Al-Qurtubi - An-Nisaa : 100
وَ مَنْ یُّهَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرٰغَمًا كَثِیْرًا وَّسَعَةً١ؕ وَ مَنْ یَّخْرُجْ مِنْۢ بَیْتِهٖ مُهَاجِرًا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ثُمَّ یُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَ قَعَ اَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۠   ۧ
وَمَنْ : اور جو يُّھَاجِرْ : ہجرت کرے فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ يَجِدْ : وہ پائے گا فِي : میں الْاَرْضِ : زمین مُرٰغَمًا كَثِيْرًا : بہت (وافر) جگہ وَّسَعَةً : اور کشادگی وَمَنْ : اور جو يَّخْرُجْ : نکلے مِنْ : سے بَيْتِهٖ : اپنا گھر مُھَاجِرًا : ہجرت کر کے اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول ثُمَّ : پھر يُدْرِكْهُ : آپکڑے اس کو الْمَوْتُ : موت فَقَدْ وَقَعَ : تو ثابت ہوگیا اَجْرُهٗ : اس کا اجر عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اور جو شخص خدا کی راہ میں گھر بار چھوڑ جائے اوہ زمین میں بہت سی جگہ اور کشائش پائے گا اور جو شخص خدا اور رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے پھر اس کو موت آپکڑے تو اس کا ثواب خدا کے ذمے ہوچکا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
آیت نمبر : 100۔ اس میں پانچ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) (آیت) ” ومن یھاجر فی سبیل اللہ یجد “۔ یہ شرط اور جواب شرط ہے۔ (آیت) ” فی الارض مرغما “۔ المراغم کی تاویل میں اختلاف ہے، مجاہد نے کہا : المراغم سے مراد بچنے کی جگہ ہے (1) (تفسیر مجاہد، جلد 1، صفحہ 57، دارالکتب العلمیہ) حضرت ابن عباس ؓ ، ضحاک ؓ اور ربیع ؓ وغیرہم نے کہا : اس سے مراد گھومنے کی جگہ اور راستہ ہے۔ (2) (تفسیر الماوردی جلد 1، صفحہ 522، درالکتب العلمیہ) ابن زید نے کہا : المراغم سے مراد ہجرت گاہ ہے۔ (3) (تفسیر الماوردی جلد 1، صفحہ 522، درالکتب العلمیہ) یہ ابوعبیدہ ؓ کا قول ہے، نحاس نے کہا : یہ تمام اقوال ہم معنی ہیں، المراغم ہجرت کی حالت میں چلنا ہے، اس سے مراد وہ جگہ ہے جس میں سفر کیا جاتا ہے، یہ الرغام سے مشتق ہے، رغم انف فلان، یعنی اس کا ناک خاک آلود ہوا، راغبت فلانا میں نے اسے چھوڑ دیا اور اس سے دشمنی کی اور اس کی ناک خاک آلود ہونے کی مجھے کوئی پرواہ نہیں، بعض علماء نے فرمایا : ہجرت گاہ کو مہاجر اور مراغم اس لیے کہا جاتا ہے، کیونکہ جب آدمی اسلام قبول کرتا ہے تو وہ اپنی قوم سے دشمنی کرتا ہے اور انہیں چھوڑ دیتا ہے پس اس کے نکلنے کو مراغما کہا جاتا ہے، نبی مکرم ﷺ کی طرف جانے کو ہجرت کہا جاتا ہے، سدی نے کہا : المراغم وہ جگہ جہاں معیشت کو تلاش کیا گیا ہو (1) (تفسیر الماوردی جلد 1، صفحہ 522، درالکتب العلمیہ) ابن القاسم نے کہا : میں نے امام مالک (رح) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ المراغم کا معنی زمین میں چلنا ہے (2) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 1، صفحہ 483) یہ تمام تفسیر بالمعنی ہے اور ایک دوسرے کے قریب قریب معانی ہیں اور لفظ کے اعتبار سے خاص مراغم، ناک کو خاک آلود کرنے کی جگہ کو کہتے ہیں جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے، ہر دو جھگڑنے والے اپنے مخالف کی ناک کو خاک آلود کرتے ہیں، کیونکہ وہ اسے اپنی مراد کے سلسلہ میں مغلوب کردیتا ہے، کفار قریش گویا محبوسین کی ناکوں کو مکہ میں خاک آلود کیے ہوتے تھے پھر اگر ان میں سے کوئی ہجرت کرتا تو وہ قریش کی ناک کو خاک آلود کرتا، کیونکہ وہ ان سے محفوظ ہوجاتا تھا، یہ منفعت و حفاظت مراغمۃ کی جگہ ہے۔ اسی سے نابغہ کا قول ہے : کطود یلاذ بار کا نہ المراغم والمھرب : (3) (تفسیر الماوردی جلد 1، صفحہ 522، درالکتب العلمیہ) مسئلہ نمبر : (2) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وسعۃ “۔ یعنی رزق میں کشادگی، یہ حضرت ابن عباس ؓ ، ربیع ؓ اور ضحاک ؓ کا قول ہے۔ قتادہ ؓ نے کہا : اس کا معنی گمراہی سے ہدایت کی طرف اور مفلسی سے غنا کی طرف جانے میں کشادگی ہے، امام مالکرحمۃ اللہ علیہ نے کہا : اس سے مراد شہروں کی وسعت ہے، یہ فصاحت عرب کے زیادہ مشابہ ہے، کیونکہ زمین کی وسعت اور کثرت سے پناہ گاہوں کی وجہ سے رزق میں وسعت ہوتی ہے اور سینہ رزق کے ارادہ اور فکر کے لیے کشادہ ہوجاتا ہے اس کے علاوہ کشادگی کی صورتیں پیدا ہوتی ہیں اسی مفہوم میں شاعر کا قول ہے : وکنت اذ اخلیل رام قطعی وجدت وراء منفسحا عریضا : (4) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 101 دارالکتب العلمیہ) ایک اور شاعر نے کہا : لکان لی مضطرب واسع فی الارض ذات الطول والعرض : (5) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 101 دارالکتب العلمیہ) مسئلہ نمبر : (3) امام مالک (رح) نے فرمایا : یہ آیت دلیل ہے کہ کسی کے لیے وہاں ٹھہرنا جائز نہیں جہاں سلف صالحین کو گالی دی جاتی ہوں اور ناجائز اعمال کیے جاتے ہوں، فرمایا : المراغم، زمین میں چلنا مراد ہے، السعۃ سے مراد شہروں کی وسعت ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ بعض علماء نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ مجاہد جب جہاد کے لیے نکلے پھر قتال سے پہلے مر جائے تو اس کے لیے مال غنیمت میں حصہ ہوگا اگرچہ وہ جنگ میں شریک نہ بھی ہو، یہ ابن لہیعۃ نے یزید بن ابی حبیب سے اور انہوں نے اہل مدینہ سے روایت کیا ہے اور یہ ابن المبارک سے بھی مروی ہے۔ مسئلہ نمبر : (4) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ومن یخرج من بیتہ مھاجرا الی اللہ ورسولہ “۔ حضرت ابن عباس ؓ کے غلام عکرمہ ؓ نے کہا : میں نے اس ہجرت کرنے والے کا چودہ سال نام تلاش کیا حتی کہ میں نے وہ پالیا، عکرمہ ؓ کے اس قول میں اس علم کے شرف پر دلیل ہے اور اس کا اہتمام عمدہ ہے اور اس کی معرفت فضیلت ہے، اسی طرح کا قول حضرت ابن عباس ؓ کا ہے : میں کئی سال ٹھہرا رہا میں حضرت عمر ؓ سے ان دوعورتوں کے نام پوچھنا چاہتا تھا جنہوں نے رسول اللہ ﷺ پر ایکا کرلیا تھا اور مجھے پوچھنے سے مانع حضرت عمر ؓ کی ہیبت تھی۔ اور عکرمہ نے جس کا ذکر کیا ہے وہ ضمرہ بن عیص یا عیص بن ضمرہ بن زنباع ہے۔ طبری نے یہ سعید بن جبیر ؓ سے حکایت کیا ہے۔ (1) (زاد المسیر فی علم التفسیر جلد 1، صفحہ 107) اسے ضمیرہ بھی کہا جاتا تھا، کہا جاتا ہے : جندع بن ضمیرہ بنی لیث سے تھا اور یہ مکہ میں بےبس لوگوں میں سے تھا اور یہ مریض تھا جب اس نے ہجرت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد سنا تو کہا : مجھے نکالو، اس کے لیے بستر تیار کیا گیا پرھ اس کو اس پر ڈالا گیا، اسے نکالا گیا تو وہ راستہ میں تنعیم کے مقام پر فوت ہوگیا تو اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” ومن یخرج من بیتہ مھاجرا “۔ ابو عمر نے ذکر کیا ہے کہ اس کے متعلق یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ خالد بن حزام بن خویلد بن اخی خدیجہ تھا، اس نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی راستے میں اسے ایک سانپ نے ڈس لیا تھا تو وہ حبشہ پہنچنے سے پہلے ہی فوت ہوگیا، اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ واللہ اعلم۔ ابو الفرض جوزی نے کہا : وہ حبیب بن ضمرہ تھا، بعض نے کہا : وہ ضمرہ بن جندب ضمری تھا، یہ سدی سے مروی ہے، عکرمہ ؓ سے حکایت کیا گیا ہے کہ وہ جندب بن ضمرہ جندعی تھا (2) (تفسیر طبری جلد 5، صفحہ 280) ابن جابر سے حکایت کیا گیا ہے کہ وہ ضمرہ بن بغیض تھا جو بنی لیث سے تھا، مہدوی نے حکایت کیا ہے کہ وہ ضمرہ بن ضمرہ بن نعیم تھا (3) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 101 دارالکتب العلمیہ) بعض نے فرمایا : ضمرہ بن خزاعہ تھا۔ واللہ اعلم۔ معمر نے قتادہ ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : جب (آیت) ” ان الذین توفھم الملئکۃ ظالمی انفسھم “۔ کا ارشاد نازل ہوا تو مسلمانوں میں سے ایک مریض شخص نے کہا : اللہ کی قسم ! میرے لیے کوئی عذر ہے ؟ میں راستہ جاننے والا ہوں، میں خوشحال بھی ہوں مجھے اٹھا کرلے جاؤ پس لوگ اسے اٹھا کر چلے تو راستے میں اسے موت آگئی۔ (تفسیر طبری جلد 5، صفحہ 280) نبی کریم ﷺ کے اصحاب نے کہا : اگر وہ ہم تک پہنچتا تو اس کو اجر مکمل ہوتا وہ تنعیم میں فوت ہوگیا تھا، اس کے بیٹے نبی مکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے سارا واقعہ عرض کیا اس وقت یہ آیت نازل ہوئی : (آیت) ” ومن یخرج۔۔۔۔۔ الخ “۔ اس کا نام ضمرہ بن جندب تھا، جندب بن ضمرہ بھی کہا جاتا ہے، (آیت) ” وکان اللہ غفورا “۔ جو پہلے شرک کیا تھا اسے بخشنے والا ہے۔ (آیت) ” رحیما “۔ توبہ قبول فرما کر رحمت کا مظاہرہ فرماتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (5) ابن عربی (رح) نے کہا : علماء نے زمین میں سفر کرنے کی دو قسمیں بنائی ہیں۔ (1) بھاگ جانا۔ (2) طلب کرنا۔ پہلی قسم چھ قسموں میں تقسیم ہوتی ہے۔ (1) ہجرت یہ دارالحرب سے دارالسلام کی طرف نکلنا ہے، نبی مکرم ﷺ کے دور میں یہ فرض تھی یہ ہجرت قیامت تک فرض باقی ہے اور جو ہجرت فتح مکہ کے ساتھ ختم ہوگئی وہ نبی مکرم ﷺ کا قصد کرنا ہے، انسان جہاں بھی ہو اس کو دارالحرب سے دارالسلام کی طرف ہجرت کرنا فرض ہے۔ اگر وہ دارالحرب میں باقی رہے گا تو گنہگار ہوگا، اس کی حالت مختلف ہوتی ہے۔ (2) ایسی زمین سے نکلنا جہاں بدعات ہوتی ہوں، ابن القاسم (رح) نے کہا : میں نے امام مالک (رح) کو یہ فرماتے سنا کہ کسی کے لیے ایسی جگہ ٹھہرنا حلال نہیں جہاں سلف صالحین کو برا بھلا کہا جاتا ہو۔ ابن عربی (رح) نے کہا : یہ صحیح ہے برائی کو بدلنے پر جب تو قادر نہ ہو تو وہاں سے چلا جا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” واذا رایت الذین یخوضون فی ایتنا فاعرض عنھم حتی یخوضوا فی حدیث غیرہ “۔ واما ینسینک الشیطن فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظلمین “۔ (الانعام) اور جب تو دیکھے انہیں جو پڑھیں ہماری آیتوں میں تو منہ پھیرلے ان سے الخ۔ (3) ایسی جگہ سے نکلنا جہاں حرام غالب ہو، کیونکہ حلال کا طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ (4) ایسی جگہ سے نکلنا جہاں جسمانی اذیت ہو، یہ اللہ کا فضل ہے اس نے اس میں رخصت دی، جب اسے اپنے اوپر خوف ہو تو اللہ تعالیٰ نے وہاں سے نکلنے کی اجازت دی ہے اور اسے بھاگ جانے کی اجازت دی ہے کہ ممنوع سے اپنے آپ کو بچا لے سب سے پہلے یہ فعل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کیا تھا جب انہیں اپنی قوم سے اذیت دینے کا اندشہ ہوا آپ نے کہا تھا۔ (آیت) ” انی مھاجر الی ربی “۔ (العنکبوت : 26) اور فرمایا (آیت) ” انی ذاھب الی ربی سیھدین “۔ (الصافات) اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے خبر دیتے ہوئے فرمایا : (آیت) ” فخرج منھا خائفا یترقب “۔ (القصص : 21) تو وہ نکلا اس شہر سے ڈرتے ہوئے، انتظار کرتے ہوئے۔ (5) مضر صحت ہوا والے شہروں میں مرض کا خوف ہو اور ان شہروں سے پر فضا مقام کی طرف جانا، نبی مکرم ﷺ نے چرواہوں کے لیے اجازت دی تھی جب انہیں مدینہ طیبہ کی ہوا راس نہ آئی تھی کہ وہ چراگاہ کی طرف جائیں اور ٹھیک ہونے تک وہاں رہیں۔ اس خروج سے طاعون کی وجہ سے نکلنے سے استثنا کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ نے طاعون کی جگہ سے نکلنے منع فرمایا ہے حدیث صحیح نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے، اس کا بیان سورة بقرہ میں گزر چکا ہے مگر ہمارے علماء فرماتے ہیں یہ مکروہ ہے۔ (6) مال میں اذیت کے خوف سے فرمایا ہونا، کیونکہ مسلمان کے مال کی حرمت اس کے خون کی حرمت کی طرح ہے اور اہل کی حرمت اس کی مثل مزید مؤکد ہے اور رہی طلب کی قسم تو اس کی دو قسمیں ہیں، دین کی طلب اور دنیا کی طلب، دین کی طلب، اپنی انواع کے متعدد ہونے کی وجہ سے سات قسموں کی طرف منقسم ہوتی ہے۔ (1) عبرت حاصل کرنے کے لیے سفر کرنا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” اولم یسیروا فی الارض فینظروا کیف کان عاقبۃ الذین من قبلھم “۔ (الروم : 9) (کیا انہوں نے سفر کیا زمین میں کہ دیکھتے کہ کیسا ہوا انجام ان لوگوں کا جو ان سے پہلے تھے) یہ بہت زیادہ ہے۔ کہا جاتا ہے : ذوالقرنین نے زمین کا چکر لگایا تھا تاکہ اس کے عجائبات کو دیکھے، بعض نے فرمایا : تاکہ اس میں حق کا نفاذ کرے۔ (2) سفر حج، پہلی صورت مستحب تھی، یہ فرض ہے۔ (3) جہاد کا سفر اس کے لیے احکام ہیں۔ (4) معاش کے لیے سفر، کبھی انسان کے ایک جگہ ٹھہرے رہنے کی وجہ سے اس کی معیشت تنگ ہوجاتی ہے پس وہ اس کی طلب میں نکلے، اس پر زیادتی نہ کرے خواہ وہ شکار کے لیے جائے یا لکڑیاں اکٹھی کرنے کے لیے جائے یا گھاس کے لیے جائے یہ اس پر فرض ہے۔ (5) تجارت اور قوت سے زائد کمائی کے لیے نکلنا یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم “۔ (بقرہ : 198) نہیں ہے تم پر کوئی حرج کہ تم تلاش کرو فضل اپنے رب کا۔ یہ نعمت ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے سفر حج میں احسان فرمایا : انفرادی طور پر کیسے جائز نہ ہوگی (جب حج میں جائز ہے۔ (6) علم کے طلب کرنے کے لیے سفر کرنا یہ مشہور ہے۔ (7) مخصوص مقامات شریفہ کا قصد کرنا، نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : لا تشد الرحال الا الی ثلاثۃ مساجد “۔ (1) (صحیح مسلم، فضل المساجد الثلاثۃ جلد 1، صفحہ 447) سفر نہ کیا جائے مگر تین مساجد کی طرف۔ (8) سرحدوں کی حفاظت کے لیے سفر کرنا۔ (9) رضاء الہی کے لیے بھائیوں کی زیارت کرنا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” ایک آدمی کسی شہر میں اپنے بھائی کی زیارت کے لیے گیا اللہ تعالیٰ نے اس کے راستہ پر ایک فرشتہ مقرر فرمایا، اس نے پوچھا : تو کہاں کا ارادہ کرتا ہے ؟ وہ کہتا ہے : میرا اس شہر میں بھائی ہے میں اس سے اللہ کی رضا کے لیے محبت کرتا ہوں۔ اس فرشتے نے کہا : میں تیری طرف اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے والا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تجھ سے ایسی ہی محبت فرمائی جیسی تو نے اپنے بھائی سے محبت کی “ (2) (صحیح مسلم البر والصلۃ والادب، جلد 2 صفحہ 317، صحیح بخاری، حدیث 1115، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اس حدیث کو مسلم وغیرہ نے روایت کیا ہے۔
Top