بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - Al-Anfaal : 1
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ١ؕ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِكُمْ١۪ وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗۤ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ : آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے الْاَنْفَالِ : غنیمت قُلِ : کہ دیں الْاَنْفَالُ : غنیمت لِلّٰهِ : اللہ کیلئے وَالرَّسُوْلِ : اور رسول فَاتَّقُوا : پس ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاَصْلِحُوْا : اور درست کرو ذَاتَ : اپنے تئیں بَيْنِكُمْ : آپس میں وَاَطِيْعُوا : اور اطاعت کرو اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗٓ : اور اس کا رسول اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
(اے محمد ﷺ ! مجاہد لوگ) تم سے غنیمت کے مال کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (کہ کیا حکم ہے) کہہ دو کہ غنیمت خدا اور اس کے رسول کا مال ہے۔ تو خدا سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو۔ اور اگر ایمان رکھتے ہو تو خدا اور اس کے رسول کے حکم پر چلو۔
آیت نمبر : 1 اس میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : 1 حضرت عبادہ بن صامت ؓ نے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ بدر کی طرف تشریف لے گئے اور وہاں دشمن کا مقابلہ کیا، جب اللہ تعالیٰ نے دشمن کو شکست سے دو چار کردیا ( اور وہ بھاگ نکلے) تو مسلمانوں کے ایک گروہ نے انہیں قتل کرنے کے لیے ان کا تعاقب کیا اور ایک گروہ رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کے لیے آپ کے اردگرد رہا اور ایک گروہ جمع شدہ مال اور چھینے ہوئے مال غنیمت پر قابض رہا، پس جب اللہ تعالیٰ نے دشمن کو بھگا دیا اور جو ان کے تعاقب میں گئے تھے وہ واپس لوٹ آئے تو انہوں نے کہا : مال غنیمت ہمارا ہے، ہم وہ ہیں جنہوں نے دشمن کا پیچھا کیا اور ہمارے سبب ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں مار بھگایا اور انہیں شکست اور ناکامی سے دو چار کیا۔ اور وہ لوگ جو رسول اللہ ﷺ کے اردگرد جمع رہے انہوں نے کہا : تم مال غنیمت کے ہم سے زیادہ حق دار نہیں ہو، بلکہ وہ ہمارا ہے، ہم رسول اللہ ﷺ کے اردگرد جمع رہے تاکہ دشمن آپ کو کوئی دھوکہ نہ پہنچا سکے۔ اور وہ لوگ جو جمع شدہ اور چھینے ہوئے مال پر قابض رہے انہوں نے کہا : تم ہم سے زیادہ حق دار نہیں ہو، وہ تو ہمارے لیے ہے، ہم نے ہی اسے جمع کیا ہے اور ہم نے اس پر قبضہ کہا ہے، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : آیت : یسئلوکل عن الانفال قل الانفال للہ والرسول فاتقوا اللہ واصلحوا ذات بینکم واطیعوا اللہ ورسولہ ان کنتم مومنین پس رسول اللہ ﷺ نے اسے تیزی کے ساتھ ان کے درمیان تقسیم کردیا۔ ابو عمر نے کہا : اہل علم نے لسان العرب میں کہا ہے : استلووا ( یعنی) وہ قریب ہوئے اور احاطہ کرلیا۔ کہا جاتا ہے : الموت مستلوعلی العباد ( موت بندوں کے قریب ہے اور احاطہ کیے ہوئے ہے) اور آپ کا قول : فقسمہ عن فواق یعنی تیزی کے ساتھ آپ نے اسے تقسیم کردیا۔ وہ کہتے ہیں : والفواق ما بین حلبتی الناقۃ ( یعنی فواق سے مراد اونٹنی کو دوبارہ دوہنے کے درمیان والا وقفہ ہے) کہا جاتا ہے : انتظرہ فوق ناقہ یعنی اتنی مقدار تو اس کا انتظار کر۔ اور وہ اسے ضمہ اور فتحہ دونوں کے ساتھ بولتے ہیں یعنی فواق اور فواق۔ اور یہ حکم اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے تھا : آیت : واعلموا انما غنمتم من شیء فان للہ خمسہ الآیہ (الانفال : 41) ( اور جان لو کہ جو کوئی چیز تم غنیمت میں حاصل کرو تو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اس کا پانچواں حصہ) گویا علماء کے نزدیک معنی یہ ہے یعنی اس بارے میں حکم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم ﷺ کے سپرد ہے اور اس بارے میں عمل اس کے مطابق ہے جو اللہ تعالیٰ کے قریب کر دے۔ محمد بن اسحاق نے بیان کیا ہے : ہمارے اصحاب میں سے عبد الرحمن بن حارث وغیرہ نے سلیمان بن موسیٰ اشدق سے انہوں نے مکحول سے اور انہوں نے حضرت ابو امامہ باہلی ؓ سے روایب بیان کی ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے مال غنیمت کے بارے پوچھا تو انہوں نے فرمایا : ہم میں اصحاب بدر کی جماعت تھی جو (غزوہ بدر میں) شریک تھے جس وقت ہمراے درمیان مال غنیمت کے بارے اختلاف ہوا اور اس میں ہمارے اخلاق درست نہ تھے، تو اللہ تعالیٰ نے اسے ہمارے ہاتھوں سے چھین لیا اور رسول اللہ ﷺ کو عطا فرمایا، پھر رسول اللہ ﷺ نے اسے برابر برابر تقسیم فرمادیا۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کے خوف، اس کے رسول مکرم ﷺ کی اطاعت اور اپنے معاملات میں اصلاح کے لیے تھا۔ اور صحیح میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ کے اصحاب نے بہت زیادہ مقدار میں مال غنیمت حاصل کیا، اس میں ایک تلوار تھی، میں نے اسے اٹھا لیا اور اسے لے کر میں حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی : یہ تلوار مجھے عطا فرما دیجئے، بلاشبہ میں وہ ہوں جس کی حالت سے آپ واقف و آگاہ ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” اسے وہیں لوٹا دو جہاں سے تو نے اسے اٹھایا ہے “۔ پس میں چلا گیا یہاں تک کہ میں نے اسے مقبوض مال میں پھینکنے کا ارادہ کیا تو میرے نفس نے مجھے ملامت کی اور میں پھر آپ ﷺ کی طرف لوٹ کر آیا اور عرض کی : آپ یہ ( تلوار) مجھے عطا فرما دیجئے۔ آپ بیان کرتے ہیں : پس آپ ﷺ نے میرے لیے اپنی آواز سخت کی اور فرمایا : ” اسے وہیں لوٹا دو جہاں سے اسے اٹھیا ہے “۔ پس میں چلا گیا، یہاں تک کہ میں نے اسے مال مقبوض میں ڈال دینے کا ارادہ کیا تو میرے نفس نے مجھے ملامت کی اور میں پھر آپ ﷺ کی طرف لوٹ آیا اور عرض کی : آپ یہ تلوار مجھے عطا فرما دیجئے۔ آپ فرماتے ہیں : پس آپ ﷺ نے میرے لیے اپنا لہجہ سخت کیا اور فرمایا :” تو اسے وہیں لوٹا دے جہاں سے تو نے اسے اٹھایا ہے “۔ تب اللہ تعالیٰ نے آیت : یسئلونک عن الانفال نازل فرمائی۔ یہ مسلم کے الفاظ ہیں۔ اور اس بارے میں روایات کثیر ہیں۔ اور اس بارے میں جو ہم نے ذکر کردیا ہے وہ کافی ہے۔ واللہ الموفق للہدایہ۔ مسئلہ نمبر 2 : الانفال کا واھد نفل فا متحرکہ کے اتھ ہے، جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : ان تقوی ربنا خیر نفل وباذن اللہ ریثی والعجل اس میں خیر نفل بمعنی خیر غنیمۃ ( اچھی غنیمت) ہے اور نفل کا معنی یمین ( قسم) ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے فتبرئکم یھود بنفل خمسین منھم ( یہود پچاس قسموں کے ساتھ تمہیں ان سے بری کردیں گے) اور النفل کا معنی الانتفاء ( نفی کرنا، انکار کرنا) بھی ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے فانتفل من ولدھا ( پس اس نے اس کے بچے کا انکار کردیا) اور نفل ایک معروف بوٹی بھی ہے۔ اور نفل کا معنی واجب پر زیادتی کرنا بھی ہے اور وہ نفلی عبادت ہے۔ اور بچے کا بچہ بھی نافلہ کہلاتا ہے، کیونکہ وہ بچے پر زائد ہی ہوتا ہے۔ اور مال غنیمت بھی نافلہ کہلاتا ہے، کیونکہ یہ وہ اجافہ اور زیادتی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے حلال قرار دیا ہے اور یہ ان میں سے ہے جو دیگر امتوں پر حرام تھی۔ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” مجھے ( دیگر) انبیاء (علیہم السلام) پر چھ چیزوں کے ساتھ فضیلت دی گئی ہے۔ اور ان میں ایک یہ ہے کہ میرے لیے مال غنیمت کو حلال قرار دیا ہے (مشکوۃ المصابیح باب فضائل سید المرسلین) ۔ اور الانفال سے مراد بذات کود غنائم ہی ہیں۔ عنترہ نے کہا ہے : انا اذا احمر الوغی نروی القنا ونعف عند مقاسم الانفال اس میں الانفال سے مراد غنائم ہیں۔ مسئلہ نمبر 2 : انفال کے محل میں علماء کا اختلاف ہے اس بارے میں چار اقول ہیں : (1) اس کا محل اس مال میں ہے جو کافروں سے کٹ کر مسلمانوں کی طرف آجائے یا بغیر جنگ کے لے لیا جائے (2) اس کا محل خمس ( پانچواں حصہ) ہے (3) اس کا محل خمس کا خمس ( پانچواں کا پانچواں حصہ) ہے (4) اصل مال غنیمت، جیسا بھی امام وقتا سے پاتا ہے۔ امام مالک (رح) کا مذہب یہ ہے کہ انفال سے مراد وہ عطیات اور انعامات ہیں جو امام وقت خمس سے عطا کرتا ہے، جس طرح اس کے بارے وہ اپنی رائے رکھتا ہو۔ بقیہ چار حصوں میں کوئی نفل نہیں ہوتا، بلاشبہ وہ کل مال غنیمت سے نفل نہیں پاتا کیونکہ اس کے مستحق معین ہوتے ہیں اور وہ اسے گھوڑوں اور اونٹوں کے ساتھ حاصل کرتے ہیں اور خمس کی تقسیم امام کے اجتہاد اور رائے کو سونپ دی گئی ہے۔ اور اس کے مستحق معین نہیں ہوتے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” اللہ تعالیٰنے جو مال غنیمت تمہیں عطا فرمایا ہے میرے لیے سوائے خمس کے اور کچھ نہیں اور خمس بھی تم پر لوٹا دیا جائے گا “ (سنن ابی داود، باب فداء الاسیر بالمال، حدیث نمبر 2319، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، سنن ابی داود، باب فی الامام یستاثر بشیء لنفسہ، حدیث نمبر 2374، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ پس اس کے بعد یہ ممکن نہیں کہ نفل کسی ایک کا حق ہو اور بلاشبہ جو رسول اللہ ﷺ کا حق ہے وہ خمس ہے۔ آپ کے مذہب میں سے یہی معروف ہے۔ اور تحقیق آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ وہ خمس کا خمس ہے۔ اور یہی قول حضرت ابن مسیب، امام شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہم کا ہے۔ اور سبب اختلاف حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث ہے، اسے امام مالک (رح) نے روایت کیا ہے انہوں نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نینجد کی جانب ایک سریہ بھیجا تو انہیں بہت سے اونٹ مال غنیمت میں ہاتھ آئے، ان کے حصے میں بارہ یا گیارہ گیارہ اونٹ آئے اور پھر انہیں ایک ایک اونٹ بطور نفل بھی دیا گیا۔ اسی طرح اسے امام مالک (رح) نے روایب کیا ہے۔ اور یہ شک آپ سے یحییٰ کی روایب میں موجود ہے اور اسی پر موطا کے راویوں کی ایک جماعت نے ان کی اتباع کی ہے سوائے علید بن مسلم کے کیونکہ انہوں نے مالک عن نافع عن ابن عمر ؓ کی سند سے روایت کیا ہے اور انہوں نے اس میں کہا ہے : ان کے حصص بارہ بارہ اونٹ تھے اور ایک ایک اونٹ انہیں بطور تنفیل دیا گیا۔ اور انہوں نے شک کا اظہار نہیں کیا۔ ولید بن مسلم اور حکم بن نافع نے شعیب بن ابی حمزہ سے انہوں نے حضرت نافع کے واسطہ سے حضرت ابن عمر ؓ سے روایب بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک لشکر میں نجد کی جانب بھیجا۔ اور ولید کی روایب میں ہے اس کی تعداد چار ہزار تھی۔ اور لشکر سے ایک سریہ نکلا۔ اور ولید کی روایب میں ہے : پس میں بھی ان میں تھا جو اس میں نکلے تھے۔ پس لشکر کے حصص بارہ بارہ اونٹ تھے۔ اور اہل سریہ کے حصہ بطور تنفیل ایک ایک اونٹ تھا، پس ان کے حصص تیرہ تیرہ اونٹ ہوگئے۔ اسے ابو داؤد نے ذکر کیا ہے۔ اسی سے انہوں نے استدلال کیا ہے جو یہ کہتے ہیں : بیشک نفل مجموعی خمس سے ہوتا ہے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ یہ سریہ ( چھوٹا سا دستہ) اگر کسی مقام پر اترا مثلا اس میں دس افراد شامل تھے انہوں نے اپنے مال غنیمت میں ڈیڑھ سو (اونٹ) حاصل کیے، تو ان سے ان کا خمس تیس اونٹ پہلے نکال لیے جائیں گے اور ان کے لیے ایک سو بیس رہ جائیں گے، جو دس افراد پر تقسیم کیے جائیں گے اور وہ ہر ایک کے حصہ میں بارہ بارہ اونٹ آئیں گے، پھر اس قوم کو خمس میں سے ایک ایاک اونٹ دے دیا جائے گا، کیونکہ اس میں تیس کا خمس دس اونٹ نہیں ہوسکتے۔ پس جب تو نے دس کے لیے حصہ پہچان لیا تو پھر سو، ہزار اور زائد کے لیے جو ہوگا اسے بھی معلوم کرلے گا۔ اور جنہوں نے کہا ہے کہ نفل خمس کے خمس میں سے ہوگا انہوں نے اس طرح کہا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ( مال غنیمت میں) کپڑے بھی ہوں جو بیچے جاسکتے ہوں اور اونٹوں کے علاوہ بھی سازو سامان ہو، تو وہ آدمی جسے اونٹ نہ ملے اسے اس سامان میں سے اونٹ کی قیمت ادا کردی جائے۔ اور اسے اس حدیث سے تقویت پہنچتی ہے جسے مسلم نے اس حدیث کے بعض طرق میں بیان کیا ہے : ” پس ہم نے اونٹ اور بکریاں حاصل کیں “ ، الحدیث۔ محمد بن اسحاق نے اس حدیث میں ذکر کیا ہے کہ امیر ( لشکر) نے تقسیم سے پہلے ان کے لیے تنفیل کی اور یہ اسے ثابت کرتا ہے کہ نفل کل مال غنیم میں سے ہو۔ اور یہ امام مالک (رح) کے قول کے خلاف ہے۔ اور جنہوں نے ان کے خلاف روایب کی ہے ان کا قول اولیٰ ہے کیونکہ وہ حفاظ ہیں، یہ ابو عمر (رح) تعالیٰ نے کہا ہے اور مکحول اور اوزاعی رحمۃ اللہ علیہما نے کہا ہے : ثلث سے زیادہ کے ساتھ نفیل نہیں کی جائے گی، جمہور علماء کا یہی قول ہے۔ امام اوزاعی (رح) نے کہا ہے : اگر وہ ان کے لیے زیادہ عطا کرنے کا قول کرے تو اسے ان کے لیے پورا کرنا چاہیے اور وہ اسے خمس میں سے ادا کرے گا۔ اور امام شافعی (رح) نے کہا ہے : نفل میں کوئی ایسی حد نہیں ہے جس سے امام تجاوز نہ کرسکتا ہو۔ مسئلہ نمبر 4 حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث اس پر دلیل ہے جو ولید اور حکم نے شعیب سے اور انہوں نے نافع سے ذکر کیا ہے کہ جب سریہ لشکر میں سے نکلے اور وہ مال غنیمت حاصل کرے تو لشکر بھی ان کے ساتھ شریک ہوگا اور یہ ایک مسئلہ اور حکم ہے جسے حدیث میں شعیب کے سوا نافع سے کسی نے ذکر نہیں کیا اور اس کے بارے میں علماء میں اختلاف نہیں۔ والحمد للہ مسئلہ نمبر 5 علماء کا امام وقت کے اس قول کے بارے اختلاف ہے جو قتال سے پہلے یہ کہتا ہے : جس نے اس قلعہ میں سے اتنا گرا دیا تو اس کے لیے اتنا ( مال) ہوگا اور جو کوئی فلاں جگہ تک پہنچ گیا تو اس کے لیے اتنا مال ہوگا اور جو کسی کا سر لے کر آیا تو اس کے لی اتنا ہوگا اور جو کوئی کسی کو قیدی بنا کر لایا تو اس کے لیے اتنا ہوگا۔ گویا امام وقت یہ کہہ کر انہیں انگیخت دلا رہا ہے اور ان کے جذبات کو ابھار رہا ہے۔ پس امام مالک (رح) سے مروی ہے کہ یہ مکروہ ہے۔ اور انہوں نے یہ کہا ہے کہ یہ قتال تو پھر حصول دنیا کے لیے ہوگا اور یہ جائز نہیں ہوگا۔ اور اما ثوری (رح) نے کہا ہے : یہ جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔ میں ( مفسر) کہتا ہوں : یہ مفہوم حضرت ابن عباس ؓ کی مرفوع حدیث میں موجود ہے، جب بدر کا دن تھا تو حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” جس کسی نے کسی کو قتل کیا تو اس کے لیے اتنا ہوگا اور جس نے کسی کو قیدی بنایا تو اس کے لیے اتنا ہوگا “ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 2360، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یہ ایک طویل حدیث ہے۔ اور آپ ؓ سے ہی حضرت عکرمہ (رح) کی روایت میں ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” جس نے اس اس طرح کیا اور فلاں فلاں جگہ پر آیا تو اس کے لیے اتنا ہوگا “۔ پس جو ان تیزی سے دوڑ پڑے اور بوڑھے جھنڈوں کے پاس ہی ثابت قدر رہے۔ پس جب انہیں فتح حاصل ہوگئی تو جوان آئے اور اسی کا مطالبہ کرنے لگے جو ان کے لیے مقرر کیا گیا تھا تو بوڑھوں نے انہیں کہا : تم ہمارے بغیر ادھر نہیں جاسکتے تھے، تحقیق ہم تمہارے لیے مددگار اور معاون تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : آیت : واصلحوا ذاب بینکم ( اور تم اپنے باہمی معاملات کی اصلاح کرو) اسے اسماعیل بن اسحاق نے بھی ذکر کیا ہے۔ اور حضرت عمر بن خطاب ؓ سے مروی ہے کہ آپ نے حضرت جریر بن عبداللہ بجلی ؓ کو کہا جب وہ اپنی قوم میں آپ کے پاس آئے اور وہ شام کا ارادہ رکھتے تھے : کیا تیرے لیے ممکن ہے کہ تو کوفہ آئے اور تیرے لیے تمام زمین اور قیدیوں کے بدلے خمس کے بعد ثلث ( تیسرا حصہ ہو ؟ ) اور یہ فقہائے شام کی جماعت نے کہا ہے : ان میں امام اوزاعی، مکحول اور انب حیوہ رحمۃ اللہ علیہم وغیرہم شامل ہیں۔ اور ان کی رائے میں خمس کل مال غنیمت میں سے ہے اور نفل خمس کی بعد ہے پھر اصل لشکر کے درمیان مال غنیمت کی تقسیم ہے۔ اور اسحاق، امام احمد اور ابو عبید رحمۃ اللہ علیہم نے یہی کیا ہے۔ ابو عبید (رح) نے کہا ہے : آج لوگوں کا موقف یہ ہے کہ مال غنیمت میں سے نفل نہیں ہوگا یہاں تک کہ خمس نکال لیا جائے گا۔ اور امام مالک (رح) نے کہا ہے : یہ جائز نہیں ہے کہ امام وقت سر یہ کو کہے : جو مال تم نے حاصل کیا اس کا ثلث تمہارے لیے ہے۔ سحنون نے کہا ہے : وہ اس سے ابتداء مراد لیتے ہیں۔ پس اگر یہ واقع ہوگیا تو وہ نافذ ہوجائے گا اور باقی مال میں ان کے حصص ہوں گے۔ اور سحنون نے کہا ہے : جب امام نے سریہ کو کہا : جو مال تم نے حاصل کیا تو تم پر اس میں خمس نہیں ہوگا۔ تو یہ قول جائز نہیں ہے۔ پس اگر یہ واقع ہوگیا تو بھی میں اسے رد کرتا ہوں، کیونکہ یہ حکم شاذ ہے یہ جائز نہیں ہے اور نہ نافذ العمل ہوگا۔ مسئلہ نمبر 6 : امام مالک (رح) نے اسے مستحب قرار دیا ہے کہ امام تنفیل نہ کرے مگر اس مال میں جو ظاہر ہو مثلا عمامہ ( مراد خود ہوں گے یا دستاریں) گھوڑے اور تلواریں۔ اور بعض علماء نے اس سے منع کیا ہے کہ امام وقت سونے، چاندی یا موتیوں وغیرہ میں تنفیل کرے۔ اور بعض نے کہا ہے : ہر شے میں تنفیل جائز ہے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 498) ۔ اور حضرت عمر ؓ کے قول اور آیت کے مقتضی کے مطابق یہی قول صحیح ہے۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر : 7 قولہ تعالیٰ : آیت : فاتقوا اللہ واصلحوا ذات بینکم یہ تقوی اور اصلاح احوال کے بارے میں حکم ہے یعنی تم دعا میں اللہ تعالیٰ کے حکم پر جمع ہو جاؤ: اللھم اصلح ذات البین یعنی اے اللہ ایسی حالت پیدا فرما دے جس کے سبب باہمی اتفاق اور اجتماعیت پیدا ہوجائے۔ پس یہ اس تصریح پر دلیل ہے کہ اس ان کے درمیان اختلاف پھوٹ پڑا یا نفوس باہم جھگڑنے کے طرف مائل ہوگئے جیسا کہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ اور تقوی کا معنی پہلے گزر چکا ہے، یعنی تم اپنے اقوال وافعال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اپنے باہمی معاملات کی اصلاح کرو۔ آیت : واطیعوا اللہ ورسولہ اور غنائم اور دیگر معاملات میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو۔ آیت : ان کنتم مومنین یعنی مومن کا طریقہ یہ ہے کہ جو ہم نے ذکر کیا ہے وہ اس کی پیروی کرے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان بمعنی اذ ہے۔
Top