Al-Qurtubi - An-Naml : 89
مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ خَیْرٌ مِّنْهَا١ۚ وَ هُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍ اٰمِنُوْنَ
مَنْ جَآءَ : جو آیا بِالْحَسَنَةِ : کسی نیکی کے ساتھ فَلَهٗ : تو اس کے لیے خَيْرٌ : بہتر مِّنْهَا : اس سے وَهُمْ : اور وہ مِّنْ فَزَعٍ : گھبراہٹ سے يَّوْمَئِذٍ : اس دن اٰمِنُوْنَ : محفوظ ہوں گے
جو شخص نیکی لے کر آئے گا تو اس کے لئے اس سے بہتر (بدلہ تیار) ہے اور ایسے لوگ (اس روز) گھبراہٹ سے بےخوف ہوں گے
من جآء بالحسنۃ فلہ خیر منھا حضرت ابن مسعود اور حضرت ابن عباس نے کہا، حسنہ سے مراد لا الہ الا اللہ ہے۔ ابو معشر نے کہا : ابراہیم قسم اٹھایا کرتے تھے باللہ الذی لا الہ الا ہو۔ وہ یہ استثناء نہیں کرتے تھے نیکی لا الہ الا اللہ ہے۔ ابو معشر نے کہ؁، ابراہیم قسم اٹھایا کرتے تھے باللہ الذی لا الہ الا ہو۔ وہ یہ استثنئا نہیں کرتے تھے کہ نیکی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔ حضرت علی بن حسین بن علی ؓ نے کہا : ایک آدمی نے غزوہ میں شرکت کی جب وہ کسی جگہ تنہا ہوتا تو کہتا : لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ اسی اثنئا میں کہ وہ رو کے علاقہ میں جلفاء اور بردی کے علاقہ میں تھا اس نے بلند آواز سے کہا، لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ تو ایک آدمی اس پر ظاہر ہوا جو گھوڑے پر سوار تھا جس کے جسم پر سفید لباس تھا۔ اس نے اسے کہا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں اس کی جان ہے یہ کلمہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : من جآء بالحسنۃ فلہ خیر منھا حضرت ابوذر نے روایت نقل کی ہے میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! مجھے کچھ صویت کیجیے۔ فرماا :” اللہ سے ڈرو جب تو کوئی برا عمل کرے تو اس کے بعد اچھا عمل بھی کرلے جو اس برائی کو مٹا وے۔ “ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! کیا لا الہ الا اللہ کہنا بھی حسنات میں سے ہے ؟ فرمایا :” یہ افضل حسنتا میں سے ہے۔ “ ایک روایت میں ہے : ” ہاں یہ بہترین نیکی ہے۔ “ بیہقی نے اسے ذکر کیا ہے۔ قتادہ نے کہا : اس سے مراد ہے جس نے اخلاص اور توحید کے ساتھ اچھا عمل کیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد ہے جو تمام فرئاض ادا کرے۔ میں کہتا ہوں : جب وہ لا الہ الا اللہ کو ایک حقیقت اور جو اس کی وجہ سے چیزیں لازم ہوتی ہیں ان کو لاتا ہے جس طرح سورة ابراہیم میں گزر چکا ہے تو وہ توحید، اخلاص اور فرائض کو لانے والا ہے۔ اس کے لئے خیر ہے فلہ خیر منھا حضرت ابن عباس نے کہا، اس تک اس کی بھلائی پہنچے گی، یہ مجاہد کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ان کے لئے خوبصورت جزا ہے وہ جنت ہے۔ یہاں خیر کا کلمہ اسم تفصیل کا نہیں ہے۔ عکرمہ اور ابن جریج نے کہا، جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اس کے لئے اس سے خیر ہو تو ایسا نہیں کیونکہ لا الا الا اللہ سے بہتر کوئی چیز نہیں لیکن اس کے لئے اس کی خیر ہوگی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : فلہ خیر منھا یہاں خیر اسم تفصیل کا صیغہ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کا بدلہ بندے کے عمل، اس کے قول اور اس کے ذکر سے بہتر ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کی رضا بندے کے لئے بندے کے عمل سے بہرت ہوگی، یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ کئی گنا کی طرف لوٹتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ایک کے بدلہ میں دس گنا عطا فرماتا ہے اور تھوڑی مدت کے ایمان کے بدلہ میں ابدی ثواب عطا فرماتا ہے، یہ محمد بن کعب اور عبدالرحمن بن زید کا قول ہے۔ وھم من فزع یومئذ امنون عاصم، حمزہ اور کسائی نے فزع یومئذ اضافت کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابو عبید نے کہا، یہ میرے لئے زیادہ تعبج کا باعث ہے کیونکہ یہ دونوں تاویلوں کو عام ہے کہ اس روز تمام قسم کے خوفوں سے امن ہوگا۔ جب کہا : من فزع یومئذ گویا وہ ایسی فزع ہے جو فزع در فزع سے کم ہے۔ قشیری نے کہا، اسے من فزع تنوین کے ساتھ پڑھا، پھر یہ کہا گیا : اس سے مراد ایک گھبراہٹ ہے، جس طرح فرمایا : لایحزنھم الفزع الاکبر (الانبیائ : 103) ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد کثرت ہے کیونکہ یہ مصدر ہے اور مصدر کثرت کی صلاحیت رکھتا ہے۔ میں کہتا ہوں : اس تعبیر کی بنا پر دونوں قرآئتیں ایک معنی میں ہیں۔ مہدوی نے کہا، جس نے من فزع یومئذ تنوین کے ساتھ پڑھا اس نے یومئذ کو فزع مصدر سے نصب دی۔ یہ بھی جائز ہے کہ یہ فزع کی صفت ہو اور محذوف کے متعلق ہو، کیونکہ مصادر کی خبر اسماء زمان کے ساتھ لگائی جاتی ہے اور ان کے ساتھ صفت لگائی جاتی ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ یہ اسم فاعل کے متعلق ہو جو آمنون ہے۔ اور ظروف میں اضافت بطور مجاز ہوتی ہے جس نے تنوین کو حذف کیا اور میم کو فتحہ دیا تو اس نے اسے مبنی قرار دیا کیو کہ یہ ظرف زمان ہے ظرف زمان میں اعراب معرب کا نہیں ہوتا، جب یہ غیر منصرف کی طرف مضاف ہو یا غیر معرب کی طرف مضاف ہو تو یہ مبنی ہوجاتا ہے۔ سیبویہ نے یہ شعر پڑھا۔ علی حین الھی الناس جل امورھم جب لوگوں کو ان کے بڑے بڑے امور نے غافل کردیا۔ محل استدلال حین ہے۔
Top