Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 101
وَ كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ وَ اَنْتُمْ تُتْلٰى عَلَیْكُمْ اٰیٰتُ اللّٰهِ وَ فِیْكُمْ رَسُوْلُهٗ١ؕ وَ مَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰهِ فَقَدْ هُدِیَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۠   ۧ
وَكَيْفَ : اور کیسے تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے ہو وَاَنْتُمْ : جبکہ تم تُتْلٰى : پڑھی جاتی ہیں عَلَيْكُمْ : تم پر اٰيٰتُ : آیتیں اللّٰهِ : اللہ وَفِيْكُمْ : اور تمہارے درمیان رَسُوْلُهٗ : اس کا رسول وَمَنْ : اور جو يَّعْتَصِمْ : مضبوط پکڑے گا بِاللّٰهِ : اللہ کو فَقَدْ ھُدِيَ : تو اسے ہدایت دی گئی اِلٰى : طرف صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا راستہ
اور تم کیونکر کفر کرو گے جبکہ تم کو خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اور تم میں اس کے پیغمبر موجود ہیں اور جس نے خدا (کی ہدایت کی رسی) کو مضبوط پکڑ لیا وہ سیدھے راستے لگ گیا
آیت نمبر : 101۔ اللہ تعالیٰ نے بطور تعجب یہ ارشاد فرمایا : (آیت) ” وکیف تکفرون وانتم تتلی علیکم ایت اللہ “۔ آیات اللہ سے مراد قرآن کریم ہے (آیت) ” وفیکم رسولہ “ اور تم میں اس کا رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ تشریف فرما ہے، حضرت ابن عباس ؓ نے بیان فرمایا : زمانہ جاہلیت میں قبلیہ اوس اور خزرج کے درمیان جنگ وجدال جاری رہا تو انہوں نے اسی کا ذکر کیا جو ان کے درمیان ہوتا تھا، نتیجتا ان میں سے بعض نے بعض پر تلواریں سونت لیں، پس حضور نبی مکرم ﷺ کو لایا گیا اور اس کا تذکرہ آپ ﷺ کے پاس کیا گیا تو آپ انکی طرف تشریف لے گئے، چناچہ یہ آیت نازل ہوئی۔ (آیت) ” وکیف تکفرون وانتم تتلی علیکم ایت اللہ وفیکم رسولہ ومن یعصم باللہ فقدھدی الی صراط مستقیم، یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ حق تقتہ ولا تموتن الا وانتم مسلمون، واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا، واذکروا نعمت اللہ علیکم اذ کنتم اعدآء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا وکنتم علی شفا حفرۃ من النار فانقذکم منھا “۔ اور اس آیت میں وہ بھی داخل ہیں جنہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ کو نہیں دیکھا، کیونکہ آپ ﷺ کی سنت میں سے جو بھی ان میں سے وہی آپ ﷺ کے صحابہ کرام کو ہو، کیونکہ رسول اللہ ﷺ ان میں تشریف فرما تھے اور وہ آپ ﷺ کا مشاہدہ کرتے تھے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ خطاب ساری امت کو ہو، کیونکہ آپ کے آثار و علامات اور وہ قرآن کریم جو ہمیں عطا کیا گیا وہ ہم میں حضور نبی مکرم ﷺ کی جگہ ہی ہے اگرچہ ہم نے آپ کا مشاہدہ نہیں کیا، اور حضرت قتادہ نے کہا ہے : اس آیت میں دو واضح علم ہیں، ایک کتاب اللہ کا اور ایک نبی اللہ ﷺ ، پس نبی اللہ ﷺ تو گزر گئے اور رہی کتاب اللہ تو اسے اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت اور نعمت کے طور پر ان کے درمیان باقی رکھا اور اس میں اس کے حلال و حرام سے متعلقہ احکام اور طاعت ومعصیت سبھی کا ذکر ہے، (آیت) ” وکیف “ یہ محل نصب میں ہے اور التقائے ساکنین کی وجہ سے خلیل اور سیبویہ کے نزدیک فا کو فتحہ دیا گیا ہے اور فتحہ کی وجہ یہ ہے کیونکہ فا کا ماقبل یا ہے اور یا اور کسرہ کا جمع ہونا باعث ثقل ہے۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” ومن یعصم باللہ “۔ اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کی طاعت کو مضبوطی سے تھامتا اور پکڑتا ہے، (آیت) ” فقدھدی الی صراط مستقیم، تو اسے ضرور سیدھی راہ کی طرف راہنمائی کی جاتی ہے اور اسے اس کی توفیق دی جاتی ہے۔ ابن جریج نے کہا ہے : (آیت) ” ومن یعصم باللہ “۔ کا معنی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایمان لاتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے : (آیت) ” ومن یعصم باللہ “۔ کا معنی ہے جو اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑتا ہے اور وہ قرآن ہے، کہا جاتا ہے، اعصم بہ واعتصم اور تمسک واستمسک “ جب وہ اس کے ساتھ چمٹ جائے اور غیر کو چھوڑ کر اسے مضبوطی سے پکڑ لے۔ اور اعتصمت فلانا (یعنی) میں نے اس کے لئے وہ تیار کیا جسے وہ مضبوطی سے پکڑ سکتا ہے اور ہر وہ کسی شے کو مضبوطی سے پکڑنے والا ہو وہ معصم اور معتصم ہے اور جو کسے شے کو روکنے والا ہو تو وہ عاصم کہلاتا ہے۔ جیسا کہ فرزوق نے کہا ہے : انا ابن العاصمین بنی تمیم اذا ما اعظم الھدثان نابا۔ اس میں عاصمین (روکنے والے) کے معنی میں ذکر کیا گیا ہے۔ اور نابغہ نے کہا ہے : یضل من خوفہ الملاح معتصما بالخیزرانۃ بعد الاین والنجد۔ اور ایک دوسرے شاعر نے کہا ہے : فاشرط فیھا نفسہ وھو معتصم والقی باسباب لہ وتوکلا۔ پس اس نے اس میں اپنی جان کو پیش کردیا وہ اسے روکنے اور بچانے والا تھا اور اس نے اسباب (ووسائل) پھینک دیئے اور توکل اپنا لیا۔ اور عصمہ الطعام : یعنی کھانے نے اس سے بھوک کو دور کردیا، عرب کہتے ہیں : عصم فلانا الطعام ای منعہ من الجوع، پس اسی لئے انہوں نے سویق (ستو) کی کنیت ابو عاصم رکھی ہے، احمد بن یحی نے کہا : عرب روٹی کو عاصم اور جابر کا نام دیتے ہیں۔ جیسا کہ شعر میں ہے : فلاتلومینی ولومی جابرا فجابر کلفنی الھواجرا پس تو مجھے ملامت نہ کر بلکہ تو روٹی کو ملامت کر پس روٹی نے ہی مجھے دوپہر کے وقت مشقت میں ڈال رکھا ہے۔ اور وہ اسے عامر کا نام بھی دیتے ہیں۔ کسی شاعر نے کہا : ابو مالک یعتادنی بالظعائر یجی فیلقی رجلہ عند عامر ـ بھوک کو دوپہر کے وقت میرے پاس آنے کی عادت ہے وہ آتی اور روٹی کے پاس اپنی ٹانگیں پھیلا دیتی ہے۔ ابو مالک بھوک کی کنیت ہے۔
Top