Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 21
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ حَقٍّ١ۙ وَّ یَقْتُلُوْنَ الَّذِیْنَ یَاْمُرُوْنَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ١ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ جو يَكْفُرُوْنَ : انکار کرتے ہیں بِاٰيٰتِ : آیتوں کا اللّٰهِ : اللہ وَيَقْتُلُوْنَ : اور قتل کرتے ہیں النَّبِيّٖنَ : نبیوں کو بِغَيْرِ حَقٍّ : ناحق وَّيَقْتُلُوْنَ : اور قتل کرتے ہیں الَّذِيْنَ : جو لوگ يَاْمُرُوْنَ : حکم کرتے ہیں بِالْقِسْطِ : انصاف کا مِنَ النَّاسِ : لوگوں سے فَبَشِّرْھُمْ : سو انہیں خوشخبری دیں بِعَذَابٍ : عذاب اَلِيْمٍ : دردناک
جو لوگ خدا کی آیتوں کو نہیں مانتے اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے رہے ہیں اور جو انصاف (کرنے) کا حکم دیتے ہیں انہیں بھی مار ڈالتے ہیں ان کو دکھ دینے والے عذاب کی خوشخبری سنادو
آیت نمبر : 21 تا 22۔ اس میں چھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ان الذین یکفرون بایت اللہ ویقتلون النبین “۔ ابو العباس المبرد نے کہا ہے : بنی اسرائیل میں سے کچھ لوگ تھے ان کے پاس انبیاء (علیہم السلام) انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے کے لئے آئے تو انہوں نے قتل کردیا اور پھر ان کے بعد مومنین میں سے کچھ لوگ اٹھے اور انہوں نے اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے انہیں قتل کردیا اور پھر ان کے بعد مومنین میں سے کچھ لوگ اٹھے، اور انہوں نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے انہیں بھی قتل کردیا، پس انہیں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور اسی طرح معقل بن ابی مسکین نے کہا ہے انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات بغیر کتاب کے بنی اسرائیل کے پاس آتے رہے اور وہ انہیں قتل کرتے رہے پر انبیاء (علیہم السلام) کے متبعین میں سے ایک گروہ اٹھا اور وہ انہیں عدل و انصاف کا درس دینے لگا تو وہ بھی قتل کئے جانے لگے، (3) (جامع البیان، جلد 2، صفحہ 253) اور حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” بری قوم وہ قوم ہے جو ان لوگوں کو قتل کرتے ہیں جو لوگوں میں سے عدل و انصاف کا حکم دیتے ہیں اور کتنی بری ہے وہ قوم جو نیکی کا حکم نہیں دیتے اور منکر سے منع نہیں کرتے اور کتنی بری قوم ہے وہ جس میں بندء مومن احتیاط اور پرہیز کے ساتھ چلتا ہے۔ (4) (الفردوس بماثور الخطاب، جلد 2، صفحہ 23، حدیث نمبر 2145) اور حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ نے بیان کیا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” بنی اسرائیل نے دن کے اول حصہ کی ایک ساعت میں تینتالیس انبیاء (علیہم السلام) کو قتل کیا، پھر بنی اسرائیل کے لوگوں میں سے ایک سو بارہ آدمی اٹھے اور انہوں نے نیکی کا حکم دیا اور برائی سے روکا تو اسی دن کے آخری حصہ میں وہ ب کے سب قتل کردیئے گئے اور وہ وہی لوگ ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے (1) (زاد المیسر، جلد 1، صفحہ 297) “ اسے المہدوی وغیرہ نے بیان کیا ہے۔ اور شعبہ نے ابو اسحاق عن ابی عبیدۃ عن عبداللہ کی سند سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ بنی اسرائیل ایک دن میں ستر انبیاء (علیہم السلام) کو قتل کرتے رہے پھر دن کے آخر میں ان کی سبزیوں کے بازار لگ گئے، (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 414 دارالکتب العلمیہ) پس کہنے والا کہے کہ وہ جنہیں یہ نصیحت کی گئی ہے انہوں نے کسی نبی کو قتل نہیں کیا ؟ـ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ ان کے فعل کے ساتھ راضی ہیں جنہوں نے قتل کیا ہے پس یہ بھی انہیں کی طرح ہوگئے اور یہ بھی کہ انہوں نے بھی حضور نبی مکرم ﷺ اور آپ کے اصحاب کے ساتھ قتال کیا اور انہوں نے ان کے قتل کا ارادہ اور قصد کیا اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” واذ یمکر بک الذین کفروا لیثبتوک او یقتلوک “۔ (الانفال : 30) ترجمہ : اور یاد کرو جب خفیہ تدبیریں کر رہے تھے آپ کے بارے میں وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تھا تاکہ آپ کو قید کردیں یا آپ کو شہید کردیں۔ مسئلہ نمبر : (2) یہ آیت اس پر دلیل ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سابقہ امتوں میں واجب تھا اور یہی رسالت کا فائدہ اور نبوت کی خلافت ہے، حسن نے بیان کیا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” جس نے نیکی کا حکم دیا یا برائی سے روکا تو وہ اللہ تعالیٰ کی زمین میں اللہ کا خلیفہ ہے اور اس کے رسول کا خلیفہ ہے اور اس کی کتاب کا خلیفہ ہے، (3) (کنز العمال، جلد 3، صفحہ 77، حدیث نمبر 5564) اور درہ بنت ابی لہب نے بیان کیا ہے ایک آدمی حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپ ﷺ منبر پر تشریف فرما تھے تو اس نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سے بہتر کون ہے ؟ـآپ ﷺ نے فرمایا : ”(وہ) جس نے انہیں نیکی کا حکم دیا اور انہیں برائی سے منع کیا اور انہیں اللہ تعالیٰ کے لئے ڈرایا اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سبب انہیں جمع اور اکٹھا کیا (4) (مسند احمد بن حنبل، جلد 6، صفحۃ 432) اور قرآن کریم میں ہے : (آیت) ” المنفقون والمنفقت بعضھم من بعض، یامرون بالمنکر وینھون عن المعروف “۔ (التوبہ : 67) ترجمہ : منافق مراد اور منافق عورتیں سب ایک جیسے ہیں حکم دیتے ہیں برائی کا اور روکتے ہیں نیکی سے۔ پس اللہ تعالیٰ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو مومنین اور منافقین کے درمیان فرق بنا دیا ہے اور یہ اس پر دلیل ہے کہ مومن کے اوصاف میں سے کا ص ترین وصف امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے اور اس کا سرخیل اسلام کی طرف دعوت دینا اور اس پر قتال کرنا ہے۔ پھر امر بالمعروف ہر ایک کے لائق اور مناسب نہیں ہوتا، بلاشبہ اسے سلطان وقت قائم کرتا ہے کیونکہ حدود کا قیام اسی کے سبب ہوتا ہے، تعزیر اس کی رائے کے سپرد ہوتی ہے، قید کرنا اور چھوڑنا اسی کے حوالے ہوتا ہے اور جلاوطنی وغیرہ کے احکام اسی کے اختیار میں ہوتے ہیں پس وہ ہر شہر میں نیک صالح، طاقتور، عالم اور امانتدار آدمی مقرر کرے گا اور اسے ان احکام کے نفاذ کا حکم دے گا اور اس طرز پر حدود بغیر کسی زیادتی کے جاری رہتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” الذین ان مکنھم فی الارض اقاموا الصلوۃ اتوا الذکوۃ وامروا بالمعروف ونھوا عن المنکر ‘۔ (الحج : 41) ترجمہ وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں اقتدار بخشیں زمین میں تو وہ صحیح صحیح ادا کرتے ہیں نماز کو اور دیتے ہیں زکوۃ اور حکم کرتے ہیں (لوگوں کو) نیکی کا اور روکتے ہیں (انہیں) برائی سے۔ مسئلہ نمبر : (3) اہل السنت کے نزدیک ناہی کے لئے عادل شرط نہیں ہے بخلاف مبتدعہ کے وہ کہتے ہیں : کسی کو عادل کے سوا کوئی تبدیل نہیں کرسکتا، یہ نظریہ ساقط الاعتبار ہے، کیونکہ عدالت تو مخلوق میں سے قلیل لوگوں میں محصور ہے اور امر بالمروف اور نہیں عن المنکر تمام لوگوں میں عام ہے اور اگر وہ اس ارشاد باری تعالیٰ سے استدلال کریں۔ (آیت) ” اتامرون الناس بالبر وتنسون انفسکم “۔ (البقرہ : 44) ترجمہ : کیا تم حکم کرتے ہو (دوسرے) لوگوں کو نیکی کا اور بھلا دیتے ہو اپنے آپ کو) اور قول باری تعالیٰ : (آیت) ” کبر مقتا عند اللہ ان تقولوا مالا تفعلون “۔ اور اسی طرح کی دیگر آیات سے، (الصف) ترجمہ : بڑی ناراضگی کا باعث ہے جس سے منع کیا گیا ہے نہ کہ یہ مذمت نہیں عن المنکر کرنے پر ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جس عمل سے منع کیا گیا ہے اسے کرنے والا اس کی نسبت زیادہ قبیح ہے جو اسے نہیں کرتا اور اسی وجہ سے وہ جہنم میں اسی طرح گھومتا رہے گا جس طرح گدھا چکی کے ساتھ گھومتا ہے، ہم نے اس کی تفصیل سورة البقرہ میں قول تعالیٰ (آیت) ” اتامرون الناس بالبر “۔ کے تحت بیان کردی ہے۔ مسئلہ نمبر : (4) مسلمانوں نے اس بارے میں اجماع کیا ہے جو ابن عبد البر نے ذکر کیا ہے کہ منکر تو کو تبدیل کرنا ہر اس پر واجب ہے جو اس پر قادر ہو اور جبکہ اس فریضہ (تغییر منکر) کی ادائیگی میں اسے ایسی ملامت اور خوف لاحق ہو جو باعث اذیت نہ ہو پھر بھی اس فریضہ کی ادائیگی اس پر واجب ہے اور اگر وہ قدرت نہ رکھتا ہو تو پھر اپنی زبان سے روکے اور اگ اس پر بھی قادر نہ ہو تو پھر اپنے دل سے (برا جانے) اس پر اس سے زیادہ کچھ نہیں، اور جب وہ اپنے دل سے برا جانے تو پھر وہ اپنے اوپر عائد ہونے والی ذمہ داری ادا کرے جب وہ اس کے سوا کچھ استطاعت نہ رکھتا ہو، بیان فرمایا : حضور نبی مکرم ﷺ سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تاکید میں بہت زیادہ احادیث مروی ہیں لیکن وہ استطاعت اور قدرت کے ساتھ مقید ہیں، حسن نے کہا ہے : بلاشبہ مومن کو امید کے لئے اور جاہل کو تعلیم کے لئے کلام کی جاتی ہے، پس وہ جس نے اپنی تلوار یا کوڑا رکھ دیا اور پھر کہا : ” اتقنی اتقنی (مجھ سے تو بچ اور ڈر) تو اس میں نہ تیرے لئے کچھ (خطرہ) ہے اور نہ اس کے لئے۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : ایسے آدمی کے بارے میں جو منکر (برائی) کو دیکھے اور اسے تبدیل کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ اپنے دل سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ اعتراف کرے کہ وہ اسے ناپسند کرتا ہے۔ (1) ابن لہیعہ نے اعرج سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” کسی مومن کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل کرے۔ “ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ اس کا اپنے آپ کو ذلیل کرنا کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :” وہ ایسی بلا اور مصیبت سے تعرض کرتا ہے جس کے لئے وہ استطاعت نہیں رکھتا۔ (2) (سنن ابن ماجہ کتاب الفتن، صفحہ 299، ایضا ابن ماجہ، حدیث نمبر 4005، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) میں (مفسر) کہتا ہوں : ابن ماجہ نے اسے علی بن زید بن جدعان عن الحسن بن جندب عن حذیفہ عن النبی ﷺ کی سند سے بیان کیا ہے۔ (1) (سنن ابن ماجہ کتاب الفتن، صفحہ 299، ایضا ابن ماجہ، حدیث نمبر 4005، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور ان دونوں میں کلام ہے، اور بعض صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے مروی ہے کہ آپ نے ارشادچش فرمایا : آدمی جب کسی برائی کو دیکھے اور وہ اسے روکنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ تین بار یہ کہے : اللھم ان ھذا منکر (اے اللہ ! بلاشبہ یہ منکر (برائی) ہے پس جب اس نے یہ کہہ دیا تو اس نے وہ کردیا جو اس پر (لازم) تھا۔ ابن عربی (رح) نے خیال کیا ہے کہ جسے برائی کے زوال کی امید ہو اور اس کی تبدیلی سے اسے اپنی ذات پر ضرب یا قتل کا خوف ہو تو اکثر علماء کے نزدیک اس خطرہ کے وقت اس کا اس مشقت میں پڑنا جائز ہے اور اگر برائی کے زوال کی امید نہ ہو تو پھر ان کے نزدیک کون سا فائدہ ہے، فرمایا : قسم بخدا میرے نزدیک جب نیت خالص ہے تو اسے چاہیے وہ اس مشقت پر پڑجائے کیفیت جو بھی ہو اور کسی کی پرواہ نہ کرے۔ (2) (احکام القرآن ابن العربی، جلد 1، صفحہ 266) میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ اس کے خلاف ہے جو ابو عمر نے اجماع کا ذکر کیا ہے اور یہ آیت قتل کا خوف ہونے کے باوجود امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے جواز پر دلالت کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” وامر بالمعروف وانہ عن المنکر واصبر علی ما اصابک “۔ (لقمان : 17) ترجمہ : نیکی کا حکم دیا کرو اور برائی سے روکتے رہو اور صبر کیا کرو ہر مصیبت پر جو تمہیں پہنچے۔ اور یہ اشارہ اذیت پہنچانے کی طرف ہے۔ مسئلہ نمبر : (5) ائمہ نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا : میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” تم میں سے جو کوئی برائی کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے روک دے اور اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھے تو پھر اپنی زبان سے روک دے اور اگر اس کی طاقت بھی نہ رکھتا ہو تو پھر اپنے دل سے (اسے براس مجھے) اور یہ کمزور ترین ایمان ہے (3) (صحیح مسلم کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 51، ایضا ابن ماجہ، باب الامر بالمعروف والنھی عن المنکر حدیث نمبر 4002، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) علماء نے کہا ہے : ہاتھ کے ساتھ امر بالمعروف امراء (حکام وقت) پر لازم ہے اور زبان کے ساتھ امر بالمعروف علماء کے ذمہ ہے اور دل کے ساتھ ضعفاء یعنی عوام الناس پر لازم ہے، پس روکنے کے لئے برائی کا ازالہ کرنا جب زبان کے ساتھ ممکن ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اسے روکے اور اگر اس کے لئے سزا یا قتال کے بغیر ازالہ ممکن نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ یہ بھی کرے، اور اگر برائی قتال کے بغیر زائل ہوجائے تو پھر قتال جائز نہیں اور یہ مفہوم اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے لیا گیا ہے : (آیت) ” فقاتلوا التی تبغی حتی تفیء الی امر اللہ “۔ (الحجرات : 9) ترجمہ : تو پھر سب (ملکر) لڑو اس سے جو زیادتی کرتا ہے یہاں تک کہ وہ لوٹ آئے اللہ کے حکم کی طرف) اور اسی پر علماء نے اس کی بنیاد رکھی ہے کہ جب کوئی کسی ذات پر یا مال پر حملہ آور کو اپنی ذات سے یا اپنے مال سے یا کسی اور کی ذات سے دور ہٹائے تو اس کا تو حق ہے لیکن اس پر کوئی شے (بطور تاوان) لازم نہیں، اگر زید نے عمر کو دیکھا کہ اس نے بکر کا مال (اٹھانے یا ضائع کرنے کا) قصد کیا ہے تو اس پر واجب ہے کہ وہ اس سے اسے روکے جبکہ مال کا مالک اس پر قادر نہ ہو اور نہ اس کے ساتھ راضی ہو، حتی کہ علماء نے کہا : اگر ہم (قصاص) بھی فرض کرلیں، اور کہا گیا ہے : ہر شہر میں جس میں چار قسم کے لوگ ہوں تو اس کے رہنے والے آزمائش اور بلا سے محفوظ رہتے ہیں، امام عادل جو ظلم نہ کرتا ہو اور عالم جو راہ ہدایت پر گامزن ہو اور مشائخ جو نیکی کا حکم دیتے ہوں اور برائی سے روکتے ہوں اور علم کے حصول اور قرآن کریم کی تعلیم پر برانگیختہ کرتے ہوں اور ان کی عورتیں پردے میں رہتی ہوں اور زمانہ جاہلیت کی طرح وہ زیب و آرائش کا اظہار نہ کرتی ہوں۔ مسئلہ نمبر : (6) حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ عرض کی گئی : یا رسول اللہ ہم کب امر بالمعروف اور نہی عن المنکرچھوڑ سکتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا : ” جب تم میں وہ ظاہر ہوجائے جو تم سے پہلی امتوں میں ظاہر ہوا۔ “ ہم نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ ہم سے پہلی امتوں میں کیا ظاہر ہوا ؟ تو آپ نے فرمایا : الملک فی صغارکم والفاحشۃ فی کبارکم والعلم فی رذالتکم (حکمرانی تمہارے چھوٹوں اور گھٹیا لوگوں میں ہو اور تمہارے بڑوں (اعلی قسم کے لوگوں) میں فحاشی عام ہوجائے اور علم تمہارے رذیل (اور کمینے) لوگوں میں ہو۔ ) زید نے بیان کیا ہے : حضور نبی مکرم ﷺ کے ارشاد کا مفہوم یہ ہے والعلم فی رذالتکم یعنی جب علم فاسق لوگوں میں آجائے، اسے ابن ماجہ نے بیان کیا ہے (1) (سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، صفحہ 299) اس باب کا مزید بیان سورة المائدہ وغیرہا میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ : اور فبشرھم اور وحبطت کا معنی سورة البقرہ میں گزر چکا ہے اعادہ کی ضرورت نہیں۔
Top