Tafheem-ul-Quran - An-Nisaa : 100
وَ مَنْ یُّهَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرٰغَمًا كَثِیْرًا وَّسَعَةً١ؕ وَ مَنْ یَّخْرُجْ مِنْۢ بَیْتِهٖ مُهَاجِرًا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ثُمَّ یُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَ قَعَ اَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۠   ۧ
وَمَنْ : اور جو يُّھَاجِرْ : ہجرت کرے فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ يَجِدْ : وہ پائے گا فِي : میں الْاَرْضِ : زمین مُرٰغَمًا كَثِيْرًا : بہت (وافر) جگہ وَّسَعَةً : اور کشادگی وَمَنْ : اور جو يَّخْرُجْ : نکلے مِنْ : سے بَيْتِهٖ : اپنا گھر مُھَاجِرًا : ہجرت کر کے اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول ثُمَّ : پھر يُدْرِكْهُ : آپکڑے اس کو الْمَوْتُ : موت فَقَدْ وَقَعَ : تو ثابت ہوگیا اَجْرُهٗ : اس کا اجر عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں پناہ لینے کے لیے بہت جگہ اور بسر اوقات کے لیے بڑی گنجائش پائے گا، اور جو اپنے گھر سے اللہ اور رسُول کی طرف ہجرت کے لیے نکلے، پھر راستہ ہی میں اُسے موت آجائے اُس کا اجر اللہ کے ذمّے واجب ہوگیا، اللہ بہت بخشش فرمانے والا اور رحیم ہے۔131
سورة النِّسَآء 131 یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جو شخص اللہ کے دین پر ایمان لایا ہو اس کے لیے نظام کفر کے تحت زندگی بسر کرنا صرف دو ہی صورتوں میں جائز ہوسکتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ اسلام کو اس سرزمین میں غالب کرنے اور نظام کفر کو نظام اسلام میں تبدیل کرنے کی جدوجہد کرتا رہے جس طرح انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے ابتدائی پیرو کرتے رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ درحقیقت وہاں سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پاتا ہو اور سخت نفرت و بیزاری کے ساتھ وہاں مجبورانہ قیام رکھتا ہو۔ اس دو صورتوں کے سوا ہر صورت میں دارالکفر کا قیام ایک مستقل معصیت ہے اور اس معصیت کے لیے یہ عذر کوئی بہت وزنی عذر نہیں ہے کہ ہم دنیا میں کوئی ایسا دار الاسلام پاتے ہی نہیں ہیں جہاں ہم ہجرت کر کے جاسکیں۔ اگر کوئی دار الاسلام موجود نہیں ہے تو کیا خدا کی زمین میں کوئی پہاڑ یا کوئی جنگل بھی ایسا نہیں ہے جہاں آدمی درختوں کے پتے کھا کر اور بکریوں کا دودھ پی کر گزر کرسکتا ہو اور احکام کفر کی اطاعت سے بچا رہے ؟ بعض لوگوں کو ایک حدیث سے غلط فہمی ہوئی ہے جس میں ارشاد ہوا ہے کہ لا ھجرۃ بعد الفتح، یعنی فتح مکہ کے بعد اب ہجرت نہیں ہے۔ حالانکہ دراصل یہ حدیث کوئی دائمی حکم نہیں ہے بلکہ صرف اس وقت کے حالات میں اہل عرب سے ایسا فرمایا گیا تھا۔ جب تک عرب کا بیشتر حصہ دارالکفر و دارالحرب تھا اور صرف مدینہ و اطراف مدینہ میں اسلامی احکام جاری ہو رہے تھے، مسلمانوں کے لیے تاکیدی حکم تھا کہ ہر طرف سے سمٹ کر دار الاسلام میں آجائیں۔ مگر جب فتح مکہ کے بعد عرب میں کفر کا زور ٹوٹ گیا اور قریب قریب پورا ملک اسلام کے زیر نگیں آگیا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اب ہجرت کی حاجت باقی نہیں رہی ہے۔ اس سے یہ مراد ہرگز نہ تھی کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے تمام حالات میں قیامت تک کے لیے ہجرت کی فرضیت منسوخ ہوگئی ہے۔
Top