Al-Qurtubi - An-Naml : 48
وَ كَانَ فِی الْمَدِیْنَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ یُّفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَ لَا یُصْلِحُوْنَ
وَكَانَ : اور تھے فِي الْمَدِيْنَةِ : شہر میں تِسْعَةُ : نو رَهْطٍ : شخص يُّفْسِدُوْنَ : وہ فساد کرتے تھے فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں وَ : اور لَا يُصْلِحُوْنَ : اصلاح نہیں کرتے تھے
اور شہر میں نو شخص تھے جو ملک میں فساد کیا کرتے تھے اور اصلاح سے کام نہیں لیتے تھے
وکان فی المدینۃ حضرت صالح (علیہ السلام) کے شہر میں جو مجرم ہے۔ تسعۃ رھط ان کے اشرف ا کی اولاد میں سے نو آدمی، ضحاک نے کہا، یہ نو افراد اہل مدینہ کے عظماء تھے۔ وہ زمین میں فساد برپا کرتے اور فساد کا حکم دیتے۔ وہ عظیم چٹان کے پاس بیٹھے تو اللہ تعالیٰ نے اس چٹان کو ان پر لاٹ دیا۔ عطا بن ابی رباح نے کہا : مجھے یہ خبر پہنچی ہے وہ دنانیر اور دراہم قرض کے طور پر دیتے یہ زمین میں فساد کی ایک صورت ہے، سعید بن مسیب نے یہ کہا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ان کا فساد یہ تھا وہ لوگوں کی شرمگاہوں کی تاڑ میں رہتے اور خود پر ستر عورت کا اہتمام نہ کرتے۔ اس کے علاوہ کا بھی قول کیا گیا ہے آیت سے جو لازم آتا ہے وہ وہ ضحاک وغیرہ نے کہا ہے کہ وہ قوم کے سرداروں اور غنی لوگوں میں سے تھے۔ وہ سب کے سب اہل کفر اور اہل معاصی تھے۔ اس ان کے امر کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ فساد برپا کرتے تھے اور اصلاح احوال کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ رھط جماعت کا نام ہے گویا وہ سردار تھے اور ان میں سے ہر ایک کی لوگ اتباع کیا کرتے تھے رھط کی جمع ارھط اور اراھط ہے۔ شاعر نے کہا : یا بوس للحرب التی وضعت اراھط فاستراحوا ہائے جنگ کی سختی جس نے کئی جماعتوں کو پست کردیا تو انہوں نے آرام پایا۔ یہ مذکورہ لوگ قدار کے ساتھ تھے جس نے اونٹنی کی کونچیں کاٹی تھیں، ابن عطیہ نے یہ ذکر کیا ہے۔ میں کہتا ہوں : ان کے اسماء میں اختلاف ہے۔ غزنوی نے کہا، ان کے نام یہ تھے قدار بن سالف، مصدع، اسلم، وسما، ذہیم، ذعمائ، ذعیم، قتال، صداق۔ ابن اسحاق نے کہا، ان کا سردار قدار بن سالف اور مصدع بن مہرع تھا سات افراد نے ان کی پیروی کی۔ وہ بلع بن میلع، دعیر بن غنم، ذئواب بن مہرج اور چار افراد ایس ہیں جن کے نام معروف نہیں۔ زمحشری نے وہب بن منبہ سیان کے نام نقل کئے ہیں، ہذیل بن عبدرب غنم بن غنم، رباب بن مہرح، مصدع بن مہرث، عمیر بن کردبہ، عاصم بن مخرمہ، سبط بن صدقہ، سمعان بن صفی، قدار بن سلاف، یہی و لوگ تھے جنہوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹنے میں کوشش کی۔ یہ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کے سرکش لوگ تھے وہ ان کے معززین کے بیٹے تھے۔ سہیلی نے کہا : نقاش نے ان نو افراد کا ذکر کیا جو زمین میں فساد برپا کرتے تھے اور اصلاح احوال نہیں کرتے تھے اور ان کے اسماء ذکر کئے۔ یہ کسی روایت پر منضبط نہیں ہوتے مگر میں اجتہاد اور گمان سے اس کا ذکر کروں لیکن ہم اس کا ذکر کریں گے جن کو ہم نے محمد بن حبیب کی کتاب میں پایا ہے وہ مصدح بن دہر سے اسے دہم کہا جاتا ہے، قدار بن سلاف، ہریم، صواب، ریاب، داب، دعما، ہر ما، دعین بن غمیر۔ میں نے کہا : ماوردی نے ان کے اسماء حضرت ابن عباس سے ذکر کئے ہیں وہ دعمائ، دعیم، ہر ماہ، ہریم، داب، صواب، ریاب، مسطح اور قدار ہیں وہ حجر کے علاقہ کے لوگ تھے یہ شام کی سر زمین ہے۔ قا اتقاسموا باللہ لنبیتنہ واھلہ یہ جائز ہے کہ تقاسموا فعل امر پر دلالت کرتا ہوں۔ یعنی انہوں نے ایک دوسرے سے کہا، تم قسم اٹھائو اور یہ بھی جائز ہے کہ وہ فعل ماضی ہو اور حال کا معنی دے رہا ہو۔ گویا کہا : متقاسمین باللہ اس تاویل کی دلیل حضرت حبداللہ کی قرأت ہے۔ یسفسدون فی الارض ولا یصلحون تفاسیرا باللہ اس میں قالو انہیں ہے۔ لنبیتنہ واھلہ ثم لنقولن لولیہ عام قرأت دونوں میں نون کے ساتھ یہ۔ ابو حاتم نے اسے پسند کیا ہے۔ حمزہ اور کسائی نے دونوں میں تائی کے ساتھ پڑھا ہے اور تاء اور لام کو ضمہ دیا ہے۔ یہ خطاب کے طریقہ پر ہے یعنی انہوں نے اس طرح باہم خطبا کیا، ابوعبید نے اسے اختیار کیا ہے۔ مجاہد اور حمید نے دونوں جگہ یاء کے ساتھ پڑھا ہے۔ یاء اور لام کو صمہ دیا اس صورت میں یہ غائب کا صیغہ ہوگا بیات سے مرادرات کے وقت دشمن پر اچانک حملہ کرا لولیہ سے مراد ہے حضرت صالح علیہ ال سلام کا خاندان جسے قصاص لینے کا حق ہے۔ ماشھدنا مھلک اھلہ یعنی ہم تو یہاں موجود ہی نہ تھے ہم نہیں جانتے کہ کس نی اس کو قتل کیا ہے اور کس نے اس کے اہل کو قتل کیا ہے ؟ وانا لصدیقون اس کے قبل کا جو ہم انکار کر رہے ہیں اس میں ہم سچے ہیں۔ مھلک کا معنی ہلاک کرنا ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ یہ ظرف کا صیغہ ہو۔ عاصم اور سلمیٰ نے میم اور لام کو فتحہ دیا ہے مرادہلاکت ہے۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے، ضرب یضرب مضربا یہ ضربا کے معنی میں ہے۔ مفضل اور ابوبکر نے میم کے فتحہ اور لام کے جر کے ساتھ پڑھا ہے۔ تو یہ اسم مکان ہوگا جس طرح مجلس بیٹھنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ یہ بھی جائز ہے کہ یہ مصدر ہو جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے الیہ مرجعکم (الا انعام : 60) یہاں مرجع سے مراد رجوع ہے۔
Top