Al-Qurtubi - Az-Zumar : 10
قُلْ یٰعِبَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّكُمْ١ؕ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةٌ١ؕ وَ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ١ؕ اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ
قُلْ : فرمادیں يٰعِبَادِ : اے میرے بندو الَّذِيْنَ : جو اٰمَنُوا : ایمان لائے اتَّقُوْا : تم ڈرو رَبَّكُمْ ۭ : اپنا رب لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جنہوں نے اَحْسَنُوْا : اچھے کام کیے فِيْ : میں هٰذِهِ الدُّنْيَا : اس دنیا حَسَنَةٌ ۭ : بھلائی وَاَرْضُ اللّٰهِ : اور اللہ کی زمین وَاسِعَةٌ ۭ : وسیع اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يُوَفَّى : پورا بدلہ دیا جائے گا الصّٰبِرُوْنَ : صبر کرنے والے اَجْرَهُمْ : ان کا اجر بِغَيْرِ حِسَابٍ : بےحساب
کہہ دو کہ اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو اپنے پروردگار سے ڈرو جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے اور خدا کی زمین کشادہ ہے جو صبر کرنے والے ہیں ان کو بیشمار ثواب ملے گا
اے محمد ! ﷺ میرے مومن بندوں سے کہہ دو : اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے بچو اتقوا میں تاء وائو کا بدل ہے۔ یہ بحث پہلے گزر چکی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : اس کے مصداق ہضرت جعفر بن ابی طالب ؓ اور صحابہ کرام ہیں جنہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ للذین احسنوا فی ھذا الدنیا حسنۃ حسنہ اولی سے مراد طاعت اور دوسری سے مراد جنت میں ثواب ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : معنی ہے جنہوں نے دنیا میں نیکی کی ان کے لئے دنیا میں نیکی ہے تو یہ آخرت کے ثواب سے زیادہ ہے (1) دنیا میں زائد حسنہ سے مراد صحت ‘ عافیت ‘ کامیابی اور غنیمت ہے۔ قشیری نے کہا : پہلا قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ کافر نے دنیاوی نعمتیں تو حاصل کی ہیں۔ میں کہتا ہوں : کافر کے ساتھ مومن بھی دنیاوی نعمتیں حاصل کرتا ہے جب وہ ان نعمتوں پر سکر بجا لاتا ہے تو اس کے لئے جنت میں زائد نعمتیں دی جاتی ہیں۔ دنیا میں نعمت اچھی تعریف اور آخرت میں جزا ہے (2) ۔ و ارض اللہ واسعۃ تم اس میں ہجرت کرو اور جو آدمی نافرمانیاں کرتا ہے تم اس کے ساتھ مقیم نہ رہو۔ اس بارے میں بحث سورة النساء میں مفصل گزر چکی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد جنت کی زمین ہے اللہ تعالیٰ نے اس کی وسعت اور نعمتوں میں رغبت دلائی ہے جس طرح فرمایا : و جنۃ عرضھا السموت والارض) آل عمران (133: جنت کو بعض اوقات ارض کہہ دیتے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : و قالوا الحمد للہ الذی صدقنا وعدہ و اور ثنا الارض نتبوا من الجنۃ حیث نشاء) الزمر (74: پہلا قول زیادہ مناسب و موزوں ہے۔ یہ ہجرت کا حکم ہے یعنی تم مکہ سے اس جگہ کی طرف ہجرت کر جائو جہاں تمہیں امن ہو۔ ماوردی نے کہا : یہ بھی احتمال ہے وسعت ارض سے مراد رزق کی وسعت ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نہیں رزاق زمین سے ہی عطا کرتا ہے تو اس کا معنی ہوگا اللہ تعالیٰ کا رزق وسیع ہے ‘ یہ زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس کی وسعت کو احسان جتلانے کے انداز میں ذکر کیا۔ میں کہتا ہوں : یہ آیت اس امر پر دلیل ہے کہ تم مہنگے علاقے سے سستے علاقے کی طرف چلے جائو جس طرح حضرت سفیان ثوری نے کہا : تو وہاں رہ ‘ جہاں اہک درہم سے روتیوں کا تھیلا بھر لے۔ انام ایوفی الصبرون اجرھم بعیر حساب۔ بغیر اندازے کے انہیں پورا اجر دیا جائے گا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ انہیں زیادہ ثواب دیا جائے گا کیونکہ اگر ان کو عمل کے مطابق عطا کیا جائے تو یہ حساب کے مطابق ہوگا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : بعیر حساب کا معنی ہے بغیر مطالبہ کے انہیں اجر دیا جائے گا جس طرح دنیاوی نعمتوں کے بارے میں مطالبہ کیا جاتا ہے۔ الصبرون سے یہاں مراد روزے دار ہیں ‘ اس کی دلیل حضور ﷺ کا یہ فرمان ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کی خبر دی گئی ہے الصوم لی و انا اجزی بہ روزہ میرے لئے ہے اور میں خود اس کی جزا دیتا ہوں۔ علماء نے کہا : ہر اجر کا کیل اور وزن کیا جاتا ہے مگر روزہ اس کا اجر دونوں ہاتھوں سے بعیر حساب کے دیا جاتا ہے (1) ‘ حضرت علی شیر خدا سے بھی یہی مروی ہے۔ مالک بن انس نے اللہ تعالیٰ کے فرمان : انما یونوتی الصبرون اجرھم بغیر ہساب کے بارے میں فرمایا : اس سے مراد دنیا کے مصائب اور اکزان پر صبر ہے۔ اس میں کوئی سک نہیں جس نے ہر علم کے سامنے سر تسلیم خم کردیا اور جس سے منع کیا گیا تھا اس کو چھوڑ دیا تو اس کے اجر کی کوئی مقدار نہیں۔ قتادہ نے کہا : اللہ کی قسم ! وہاں کوئی پیمانہ اور ترازو نہ ہوگا۔ حضرت انس ؓ نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان کیا : ” ترازو گاڑھے جائیں گے صدقہ کرنے والوں کو لایا جائے گا تو ترازوں سے انہیں پورا اجر دیا جائے گا) (2 اس طرح اور حج کا معاملہ ہے مصیبت کے شکار لوگوں کو لایا جائے گا نہ ان کے لئے ترازو نصب کیا جائے گا نہ ان کے لئے دیوان کھولا جائے گا ان کے لئے اجر بغیر حساب کے انڈیلا جائے گا اللہ تعالیٰ نے فرمایا : انما یوفی الصبرون اجرھم بغیر حساب یہاں تک کہ دنیا میں سلامتی سے رہنے والے آرزو کریں گے کہ ان کے جسم قینچیوں سے کاٹے جائیں اس آرزو کی وجہ مصائب کا شکار لوگوں کی فضیلت ہوگی “۔ حضرت حسین بن علی ؓ سے مروی ہے کہ میں نے اپنے نانا رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : ” فرائض کو ادا کر تو لوگوں میں سے زیادہ عبادت گزار ہوجائے تجھ پر قناعت کرنا لازم ہے تو لوگوں میں سب سب سے غنی ہوجائے گا۔ اے بیٹے ! جنت میں ایک درخت ہے جسے شجرہ بلوی کہتے ہیں اہل بلاء کو بلایا جائے گا ان کے لئے ترازو نصب نہیں کیا جائے گا ان کے دیوان کو نہیں پھیلایا جائے گا ان پر اجرانڈیلا جائے گا “ پھر نبی کریم ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی : انما یوفی الصبرون اجرھم بغیر حساب۔ لفظ صابر کے ساتھ مدح کی جاتی ہے یہ اس شخص کے لئے بولا جاتا ہے جو نافرمانیوں سے صبر کرے جب تو یہ ارادہ کرے کہ اس نے مصیبت پر صبر کیا ہے تو کہے گا : صابر علی کذا ‘ یہ نحاس کا قول ہے۔ سورة بقرہ میں یہ بحث مفصل گزر چکی ہے۔
Top