Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 122
اِذْ هَمَّتْ طَّآئِفَتٰنِ مِنْكُمْ اَنْ تَفْشَلَا١ۙ وَ اللّٰهُ وَلِیُّهُمَا١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ
اِذْ : جب ھَمَّتْ : ارادہ کیا طَّآئِفَتٰنِ : دو گروہ مِنْكُمْ : تم سے اَنْ : کہ تَفْشَلَا : ہمت ہاردیں وَاللّٰهُ : اور اللہ وَلِيُّهُمَا : ان کا مددگار وَ : اور عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر فَلْيَتَوَكَّلِ : چاہیے بھروسہ کریں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن
اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے جی چھوڑ دینا چاہا مگر خدا ان کا مددگار تھا اور مومنوں کو خدا ہی پر بھروسا رکھنا چاہئے
آیت نمبر : 122۔ اذ من عامل تبوی، یا سمیع علیم “ ہے اور دو جماعتوں سے مراد خزرج میں سے بنو سلمہ اور اوس میں سے بنو حارثہ ہیں اور یہ دونوں غزوہ احد میں لشکر کے دو پہلو تھے (3) (معالم التنزیل، جلد 1، صفحہ 541) اور (آیت) ” ان تفشلا “۔ کا معنی ہے کہ وہ بزدلی کا اظہار کریں (اور ہمت ہارویں) بخاری میں حضرت جابر ؓ سے منقول ہے انہوں نے فرمایا ہمارے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” اذ ھمت طآئفتین منکم ان تفشلاو اللہ ولیھما “۔ فرمایا : ہمارے دو گروہ، بنو حارثہ، اور بنو سلمہ تھے اور پسند نہیں کرتے تھے کہ یہ نازل نہ ہوتی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” واللہ ولیھما “۔ (4) (صحیح بخاری تفسیر سورة آل عمران، حدیث نمبر 4192، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ بنو حارث، بنو خزرج اور بنو نبی ت تھے اور نبی ت بنی اوس میں سے عمروہ بن مالک تھے۔ اور فشل سے مراد بزدلی ہے، اس کا لغوی معنی یہی ہے اور دونوں گروہوں کا ارادہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ جب لشکر کے مدینہ منورہ سے باہر نکلنے کے بعد عبداللہ بن ابی اپنے منافق ساتھیوں سمیت واپس لوٹ آیا (تو انہوں نے بھی ارادہ کیا) لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کی حفاظت فرمائی اور یہ واپس نہ لوٹے، اسی کے بارے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (آیت) ” واللہ ولیھما “۔ یعنی اس ارادہ کو عملی جامہ پہنانے سے اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کی حفاظت فرما رہا تھا، اور یہ قول بھی ہے کہ انہوں نے (لشکر کے ساتھ) نکلنے سے (پیچھے) بیٹھے رہنے کا ارادہ کیا اور وہ ان میں سے صغیر (چھوٹے) تھے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ ان کے دلوں میں آنے والا خیال تھا جو ان کے دلوں میں پیدا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم ﷺ کو اس پر مطلع فرما دیا تو ان کی بصیرت میں اضافہ ہوگیا اور اس بزدلی اور سستی کا مظاہرہ نہ ہوا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں بچا لیا اور ان میں سے بعض نے بعض کی مذمت کی اور وہ حضور نبی مکرم ﷺ کے ساتھ اٹھے تو رسول اللہ ﷺ چل پڑے یہاں تک کہ آپ مشرکین کے قریب جا پہنچے، آپ ﷺ ایک ہزار افراد کے ساتھ مدینہ طیبہ سے نکلے تھے اور پھر عبداللہ بن ابی بن سلول اپنے تین سو ساتھیوں کو ساتھ لے کر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے واپس لوٹ آیا، کیونکہ اس کی رائے سے اختلاف کیا گیا تھا جب اس نے مدینہ طیبہ میں بیٹھے رہنے اور وہیں قتال کرنے کا اشارہ دیا تھا اگر دشمن ان پر حملہ آور ہو اور اس کی رائے رسول اللہ ﷺ کی رائے کے موافق تھی (1) (دلائل النبوۃ، جلد 3، صفحہ 226) اور اکثر انصار نے اس کا انکار کیا تھا، اس کا ذکر آگے آئے گا۔ اور رسول اللہ ﷺ مسلمانوں کے ساتھ لے گئے اور ان میں سے وہ شہید ہوئے جنہیں اللہ تعالیٰ نے شہادت کے ساتھ عزت و تکریم عطا فرمائی، امام مالک (رح) نے فرمایا ہے، غزوہ احد میں مہاجرین میں سے چار اور انصار میں سے ستر افراد نے جام شہادت نوش کیا۔ المقاعد : مقعد کی جمع ہے اور اس کا معنی ہے بیٹھنے کی جگہ اور یہ مواقف کے قائم مقام ہے لیکن لفظ قعود ثبوت پر دال ہے اور بالخصوص تیرانداز ثابت قدم تھے، مختصرا غزوہ احد کا یہی مفہوم ہے، اس کا تفصیلی اور شافی بیان آگے آئے گا۔ اس دن مشرکین کے ساتھ سو گھوڑ سوار تھے اور ان پر خالد بن ولید سربراہ تھے اور اس دن مسلمانوں کے ساتھ کوئی گھوڑا نہ تھا، اس میں رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک زخمی ہوا اور پتھر کے ساتھ نچلی طرف سے دائیں جانب کے چار دندان مبارک شہید کردیئے گئے اور آپ ﷺ کے سر مبارک کا خود توڑ دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی امت اور دین کی جانب سے اس سے افضل واعلی جزا عطا فرمائی جو اپنے انبیاء (علیہم السلام) میں سے کسی نبی (علیہ السلام) کو اس کے صبر پر عطا فرمائی اور وہ جس نے نبی مکرم ﷺ سے اس دن اعراض کیا تھا وہ عمرو بن قیمہء لیثی اور عتبہ بن ابی وقاص تھا اور کہا گیا ہے : فقیہ محمد بن مسلم بن شہاب کا دادا عبداللہ بن شہاب وہ ہے جس نے رسول اللہ ﷺ کی پیشانی مبارک کو زخمی کیا تھا، واقدی نے کہا ہے : ہمارے نزدیک ثابت یہ ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ کے چہرہ اقدس کو زخمی کرنے والا ابن قمیئہ تھا، اور جس نے آپ ﷺ کے منہ پر پتھر مار کر آپ کے دندان مبارک کو شہید کیا تھا اور عتبہ بن ابی وقاص تھا، واقدی نے اپنی سند کے ساتھ نافع بن جبیر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا : میں نے مہاجرین میں سے ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے : میں احد کے دن حاضر تھا اور میں نے تیر دیکھے ہر جانب سے آ رہے تھے اور رسول اللہ ﷺ ان کے درمیان میں تھے اور ہر تیر آپ سے پھیر دیا جاتا تھا، تحقیق میں نے عبداللہ بن شہاب زہری کو اس دن یہ کہتے ہوئے سنا : محمد ﷺ پر میری راہنمائی کرو اگر وہ بچ گئے تو میں نہیں بچ سکوں گا، حالانکہ رسول اللہ ﷺ اس کے پہلو میں تھے کوئی بھی آپ کے ساتھ نہ تھا پھر وہ آپ سے آگے گزر گیا، تو اس بارے میں صفوان نے اسے ڈانٹ پلائی تو اس نے کہا : قسم بخدا ! میں نے انہیں دیکھا ہی نہیں، میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں : بلاشبہ انہیں ہم سے محفوظ رکھا گیا ہے، ہم چار آدمی نکلے اور ہم نے آپ کے قتل کا آپس میں پختہ معاہدہ کیا (لیکن ہم آپ پر راہ نہ پا سکے) اور ایک پتھر رسول اللہ ﷺ کو آ لگا یہاں تک کہ آپ گڑھے میں گرگئے، اسے ابو عامر راہب نے مسلمانوں کے لئے بطور دھوکہ اور چال کے کھودا تھا پس آپ ﷺ اپنے پہلو کے بل گرے اور حضرت طلحہ ؓ نے آپ ﷺ کو سہارا دیا یہاں تک کہ آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور حضرت ابو سعید خدری ؓ کے والد مالک بن سنان نے رسول اللہ ﷺ کے زخم سے خون چوس لیا اور آپ کے خود کے دو حلقے آپ ﷺ کے چہرہ مبارک میں پیوست ہوگئے اور انہیں حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ نے نکالا، اور اپنے دانتوں کے ساتھ انہیں پکڑا تو وہ گر گئے تو آپ نے انہیں جڑ سے توڑ دیا اور آپ ؓ کو ان کا ٹوٹنا خوبصورت لگتا تھا اور اس غزوہ میں حضرت حمزہ ؓ شہید ہوئے اور آپ کو وحشی نے قتل کیا تھا، وحشی جبیر بن مطعم کا غلام تھا اور جبیر نے اس کو کہا : اگر تو نے محمد ﷺ کو قتل کیا تو ہم تجھے گھوڑوں کی لگامیں تھما دیں گے اور اگر تو نے علی بن ابی طالب کو قتل کیا تو ہم تجھے ایک سو اونٹنیاں دیں گے وہ سب کی سب سیاہ ہوں گی اور اگر تو نے حمزہ کو قتل کیا تو تو آزاد ہوجائے گا، وحشی نے کہا : رہے محمد ﷺ ان پر نگران اور محافظ اللہ تعالیٰ کی جانب ہوتا ہے کوئی بھی ان تک نہیں پہنچ سکتا، اور جہاں تک علی ( رض) کا تعلق ہے تو انہیں جس نے بھی مقابلے کی دعوت دی ہے انہیں نے اسے قتل کردیا ہے اور رہا حمزہ، تو وہ بہادر آدمی ہیں، قریب ہے کہ میرا ان سے آمنا سامنا ہوجائے تو میں انہیں قتل کر دوں، اور وہاں ہند بھی تھی جب وحشی تیار ہوا یا وہ اس کے پاس سے گزری تو اس نے کہا : ہاں ابو دسمہ تو (سینہ کو) ٹھنڈا کر تو تو بھی پرسکون اور ٹھنڈا ہوجائے گا، پس وہ ایک چٹان کے پیچھے چھپ گیا اور حضرت حمزہ ؓ نے مشرکین کی جماعت پر حملہ کردیا، پس جب آپ اپنے حملہ سے کامیابی کے ساتھ واپس لوٹے اور وحشی کے پاس سے گزرے تو اس نے چھوٹے نیزے کے ساتھ آپ پر حملہ کردیا اور وہ آپ کو جالگا اور جان لیوا ثابت ہوا ؓ ابن اسحاق نے بیان کیا ہے : پھر ہند نے حضرت حمزہ ؓ کا سینہ چاک کر کے کلیجہ باہر نکالا اور اسے دانتوں کے ساتھ چبایا لیکن اسے نگل نہ سکی اور پھر اسے پھینک دیا پھر ایک بلند چٹان پر چڑھ گئی اور بلند آواز سے چیخ کر یہ کہا : نحن جزینا کم بیوم بدر والحرب بعد الحرب ذات سعر : (اے مسلمانو) ہم نے یوم بدر کا بدلہ چکا دیا اور جنگ کے بعد جنگ آگ کے شعلوں کی طرح بھڑکتی ہے : مان کان عن عتبۃ لی من صبر ولا اخی وعتہ وبکری : مجھے (اپنے باپ) عتبہ، اپنے بھائی (ولید بن عتبہ) اس کے چچا (شیبہ بن ربیعہ) اور اپنے پہلے بیٹے (حنظلہ بن ابی سفیان) سے صبر نہیں آتا تھا۔ شفیت نفسی وقضیت نذری شفیت وحشی غلیل صدری : میں نے اپنا دل ٹھنڈا کرلیا اور اپنی نذر پوری کرلی، اے وحشی ! تو نے میرے سینے کی جلن کو ٹھنڈا کردیا ہے۔ فشکر وحشی علی عمری حتی ترم اعظمی فی قبری : پس مجھ پر ساری زندگی وحشی کا شکریہ ادا کرنا لازم ہے یہاں تک کہ میری ہڈیاں میری قبر میں بوسیدہ ہوجائیں۔ پھر اس کا جواب ہند بنت اثاثہ بن عباد بن عبدالمطلب نے دیا اور کہا : خزیت فی بدر وبعد بدر یا بنت وقاع عظیم الکفر : اے انتہائی گھٹیا اور پرلے درجے کے کافر کی بیٹی، تو بدر میں بھی رسوا ہوئی اور بدر کے بعد بھی۔ صبحک اللہ عداۃ الفجر ملھاشیین الطوال الزھر : اللہ تعالیٰ علی الصبح دراز قدر اور خوش اخلاق ہاشمیوں کو تیرے پاس لے آیا۔ بکل قطاع حسام یفری حمزہ لیثی وعلی صقری : میرے شیر حضرت حمزہ اور میرے شاہین حضرت علی ؓ ہر تیز کاٹنے والی تلوار کے ساتھ تمہارے سر قلم کر رہے تھے۔ اذ رام شیب وابوک غدری فحضبا منہ ضواحی النحر : ونذرک السوء فشر نذر : جب شیبہ اور تیرے باپ (عتبہ) نے میرے ساتھ بدعہدی کا ارادہ کیا تو ان دونوں نے (یعنی حضرت حمزہ ؓ اور حضرت علی ؓ نے) اس کے سینے کے کھلے اطراف کو لہولہان کردیا اور تیرا بدی کی نذر ماننا بہت بری نذر ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن روحہ ؓ نے حضرت حمزہ ؓ پر روتے ہوئے یہ اشعار لکھے : بکت عینی وحق لھا بکاھا وما یغنی البکاء ولا العویل : میری آنکھ رو پڑی اور رونا اس کا حق بنتا ہے لیکن رونے اور وایلا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں : علی اسد الالہ غداۃ قالوا احمزۃ ذاکم الرجل القتیل : (میری آنکھیں) شیر خدا پر اس روز (رو پڑی) جب لوگوں نے کہا : کیا یہ مقتول آدمی حمزہ ہیں ؟ اصیب المسلمون بہ جمیعا ھناک وقدر اصیب بہ الرسول : آپ کے قتل سے سب مسلمانوں کو تکلیف پہنچی اور خود رسول اکرم ﷺ کو بھی تکلیف پہنچی : ابا یعلی لک الارکان ھدت وانت الماجد البر الوصول : اے ابو یعلی ! (یہ حضرت حمزہ ؓ کی کنیت ہے) آپ کے تمام اعضاء کاٹ دیئے گئے حالانکہ آپ ایک شریف نیک اور ہر ایک سے تعلق رکھنے والے آدمی تھے۔ علیک سلام ربک فی جنان مخالطھا نعیم لایزول : آپ پر آپ کے رب کی طرف سے ان جنتوں میں سلام پہنچے جن میں لازوال نعمتیں ملتی رہیں گی۔ الا یا ہاشم الاخیار صبرا فکل فعالکم حسن جمیل : اے قبیلہ ہاشم میں سب سے بہتر فرد صبر کر، تمہارا ہر کام نہات حسین و جمیل ہے۔ رسل اللہ مصطبر کریم بامر اللہ ینطق اذ یقول : اللہ کے رسول اللہ ﷺ صابر اور کریم ہیں وہ جب بھی کچھ فرماتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے ساتھ ہی بولتے ہیں۔ الا من مبلغ عنی لویا فبعد الیوم دائلۃ تدول : ارے کون شخص ہے جو میری طرف سے قبیلہ لؤی کو یہ پیغام پہنچا دے کہ آج کی جنگ کے بعد ایک دوسری جنگ کی نوبت آ کر رہے گی۔ وقبل الیوم ماعرفوا وذاقوا وقائعنا بھا یشفی الغلیل : اور آج کی جنگ سے پہلے (غزوہ بدر میں) جو کفار نے ہمیں خوب پہچان لیا، اور ہمارے مقابلے کا مزہ چکھ لیا (وہ بھی پہنچا دے) اس جنگ میں ہمارے تصادم سے پیاسوں کی پیاس بجھائی جاتی رہی۔ نسیتم ضربنا بقلیب بدر غداۃ اتاکم الموت العجیل : قلیب بدر کے پاس تم ہماری شمشیر زنی کو بھول گئے ہو جس روز موت تمہارے پاس بڑی تیزی سے آرہی تھی، غداۃ ثوی ابوجھل صریعا علیہ الطیر حائمۃ تجول : جس روز ابو جہل دھڑام سے گر کر ہلاک ہوگیا اور اس کے اوپر پرندے گھوم گھوم کر آجا رہے تھے۔ وعتبۃ وابنہ خرا جمیعا وشیبۃ عضہ السیف الصقیل : اور عتبہ اور اس کا بیٹا دونوں زمین پر گر پڑے اور شیبہ کو بھی صیقل کی ہوئی تلوار نے کاٹ کر رکھ دیا۔ ومترکنا امیۃ مجلعبا وفی حیزومہ لدن نبیل : اور ہم نے امیہ کو بھی زمین پر دراز کردیا درآنحالیکہ اس کے سینے کے نچلے حصے میں ایک بہت بڑا نیزہ داخل تھا۔ وھام بنی ربیعۃ سائلوھا ففی اسیافنا منھا فلول : اور بنی ربیعہ کی کھوپڑیوں سے پوچھو، ان کو کاٹنے کی وجہ سے ہماری تلواروں میں دندانے پڑے ہوئے ہیں۔ الا یا ھند فاب کی لا تملی فانت الوالہ العبری الھبول : ارے اے ہند ! اب خوب رو اور رونے سے نہ اکتا کیونکہ تو ہی شدت غم کی وجہ سے بڑے بڑے آنسو بہانے والی اور اپنے عزیزوں کو کھودینے والی ہے۔ الا یاھند لاتبدی شماتا بحمزۃ ان عزکم ذلیل : ارے اے ہند ! تو حضرت حمزہ ؓ کی وفات پر خوشی کا اظہار نہ کر کیونکہ تمہاری عزت خاک میں مل چکی ہے۔ اور آپ کی بہن حضرت صفیہ ؓ نے بھی مرثیہ کہا اور وہ کتب سیرت میں مذکور ہے رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وعلی اللہ فلیتوکل المؤمنون “ اس میں ایک مسئلہ ہے اور وہ توکل کا بیان ہے، توکل کا لغوی معنی : اظہار العجز والاعتماد علی الغیر ہے (یعنی عجز کا اظہار کرنا اور غیر پر اعتماد کرنا) اور ” واکل فلان “ (کہا جاتا ہے) جب کوئی کسی دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے اپنا کام ضائع کردے۔ توکل کی حقیقت میں علماء نے اختلاف کیا ہے، پس حضرت سہل بن عبداللہ سے اس کے بارے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : قالت فرقۃ۔ الرضابالضمان، وقطع الطمع من المخلوقین “۔ ایک جماعت نے کہا ہے : توکل سے مراد ضمان کے ساتھ راضی ہونا اور مخلوق سے کسی حرص اور لالچ کو ختم کرنا ہے، اور ایک قوم نے کہا ہے : التوکل ترک الاسباب والرکون الی مسبب الاسباب کہ توکل سے مراد اسباب کو ترک کرنا ہے اور مسبب الاسباب کی طرف متوجہ ہونا ہے، پس جب کوئی سبب اسے مسبب سے مشغول کر دے تو اس سے توکل کا اسم بھی زائل ہوجائے گا، حضرت سہل (رح) نے کہا ہے : جنہوں نے کہا ہے کہ توکل سبب ترک کرنے کے ساتھ ہوتا ہے تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی سنت میں طعن کیا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : (آیت) ” فکلوا مما غنمتم حلالا طیبا “۔ ترجمہ : پس تم اس سے کھاؤ جو تم نے حلال طبیب (مال) کمایا۔ تو اس میں غنیمت بمعنی کمائی ہے اور مزید ارشاد فرمایا : (آیت) ” فاضربوا فوق الاعناق واضربوا منھم کل بنان “۔ (تو یہ بھی عمل ہے) اور حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا ” ان اللہ یحب العبد المحترف “ (بلاشبہ اللہ تعالیٰ کوئی پیشہ (اور کام) کرنے والے بندے کو پسند فرماتا ہے) اور رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سریہ پر قرض دیتے تھے اور آپ کے سوا کسی اور نے کہا ہے : یہ عام فقہاء کا قول ہے اور اللہ تعالیٰ پر توکل کا معنی یہ ہے ” ھو الثقۃ باللہ والایقان بان قضاءہ ماض “ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ پختہ یقین رکھنا اور یہ ایقان رکھنا کہ اس کی قضا اور فیصلہ نافذ ہونے والا ہے اور سعی اور محنت کرنے میں نبی مکرم ﷺ کی سنت کی اتباع کرنا ایسے کاموں میں جن میں اسباب ضروری ہیں مثلا کھانا، پینا، دشمن سے احتیاط اور بچاؤ کرنا، اسلحہ تیار کرنا اور ان تمام ذرائع اور وسائل کو استعمال کرنا جن کا تقاضا اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ کرتی ہے اور یہی موقف محققین صوفیہ نے اختیار کیا ہے لیکن ان کے نزدیک اسم توکل ان اسباب کے ساتھ طمانینت و راحت کے حصول اور دلوں کو ان کی طرف ملتفت کرنے کا تقاضا نہیں کرتا، کیونکہ یہ نہ تو کوئی نفع لا سکتے ہیں اور نہ کوئی ضرر دور کرسکتے ہیں، بلکہ سبب اور مسبب دونوں ہی اللہ تعالیٰ کا فعل ہیں اور سب اسی کی جانب سے اور اس کی مشیت سے ہوتا ہے اور متوکل کی جانب سے ان اسباب کی طرف جھکاؤ اور میلان واقع ہوتا ہے تو وہ اس اسم (کے مفہوم) سے نکل جاتا ہے پھر توکل کرنے والوں کی دو حالتیں ہوتی ہیں۔ (1) توکل کی قدرت رکھنے والے کی حالت یہ تو ان اسباب میں سے کسی شے کی طرف اپنے دل کے ساتھ متوجہ ہوتا ہی نہیں اور نہ ہی وہ حکم امر کے سوا ان میں مشغول ہوتا ہے۔ (2) قدرت نہ رکھنے والے کی حالت : اور یہ وہ ہوتا ہے جس کی توجہ ان اسباب کی طرف وقتافوقتا ہوجاتی ہے مگر وہ عملی طریقوں اور دلائل قطعیہ اور حالیہ ذوق کے ساتھ ان کو اپنے آپ سے دور رکھتا ہے، پس وہ اسی طرح کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے جود وعطا کے ساتھ قدرت رکھنے والے متوکلین کے مقام پر فائز فرما دیتا ہے اور اسے عارفین کے درجات کے ساتھ ملا دیتا ہے۔
Top