Tafseer-e-Majidi - Az-Zukhruf : 36
وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَهٗ شَیْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِیْنٌ
وَمَنْ : اور جو يَّعْشُ : غفلت برتتا ہے۔ اندھا بنتا ہے عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ : رحمن کے ذکر سے نُقَيِّضْ : ہم مقرر کردیتے ہیں لَهٗ : اس کے لیے شَيْطٰنًا : ایک شیطان فَهُوَ لَهٗ : تو وہ اس کا قَرِيْنٌ : دوست ہوجاتا ہے
اور جو کوئی بھی (خدائے) رحمن کی نصیحت کی طرف سے اندھا بن جائے ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں سو وہ اس کے ساتھ رہتا ہے،27۔
27۔ (اور ہر وقت اسے بدی کی ترغیب دیتا رہتا ہے) (آیت) ” نقیض ..... قرین “۔ یعنی انسان جب اپنے قصد و ارادہ سے کج روی اختیار کرلیتا ہے تو قوائے شیطانی بھی خارج سے برابر اسکی کج روی وگمراہی کو تقویت پہنچاتے رہتے ہیں۔ ایسا شخص گو سزائے ظاہری سے سردست محفوظ ہو، لیکن یہ عذاب کچھ کم ہے کہ ترقی سیئات ہی میں کرتا چلا جارہا ہے۔ اس فعل تقییض کی نسبت اللہ کی طرف بالکل ایسی ہی ہے جیسے (آیت) ” فلما زاغوا ازاغ اللہ قلوبھم “۔ میں ازاغۃ قلب کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے، محض علت علل یاتکوینی مسبب الاسباب کی حیثیت سے۔ اس تقییض سے مراد تقییض خصوصی ہے جس سے ضلالت مرتب ہی ہوجائے، ورنہ شیطان تو عمومی رنگ میں ہر انسان کے ساتھ رہتا ہی ہے جیسا کہ حدیث نبوی میں آچکا ہے۔ (آیت) ” عن ذکر الرحمن “۔ یعنی قرآن اور وحی الہی کی طرف سے۔ (آیت) ” ومن ..... الرحمن “۔ اشارہ قرآن کے مخاطبین اول کی جانب ہے جو رسالت کے دلائل اور اعجاز قرآنی کی طرف سے قصدا آنکھیں بندکیے رہتے تھے۔ آیت سے جب یہ معلوم ہوگیا کہ قرآن وذکر الہی کی طرف سے ارادی غفلت ہی تسلط شیطانی کا باعث ہوتی ہے تو اس مصیبت سے بچنے کا یہ کھلاہوا علاج بھی نکل آیا کہ قرآن وذکر کی جانب مشغولی دوام رہے۔ وفیہ اشارۃ الی ان من دوام علیہ لم یقرنہ الشیطان (مدارک)
Top