمایا : ولو ردو لعادو لما نھو عنہ (الانعام :28) بعض علماء نے فرمایا : کلا انھا کلمۃ ھو قائلھا اللہ کی طرف راجع ہے یعنی اس کی خبر میں خلاف نہیں اس نے خبر دی ہے کہ ہرگز کسی نفس کو مہلت نہیں دے گا جب اس پر اس کی موت کا وقت آجائے گا اور اس نے خبردی کہ یہ کافر ایمان نہیں لائے گا، بعض نے کہا : انھا کلمۃ ھو قائلھا موت کے وقت وہ یہ کہے گا لیکن اسے نفع نہیں دے گا۔ ومن وائھم برزخ یعنی انکے آگے آڑ ہے۔ بعض نے کہا انکے پیچھے آڑ ہے یعنی موت اور بعث کے درمیان آڑ ہے ؛ یہ ضحاک، مجاہد اور ابن زید کا قول ہے۔ مجاہد سے مروی ہے دنیا اور آخرت کے درمیان آڑ ہے۔ (احکام القرآن للطبری، جز 18، صفحہ 66) ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : حجاب ہے۔ سدی نے کہا : مدت ہے۔ قتادہ نے کہا : دنیا کا بقیہ ہے۔ بعض نے کہا : قیامت تک مہلت دینا ہے ؛ یہ ابن عیسیٰ نے حکایت کیا ہے۔ کلبی نے کہا : دو صوروں کے درمیان کی مدت ہے۔ انکے درمیان چالیس سال کا عرصہ ہے۔ یہ تمام اقوال قریب قریب ہیں۔ دوچیزوں کے درمیان آڑ کو برزخ کہتے ہیں۔ جوہری نے کہا : البرزخ بین الشیئین دوچیزوں کے درمیان آڑ کو برزخ کہتے ہیں۔ دنیا اور آخرت کے درمیان موت کے وقت سے لے کر دوبارہ اٹھنے تک کا وقفہ برزخ ہے۔ جو فوت ہوگیا ہو برزخ میں داخل ہوگیا۔ ایک شخص نے امام شعبی کی موجودگی میں کہا : اللہ نے فلاں پر رحم فرمایا وہ اہل آخرت سے ہوگیا۔ شعبی نے کہا : وہ اہل آخرت سے نہیں ہوا بلکہ وہ اہل برزخ سے ہوا ہے۔ دنیا اور آخرت میں سے نہیں ہے یوم کو یبعثون کی طرف مضاف کیا گیا کیونکہ یہ ظرف زماں ہے اضافت سے مراد مصدر ہے۔
Top