Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 100
وَ مَنْ یُّهَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرٰغَمًا كَثِیْرًا وَّسَعَةً١ؕ وَ مَنْ یَّخْرُجْ مِنْۢ بَیْتِهٖ مُهَاجِرًا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ثُمَّ یُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَ قَعَ اَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۠   ۧ
وَمَنْ : اور جو يُّھَاجِرْ : ہجرت کرے فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ يَجِدْ : وہ پائے گا فِي : میں الْاَرْضِ : زمین مُرٰغَمًا كَثِيْرًا : بہت (وافر) جگہ وَّسَعَةً : اور کشادگی وَمَنْ : اور جو يَّخْرُجْ : نکلے مِنْ : سے بَيْتِهٖ : اپنا گھر مُھَاجِرًا : ہجرت کر کے اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول ثُمَّ : پھر يُدْرِكْهُ : آپکڑے اس کو الْمَوْتُ : موت فَقَدْ وَقَعَ : تو ثابت ہوگیا اَجْرُهٗ : اس کا اجر عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اور جو شخص اللہ کی راہ میں وطن چھوڑے وہ زمین میں جانے کی بہت سی جگہ پائے گا اور اسے بہت کشادگی ملے گی، اور جو شخص اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرنے کی نیت سے نکل کھڑا ہو پھر اس کو موت آپکڑے تو یقینی طور پر اس کا ثواب اللہ کے ذمہ ثابت ہوگیا اور اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
فی سبیل اللہ ہجرت کرنے والوں کے لیے وعدے لباب النقول صفحہ 79 میں حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ حضرت سمرہ بن جندب نے ہجرت کی نیت سے نکلنے کا ارادہ کیا اپنے گھر والوں سے کہا کہ مجھے سواری پر سوار کر دو اور مشرکین کی سر زمین کے سے نکال دو میں رسول اللہ ﷺ تک پہنچ جاؤں جب وہ روانہ ہوگئے تو راستے میں موت آگئی آنحضرت سرور عالم ﷺ تک نہیں پہنچ سکے آپ پر وحی کا نزول ہوا اور آیت بالا نازل ہوئی۔ دوسرا واقعہ ابو ضمرہ زرقی کا نقل کیا ہے وہ مکہ معظمہ میں مشرکین میں پھنسے ہوئے تھے جب آیت کریمہ (اِلاَّالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الْوِلْدَانِ لاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ حِیْلَۃً ) نازل ہوئی تو انہوں نے کہا کہ میں مالدار ہوں میں نکلنے کی تدبیر کرسکتا ہوں لہٰذا انہوں نے ہجرت کا سامان تیار کیا اور آنحضرت ﷺ تک پہنچنے کے ارادے سے نکل کھڑے ہوئے ان کو مقام تنعیم میں موت آگئی (جو حرم سے قریب ترجگہ ہے) اس پر آیت بالا (وَ مَنْ یَّخْرُجْ مِنْ بَیْتِہٖ مُھَا جِرًا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ ) نازل ہوئی اور ایک واقعہ خالد بن حرام ؓ کا لکھا ہے، وہ حبشہ سے (مدینہ منورہ آنے کے لیے) روانہ ہوئے راستے میں ان کو سانپ نے کاٹ لیا جس کی وجہ سے موت ہوگئی اس پر آیت بالانازل ہوئی، صاحب لباب النقول نے اسی طرح کا ایک واقعہ اکثم بن صیفی کا بھی نقل کیا ہے کسی آیت کے اسباب نزول متعدد بھی ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا ان میں کوئی تعارض نہیں۔ پھر یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ سبب نزول اگرچہ وہ واقعات ہیں جو اوپر مذکور ہوئے لیکن آیت کا مفہوم عام ہے۔ اس میں واضح طور پر اعلان فرما دیا کہ جو کوئی شخص اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کے لیے نکل کھڑا ہو اور اس کا مقصد صرف اللہ کی رضا ہو دین ایمان کو بچانا چاہتا ہو تو اس کا یہ سچی نیت سے نکل کھڑا ہونا ہی باعث اجر وثواب بن گیا اگرچہ وہاں تک نہ پہنچ سکا جہاں تک اس کو پہنچنا تھا۔ راستے میں موت ہوجانے کی وجہ سے مقصد ظاہری تک تو نہ پہنچ پایا لیکن حقیقی مقصد حاصل ہوگیا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا ثواب لکھ دیا گیا اور اس کی ہجرت منظور ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ بہت بڑے مغفرت والے اور بہت بڑے رحیم ہیں اچھی نیت پر بھی ثواب عطا فرما دیتے ہیں اگرچہ عمل ابھی پورا نہ بھی ہوا ہو۔ لفظ ہجرت عربی زبان میں چھوڑ دینے کو کہتے ہیں اور شرعی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کے دین پر عمل کرنے کے لیے اپنا وطن چھوڑ کر کوئی دوسرا وطن اختیار کرنے کو ہجرت کہا جاتا ہے بعض مرتبہ مومن بندے کفر کے ماحول سے جان چھڑانے کے لیے خود سے وطن چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور بعض مرتبہ اہل کفران کو وطن سے نکال دیتے ہیں۔ ان دونوں صورتوں پر ہجرت صادق آتی ہے۔ آنحضرت سرور عالم ﷺ نے اور آپ کے ساتھ بہت سے صحابہ نے مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی اور بھی مختلف علاقوں سے صحابہ کرام ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے اس کے بعد بھی مختلف ادوار اور مختلف ازمان میں ہجرت کے واقعات پیش آتے رہے ہیں، چونکہ ہجرت میں بہت سخت تکلیف ہوتی ہے آبائی وطن چھوڑنا پڑتا ہے۔ جائیدادوں سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ اعزہ و اقرباء جدا ہوجاتے ہیں۔ ہجرت کا ثواب : اس لیے اس بڑے عمل کا ثواب بھی بہت بڑا ہے۔ سورة آل عمران کے آخری رکوع میں فرمایا : (فَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا وَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَ اُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَ قٰتَلُوْا وَ قُتِلُوْا لَاُکَفِّرَنَّ عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھِمْ وَ لَاُدْخِلَنَّھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الثَّوَابِ ) (سو جن لوگوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور انہیں میری راہ میں تکلیفیں دی گئیں اور انہوں نے قتال کیا اور مقتول ہوئے میں ضرور ان کی خطاؤں کا کفارہ کر دوں گا اور ضرور ان کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی یہ انہیں بدلہ ملے گا اللہ کے پاس سے اور اللہ ہی کے پاس اچھا بدلہ ہے) اور سورة بقرہ میں فرمایا (اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا وَجَاھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُولٰٓءِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَۃَ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ) (بلاشبہ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور جہاد کیا اللہ کی راہ میں وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امید وار ہیں اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے) ۔ سورة توبہ میں فرمایا (اَنَّ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ ھَاجَرُوْا وَجٰھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ اَعْظَمُ دَرَجَۃً عِنْدَ اللّٰہِ وَ اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْفَآءِزُوْنَ ) (جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ نے راہ میں ہجرت کی اور جہاد کیا وہ اللہ تعالیٰ نے نزدیک بڑے درجہ والے ہیں اور یہی لوگ کامیاب و با مراد ہیں) ۔ اور سورة نحل میں فرمایا (وَ الَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا فِی اللّٰہِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّءَنَّھُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ) (جن لوگوں نے اللہ کے لیے ہجرت کی اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا ہم ان کو دنیا میں اچھا ٹھکانا دیں گے۔ اور آخرت کا ثواب بڑا ہے کاش یہ لوگ سمجھ لیتے) ۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ ہجرت اور جہاد دونوں کی شریعت اسلامیہ میں بڑی اہمیت ہے ان دونوں کی برکات بھی بہت ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص اللہ کے لیے ہجرت کرے گا اس کو ضرور ہی کسی نہ کسی جگہ ٹھکانہ مل جائے گا اور اس کو مالی کشائش بھی نصیب ہوگی۔ پر دیس میں نیانیا پہنچنے کی وجہ سے ابتداء کوئی تکلیف پہنچ جائے تو یہ اور بات ہے لیکن جلد ہی رحمت اور برکت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور ظاہری و باطنی منافع ملنے لگتے ہیں اور معاش میں بھی فرماوانی ہوجاتی ہے۔ حضرات صحابہ ؓ نے مکہ مکرمہ چھوڑ کر مدینہ منورہ کو ہجرت کی تھی چند سال بعد مکہ معظمہ بھی فتح ہوگیا، خیبر فتح ہوا بہت سے علاقے قبضے میں آئے بڑی بڑی جائیدادیں ملیں، اموال غنیمت ہاتھ آئے۔ پھر آنحضرت ﷺ کے بعد مصر شام، عراق فتح ہوئے جو حضرات مکہ میں مجبور اور بےبس تھے ان کو بڑے بڑے اموال ملے۔ تاریخ اس پر شاہد ہے کہ ہجرت اور جہاد سے کایا پلٹ جاتی ہے اور مسلمان نہ صرف یہ کہ ثواب آخرت کے اعتبار سے (جس کے برابر کوئی چیز نہیں ہوسکتی) بلکہ دنیاوی اعتبار سے بھی ہجرت اور جہاد کی وجہ سے عزت اور شرف اور کافروں پر غلبہ اور مالداری اور غلام اور باندیوں کی ملکیت کے اعتبار سے کامیاب اور فائز المرام ہوجاتے ہیں۔ اصل ہجرت یہ ہے کہ گناہ چھوڑ دئیے جائیں : ہجرت کس لیے کی جائے، اس لیے کہ اللہ کے دین پر چل سکیں احکام اسلام بجا لانے میں جو دشمن رکاوٹ ڈالتے ہیں وہ رکاوٹ دور ہوجائے اور ہل ایمان میں پہنچ کر سکون و اطمینان کے ساتھ دینی کاموں میں لگ سکیں صرف وطن چھوڑ دینا ہی ہجرت نہیں ہے۔ ہجرت کے لوازم میں سے یہ بھی ہے کہ گناہوں کو چھوڑ دیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبر داری اور اطاعت کو شعار بنایا جائے۔ صحیح بخاری صفحہ 6: ج 1 میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا المھاجر من ھجر مانھی اللّٰہ عنہ (حقیقی مہاجر وہ ہے جو ان چیزوں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے) ایک اور حدیث میں ہے المھاجر من ھجر الخطایا والذنوب (واقعی مہاجر وہ ہے جو خطاؤں اور گناہوں کو چھوڑ دے) مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 15 ہے، حضرت عمر و بن عبسہ ؓ نے آنحضرت ﷺ سے سوال کیا کہ ای الھجرۃ افضل (کون سی ہجرت افضل ہے) آپ نے فرمایا اَنْ تَھْجُرَمَا کَرِہَ رَبُّکَ کہ تو ان کاموں کو چھوڑ دے جو تیرے رب کو نا گوار ہوں (رواہ الترمذی و ابن ماجہ) ۔ ان روایات سے معلوم ہوا کہ صرف وطن چھوڑ دینے ہی کا نام ہجرت نہیں ہے۔ ہجرت کے لوازم کو بھی اختیار کرنا لازم ہے۔ آج کل لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ وطن تو چھوڑ دیتے ہیں لیکن جہاں آکر آباد ہوتے ہیں وہاں نہ صرف یہ کہ گناہوں میں مبتلا ہوتے ہیں بلکہ سابق وطن میں جو دینی زندگی تھی اس کو چھوڑ کر زیادہ سے زیادہ گناہوں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ نمازیں بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ شرعی پردہ بھی انہیں نا گوار ہونے لگتا ہے اللہ کے دئیے ہوئے مال میں سے اس کے حقوق ادا نہیں کرتے زکوٰتیں حساب سے نہیں دیتے۔ بائن یا مغلظہ طلاق دے کر بھی جاہلی قانون کا سہارا لے کر عورت کو گھر میں رکھے رہتے ہیں اور عناد و فساد اور جنگ وجدال کو اپنا وطیرہ بنا لیتے ہیں۔ کوئی دین کی طرف متوجہ کرے تو اس کے گلے پڑتے ہیں۔ کفریہ کلمات تک بک جاتے ہیں ان سب باتوں کے باوجود اپنے کو مہاجر ہی کہتے ہیں۔ جو شخص ہجرت کر کے آئے مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس مہاجر کی مدد کریں۔ انصار مدینہ کا بےمثال عمل : حضرات صحابہ کرام ؓ جب مکہ معظمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچنے تو مدینہ منورہ کے مسلمانوں نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا ہر طرح سے ان کی مدد کی۔ اسی لیے ان کو انصار (مدد کرنے والے) کا لقب دیا گیا۔ سورة حشر میں فرمایا : (وَالَّذِیْنَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْاِِیْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ یُحِبُّونَ مَنْ ھَاجَرَ اِِلَیْہِمْ وَلاَ یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِھِمْ حَاجَۃً مِّمَّا اُوْتُوا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ وَّمَنْ یُّوقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُوْلٰٓءِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) ” اور وہ لوگ جنہوں نے دار الاسلام کو پہلے سے اپنا ٹھکانا بنایا اور ایمان کو مضبوطی سے پکڑا ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جنہوں نے ان کی طرف ہجرت کی اور جو کچھ ان کو دیا گیا اس سے اپنے سینوں میں کوئی شک محسوس نہیں کرتے اور اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود ان کو حاجت ہو اور جو شخص اپنے نفس کے بخل سے بچا دیا گیا سو ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں “ انصار مدنیہ نے مہاجرین کے ساتھ جو کچھ لینے دینے کا اور نصرت و خدمت کا برتاؤ کیا اس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ آج کل تو مہاجرین ہیں انصار کا وجود نہیں ہے اس کی ایک وجہ تو وہی ہے کہ دینی تقاضوں کے مطابق زندگی گزارنے کا مزاج نہیں رہا مہاجرین کی خدمت کو اپنا کام سمجھنے کی بجائے دار الہجرت کے لوگ یوں سمجھتے ہیں کہ یہ قوم ہمارے لیے بوجھ بن گئی اور ہمارے علاقے میں آکر ہمارے حقوق چھیننے لگی حضرات انصار کو یہ بھی گوارا نہیں کہ مہاجرین اپنے دست وبازو سے اور تجارت و زراعت سے مال حاصل کرکے کمائیں، دونوں فریق کو عصبیت کھائے جاتی ہے، ہر شخص اپنی نیت کا جائزہ لے کہ اس نے کیوں ہجرت کی۔ ہجرت اللہ کے لیے ہوتی ہے تو اس کے برکات ہی اور ہوتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ مہاجرین صاحبان دین پر قائم نہیں رہے اعمال صالحہ سے بچتے ہیں بڑھ چڑھ کر گناہوں میں حصہ لیتے ہیں اور دشمنان دین کی شہ پر مقامی لوگوں کو دشمن بنا لیتے ہیں اور قتل و قتال میں حصہ لیتے ہیں، دینی تقاضے تو چھوڑ دئیے۔ خالص دنیا داری اور گنہگاری میں لگ گئے اس کے باوجود یہ امید کرتے ہیں کہ انصار ہماری مدد کریں مدد تو دین داری کی وجہ سے ہوتی ہے دین داری کو پس پشت ڈال دیا، دنیا ہی دنیا رہ گئی اس کے لیے مرتے ہیں اس کے لیے جیتے ہیں، اہل دنیا سے تو اسی طرح صلح ہوسکتی ہے کہ ان کی ذاتی اشیاء سے گریز کیا جائے۔ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے ازھد فی الدنیا یحبک اللہ وازھد فیما عندالناس یحبک الناس (رواہ الترمذی و ابن ماجہ) (کہ تو دنیا سے بےرغبت ہوجا اللہ تجھ سے محبت کرے گا اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے بےرغبت ہوجا لوگ تجھ سے محبت کریں گے) اگر اس پر عمل نہ کیا تو وہی ہوگا جو ہوتا ہے اور ہوتا رہے گا حضرت امام شافعی (رح) نے فرمایا : فان تجتنبھا کنت سلٰمًا لا ھلھا و ان تجتذبھا نازعتک کلابھا ترجمہ : ” سو اگر تو دنیا سے پرہیز کرے گا تو دنیا والوں سے تیری صلح رہے گی اور اگر تو اس کو اپنی طرف کھینچے گا تو دنیا کے کتے تجھ سے جھگڑا کریں گے۔ “ بہت سے ملکوں سے مسلمان نکالے گئے جن کو نکالا گیا ہے یہ خود دینی زندگی پر نہیں آتے۔ لامحالہ مقامی لوگ بھی ان سے محبت نہیں کرتے۔ جیسے ہر عمل میں اخلاص یعنی اللہ کی رضا کی نیت شرط ہے اسی طرح ہجرت میں بھی اخلاص ضروری ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ آنحضرت سرور عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اعمال نیتوں کے ساتھ ہیں اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔ سو جس شخص کی ہجرت اس کی نیت میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہوگی تو ثواب کے اعتبار سے بھی اس کی نیت اللہ اور اس کے رسول کی طرف مانی جائے گی اور جس کی ہجرت کسی دنیا کے حاصل ہونے کے لیے ہو یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے کی ہو تو جزا کے اعتبار سے بھی اس کی نیت اسی کے لیے مانی جائے گی جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔ یہ حدیث بہت مشہور ہے اور حدیث کی تقریباً سبھی کتابوں میں ہے۔ ایک آدمی نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام دیا تھا اس عورت کو ام قیس کہتے تھے جب نکاح کا پیغام آیا تو اس نے اس مرد سے نکاح کرنے کے لیے ہجرت کرنے کی شرط لگائی، وہ ہجرت کر کے آگیا، حضرات صحابہ اسے مہاجر ام قیس کہا کرتے تھے۔ (کماذ کرہ محشی البخاری ص 2: ج 1 عن الطبرانی فی الکبیر باسناد ورجالہ ثقات)
Top