Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 121
وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
وَاِذْ : اور جب غَدَوْتَ : آپ صبح سویرے مِنْ : سے اَھْلِكَ : اپنے گھر تُبَوِّئُ : بٹھانے لگے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مَقَاعِدَ : ٹھکانے لِلْقِتَالِ : جنگ کے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور (اس وقت کو یاد کرو) جب تم صبح کو اپنے گھر سے روانہ ہو کر ایمان والوں کو لڑائی کے لیے مورچوں پر (موقع بہ موقع) متعین کرنے لگے اور خدا سب کچھ سنتا اور جانتا ہے
آیت نمبر : 121 : قولہ تعالیٰ : (آیت) ” واذ غدوت من اھلک “۔ اذ میں عامل فعل مضمر ہے اور تقدیر کلام ہے : واذکر اذ غدوت “ یعنی وہ آپ یاد کرو (اے محبوب) جب آپ صبح سویرے چلے، (آیت) ” من اھلک ‘ اپنے گھر سے ام المومنین “ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس مجاہد، حسن، مقاتل، اور کلبی رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : یہ غزوہ خندق کے بارے ہے اور حسن (رح) سے یہ بھی منقول ہے کہ یہ غزوہ بدر کے بارے ہے اور جمہور کا قول یہ ہے کہ یہ غزوہ احد کے بارے ہے۔ (1) (معالم التنزیل جلد 1 صفحہ 539) اور اسی پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے : (آیت) ” اذ ھمت طائفتن منکم ان تفشلا “۔ ترجمہ : جب ارادہ کیا دو جماعتوں نے تم میں سے کہ ہمت ہار دیں۔ اور یہ بلاشبہ غزوہ احد میں ہوا تھا اور مشرکین نے تین ہزار افراد پر مشتمل لشکر کے ساتھ مدینہ طیبہ پر (چڑھائی کا) قصد کیا تاکہ وہ ان سے غزوہ بدر کی ناکامی اور شکست کا بدلہ وانتقام لیں، پس وہ احد پہاڑ کے نزدیک مدینہ طیبہ کے بالمقابل وادی کے کنارے جا اترے، یہ 3 ھ بارہ شوال بدھ کا دن تھا، ہجرت سے اکتیسواں مہینہ شروع ہوچکا تھا اور وہ جمعرات کے دن وہاں مقیم ہوگئے اور حضور نبی مکرم ﷺ ابھی مدینہ طیبہ میں تھے تو رسول اللہ ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ آپ کی تلوار میں دندانے پڑگئے ہیں اور یہ کہ آپ کے لئے بیل ذبح کیا جا رہا ہے اور یہ کہ آپ نے اپنا دست مبارک محفوظ اور مضبوط زرہ میں داخل کیا ہے، تو آپ ﷺ نے اس کی تعبیر یہ فرمائی کہ آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا ایک گروہ شہید کردیا جائے گا اور یہ کہ آپ کے خاندان میں سے ایک آدمی کو بھی شہید کردیا جائے گا اور یہ کہ محفوظ زرہ مدینہ طیبہ ہے۔ اسے مسلم نے نقل کیا ہے (1) (بخاری کتاب المناقب، حدیث 3352، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور یہ سب کچھ اسی کے مطابق ہے جو کچھ اس غزوہ میں سے معروف ومشہور ہے۔ اور تبو کا اصل معنی ہے گھر بنانا، (ٹھکانا، بنانا) بواتہ منزلا، کہا جائے گا جب تو کسی جگہ سکونت اختیار کرے اور اسی معنی میں حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : من کذب علی متعمدا فلیتوبوا مقعدہ من النار (2) (مسلم المقدمہ، جلد 1، صفحہ 7، اسلام آباد) (جس نے عمدا میرے بارے میں جھوٹ بولا تو اسے چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے) یعنی اس میں گھر بنا لے، پس (آیت) ” تبوی المؤمنین “۔ کا معنی ہے آپ ان کے لئے صف بندی کی جگہیں بنا رہے تھے اور بیہقی (رح) نے حضرت انس ؓ سے حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” میں نے خواب میں دکھا جیسا کہ ایک سونے والا دیکھتا ہے گویا کہ میں پے درپے مینڈھے لا رہا ہوں اور گویا میری تلوار کی دھار ٹوٹ گئی ہے تو میں نے تعبیر یہ کہ میں قوم کے مینڈھے کو قتل کروں گا اور میں نے اپنی تلوار کی دھار ٹوٹنے کی تعبیر یہ کہ کہ میری آل میں سے ایک آدمی شہید کردیا جائے گا۔ “ پس حضرت حمزہ ؓ شہید کردیئے گئے اور رسول اللہ ﷺ نے طلحہ کو قتل کیا اور وہ (کفار کا) علمبردار تھا، اور موسیٰ بن عقبہ نے ابن شہاب سے بیان کیا ہے : مہاجرین کا علمبردار رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے ایک آدمی تھا تو اس نے کہا : میں انشاء اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کروں گا جو میرے ساتھ ہے، تو طلحہ بن عثمان جو کہ سعید بن عثمان لخمی کا بھائی تھا اس نے اسے کہا : اے عاصم ! کیا تیرے لئے مقابلے کی طاقت ہے ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں، پس وہ آدمی اس پر تیزی سے جھپٹا اور طلحہ کے سر پر تلوار دے ماری یہاں تک کہ تلوار اس کی داڑھی پر لگی اور اس نے اسے قتل کردیا تو علمبردار کا قتل ہونا رسول اللہ ﷺ کے خواب کی تصدیق ہے کانی مردف کبشا۔
Top