Al-Qurtubi - Al-Ghaafir : 60
وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۠   ۧ
وَقَالَ : اور کہا رَبُّكُمُ : تمہارے رب نے ادْعُوْنِيْٓ : تم دعا کرو مجھ سے اَسْتَجِبْ : میں قبول کروں گا لَكُمْ ۭ : تمہاری اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ يَسْتَكْبِرُوْنَ : تکبر کرتے ہیں عَنْ عِبَادَتِيْ : میری عبادت سے سَيَدْخُلُوْنَ : عنقریب وہ داخل ہوں گے جَهَنَّمَ : جہنم دٰخِرِيْنَ : خوار ہوکر
اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری (دعا) قبول کروں گا جو لوگ میری عبادت سے ازراہ تکبر کتراتے ہیں عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے
( وقال ربکم ادعونی۔۔۔۔۔۔ ) وقال رجکم ادعونی اسجب لکم حضرت عمان بن بشر ؓ نے روایت نقل کی ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :” دعا ہی عبادت ہے (1) “ پھر اس آیت ” وََقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْط اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ ۔ “ تلاوت کی۔ ابو عیسیٰ امام ترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے (2) یہ اس امر پر دال ہے کہ دعا ہی عبادت ہے : اکثر مفسرین نے اسی طرح کہا معنی یہ ہے تم میری وحدانیت کو بیان کرو اور میری عبادت کرو میں تمہاری عبادت کروں گا اور میں تمہیں بخش دوں گا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد ذکر، دعا اور سوال ہے۔ حضرت انس ؓ نے کہا نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” تم میں سے ہر ایک کو اپنی حاجت کا سوال اپنے رب سے کرنا چاہیے یہاں تک کہ اس کا جوتی کا تسمہ جب ٹوٹ جائے تو اس کا سوال بھی اپنے رب سے کرے “ ایک قول یہ کیا جاتا ہے : دعا سے مراد گناہوں کا ترک کرنا ہے۔ قتادہ نے ذکر کیا ہے کعب الاحبار نے کہا : اس امت کو تین چیزیں ایسی عطاء کی گئی ہیں کہ ان سے قبل نبی کے سوا کسی امت کو یہ چیزیں نہیں دی گئیں جب کسی نبی کو بھیجا جاتاتو اسے کہا جاتا تو اپنی امت پر شاہد ہے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے بارے میں فرمایا :” لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ “ (البقرہ : 143) نبی کو کہا جاتا تھا : لیس علیک فی الدین من حرج اور اس امت کو کہا گیا ” وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ط “ ( حج : 78) ایک نبی کو کہا جاتا تھا مجھ سے دعا کر میں تیری دعا کو قبول کروں گا جبکہ اس امت سے فرمایا گیا : ادونی استجب لکم۔ میں کہتا ہوں : اس قسم کی بات اپنی رائے سے نہیں کی جاسکتی، ایک مرفوع حدیث ہے جسے لیث، شہر بن حوشب وہ حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :” میری امت کو تین چیزوں ایسی عطاء کی گئی ہیں جیسی مجھ سے قبل انبیاء کو دی گئیں اللہ تعالیٰ جب کسی نبی کو مبعوث فرماتا ہے تو ارشاد فرماتا ہے : مجھ سے دعا مانگ میں تیری دعا قبول کروں گا اور اس امت کے بارے میں فرمایا : مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ اللہ تعالیٰ جب کسی نبی کو مبعوث کرتا تو ارشاد فرمایا :” ما جعل علیکم فی الدین من حرج “ اور اس امت کے لیے فرمایا :” وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ط “ (حج : 78) اللہ تعالیٰ جب کسی نبی کو مبعوث فرماتا تو اسے اپنی قوم پر گواہ بناتا اور اس امت کو لوگوں پر گواہ بنایا “۔ اے ترمذی حکیم نے ” نوادر الاصول “ میں ذکر کیا ہے۔ 1 ؎۔ جامع ترمذی، کتاب التفسیر، سورة بقرہ، جلد 2، صفحہ 121 2 ؎۔ جامع الترمذی، کتاب الدجوات، باب ما جاء فی فضل الدحاء، حدیث نمبر 3294، ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔ خالد بن ربعی کہا کرتے تھے : اس امت کی عجیب شان ہے اس امت کو کہا گیا : ادعونی استجب لکم انہیں دعا کا حکم دیا اور قبول کرنے کا وعدہ کیا دونوں کے درمیان کوئی شرط نہیں۔ ایک قائل نے اسے کہا : اس کی مثال کیا ہے ؟ فرمایا : اس کی مثل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :” وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ “ (البقرہ : 25) یہاں شرط ذکر کی اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :” وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَہُمْ قَدَمَ صِدْقٍ “ (یونس : 2) اس میں عمل کی شرط نہیں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ” فاذعوا اللہ مخلصین لہ الدین “ اس میں شرط ہے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان : ادعونی استجب لکم میں کوئی شرط نہیں۔ امتی گھبراہٹ میں ضرورتوں کے وقت اپنے انبیاء کی طرف جاتے تھے یہاں تک کہ انبیاء ان کے حق میں سوال کیا کرتے تھے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ مطلق ہے جبکہ سورة بقرہ میں مقید ہے جو بحث پہلے گزر چکی ہے یعنی استجب لکم ان شئت اگر میں چاہوں گا تو تمہاری دعا قبول کروں گا جس طرح ارشاد فرمایا :” فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ اِلَیْہِ اِنْ شَآئَ “ ( الانعام : 41) بعض اوقات دعا کی قبولیت عین مطلوب کے علاوہ میں ہوتی ہے جس کی وضاحت سورة بقرہ میں حضرت ابو سعید خدری ؓ کی حدیث میں گزر چکی ہے وہاں ہی اس میں غور کرلو۔ ابن کثیر، ابن محیصن، رویس نے یعقوب سے، عیاش نے ابو عمرو سے ابوبکر اور مفضل نے عاصم سے قرأت نقل کی ہے کہ سیدخلون یہ فعل مجہول ہے باقی قراء نے اسے معروف کا صیغہ پڑھا ہے داخرین کا معنی ہے وہ حقیر و ذلیل ہوں گے۔ یہ بحث پہلے گزر چکی ہے۔
Top